نئے انتخابات کے لیے 25 جولائی کی تاریخ کا اعلان کردیا گیا ہے۔ قیاس آرائیوں کے باوجود نگران وزیراعظم کے لیے عدالت عظمیٰ کے سابق سربراہ جسٹس (ر) ناصرالملک کے نام پر اتفاق ہوگیا ہے۔ جسٹس (ر) ناصرالملک کے نام پر سیاسی حلقوں میں بظاہر اتفاقِ رائے ہی نظر آرہا ہے، جب کہ ’’عدالتی فعالیت‘‘ کے تناظر میں حکمراں مسلم لیگ (ن) اور وفاق میں حزبِ اختلاف اور صوبہ سندھ میں حکمراں پاکستان پیپلز پارٹی نے یہ تاثر دیا تھا کہ کسی سابق جج کو نگران وزیراعظم نامزد نہیں کیا جائے گا۔ سیاسی حلقوں میں یہ تاثر بھی تھا کہ مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی نگران وزیراعظم کے نام پر اتفاق نہیں کرسکیں گی اور یہ معاملہ وزیراعظم اور قائدِ حزبِ اختلاف کے ہاتھ سے نکل کر الیکشن کمیشن میں چلا جائے گا اور نگران وزیراعظم کا فیصلہ بھی ’’غیبی طاقتیں‘‘ کریں گی، لیکن ہمیں یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ وزیراعظم اور قائدِ حزبِ اختلاف نے سیاسی امور پر نظر رکھنے والوں کو حیران کردیا اور نامزد نگران وزیراعظم کا نام سیاسی قیاس آرائیوں میں شامل ہی نہیں تھا۔ یہ بات اس اعتبار سے بھی حیران کن ہے کہ ’’احتساب‘‘ کے نعرے سے روایتی سیاسی جماعتیں جو ماضی میں حکمرانی سے لطف اندوز ہوتی رہی ہیں، سخت خوف زدہ ہیں اور وہ اس بیانیہ کو تقویت دے رہی ہیں کہ ’’خلائی مخلوق‘‘ (جس کے معنی سب جانتے ہیں) اور عدلیہ میں ایک بار پھر گٹھ جوڑ ہوگیا ہے اور وہ احتساب کے کٹہرے میں صرف سیاست دانوں کو کھڑا کرتے ہیں، حالانکہ پاکستان کی تاریخ میں اصل حکمرانی جرنیلوں، بیوروکریٹس اور ججوں نے کی ہے، یہ لوگ بھی کوئی دودھ کے دھلے ہوئے نہیں، جو خود قابلِ احتساب ہیں انہیں احتساب کا اختیار نہیں دیا جا سکتا۔ احتساب کا نعرہ سیاسی انجینئری کے لیے لگایا جاتا ہے۔ بدقسمتی سے یہ بیانیہ بے وزن نہیں ہے۔ ہمیں نوآبادیاتی دور سے جو طرزِ حکمرانی و سیاست ورثے میں ملا ہے اُس میںاصول و نظریات اور اخلاق و کردار کا حکمرانی سے کوئی جوڑ نہیں ہے۔ آزادی حاصل کیے ہوئے 70 برس سے زائد گزر چکے ہیں، حکمراں طبقے کے کردار اور ذہنی سانچے میں بہتری کے بجائے مزید ابتری آئی ہے ۔ اس بیانیہ میں وزن کے ساتھ یہ بھی مسئلہ ہے کہ سفید و خاکی افسر شاہی کے مقابلے میں سیاسی اداروں کی بالادستی کے دعویداروں نے طرزِ حکمرانی اور اہلیت کا کوئی اچھا نمونہ پیش نہیں کیا، اسی وجہ سے فوجی آمریت و استبداد کے بعد سیاسی آزادی کا تصور بھی سیاسی بحران کو حل نہیں کرسکا۔ اس تناظر میں حکومت اور حزبِ اختلاف کی جانب سے ایک سابق جج کے نام پر نگران وزیراعظم کے لیے اتفاقِ رائے ایک خوش آئند پیش رفت ہے۔ نگران وزیراعظم کا اصل کردار تو صرف یہ ہے کہ وہ صاف اور شفاف انتخابات کرانے کے بعد اقتدار نئی حکومت کو منتقل کردیں۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ کا المیہ یہ ہے کہ انتخابات ملک کو سیاسی استحکام دینے کا ذریعہ نہیں بن سکے ہیں، اس کے باوجود ہر سطح پر یہ اتفاق پایا جاتا ہے کہ انتخابات ہر صورت میں منعقد ہونے چاہئیں۔ امید یہ ہے کہ ہر قسم کے خدشات کے باوجود انتخابات اپنی مقررہ تاریخ کو ضرور منعقد ہوںگے، لیکن یہ انتخابات ایسے ہیں جن کے نتائج کی شفافیت پر پہلے سے ہی سوالیہ نشان لگادیے گئے ہیں۔ یہ نشان پاکستان کی سب سے طاقتور اور مقبول جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کی طرف سے لگائے گئے ہیں۔ اس لیے اس امر کا خدشہ بھی موجود ہے کہ انتخابات کے نتائج اور اس کے بعد قائم ہونے والی حکومت نئے سیاسی بحران کا ذریعہ بنے۔ یہ حقیقت ہے کہ پاکستان میں ہر انتخاب اور اس کے نتائج پر شکوک و شبہات کا اظہار کیا گیا، شکایات کا اظہار کرنے والی جماعتیں چھوٹی تھیں، اس لیے کبھی اُن کے اعتراضات کو وزن نہیں دیا گیا۔ پاکستان میں انتخابی دھاندلی کے خلاف سب سے بڑی عوامی تحریک 1977ء میں چلی جو ایک غیر معمولی تحریک تھی۔ بھٹو صاحب اور ان کی پیپلز پارٹی مقبول جماعت تھی لیکن وہ دو تہائی اکثریت حاصل نہیں کرسکتی تھی جو سیاسی آمریت کی ضرورت تھی، اس لیے انتخابات میں دھاندلی کی گئی۔ جنرل ضیا کی حادثاتی موت کے بعد ہونے والے انتخابات میں شفافیت کے سوالات اصغر خان کیس میں دستاویز بن چکے ہیں۔ 2013ء کے انتخابات میں دھاندلی کے خلاف تحریک انصاف نے دھرنا تحریک چلائی۔ خاص بات یہ ہے کہ جس شخصیت پر نگران وزیراعظم کے لیے اتفاق ہوا اُس کے پاس انتخابات میں دھاندلی کا مسئلہ گیا تھا۔ جسٹس(ر) ناصرالملک کی سربراہی میں کمیشن قائم کیا گیا تھا جسے اس بات کی تحقیق و تفتیش کرنی تھی کہ 2013ء کے انتخابات میں دھاندلی ہوئی تھی کہ نہیں۔ انہیں تحقیقات کے دوران 40 بے قاعدگیاں نظر آگئی تھیں مگر وہ ’’منظم دھاندلی‘‘ تلاش کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے تھے۔ جسٹس(ر) ناصرالملک کمیشن کی رپورٹ کے ذریعے حکومت ایک مشکل بحران سے نکل گئی تھی، اس لیے شاید جسٹس (ر) ناصرالملک حکومت کا انتخاب قرار پائے اور ان کی نیک نامی کی وجہ سے سیاسی حلقوں میں بھی اتفاقِ رائے ہوگیا۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پاکستان کی سیاست عالمی طاقتوں کی کشمکش کی اسیر ہے۔ بظاہر بیرونی قوتیں منظر پر نظر نہیں آرہی ہیں جس طرح وہ 2002ء اور 2008ء کے انتخابات سے قبل اور بعد نظر آئیں۔ سیاسی امور میں امریکہ، برطانیہ اور دیگر یورپی ملکوں کے علاوہ سعودی عرب، ترکی، عرب امارات کا کردار بھی تھا، اور پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی قیادتیں اس عمل کا حصہ رہی ہیں۔ اِس مرتبہ الیکشن کمیشن کی جانب سے خدشات سامنے آئے ہیں۔ الیکشن کمیشن کے سیکرٹری نے قانون کی پارلیمانی کمیٹی کے سامنے عرض کیا ہے کہ ان کے پاس ایسی اطلاعات ہیں جن کے مطابق عالمی قوتیں انتخابات کو سبوتاژ کرنا چاہتی ہیں جس کی وجہ سے سیکورٹی سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ اس سلسلے میں تفصیلات صرف ’’بند کمرے‘‘ کے اجلاس میں بتانے کے لیے تیار ہیں۔ صرف یہ ایک خبر نگران وزیراعظم کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہے۔