ایک ٹی وی ٹاک شو کے دوران بالآخر وہ ہوگیا جس کی چینل والے نہ جانے کب سے آس لگائے بیٹھے تھے۔ اس سے قبل ٹاک شوز میں توتکار ہوتی تھی، الزام تراشی کی جاتی تھی، ایک دوسرے کے خلاف سخت جملے کہے جاتے تھے، کبھی کبھار گالی گلوچ بھی ہوجاتی تھی، مگر پروگرام ’’آپس کی بات‘‘ میں تحریک انصاف کے ترجمان نعیم الحق نے وفاقی وزیر اور کام کے اعتبار سے اپنے ہم منصب مسلم لیگ (ن) کے دانیال عزیز کو تھپڑ بھی جڑ دیا۔ دونوں نے پروگرام کے دوران اور بعد میں وہی کچھ کہا جو ان کی سیاست اور تربیت کا حصہ ہے۔ دونوں ایک عرصے سے جو کام کررہے ہیں اُس کے نتیجے میں ٹاک شو کے دوران بھی ایک دوسرے پر الزامات لگاتے رہے۔ نعیم الحق چوں کہ ایک پولیس والے کے بیٹے ہیں اس لیے انہوں نے آگے بڑھ کر تھپڑ بھی جڑ دیا۔ اور دانیال عزیز چوں کہ ایک دیہی سیاست دان کے بیٹے ہیں اس لیے اُس وقت غصہ پی گئے اور بدلہ آئندہ پر اٹھا رکھا۔ اس واقعے پر شاید ہر ٹی وی چینل نے پروگرام کیے اور اپنی قومی ذمے داری سمجھتے ہوئے ہر اُس شخص تک یہ واقعہ پہنچادیا جو موقع پر یہ سین نہیں دیکھ سکا تھا۔ اس معاملے میں ٹی وی چینلز کو 100 فیصد کامیابی ملی، جو کبھی کبھار ہی ملتی ہے۔ واقعے کے بعد ہر ٹی وی چینل کی خواہش تھی کہ ایک بار پھر دانیال عزیز اور نعیم الحق کو اکٹھا کرے اور نعیم الحق سے تھپڑ مارنے کی وجہ اور دانیال عزیز سے اُس پر اُن کے تاثرات معلوم کرکے اپنے ناظرین تک پہنچائے۔ لیکن ایسا نہ ہوسکا۔ یہ ٹی وی چینلز کی بڑی ناکامی تھی۔ اگر کوئی یہ اہتمام کرنے میں کامیاب ہوجاتا تو میڈیا کی دنیا میں اُس کی بَلّے بَلّے ہوجاتی۔ البتہ ایک خاتون اینکر دانیال عزیز کو اپنے پروگرام میں لانے میں کامیاب رہیں۔ اس سے زیادہ اُن کی کامیابی یہ تھی کہ نعیم الحق نے ایک تھپڑ مار کر ان کی جو بے عزتی کی تھی خاتون اینکر نے یہ سین بار بار لگاکر اور تھپڑ سے متعلق درجنوں سوالات کرکے ان کی زیادہ ’’عزت افزائی‘‘ کردی۔ مگر حیرت ہے کہ اصل پروگرام سے واقعے کے بعد اٹھ جانے والے دانیال عزیز اس خاتون اینکر کے بار بار توہین آمیز سوالات کے باوجود پروگرام میں بیٹھے رہے۔ اس دوران میڈیا میں یہ بات چلتی رہی کہ یہ سیاست میں ایک بری روایت ہے جو قابلِ مذمت ہے، سیاست دانوں میں برداشت اور تحمل ہونا چاہیے اور ایک دوسرے کا نقطہ نظر سننے کا حوصلہ بھی۔ یہ بات اس قدر شدو مد سے کی گئی جیسے اس طرح کا واقعہ پہلی بار ہوا ہو، اور اس سے پہلے ہماری سیاست میں اس طرح کی کوئی مثال موجود نہ ہو۔ حالانکہ ہماری سیاسی تاریخ اس طرح کے واقعات سے بھری پڑی ہے اور اس معاملے میں ہم کسی سے پیچھے نہیں۔ پاکستان دنیا کے اُن چند ممالک میں شامل ہے جہاں اسمبلی کے اجلاس کے دوران صدارت کرنے والے ڈپٹی اسپیکر کو معزز ارکانِ اسمبلی نے اتنا زدوکوب کیا کہ وہ موقع پر ہی جان دے بیٹھے۔ یہ واقعہ 1954ء میں مشرقی پاکستان اسمبلی میں پیش آیا۔ ابھی ہماری سابقہ قومی اسمبلی میں کسی بات پر جماعت اسلامی کے رہنما صاحبزادہ طارق اللہ خان اور جماعت اسلامی کی سرپرستی میں سیاسی سفر شروع کرنے والے جاوید ہاشمی کے درمیان توتکار ہوگئی، چونکہ دونوں اسلامی جمعیت طلبہ کے سابقین تھے اس لیے اپنی اپنی بات پر ڈٹے رہے، مگر اس دوران صاحبزادہ طارق اللہ نے جاوید ہاشمی کو آگے بڑھ کر دبوچ لیا اور ان پر اپنی کہنی سے یکے بعد دیگرے کئی ضربیں لگادیں۔ اُس وقت صاحبزادہ طارق اللہ کے ہاتھ پر پلاسٹر چڑھا ہوا تھا۔ اسی پلاسٹر شدہ کہنی سے انہوں نے ہاشمی صاحب کی مرمت فرمائی۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دور کی 1970ء کی قومی اسمبلی میں حکومتی اور اپوزیشن بینچوں کے درمیان سخت جملوں کے تبادلے کے بعد معاملہ یہاں تک بڑھا کہ اسپیکر نے اسمبلی سیکورٹی پر تعینات ’’مارشل ایٹ آرمز‘‘ کے ذریعے اپوزیشن لیڈروں کو اٹھاکر باہر پھنکوا دیا۔ ان میں مفتی محمود جیسے بھاری بھرکم اور پروفیسر غفور جیسے کم وزن رہنما بھی شامل تھے۔ مفتی صاحب کو تو ہاتھوں اور پیروں سے پکڑکر ڈنڈا ڈولی کرتے ہوئے باہر لے جایا گیا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو ملک کے وزیراعظم تھے، وہ لاہور کے قذافی اسٹیڈیم میں ایک جلسے سے خطابکررہے تھے کہ انہوں نے اسٹیج پر بیٹھے ہوئے اپنے وزیر اطلاعات مولانا کوثر نیازی کو مخاطب کرکے انہیں براہِ راست بہن کی گالی دے ماری۔
نوازشریف کو دینی درسگاہ میں بھرے مجمع میں جوتا مارنا، اور عمران خان پر جوتا اچھالنا ابھی کل کی بات ہے۔ اسی اسمبلی میں مسلم لیگ (ن) کے جاوید لطیف اور تحریک انصاف کے مراد سعید کے درمیان انتہائی قابلِ اعتراض جملوں کے بعد ہاتھا پائی بھی سب کو یاد ہے۔ وزیر دفاع خواجہ آصف اور ممتاز وکلا احمد رضا قصوری اور نعیم بخاری کے چہرے اور کپڑوں پر سیاہی پھینکنے کا واقعہ بھی زیادہ پرانا نہیں ہوا۔ تو قارئین! سیاسی مخالف کو زدوکوب کرنا، اسے تھپڑ دے مارنا، اس سے گتھم گتھا ہوجانا، اس پر سنگین الزام لگانا، یا اسے غلیظ گالیوں سے نوازنا ہمارے سیاسی کلچر کا حصہ ہے۔ لیکن اس میں اہم بات یہ ہے کہ یہ کام سیاسی کارکن کرتے ہیں، بڑے سیاسی رہنما زبانی باتیں تو کرتے ہیں لیکن دست درازی سے گریزاں ہی رہتے ہیں۔ یہ ان کی تربیت ہے یا مصلحت، اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے، کہ یہ سیاسی رہنما خود ٹھنڈے ٹھنڈے بیٹھے رہتے ہیں اور ان کے کارکن ان کے سامنے لڑنے بھڑنے میں مصروف رہتے ہیں۔ نعیم الحق اور دانیال عزیز بھی محض سیاسی کارکن ہیں۔ ایک بار پنجاب اسمبلی میں ایک حکومتی رکن نے اپوزیشن کے ایک کارکن قسم کے رکن فضل حسین راہی کو تھپڑ مار دیا تھا جس پر اپوزیشن نے شدید احتجاج کیا، لیکن آخرکار حکمران مسلم لیگ (ن) اور اپوزیشن کے درمیان مصالحت ہوگئی جس پر فضل حسین راہی مرحوم نے یہ تاریخی جملہ کہا تھا کہ یہ تھپڑ ذوالفقار کھوسہ یا فاروق لغاری کو پڑا ہوتا تو میں دیکھتا کیسے صلح ہوتی۔ غریب کارکن کو پڑنے والے تھپڑ پر جاگیردار اور صنعت کار قسم کے سیاست دان بآسانی مصالحت کرلیتے ہیں۔ تو قارئین مستقبل میں بھی سیاسی کارکنوں کے درمیان تھپڑوں کے تبادلے ہوتے رہیں گے۔ سیاسی کارکن اپنے ہی لیڈر نوازشریف سے ہاتھ ملانے کی خواہش پر سیکورٹی اہلکاروں کے تشدد کا نشانہ بنتے رہیں اور نعیم الحق جیسے کارکن وفاداری ثابت کرنے میں مشغول دانیال عزیز جیسے کارکنوں کو تھپڑ مارتے رہیں گے یا ان سے تھپڑ کھاتے رہیں گے۔