فاجعہ اور فاجۂ

عربی کا لفظ ہے اور الف کے نیچے زیر ہے۔ یہ روزے کی ضد ہے۔ تاہم ہمارے کئی ساتھی اب بھی الف پر زبر لگا کر اَفطار کرتے ہیں، چنانچہ ان کی اطلاع کے لیے ’’نشرِ مکرر‘‘۔ افطار زیر سے ہو یا زبر سے، مزے کا ہونا چاہیے، ورنہ غالب جیسے لوگ کہیں گے کہ:

جس پاس روزہ کھول کے کھانے کو کچھ نہ ہو
روزہ اگر نہ کھائے تو ناچار کیا کرے

ظاہر ہے کہ یہ مرزا کی بہانے بازی تھی، کیونکہ وہ پیے بغیر نہیں رہ سکتے تھے، اور اس کے لیے اُن کے پاس کچھ نہ کچھ ہوتا تھا۔ روزہ نہ رکھنے پر ان ہی کا ایک جملہ ہے ’’شیطان غالب ہے‘‘۔
اردو میں ایک اصطلاح ’’واقعہ فاجعہ‘‘ استعمال کی جاتی ہے۔ مفہوم کے اعتبار سے تو استعمال درست ہوتا ہے، لیکن ’’فاجعہ‘‘ کیا ہے بہت سے لوگ اس کے معنی سے واقف ہیں، لیکن جو نہیں جانتے اُن کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ عربی کے اس لفظ کا مطلب ہے: افسوس ناک، غم ناک، غم انگیز وغیرہ۔ اسی سے ملتا جلتا عربی کا ایک اور لفظ ہے ’’فاجۂ‘‘۔ اس کا مطلب ہے اچانک۔ ایسا لگتا ہے جیسے اس کی فاجعہ سے کوئی رشتہ داری ہو۔ جن کے منہ سے فاجعہ کا تلفظ ادا نہ ہوتا ہو وہ فاجۂ ہی کہہ لیتے ہوں گے۔ لیکن اردو میں اس کا استعمال نہیں ہے۔ ہم جیسے غیر عرب لوگوں سے ویسے بھی ’ع‘ کا صحیح تلفظ ادا نہیں ہوتا۔ جیسے ایک پاکستانی حرم میں بیٹھا ہوا کہہ رہا تھا ’’اللہ مافی (معافی)‘‘ اور برابر میں بیٹھا ہوا عرب مُصر تھا ’’اللہ فی‘‘۔ مافی کا مطلب ہے ’نہیں ہے‘۔ اور فی کا مطلب ہے ’’اللہ ہے‘‘۔ پاکستانی کے منہ سے معافی ’ع‘ کے اعلان کے ساتھ نہیں نکل رہا تھا۔ عام بول چال میں بھی ہم یہی کہتے ہیں: مافی دو یا ماف کرو بابا۔
ہمارے کچھ لکھنے والے ’’نذر‘‘ اور نظر میں گڑبڑ کرجاتے ہیں۔ ایک صاحب نے مضمون بھیجا جس پر تاکیداً لکھا ’’نذرِ کرم‘‘ کیجیے۔ یا یہ جملہ ’’کارکردگی نذر نہیں آتی‘‘۔ یہاں دونوں جگہ ’نظر‘ کو جنبش دینے کی ضرورت تھی، جیسے یہ مصرع ’’ادھر نظروں نے ہمت کی ادھر رخ پر نقاب آیا‘‘۔ نظر اور نذر کے بہت سے معانی ہیں جن سے سب ہی واقف ہیں۔ بس کبھی کبھی لکھنے والوں سے سہو ہوجاتا ہے۔ حیرت ہے کہ ہم نے بعض اہلِ زبان عربوں سے سہو کا تلفظ بروزن ’’وضو‘‘ سنا ہے۔
جسارت کے ادارتی صفحے پر ایک مضمون بعنوان ’’متقی کون ہے؟‘‘ کے عنوان سے چھپا ہے۔ اس میں ایک بڑا دلچسپ جملہ ہے ’’وہ چمڑے کے موزوں پر ’مسہ‘ کرتا ہے‘‘۔ یہ واضح نہیں کہ مسہ پر تشدید بھی ہے یا نہیں، لیکن کسی بھی قسم کے مسے کا تعلق چمڑے کے موزوں سے نہیں۔ ایک کہاوت، ضرب المثل یا جانے کیا ہے کہ ’’خال جب حد سے بڑھا مسہ کہلایا‘‘۔ مذکورہ مضمون بیرونِ ملک سے اور کمپوزڈ ہوکر آتا ہے تاہم اس کی اصلاح ہوجانی چاہیے تھی۔ یہ لفظ ’مسح‘ ہے۔ وضو کے لیے چمڑے کے موزوں پر مسح کیا جاسکتا ہے۔ ہم نے سعودی عرب میں فوجیوں کو بھاری فوجی بوٹوں پر مسح کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ ایسا شاید حالتِ جنگ میں جائز ہو۔ مسح سرکا بھی کیا جاتا ہے اور مسح کا مطلب ہے: پونچھنا، چھونا، ہاتھ پھیرنا، وضو یا غسل میں ہاتھ کسی عضو پر پھیرنا۔ اسی سے عربی کا لفظ ’’مسْحی‘‘ ہے، یعنی جس پر مسح جائز ہو جیسے چمڑے کا موزہ۔ حضرت عیسیٰؑ کا لقب مسیح اسی لیے ہے کہ وہ ہاتھ پھیر کر یا چھو کر مریضوں کو ٹھیک کردیا کرتے تھے۔ اسی نسبت سے عیسائی مسیحی کہلاتے ہیں۔
جسارت میں لکھنے والے بہت اچھے کالم نگار کبھی کبھی املا میں غلطی کرجاتے ہیں۔ مثلاً ایک کالم نگار بڑے اہتمام سے کوشش میں ایک ’ی‘ کا اضافہ کردیتی ہیں اور ’’کوشیش‘‘ لکھنا پسند کرتی ہیں۔ ’ی‘ کے بغیر بھی کوشش کامیاب ہوسکتی ہے۔ ’ذ‘ کی جگہ ’ز‘ لیتی جارہی ہے جیسے زمے داری۔ داری میں جن لوگوں کی دال نہیں گلتی وہ اسے ذمے واری لکھتے اور بولتے ہیں۔ ایک کالم نگار نے شاید مزاحاً ’’تنگ آمد بھجنگ آمد‘‘ لکھا ہے۔ بھجنگ بھی اردو کا لفظ ہے جو ہندی سے آیا ہے، لیکن اس کا کوئی تعلق ’’تنگ آمد‘‘ سے نہیں ہے۔ بجنگ آمد تو کرنل محمد خان کی مشہور کتاب ہے۔ بھجنگ (بھ پر پیش) ہندی میں نہایت کالے سانپ کو کہتے ہیں، لیکن اردو میں کسی بہت کالے شخص کو بھی بھجنگ کہہ دیتے ہیں، لیکن ’کالا‘ کے سابقے کے ساتھ یعنی ’کالا بھجنگ‘۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ’کالا‘ سانپ کو کہتے ہیں۔ فارسی میں کالا پونجی، اسباب، سامان کو بھی کہتے ہیں۔ فارسی کی مثل ہے ’’نے غم دُزد نے غم کالا‘‘۔ یعنی نہ چور کا غم نہ اسباب جانے کا ملال۔ اس بات کو مرزا غالب نے یوں کہا ہے:

