رمضان المبارک اور انسانی صحت

اللہ تعالیٰ کا جتنا بھی شکر ادا کیا جائے کم ہے کہ اس غفورالرحیم ذات نے زندگی میں ایک بار پھر رمضان المبارک کی نعمتِ عظمیٰ سے نوازا ہے۔ یہ رحمتوں اور برکتوں کا مہینہ اپنے روحانی فیوض و برکات کے ساتھ ساتھ انسانی صحت کے لیے بھی شفا کا خوش کن پیغام لے کر آتا ہے۔
وہ رحمتوں کے شب و روز جن میں نیکیاں پروان چڑھتی اور بہار لاتی ہیں، جس میں نوافل فرائض کے برابر اور فرائض ستّرگنا زیادہ ثواب کا ذریعہ ہیں، جس بابرکت مہینے میں جہنم کے دروازے بند کردیے جاتے ہیں اور جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں، جس میں شیاطین جکڑ دیے جاتے ہیں، جب اس بات کی ضمانت مل جاتی ہے کہ اگر احتساب اور ایمان کے ساتھ روزے رکھے گئے تو سابقہ گناہ معاف کردیے جائیں گے۔
یہ مبارک مہینہ انسانی صحت کے لیے نعمتِ خداوندی ہے۔ سال بھر غذائی بے اعتدالی سے جو امراض جنم لیتے ہیں، اگر ایک مہینہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے کھانے پینے کا جو ’’خدائی شیڈول‘‘ طے ہوتا ہے، اگر اعتدال کے ساتھ اختیار کرلیا جائے تو ایسے امراض جو علاج اور دوائوں سے ٹھیک نہیں ہوتے، وہ اللہ کے فضل اور روزوں کی برکت سے بغیر دوائی کے جان چھوڑ جاتے ہیں۔
چند اہم امراض جو روزوں کی برکت سے ختم ہوجاتے ہیں:
1۔ موٹاپا
ہمارے ہاں کھانے کا یہ اصول کہ خوردن برائے زیستن (اتنا کھائو جس سے زندہ رہ سکو) کے بجائے زیستن برائے خوردن (زندگی کھانے پینے کے لیے ہے) مقصدِ حیات بن چکا ہے۔
خوش خوراکی ایک اچھی عادت ہے لیکن اس سے مراد ہرگز بسیار خوری نہیں، بلا ضرورت کھانا، بے وقت کھانا، خصوصاً شادی اور تقاریب کے موقع پر اس طرح کھانا کہ شاید زندگی میں پہلی دفعہ کھانا ملا ہے، دوبارہ نہ ملے۔ کھانے میں مرغن اور مسالہ دار غذائوں کا کثرت سے استعمال۔ فاسٹ فوڈ کے نام پر برگر، پیزا (Pizza)، ڈبل روٹی، نان، اور بریانی کا کثرت سے استعمال۔ کھانے کے بعد کسی قسم کی ورزش نہ کرنا، پیدل چلنے سے گریز، رات دیر سے کھانا کھا کر سوجانا۔ خصوصاً عورتوں میں مرغن کھانوں کے استعمال کے بعد کسی بھی قسم کی ورزش کے مواقع کا میسر نہ ہونا۔ جسم میں چربیلی اجزا کے جنم لینے سے موٹاپا جیسے خطرناک مرض میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔
موٹاپے کی وجہ سے کئی دیگر امراض بلڈ پریشر، شوگر، بانجھ پن، اختلاخِ قلب جنم لیتے ہیں۔ روزے کی برکت سے موٹاپے کا فطری علاج اور وزن میں واضح کمی بغیر کسی دوا کے فطری طور پر ہوتی ہے۔ جب انسان کے معدہ کو خوراک نہ ملے، بھوک اور پیاس تنگ کریں تو طبی تحقیق کے مطابق غیر طبعی شحمی اجزا ازخود تحلیل ہوکر خوراک کا کام دیتے ہیں۔ اگر انسان خشک اور سادہ روٹی پر اکتفا کرے تو موٹاپے
کا علاج رمضان المبارک میں بڑی آسانی سے ممکن ہے۔
2۔ کولیسٹرول کا خاتمہ
