فاٹا اصلاحات کا قانون

فاٹا اصلاحات بل ملکی سیاست میں اہم ترین پیش رفت قرار دیا جارہا ہے پارلیمنٹ سے منظوری اور صوبائی اسمبلی سے قرارداد کے بعد صدر مملکت نے بھی اس پر دستخط کردیے ہیں یوں فاٹا میں سیاسی اصلاحات کا آغاز ہوچکا ہے اس پر سیاسی جماعتوں کا ملا جلا رد عمل آرہا ہے، جے یو آئی اور پختون خواہ عوامی ملی پارٹی اس کی حمایت نہیں کر رہی ہیں، ان دونوں جماعتوں کے اپنے سیاسی مفادات ہیں، جے یو آئی کا ووٹ بنک ہے جسے وہ متاثر نہیں کرنا چاہتی، پختون خواہ عوامی ملی پارٹی چاہتی ہے کہ کے پی کے اور بلوچستان کی پشتون پٹی ایک الگ صوبہ بنے اسی لیے وہ اس پیش رفت کی حامی نہیں ہے،جماعت اسلامی نے اس حوالے سے متوازن پالیسی اختیار کی اور پختون حقوق کے لیے رائے عامہ کی تشکیل کے لیے کام کیا اور پارلیمنٹ کے سامنے سینیٹر سراج الحق کی قیادت میں دھرنا بھی دیا گیا تھا اس دھرنے میں فاٹا میں ترقی کے لیے ایک لائن آف ایکشن بھی دیا گیا تھا جماعت اسلامی کی پارلیمانی پارٹی نے قومی اسمبلی میں اور سینیٹ میں کھل کر فاٹا کے عوام کی ترقی کے لیے بہترین اصلاحات لانے کے لیے متوازن رائے دی قومی اسمبلی میں جب یہ بل منظور ہوا تو اس وقت جے یو آئی کے مولانا فضل الرحمان اور محمود خان اچکزئی ایوان میں غیر حاضر رہے بہر حال یہ بل پارلیمنٹ سے پاس ہوچکا اور اب قانون بھی بن گیا ہے فاٹا میں سیاسی اصلاحات کے لیے ابتداء تو جنرل مشرف کے دور سے ہوئی تھی جب دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر فوج فاٹا کے علاقے میں بھیجی گئی اس کے بعد آہستہ آہستہ سیاسی عمل آگے ہی بڑھتا رہا اور قاف لیگ کی حکومت کے دوران بھی کام ہوا ہے، اس کے بعد پیپلزپارٹی آئی تو پہلے ہی خطاب میں وزیر اعظم گیلانی نے ایف سی آر قانون ختم کرنے کا اعلان کیا تھا فاٹا کے لیے سیاسی اصلاحات کے لیے سینیٹر پروفیسر خورشید احمد نے بھی تجاویز مرتب کی تھیں بہر حال ایک مسلسل عمل کے بارہ سال کے بعد اب پارلیمنٹ میں فاٹا اصلاحات کابل پیش ہوا ہے لیکن اس وقت بھی اتفاق رائے موجود نہیں ہے بلکہ فیصلہ پارلیمنٹ میں اکثریت کی بنیاد پر ہوا ہے قومی اسمبلی میں آئینی ترمیمی بل کے حق میں 229اور مخالفت میں ایک ووٹ پڑا، سینیٹ میں آئینی ترمیم کے حق میں بانوے اور مخالفت میں پانچ ووٹ آئے رائے شماری کے لیے ارکان کی مطلوب تعداد پوری کرنے کے لیے ایک گھنٹہ انتظار کیا گیا جمعیت علمائے اسلام (ف)، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی ، تحریک انصاف کے رہنما داور خان کنڈی اور فاٹا کے رکن بلال الرحمان نے آئینی ترمیم کی مخالفت کی اور احتجاجاً واک آؤٹ کیا اسمبلی میں منظور کیے جانے والے قانون کے تحت آئندہ پانچ سال تک فاٹا میں قومی اسمبلی کی 12اور سینیٹ میں 8نشستیں برقرار رہیں گی،5سال کے بعد فاٹا سے قومی اسمبلی کی نشستیں6 اور سینیٹ کی آٹھ نشستیں ختم کر دی جائیں گی،آئندہ برس فاٹا کے لیے مختص صوبائی نشستوں پر انتخابات ہوں گے منتخب حکومت قوانین پر عمل درآمد کے حوالے سے فیصلہ کرے گی آئین سے وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقہ جات الفاظ حذف کر دئیے جائیں گے،بل کے مطابق صوبائی حکومت کی عملداری سے صدر اور گورنر کے خصوصی اختیارات ختم ہوجائیں گے اور ایف سی آر کا قانون بھی ختم کردیا گیا ہے این ایف سی ایوارڈ کے تحت فاٹا کو 24 ارب روپے کے ساتھ 100 ارب روپے اضافی ملیں گے10 سال کے لیے ایک ہزار ارب روپے کا خصوصی فنڈ ملے گا جو کسی اور جگہ استعمال نہیں ہو سکے گا،ترمیمی بل میں سپریم کورٹ اور پشاور ہائی کورٹ کا دائرہ کار فاٹا تک بڑھایا جائے گا ، پاٹا اور فاٹا میں 5 سال کے لیے ٹیکس استثنا دیا جائے گا قومی اسمبلی میں یہ بل وزیر قانون و انصاف چودھری محمود بشیر ورک نے پیش کیا بلکی
