محمد راشد شیخ
ڈاکٹر قاری حافظ فیوض الرحمن 13 مئی 1941ء کو ایبٹ آباد کے گائوں ڈھیری کیہال میں پیدا ہوئے۔ آپ نے مولانا قاری فضل کریم صاحب کے مدرسہ تجدید القرآن لاہور سے حفظ قرآن بھی کیا اور دو سالہ محنت کے بعد فنِ قرأت کی سند بھی حاصل کی۔ بعدازاں آپ نے اپنی محنت سے جدید تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کی۔ پہلے 1960ء میں پنجاب بورڈ سے میٹرک، 1963ء میں انٹر اور 1965ء میں بی اے کے امتحانات پاس کیے۔ اس کے بعد آپ نے 1966ء میں پشاور یونیورسٹی سے ایم اے عربی، 1967ء میں پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے عربی (Comprehensive) 1968ء میں یہیں سے ایم اے (اسلامک اسٹڈیز)۔ 1969ء میں ایم اے (اردو)۔ 1970ء میں ایم اے (فارسی) اور 1977ء میں آپ نے پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ علوم اسلامیہ میں علامہ علاالدین صدیقی کی نگرانی میں پی ایچ ڈی کا مقالہ جمع کرایا جس پر 1981ء میں آپ کو پی ایچ ڈی کی ڈگری عطا کی گئی۔
ان اعلیٰ تعلیمی اسناد کے بعد آپ شعبہ تدریس سے وابستہ ہوگئے اور 1970ء تا 1977ء ابتدا میں مختصر عرصہ گورنمنٹ کالج شیخوپورہ اور اس کے بعد گورنمنٹ کالج ایبٹ آباد میں بطور صدر شعبہ اسلامیات خدمات انجام دیں۔ 1977ء میں آپ کا پاکستان آرمی (ایجوکیشن کور) میں ڈائریکٹ میجر کے طور پر تقرر ہوا اور ملٹری اکیڈمی کاکول میں بطور انسٹرکٹر عربی اسلامیات اور بعدازاں صدر شعبہ عربی و اسلامیات خدمات انجام دیں۔ 1993ء تا 1998ء آپ جی ایچ کیو (راولپنڈی) میں مذہبی امور کے ڈائریکٹر رہے۔ بعدازاں فوج سے ریٹائرمنٹ کے بعد 1998ء تا 2000ء نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی (NUST) میں پروفیسر رہے۔ 2001ء تا 2002ء آپ نے ڈیفنس ہائوسنگ اتھارٹی (DHA) کراچی میں شعبہ مذہبی امور اور شعبہ تعلیم کے ڈائریکٹر کے طور پر خدمات انجام دیں۔ آج کل ملیر کینٹ میں مقیم ہیں۔
ڈاکٹر قاری فیوض الرحمن صاحب طویل عرصے سے اپنے قلم اور زبان کے ذریعے دینی اور علمی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ آپ کی چھوٹی بڑی کتب کی کل تعداد 200 سے کچھ زائد اور مطبوعہ مقالات کی تعداد 500 سے زائد ہے۔ آپ کی معروف کتب میں چند یہ ہیں: مشاہیر علماء سرحد، معاصرین اقبال، اسلام کا نظام حیات، نامور مسلم سپہ سالار، مولانا قاری عبدالمالک صدیقی، سوانح قاری فضل کریم، علمائے پاکستان کی تفسیری خدمات، سوانح مولانا رسول خان، حضرت مولانا احمد علی لاہوری، سوانح مولانا خلیل احمد مہاجر مدنی، جواہر الحدیث، کتاب التجوید و دیگر کتب۔
آگے ہم ڈاکٹر قاری فیوض الرحمن صاحب کی 3 جدید کتب کا تعارف و تبصرہ پیش کریں گے۔
(1) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی 55 وصیتیں
مرتب: حمزہ محمد صالح عجاج
مترجم: ڈاکٹر قاری فیوض الرحمن
ضخامت: 150 صفحات
اشاعت: جنوری 2018ء
ناشر: مسجد الفرقان، ملیر کینٹ بازار کراچی
اللہ تعالیٰ کا قرآن پاک میں ارشاد ہے:
’’رسولؐجو تمہیں دیں وہ لے لو اور جس سے روکیں، رک جائو‘‘۔ (سورۃ الحشر)
