آزادکشمیر مالیاتی اور انتظامی خودمختاری کی راہ پر

آزادکشمیر اسمبلی اور کشمیر کونسل کی طرف سے آئین میں تیرہویں ترمیم کی منظوری کے بعد مالیاتی اور سیاسی وانتظامی خودمختاری کی راہ پر ایک نئے سفر کا آغاز ہوگیا ہے۔ اس ترمیم کی منظوری کے بعد پہلی تبدیلی آزادکشمیر کے دستور عبوری ایکٹ 74 کا نام بدل کر عبوری آئین 74 رکھنے کی صورت میں رونما ہوئی، جس کے بعد آزادکشمیر کا آئین اب ایکٹ کے بجائے باقاعدہ آئین کہلائے گا اور اس کے سیکشنز اور سب سیکشنز اب آرٹیکل اور سب آرٹیکل کہلائیں گے۔ اس ترمیم کے بعد آزادکشمیر کونسل کے مالیاتی اور انتظامی اختیارات کو ختم کرکے اس کی حیثیت مشاورتی کردی گئی ہے۔ اب کونسل کی حیثیت بغیر دانتوں کے شیر سے زیادہ نہیں ہوگی۔
کشمیر کونسل حقیقت میں آزادکشمیر اور وفاقی اداروں کے درمیان ’’درمیان دار‘‘ کا کردار ادا کرتی تھی اور اپنے اس کردار کی بھاری قیمت بھی وصول کرتی تھی۔ یہ اختیار چھن جانے کے بعد اب آزادکشمیر حکومت وفاقی اداروں کے ساتھ براہِ راست معاملات طے کرنے کی پوزیشن میں آگئی ہے۔ گویا کہ وفاقی اداروں کا رول کم تو نہیں ہوا بلکہ بتدریج بڑھنے کا امکان موجود ہے۔ تبدیلی فقط یہ آئی کہ اب اسلام آباد اور مظفرآباد کے درمیان بہت سے معاملات براہِ راست طے ہوں گے، اور اس میں وزارتِ امورِ کشمیر کا کردار بڑھتا ہوا نظر آتا ہے، کیونکہ وفاق اپنے اختیارات وزارتِ امورِ کشمیر کے ذریعے ہی استعمال کرتا ہے۔ ترمیم کے بعد محصولات کی وصولی کا اختیار کونسل سے آزادکشمیر حکومت کو منتقل ہوگیا، اور شاید یہی اس سارے افسانے کا مرکزی خیال ہے۔ محصولات جمع کرنے کے وفاقی ادارے ایف بی آر کی خدمات بھی حاصل کی جاسکتی ہیں۔ ٹیکسیشن ایک ایسا کام ہے جس کے لیے آزادکشمیر حکومت کے پاس نہ تو استعداد ہے اور نہ تربیت یافتہ ادارہ اور لوگ موجود ہیں، جس کے لیے لامحالہ ایف بی آر کی خدمات لینا ہوں گی۔ اس ترمیم کے بعد اس طرح کے وفاقی ادارے آزاد کشمیر حکومت کی معاونت کے نام پر یہاں اپنے دفاتر کھول سکیں گے جن میں ایف آئی اے، نیب اور پیمرا جیسے ادارے بھی شامل ہیں۔ اس ترمیم کے بعد آزادکشمیر کے شہریوں کو بھی وہی مساوی حقوق حاصل ہوں گے جو 1973ء کے آئین کے تحت پاکستان کے شہریوں کو حاصل ہیں۔ ایک اہم بات یہ کہ اسلام آباد میں کشمیر کونسل سیکرٹریٹ ختم ہوجائے گا۔ اس سیکرٹریٹ میں ہزاروں غیر کشمیری افراد کی ایک فوج آزاد کشمیر کے ٹیکس دہندگان کے پیسوں سے تنخواہ، مراعات اور عیاشیاں کیا کرتی تھی۔ اب کونسل سیکرٹریٹ کے’’ ٹائی ٹینک‘‘ میں بیتے ہوئے دن اس فوجِ ظفر موج کی لوح ِحافظہ پر محض ایک حسین یاد کے طور پر ثبت رہیں گے۔ یہ وہی سیکرٹریٹ ہے جہاں آزادکشمیر کو پیرس بنانے کے نام پر کاغذوں میں جعلی ترقیاتی اسکیمیں بنتی اور کاغذوں میں ہی دفن ہوکر رہ جاتی تھیں، اور زمین ان کے وجود کو ترستی رہتی تھی۔ ججوں اور چیف الیکشن کمیشن کے تقرر کا اختیار وفاق نے آزادکشمیرکو منتقل نہیں کیا۔ شاید آزادکشمیر کے حکمرانوں اور سیاسی جماعتوں کو اس کا اہل ثابت کرنے کے لیے ابھی بہت پاپڑ بیلنا پڑیں گے۔