مخالفت کرنے والی جماعتوں کے ارکان نے قومی اسمبلی اجلاس کے دوران بل کی کاپیاں پھاڑیں جمعیت علمائے اسلام (ف) کی نعیمہ کشور خان، جمال الدین اور شاہدہ اختر علی نے اپنی جماعت کے موقف کی وضاحت کی کہ’’ اگر ہم کسی چیز کی مخالفت کرتے ہیں تو ہمیں غدار کہا جاتا ہے ہم نے صرف اتنی درخواست کی تھی کہ قبائلی عوام سے ایک دفعہ پوچھ لیا جائے کہ وہ خیبرپختونخوا میں انضما م چاہتے ہیں یا الگ صوبہ سابق حکومتوں نے فاٹا کو بارود کا ڈھیر بنایا ، آئینی ترمیم منطور کر کے پختونخونوں کا خون کررہے ہیں ایک طرف جنوبی پنجاب بنانے کی باتیں کی جا رہی ہیں اور دوسری طرف فاٹا کو الگ صوبہ بنانے کے بجائے کے پی کے میں ضم کیا جا رہا ہے مالاکنڈ کے لوگوں سے پوچھا نہیں گیا کہ وہ کیا چاہتے ہیںآج ایوان میں ارکان کو پکڑ پکڑ کر لایا جا رہا ہے تا کہ انضمام کیا جا سکے ، فاٹا کو الگ صوبہ بنایا جائے پاکستان کے آئین سے فاٹا کا نام آج نکل رہا ہے ،، تحریک انصاف کے رکن داور خان کنڈی نے بھی اس بل کی مخالفت کی اور اپنی جماعت کو بھی آڑے ہاتھوں لیا کہ’’ ہمارا آئین فیڈریشن ہے ، فیڈریشن میں انضمام کا تصور نہیں ،سیاسی جماعتوں کے منشور میں جنوبی پنجاب صوبہ شامل ہے مگر فاٹا کو کے پی کے میں ضم کر کے ہم فیڈریشن کی مخالفت کر رہے ہیں اور انضمام کی روایت ڈال رہے ہیں ، جو لوگ آج فاٹا کے کے پی کے میں انضمام کی حمایت کر رہے ہیں وہ جنوبی پنجاب کیسے بنائیں گے ، آئینی ترمیم سے آرٹیکل247کو ختم کیا جا رہاہے جو صدر کو جغرافیائی حیثیت تبدیل کرنے کا اختیار دیتا ہے ، ایک طرف ہم انتظامی یونٹس کا مطالبہ کرتے ہیں اور ایک طرف ہم یونٹس کا انضمام کر رہے ہیں،، پختونخوا ملی عوامی پارٹی کی نسیمہ پانیزئی نے کہا کہ آج وہ لوگ فاٹا کی قسمت کا
فیصلہ کر رہے ہیں جن کا فاٹا سے کوئی تعلق نہیں بل کی خواندگی کے پہلے مرحلے کے بعد اگلے مرحلے میں سپیکر ایاز صادق نے 21ویں آئینی ترمیم بل ایوان میں پیش کرنے کی تحریک پر رائے شماری کرائی جس کے حق میں 229جبکہ مخالفت میں 11ووٹ پڑے آئینی ترمیم بل پیش کرنے کی تحریک منظوری کے بعد سپیکر نے بل کی شق وار منظوری کروائی ۔آئینی ترمیمی بل کی شق 2کے حق میں 229اور مخالفت میں 3،شق 3کے حق میں 229جبکہ مخالفت میں 2،بل کی شق 4کے حق میں 229جبکہ مخالفت میں 2،شق5 کے حق میں 228جبکہ مخالفت میں 2، شق 6کے حق میں 230جبکہ مخالفت میں 2، شق7کے حق میں 230جبکہ مخالفت میں 1، شق8کے حق میں 231جبکہ مخالفت میں 1، شق 9کے حق میں 231جبکہ مخالفت میں 1، بل کی شق ون اور ٹائٹل کے حق میں 230اورمخالفت میں ایک ووٹ پڑا ۔ بل کی شق وار منظوری کے دوران جے یوآئی (ف) اور پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے ارکان نے احتجاجاً واک آؤٹ کیا ۔ بل کی شق وار منظوری کے بعد سپیکر ایاز صادق نے 31ویں آئینی ترمیم کی ووٹنگ کیلیے طریقہ کار کا اعلان کیا اور بل کے حق میں ارکان کو اپنی دائیں جانب موجود گیلری جبکہ بل کی مخالفت میں ارکان کو اپنی بائیں جانب موجود گیلری میں جانے کی ہدایت کی رائے شماری کا عمل مکمل ہونے کے بعد سپیکر نے نتائج کا اعلان کیا کہ 31ویں آئینی ترمیم کے حق میں 229 جبکہ مخالفت میں ایک رکن نے ووٹ دیا ،آئین کے تحت دو تہائی اکثریت سے آئینی ترمیم منظور کر لی گئی۔