سندھی تحریر: سہیل سانگی
معروف تجزیہ نگار اور سینئر صحافی سہیل سانگی نے اپنے زیرنظر کالم میں جو کثیرالاشاعت سندھی روزنامہ ’’کاوش‘‘ حیدرآباد کے ادارتی صفحہ پر بدھ 16مئی 2018ء کو اشاعت پذیر ہوا ہے، وطن عزیز کی موجودہ سیاسی صورت حال کے حوالے سے جو اظہار خیال کیا ہے، اس کا ترجمہ قارئین کے لیے پیش خدمت ہے۔
مضمون کے مندرجات سے مترجم یا ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
’’سابق وزیراعظم میاں نوازشریف کے حالیہ (تازہ) بیان نے ملکی سیاست میں ایک ہنگامہ سا برپا کردیا ہے۔ نوازشریف نے انٹرویو میں کہا تھا کہ ’’ہمارے ہاں عسکری تنظیمیں ابھی تک سرگرم ہیں، جنہیں غیر ریاستی عنصر یعنی نان اسٹیٹ ایکٹر کہا جاتا ہے۔ کیا انہیں سرحد پار ممبئی میں150افراد کو مارنے کی اجازت دی جانی چاہیے تھی؟‘‘ نوازشریف کے اس بیان پر وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی زیر صدارت قومی سلامتی کمیٹی کے منعقدہ اجلاس میں مذمت کی گئی۔ کمیٹی کے اجلاس کے بارے میں وزیراعظم ہاؤس میں اعلامیہ بھی جاری کیا گیا۔ بعد میں وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے نوازشریف سے ملاقات کی اور پریس کانفرنس کرکے نوازشریف کے بیان سے متعلق وضاحت کی، یہ اور بات ہے کہ یہ پریس کانفرنس سرکاری ٹی وی سمیت کسی بھی چینل نے نشر نہیں کی۔ وزیراعظم عباسی اور حکومت میں ان کی پارٹی نے نوازشریف کے ساتھ اکٹھا کھڑا ہونے کا اعلان کیا ہے۔ مخالف سیاسی جماعتیں اس معاملے پر نوازشریف کو ہدفِ تنقید بنائے ہوئے ہیں اور کہہ رہی ہیں کہ ان پر غداری کا کیس داخل کیا جائے۔ حزبِ اختلاف کا رہنما قومی سلامتی کمیٹی کا ممبر ہوتا ہے۔ اس وقت یہ عہدہ پیپلز پارٹی کے رہنما خورشید شاہ کے پاس ہے، لیکن انہوں نے اس میں شرکت کرنے سے انکار کردیا، وہ کہتے ہیں کہ جو کچھ بھی کرنا ہے وہ حکومت کو کرنا ہے۔ وزیراعظم اس معاملے کے بارے میں اسمبلی کو اعتماد میں لیں۔ تحریک انصاف کے رہنما مخدوم شاہ محمود قریشی جو وزیر خارجہ بھی رہے ہیں، کہتے ہیں کہ نوازشریف کو اس وقت بیان دینے کی آخر ضرورت ہی کیا تھی؟ مخالف سیاسی جماعتوں کی تنقید اور مخالفت، نیز میڈیا میں واویلا ہونے کے باوجود نوازشریف اپنی بات پر مُصر ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ قومی کمیشن قائم ہونا چاہیے جو کہ فیصلہ کرے کہ کون غدار ہے اور کون محب
وطن ہے۔ اب دودھ کا دودھ پانی کا پانی الگ الگ ہوجانا چاہیے۔