نہ لٹتا دن کو تو کب رات کو یوں بے خبر سوتا
رہا کھٹکا نہ چوری کا دُعا دیتا ہوں راہزن کو

اس شعر سے ظاہر ہے کہ دلی میں بھی دن میں رہزنی ایسی ہی عام تھی جس کا مشاہدہ ہمیں ہوتا رہتا ہے لیکن لٹنے والا رات کو چین سے سو نہیں پاتا۔ گزشتہ دنوں ایک ’’بڑے‘‘ اخبار میں ایک مضمون کا عنوان دیکھا ’’الف لیلیٰ‘‘۔ الف کا تلفظ عموماً الف بے والا کیا جاتا ہے، جب کہ یہ اَلف ہے بروزن سلف، اور مطلب ہے ہزار۔ جیسا کہ قرآن کریم میں آیا ہے ’’خیرُ من الف شہر‘‘۔ یعنی ہزار مہینوں سے بہتر۔ لیلیٰ تو ایک ہی کافی تھی مجنوں بنانے کے لیے۔ اگر ہزار ہوتیں تو قیس کا کیا حال ہوتا! اس کا پورا قبیلہ عامر گریبان پھاڑ کر صحرائوں کا رُخ کرتا۔ سعودی عرب میں ایک شہر ’’لیلیٰ الافلاج‘‘ یعنی لیلیٰ کے چشمے سے منسوب ہے۔ روایت ہے کہ اس چشمے پر لیلیٰ کپڑے دھوتی تھی۔ یہ واضح نہیں ہے کہ صرف اپنے یا پورے قبیلے کے لیے دھوبی گھاٹ لگاتی تھی، اور قیس عامری عرف مجنوں گھات لگاتا تھا۔ کہنا صرف اتنا ہے کہ معروف داستان الف لیلیٰ کی لیلیٰ دراصل ’’لیلہ‘‘ ہے یعنی ہزار راتیں۔ داستان کا پورا نام الف لیلہ والیل ہے یعنی ایک ہزار ایک راتیں۔ لیلۃ القدر اسی ماہ رمضان میں آنے والی ہے۔ شب معراج کو لیلۃ الاسریٰ کہتے ہیں، اور پورے چاند کی رات کو لیلۃ البدر کہتے ہیں۔ چاند کی چودھویں رات ہندی میں پورن ماشی کی رات کہلاتی ہے۔ لیلیٰ چوں کہ شب رنگ یا سانولی تھی اس لیے اسے لیل سے نسبت دی گئی، اس کے باوجود قیس کو بھاگئی۔ چنانچہ کہا جاتا ہے ’’لیلیٰ را بہ چشم مجنوں باید دید‘‘۔ بات صرف اتنی ہے کہ عرب کے صحرا میں لڑکیاں کہاں نظر آتی تھیں۔ جو نظر آئی وہ لیلیٰ بن گئی۔ برعظیم پاک و ہند میں لکھے گئے پرانے ناولوں میں یہ پڑھا کہ ہیرو کسی لڑکی کو دیکھ کر غش کھا گیا۔ وجہ یہی ہے کہ وہ صرف اپنی ماں بہنوں کو دیکھتا تھا۔ یہ تو بہت بعد میں ہوا کہ اکبر الٰہ آبادی کو کہنا پڑا کہ:

بے پردہ کل جو آئیں نظر چند بیبیاں
اکبر زمیں میں غیرتِ قومی سے گڑ گیا

چند برس پہلے تک سعودی عرب میں بھی یہی صورتِ حال تھی کہ ’’ان بستیوں کے چاند ستاروں پہ کیا بنی‘‘۔ چنانچہ سعودی حضرات کسی بھی برقع والی کو چاند، ستارہ سمجھ بیٹھتے تھے۔ اب تو وہاں ماڈرن اسلام آرہا ہے۔