مسلمانوں کے لیے نہایت ضروری ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر مضبوطی سے عمل کریں اور اس کی نشر و اشاعت کے لیے بھرپور کوششیں کریں۔ یہ کتاب بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے جس میں حمزہ محمد صالح عجاج (مدینہ منورہ) نے بڑی محنت سے حدیث کی ضخیم کتابوں کے مطالعے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی 55 وصیتوں کا مجموعہ تیار کیا اور اس کے حقوقِ اشاعت عام کردیے۔ اگرچہ یہ وصیتیں آپؐ نے صحابہ کرام کو کیں مگر یہ تمام مسلمانوں کے لیے دنیا و آخرت کی فلاح کا راز ہیں۔ ان وصیتوں پر عمل کرنے کا مسلمانوں کو یہ فائدہ ہوگا کہ یہ اللہ کے لیے سجدہ، روزہ، نماز، تہجد، علم، صدقہ، تسبیح کی فضیلت بیان کرتی ہیں۔ نیز والدین کی اطاعت، اخلاقی خوبیوں، صلہ رحمی، پڑوسیوں کی خبر گیری، بھوکوں کو کھانا کھلانے، غریبوں اور مسکینوں کے ساتھ محبت کرنے اور ان کے علاوہ دیگر کئی نیک اعمال کرنے پر اُبھارتی ہیں۔ کتاب میں ہر وصیت کا عربی متن اور اس کے نیچے سلیس اور آسان اردو میں ترجمہ شائع کیا گیا ہے۔ ہر وصیت کے متن اور ترجمے کے بعد قوسین میں حدیث کا حوالہ بھی درج ہے۔ یہ کتاب گو مختصر ہے لیکن اپنے موضوع کے لحاظ سے اس قدر اہم ہے کہ اس کی زیادہ سے زیادہ اشاعت ہونی چاہیے، اور اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ان قیمتی وصیتوں پر عمل کیا جائے تو ہمارا موجودہ معاشرہ جنت کا نمونہ بن سکتا ہے۔ کتاب کی ایک اضافی خوبی یہ ہے کہ سلیس ترجمہ، مختصر عبارات اور عمدہ پیشکش کی بنا پر اس سے استفادہ کرنا انتہائی سہل ہے۔
پروفیسر غازی احمد صاحبؒ (سابق کرشن لال)
مرتب: ڈاکٹر حافظ قاری فیوض الرحمن
ضخامت: 188 صفحات
اشاعت: ستمبر 2017ء
ناشر: مسجد الفرقان، ملیر کینٹ بازار کراچی
پروفیسر غازی احمد مرحوم کی خود نوشت سوانح حیات (من الظلمات الیٰ النور۔ کفر کے اندھیروں سے نورِ اسلام تک) سے اردوداں قارئین بخوبی واقف ہیں۔ آپ 1922ء میں بوچھال کلاں (چکوال) کے ایک کٹر ہندو گھرانے میں پیدا ہوئے۔ آٹھویں جماعت میں زیر تعلیم تھے کہ آپ کو خواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت ہوئی اور کلمہ پڑھایا۔ اس کے بعد غازی احمد کرشن لال نہ رہے بلکہ نماز جمعہ کے بعد کثیر مجمع کے سامنے اسلام قبول کرنے کا اعلان کیا اور کلمہ شہادت پڑھا۔ اس کے بعد ان کی زندگی کا ابتلا اور آزمائشوں کا دور شروع ہوا۔ والد نے اور خاندان والوں نے پوری کوشش کی کہ اسلام سے نکل کر پھر ہندو مذہب اختیار کرلیں۔ شدید زدوکوب کیا، مقدمات میں پھنسایا، یہاں تک کہ ایک روز اتنا مارا کہ سارا لباس خون آلود ہوگیا، لیکن غازی احمد نے تمام تکلیفیں برداشت کیں مگر اسلام کا دامن جو ایک مرتبہ پکڑا تو تمام عمر نہ چھوڑا۔ تقسیم کے بعد غازی احمد کے تمام گھر والے بھارت منتقل ہوگئے لیکن یہ پیکر عزم و ہمت پاکستان ہی میں رہا۔ یہاں رہ کر انہوں نے درس نظامی کی تکمیل کی۔ انٹر، بی اے، بی ٹی کیا اور ایم اے عربی و اسلامیات میں پنجاب یونیورسٹی سے گولڈ میڈل حاصل کیا۔