آج کے ترقی یافتہ دور میں خون کے اندر شحمی اجزا جو خون کی گردش کو رواں رکھنے میں معاون اور ضروری ہیں اُن کی مقدار توازن سے بڑھ جاتی ہے۔ جدید طبی اصول کے مطابق ایک صحت مند آدمی میں کولیسٹرول کی مقدار کم سے کم 150 اور زیادہ سے زیادہ 200 کے درمیان ہونی چاہیے، مگر دیکھا گیا ہے کہ کولیسٹرول کی مقدار بعض لوگوں میں 250 سے بھی زیادہ ہوتی ہے اور انہیں ادراک نہیں ہوتا کہ کتنے خطرناک مرض میں مبتلا ہیں۔ کولیسٹرول بڑھنے کی عام علامت یہ ہے کہ انسان جب پیدل چلتا ہے، خصوصاً جب سیڑھیاں چڑھتا ہے تو اُس کا سانس پھول جاتا ہے، گردن کے قرب و جوار میں کندھوں پر بوجھ محسوس ہوتا ہے، دل کے مقام پر بوجھ اور درد کا احساس ہوتا ہے۔ اگر انسان چلتے میں یہ کیفیت محسوس کرے اور رک جائے، سیڑھیوں پر ٹھیر جائے تو یہ کیفیت ختم ہوجاتی ہے۔ جب بھی ایسے مریض کا خون چیک کرایا جاتا ہے تو تصدیق ہوجاتی ہے کہ اس کا کولیسٹرول بڑھ چکا ہے۔ امراضِ قلب کے ماہرین کولیسٹرول کے بڑھنے کو ہارٹ اٹیک کا پیش خیمہ قرار دیتے ہیں۔
ایسے مریض جو مسلسل کولیسٹرول کو کم کرنے یا کنٹرول کرنے کے لیے ادویہ کا استعمال کرتے ہیں، رمضان المبارک کی برکت سے تھوڑی سی محنت کرکے اس مرض سے مکمل نجات پا سکتے ہیں۔ بھوک اور پیاس کی وجہ سے زائد از ضرورت کولیسٹرول (شحمی اجزا) جو مرض کا باعث بنتے ہیں، تحلیل ہوتے ہیں، بدن میں حرارت اور قوت کو برقرار رکھنے کا ذریعہ ثابت ہوتے ہیں، اور یہ خطرناک مرض اللہ کی رحمت سے ختم ہوجاتا ہے۔ ان ایام میں اگر یہ چٹنی بطور دوا استعمال کی جائے تو زیادہ جلد نتیجہ سامنے آتا ہے۔
ہوالشافی:
تازہ ادرک 2½ تولہ، تھوم تازہ دس بارہ تُریاں، زرشک شیریں ایک چھٹانک، تازہ پودینہ 3تولہ، تازہ دھنیا2 تولہ، اناردانہ 2تولہ… سب کو رگڑ کر چٹنی تیار کرلیں۔ خوش ذائقہ غذا اور کولیسٹرول کے خاتمے کی مؤثر دوا ہے۔
3۔ معدہ کی تیزابیت اور جلن:
اکثر مریض شفاخانہ آکر شکایت کرتے ہیں کہ کھانے کے بعد ان کے معدہ میں گرانی ہوجاتی ہے۔ بعدازاں غذا کی نالی میں حلق تک جلن، کھٹی اور جلن پیدا کرنے والی ڈکاریں تنگ کرتی ہیں۔ اگر اس مرض پر توجہ نہ دی جائے تو معدہ کا السر ہوسکتا ہے۔ معدہ کی جلن اور تیزابیت درحقیقت موجودہ دور کی غذائی بے اعتدالی، نئی نسل میں سہل انگاری، آرام طلبی، جسمانی مشقت کی کمی، اور غذائوں میں ثقیل، مرغن، دیر ہضم غذائوں کا کثرت سے استعمال اس کا بنیادی سبب بنتے ہیں۔ رمضان المبارک کی برکت سے کھانے پینے کے اوقات اور خور و نوش میں اعتدال پیدا ہوتا ہے، معدہ کی غیر طبعی رطوبات میں کمی اور اعتدال پیدا ہوتا ہے، جس کی وجہ سے معدہ کی جلن اور تیزابیت کا بغیر علاج اور دوا کے استعمال کے، فطری علاج ہوتا ہے۔ برسوں کا علاج اور ادویہ کا استعمال ایک طرف، روزے کی برکت سے نجات دوسری طرف! روزہ علاج پر بھاری قرار دیا جا سکتا ہے۔
تیزابیت کی یہی کیفیت تبخیر معدہ کی صورت اختیار کرتی ہے۔ مریض شکایت کرتا ہے کہ کھانے کے بعد اس کے پیٹ میں ہوا بھر جاتی ہے۔ انتہائی صورت میں بے جا ڈکار، اپھارہ اور اکثر اوقات اختلاجِ قلب، سرکا بھاری ہونا، بعض اوقات بلڈ پریشر کے بڑھنے کا خدشہ ہوتا ہے۔ جوں ہی کسی دوا یا قہوہ کا استعمال کیا جاتا ہے یہ کیفیت ختم ہوجاتی ہے۔ روزہ ایسے امراض کا فطری علاج ثابت ہوتا ہے۔