آزادکشمیر کے آئین میں اس اہم ترمیم کو روکنے کے لیے کشمیر کونسل نے کشمیریوں کے ٹیکسوں اور ترقیاتی اسکیموں کے خزانوں کے دہانے کھول دئیے تھے اور کشمیر کونسل کے اراکین کے کندھوں پر بندوق رکھ کر چلانے کی کوشش کی تھی، مگر یہ آخری تیر بھی خطا ہوگیا۔ کشمیر کونسل کی انتظامی مافیا اور ارکان نے بھی وسائل کی گنگا جمنا پر کنٹرول ختم ہونے سے بچانے کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ سے حکم امتناعی حاصل کیا۔ چونکہ آزادکشمیرکے معاملات پاکستان کی عدالتوں کے دائرۂ اختیار میں نہیں آتے اس لیے حکومتِ آزادکشمیر نے یک طرفہ طور پر ہی آئین میں تیرہویں ترمیم کا فیصلہ کرلیا تھا، مگر عدالتِ عالیہ اسلام آباد نے ایک دوروز میں ہی حکم امتناعی خارج کرکے اس ترمیم کی راہ ہموار کردی۔
آزادکشمیر تنہا اس تبدیلی سے آشنا نہیں ہوا، بلکہ فاٹا اور گلگت بلتستان بھی انتظامی اور آئینی تبدیلیوں کے اس عمل سے گزرے۔ بدلتے ہوئے حالات میں ان علاقوں کو بدلی ہوئی ضرورتوں اور خواہشوں سے ہم آہنگ کرنے کی سوچ گزشتہ چند برس سے طاقت کے ہر اہم مرکز میں غالب آرہی تھی۔ اسی بدلی ہوئی سوچ کے تحت آزادکشمیر میں آئینی ترامیم کے مسودے کی تیاری کا آغاز پیپلزپارٹی کے دورِ حکومت میں گلگت بلتستان امپاورمنٹ آرڈر کے اجراء سے ہوا تھا، اسی دوران آزادکشمیر کو مزید بااختیار بنانے کے لیے آئینی ترامیم پر کام کا آغاز کیا گیا تھا۔ جہاں اس مسودے کی تیاری میں پیپلزپارٹی کی حکومت نے اہم کردار ادا کیا تھا، وہیں اُس دور میں اپوزیشن کے فعال ارکان قائد حزبِ اختلاف راجا فاروق حیدر، سردار عتیق احمد خان، بیرسٹر سلطان محمود چودھری، شاہ غلام قادر اور چودھری طارق فاروق نے بھی کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ اسی تسلسل میں راجا فاروق حیدر خان کی قیادت میں موجودہ حکومت نے آئینی ترامیم کا مطالبہ ایک تسلسل کے ساتھ جاری رکھا۔ ان مربوط اور پیہم کوششوں کے نتیجے اور اسلام آباد میں غالب آنے والی سوچ کے عین مطابق اب آئین میں ترامیم کا بظاہر ناممکن کام بآسانی ہوگیا۔ ایک طویل اور تھکا دینے والے سفر کا یہ پہلا مرحلہ ہے، ابھی اس راہ میں بہت سے سخت مقامات آنا باقی ہیں۔ برادریوں کی ڈیموگرافی کی بنیاد پر قائم آزادکشمیر کا خطہ اور اس کا نظام خود کو انصاف اور میرٹ سے وابستہ کرنے میں کامیاب نہ ہوا تو یہ سفر رول بیک ہوکر کوئی اور شکل اختیار کرسکتا ہے۔