بعدازاں انہوں نے پنجاب یونیورسٹی شعبہ علوم اسلامیہ میں بطور مدرس خدمات انجام دیں اور اپنے گائوں بوچھال کلاں کے کالج میں پروفیسر اور پرنسپل رہے۔ غازی احمد مرحوم نے سیرتِ طیبہ کے موضوع پر پورے ملک میں مختلف مقامات پر خطاب فرمایا، حدیث کی معروف کتاب ہدایہ کا اردو ترجمہ کیا اور کئی دینی کتب لکھیں۔ آپ کا انتقال 25 اگست 2010ء کو بوچھال کلاں میں ہوا۔ قبولِ اسلام کے بعد سے وقتِ انتقال تک ان کی زندگی سچے، نیک اور باعمل مسلمان کی زندگی گزری۔ آپ کی معروف آپ بیتی کے انگریزی اور عربی تراجم بھی شائع ہوئے۔
پیش نظر کتاب میں ڈاکٹر قاری فیوض الرحمن صاحب نے پروفیسر غازی احمد کی مختصر سوانح، ان کے بارے میں تین مضامین، ان کے انتقال پر تعزیتی خطوط اور مرحوم کے 15 اہم مقالات شائع کیے ہیں۔ سب سے آخر میں پروفیسر غازی احمد کے 43 خطوط بنام ڈاکٹر قاری فیوض الرحمن شائع کیے ہیں۔ یہ یادگار خطوط پہلے کمپوز شدہ شکل میں اور اس کے بعد عکسی شکل میں شاملِ اشاعت ہیں۔
ڈاکٹر قاری فیوض الرحمن قابلِ مبارک باد ہیں کہ ہمارے عہد کی ایک منفرد شخصیت اور باعمل اور باکردار مسلمان کے بارے میں یہ معلومات افزا کتاب مرتب فرمائی۔ حقیقت یہ ہے کہ اس کتاب کے مطالعے سے قاری کے دل میں حوصلہ پیدا ہوتا ہے کہ دینِ حق کی راہ میں اگر مشکلات بھی آئیں تو کس طرح صبر و برداشت کا دامن تھاما جاسکتا ہے۔ پروفیسر غازی احمد مرحوم کی سوانح سے ہمیں یہی سبق ملتا ہے۔
یادگار خطوط: ڈاکٹر حافظ قاری فیوض الرحمن کے خطوط کا مجموعہ
مرتب: ڈاکٹر عبدالشکور عظیم
ضخامت: 802 صفحات
اشاعت: نومبر 2017ء
ناشر: مسجد الفرقان، ملیر کینٹ بازار، کراچی
خطوط نویسی ادب کی ایک اہم صنفِ سخن ہے۔ بعض ماہرینِ زبان کا خیال ہے کہ مختلف اصنافِ سخن میں سب سے فطری صنف مکتوب نگاری یا خطوط نویسی ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ مکتوب نگار تحریر کے وقت بالکل بے تکلف انداز میں خط لکھتا ہے کیوں کہ اُس کے ذہن میں یہ بات نہیں ہوتی کہ کبھی اس مکتوب کی اشاعت بھی ہوگی۔ اردو زبان میں ادبی مکتوب نگاری کے علاوہ دینی اور اصلاحی مکتوب نگاری کے حوالے سے بھی قابلِ قدر کام ہوا ہے اور بزرگانِ دین کے مکاتیب اور ان مکاتیب کے اردو تراجم کثرت سے شائع ہوئے ہیں۔ پیش نظر کتاب بھی دینی اور اصلاحی مکتوب نگاری کے ذخیرے میں اہم اضافہ ہے۔ ڈاکٹر قاری فیوض الرحمن صاحب بڑی مستقل مزاجی سے پاکستان میں طویل عرصے سے دینی اور اصلاحی کام کررہے ہیں۔ ان کے تعلقات پاکستان کے چپے چپے پر موجود دینی اداروں، تعلیمی اداروں، اساتذہ، مشائخ و افواجِ پاکستان کے ذمے دار افسروں سے ہیں۔ آپ کے مزاج میں شفقت، محبت اور مسلمانوں کے لیے جذبۂ خیر خواہی کا عنصر بہت زیادہ ہے اور یہی خصوصیت آپ کے ہر ہر مکتوب سے ظاہر ہے۔ طویل عرصے سے آپ کی مکاتبت علماء کرام، اساتذہ کرام اور بزرگانِ دین سے ہے۔ بلامبالغہ آپ نے اردو، عربی اور انگریزی میں ہزاروں خطوط لکھے۔ ان میں سے محفوظ یا شائع شدہ خطوط پیش نظر کتاب میں یکجا کیے گئے ہیں۔ زیادہ تر خطوط اردو میں ہیں، چند ایک عربی میں بھی ہیں۔ دُعا ہے اللہ تعالیٰ ڈاکٹر قاری فیوض الرحمن صاحب کو صحت و عافیت عطا فرمائے اور آپ کے ذریعے مسلمانوں کو زیادہ سے زیادہ فیض پہنچائے۔ (آمین)