نوازشریف نے یہ بیان ایک ایسے موقع پر دیا ہے جب ان کی پارٹی کی حکومت کرنے کی میعاد ختم ہونے میں چند دن ہی باقی رہ گئے ہیں۔ کسی بھی وقت نگران حکومت کی تشکیل اور انتخابات کا اعلان ہوسکتا ہے۔ دوسری جانب ان کے خلاف چلنے والے کیس بھی اب اپنے اختتامی مرحلے کے قریب ہیں اور ان کیسوں کا فیصلہ انتخابات سے پہلے آئے گا یا بعد میں؟ یہ ابھی تک طے نہیں ہوسکا ہے۔ اگر یہ فیصلہ پہلے آتا ہے تو نوازشریف انتخابی مہم میں شریک نہیں ہوں گے لیکن ان کی سزا اور قید کی بنیاد پر نواز لیگ مظلومیت اور ہمدردی کا ووٹ حاصل کرسکتی ہے۔ اگر انتخابات کے بعد فیصلہ آتا ہے تو نوازشریف انتخابی مہم پر بھرپور طریقے سے اثرانداز ہوں گے۔ ایک خیال یہ بھی ظاہر کیا جارہا ہے کہ ممکن ہے الیکشن مہم میں حصہ لینے یا ان کی تقاریر میڈیا پر دکھانے پر پابندی عائد کردی جائے اور کیسوں کا فیصلہ الیکشن کے بعد آئے۔ بہرحال نوازشریف اور انہیں اقتدار اور سیاست سے باہر دھکیلنے والی قوتیں دونوں معاملات پر تیاری کیے بیٹھی ہیں۔ دوسری جانب خود کو کچھ زیادہ ہی محب وطن سمجھنے والے افراد نے لاہور اور اسلام آباد کی ہائی کورٹس میں درخواستیں بھی دائر کی ہیں کہ نوازشریف کے خلاف غداری کا کیس داخل کیا جائے۔
پاکستان میں غداری کے کیسز داخل کرنے کی بڑی تاریخ رہی ہے جو اپنی جگہ اہمیت کی حامل بھی ہے۔ وقت نے بعدازاں یہ ثابت کردکھایاکہ یہ سارے کیسز خاص سیاسی حالات میں قائم کیے گئے تھے اور ان کے ذریعے خاص نتائج حاصل کیے گئے۔ پچاس کی دہائی میں داخل کیاگیا کیس جو ’’پنڈی سازش کیس‘‘ کے طور پر مشہور ہے اُس وقت کے جنرل اکبر خان اور بعض دیگر فوجی افسران کے علاوہ فیض احمد فیض، سجاد ظہیر اور دیگر کمیونسٹ رہنما اس کیس میں شامل تھے۔ جنرل اکبر، لیاقت علی خان کی کشمیر کے بارے میں پالیسی سے ناراض تھے۔ انہوں نے چاہا کہ وہ حکومت کا تختہ الٹ ڈالیں اور سارے کمیونسٹ ان کی حمایت کریں۔ کمیونسٹوں نے ان کی حمایت کرنے سے انکار کردیا اور ساتھ نہیں دیا۔ بعد ازاں شیخ مجیب الرحمن کے خلاف اگرتلہ سازش کیس قائم ہوا، حکومتِ وقت شیخ مجیب کو آزاد کرنے پر مجبور ہوگئی۔ ولی خان، میر غوث بخش بزنجو، عطا اللہ مینگل، نواب خیر بخش مری اور دیگر عوامی نیشنل پارٹی کے رہنماؤں کے خلاف کیس دائر کیے گئے۔ یہ وہ کیس تھے جو حکومت سے باہر بیٹھے سیاست دانوں کے خلاف قائم کیے گئے۔ پچاس کی دہائی میں مولوی فضل الحق کو مصر میں دیے گئے بیان کی وجہ سے ہٹایا گیا۔ 1990ء کی دہائی میں باری باری سے بے نظیر بھٹو اور نوازشریف کو سیکورٹی رسک قرار دیا گیا۔ لہٰذا اگر غداری کا کیس قائم بھی کیا جاتا ہے تو ملک کا عام فرد اسے قبول نہیں کرے گا۔ نوازشریف نے غیر ریاستی عناصر کے کردار کی بات کی ہے جس پر یہ سارا بھونچال آیا ہے ۔