بلڈ پریشر کا خاتمہ:
ہمارے ہاں اکثر بلڈ پریشر کے مریض حقیقت میں بلڈ پریشر کے مریض نہیں ہوتے، بلکہ اکثر اوقات مرغن اور مسالہ دار غذائوں، پیٹ میں ریاح پیدا کرنے والی غذائوں، پائے، بھنڈی، توری، گوبھی، ماش کی دال، انڈوں، مچھلی کا بے جا استعمال، تیز کافی، چائے یا قہوہ کا استعمال وقتی طور پر خون کی گردش کو تیز کرنے کا سبب بنتے ہیں۔ معدہ کا اپھارہ یا تبخیر بھی سر کی گرانی اور بلڈ پریشر کی صورت اختیار کرلیتی ہے۔ معالج کا یہ کام ہے کہ مستقل فشارالدم (بلڈ پریشر) اور اس عارضی کیفیت میں فرق کرے۔ جب ایک مرتبہ بے احتیاطی سے بلڈ پریشر کی دوا شروع کردی جاتی ہے تو لوگ عادتاً بغیر ضرورت کے بھی دوا استعمال کرتے ہیں جو دوسرے کئی امراض کو جنم دیتی ہے۔ جب روزے کی برکت سے کھانے پینے میں اعتدال، مناسب وقفہ اور بے جا غذائی بار معدہ پر کم ہوتا ہے تو بلڈ پریشر کی یہ کیفیت ختم ہوجاتی ہے اور روزہ بلڈپریشر کو اعتدال پر لانے اور ختم کرنے کا ذریعہ ثابت ہوتا ہے۔
یورپ میں آج کل ایسے امراض جن کا کسی دوا سے علاج ممکن نہیں، کے علاج کے Fasting Home بنائے گئے ہیں، جہاں ایسے مریضوں کو جنہیں لا علاج قرار دیا جاتا ہے، داخل کیا جاتا ہے۔ ان کے کھانے پینے پر طبی پابندی لگا دی جاتی ہے، مریضوں کو طے شدہ اوقات میں ٹھوس غذا کے بجائے پھلوں کے جوس، دودھ اور کبھی کبھار دلیہ دیا جاتا ہے۔ کچھ ہی دنوں کے بعد بھوک اور پیاس کا یہ ’’علاج‘‘ ان کی ردی رطوبات تحلیل کردیتا ہے اور مریض صحت کی طرف لوٹ جاتا ہے۔
امتِ مسلمہ کو اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ اس نے سال میں ایک ماہ کی یہ ٹریننگ ان کے روحانی اور جسمانی علاج کے لیے عطا کردی ہے۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہمارے ہاں روزہ شروع ہوتے ہی روزہ خور حضرات ’’موسمی امراض‘‘ کا شکار ہوتے ہیں اور جوں ہی رمضان ختم ہوتا ہے یہ امراض بھی ختم ہوجاتے ہیں۔ وہ بدنصیب یہ بھول جاتے ہیں کہ روزہ نماز کی طرح فرض ہے، بیماری کی حالت میں اگر کوئی روزہ چھوٹ جائے تو بعد میں پورا کرنے کا حکم ہے۔
شوگر اور دردِ گردہ کے مریض پانی کی کمی یا خوراک کی کمی سے بعض اوقات روزہ ترک کردیتے ہیں۔ درحقیقت روزے کا تعلق سحری و افطار کے علاوہ انسان کی قوتِ ارادی (Will Power) سے بھی ہے۔ جو لوگ اللہ تعالیٰ کے حکم سے روزے کو ترک یا مؤخر نہ کرنے کا ارادہ کرلیتے ہیں وہ شوگر اور گردہ کے امراض کے ساتھ روزے کے سمندر میں چھلانگ لگاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی مدد سے ساحلِِ مراد تک پہنچ جاتے ہیں، بلکہ روزے کی برکت سے وہ صحت کا انمول تحفہ اللہ کے احسان کے طور پر وصول کرتے ہیں۔ اللہ کا وعدہ روزہ دار کے لیے برحق ہے۔ کاش ہم انسان صحت کے لیے روزہ کی افادیت کو کیش کرا سکیں۔