2008ء میں جب ممبئی کا یہ واقعہ رونما ہوا تھا تو اُس وقت کے صدر آصف زرداری نے بھی نان اسٹیٹ ایکٹرز کا ذکر کیا تھا اور ساتھ ہی یہ بھی کہا تھا کہ یہ نان اسٹیٹ ایکٹرز پاکستان اور انڈیا کے تعلقات ختم کرنا چاہتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ 2016ء میں پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹ میں رہنما چودھری اعتزاز احسن نے اسمبلی کے مشترکہ اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ نان اسٹیٹ ایکٹرز کو چھوٹ ملنے کی وجہ سے پاکستان دنیا میں تنہا رہ گیا ہے۔ جنگِ عظیم کے بعد نان اسٹیٹ ایکٹرز ایک مضبوط شناخت کے طور پر ابھرے، ریاست جو یوں تو اختیار اور طاقت پر اجارہ داری رکھتی آئی ہے لیکن کچھ گروپ ایسے پیدا ہوئے جو خود ریاست ہی کو چیلنج کرنے لگے اور سرحد پار بھی کام کرنے لگے۔ کئی ریاستوں نے اس مظہر کو اپنی خارجہ اور دفاعی پالیسیوں کے لیے استعمال کیا۔ ضیا الحق دور میں پاکستان نے امریکہ کی پراکسی وار افغان جہاد کے نام سے لڑی، اس میں غیر ریاستی عناصر کا کردار پاکستان میں زیادہ ابھر کر سامنے آیا۔ پاکستانیوں کو اب یہ سمجھنے میں دشواری محسوس نہیں ہوتی کہ غیر ریاستی عناصر کا کردار کیا ہوتے ہیں۔ علم سیاست کے ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ نان اسٹیٹ ایکٹرز کئی مراحل میں خود اس ریاست کا گھیرا توڑ کر خارجہ پالیسیوں پر اثرانداز ہوتے رہتے ہیں اور اس طرح سے ان ریاستوں کی سیاست بھی تبدیل ہوجاتی ہے۔ جس جملے نے طوفان برپا کیا ہے نوازشریف نے وہ جملہ کسی جذباتی تقریر میں نہیں کہا ہے، یہ جملہ حساب کتاب سے یعنی well calculated انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ انہیں اندازہ تھا کہ اس جملے کا کیا اثر مرتب ہوگا؟ نوازشریف کو بھنک پڑ چکی تھی کہ ان کے خلاف بھارت سے قربت کا نقطہ میدان میں لایا جارہا ہے۔ انہیں یہ اشارہ بھارت کو اربوں روپے منتقل کرنے کا نیب کے چیئرمین کی طرف سے نوٹس لینے کی صورت میں مل چکا تھا۔ لہٰذا انہوں نے فوراً ہی یہ بم ’’پھاڑ‘‘ ڈالا۔ وہ اب آر یا پار کے مصداق صورت حال سے نمٹنا چاہتے ہیں، وہ اپنی اس حکمت عملی پر گامزن ہیں کہ ان کے خلاف بد عنوانی کے کیس یا پاناما ملکیت کے معاملات اٹھائے گئے ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ ان کے خلاف معاملہبدعنوانی کا نہیں بلکہ سیاسی بن جائے بھلے سے ان پر غداری کا کیس چلے۔ وہ کہتے ہیں کہ قومی کمیشن تشکیل دیا جائے جو تحقیق کرے کہ کس گروہ یا حلقے نے کیا کیا اور اس کا نتیجہ کیا نکلا؟ جب وہ یہ کہتے ہیں کہ وہ تین مرتبہ وزیراعظم رہے ہیں، اس لیے ان کے پاس بہت کچھ ہے، اس کا مطلب یہ لیا جارہا ہے کہ ان کے پاس ان نکات کو ثابت کرنے کے لیے مسالہ موجود ہے۔ نوازشریف کو شاید اندازہ ہے کہ ان کے خلاف نیب والے کیسز کے فیصلوں میں دیر ہے۔ وہ الیکشن کے بعد آئیں گے، وہ چاہتے ہیں کہ جو بھی کارروائی کی جانی ہے وہ ابھی سے کی جائے۔