پاکستان میں بھارتی لابی اور اس کا نفسیاتی سانچہ

پاکستان میں بھارتی لابی ہر جگہ موجود ہے۔ سیاست دانوں میں، صحافیوں میں، دانش وروں میں، شاعروں میں، اداکاروں میں، گلوکاروں میں، یہاں تک کہ جرنیلوں میں بھی۔ اس لابی کے ذہنی اور نفسیاتی سانچے کی پہچان بہت آسان ہے۔ بھارتی لابی کے لوگ کبھی بھی قیامِ پاکستان، تخلیقِ پاکستان، یا پاکستان کی آزادی کی اصطلاحیں استعمال نہیں کرتے۔ وہ ہمیشہ پاکستان کے قیام کے سلسلے میں ’’تقسیم‘‘ کی اصطلاح استعمال کرتے ہوئے پائے جائیں گے۔ اس لابی کے افراد ہمیشہ یہ کہیں گے کہ بھارت اور پاکستان کی ہر چیز ایک جیسی ہے… مثلاً ہماری زبان، کھانا پینا۔ یہ لوگ سرحد کو کبھی سرحد نہیں کہتے، بلکہ ’’لکیر‘‘ کہتے ہیں۔ اس لابی کے لوگوں کی گفتگو سے ہمیشہ ظاہر ہوگا کہ بھارت ایک بہت بڑا ملک ہے اور پاکستان کو چاہیے کہ وہ بھارت کا ’’چھوٹا‘‘ بلکہ ’’اسپارکل چھوٹو‘‘ بن کر رہے۔ بھارتی لابی اوّل تو بھارت کی جارحانہ تاریخ کا ذکر ہی نہیں کرتی، اور کرتی ہے تو جارحیت کے سلسلے میں دونوں کو ’’مساوی طور پر‘‘ ذمے دار قرار دیتی ہے، یا دوطرفہ تعلقات کی خرابی کی ساری ذمے داری پاکستان پر ڈال دیتی ہے۔
زیرِ بحث موضوع کے حوالے سے آپ میاں نوازشریف کی گفتگو تو سنتے ہی رہے ہیں۔ آج میاں نوازشریف کے دو صحافتی پرستاروں کی ’’آکاش وانی‘‘ ملاحظہ کیجیے۔ زاہدہ حنا اردو کی معروف افسانہ نگار اور کالم نویس ہیں۔ انہوں نے اپنے ایک حالیہ کالم میں کیا فرمایا خود انہی کے الفاظ میں ملاحظہ کیجیے، لکھتی ہیں:
’’برسوں بیتے، کوئی دن ایسا نہیں ہوتا جب اخبار کے صفحوں پر یہ خبر نظر سے نہ گزرتی ہو کہ سرحد کے دونوں طرف گولیاں چلیں، اور ان گولیوں سے ہلاک ہونے والے لوگوں کی تعداد ہوتی ہے۔ کبھی کبھی کسی بکری، کسی میمنے کا بھی ذکر ہوتا ہے جو سرحد پار سے آنے والی کسی گولی کا شکار ہوگیا۔ یہ خبریں پڑھتے ہوئے جی چاہتا ہے دونوں طرف کے ان بے گناہوں کی لاشوں پر نظر ڈالیں۔ کوئی رخسانہ، کوئی رکمنی، کوئی ببلو اور کوئی گولو، کوئی مکھن سنگھ اور کوئی عبدالرشید۔ لیکن ہمارے ہاتھ اتنے لمبے کہاں کہ ان جانے والوں کو پہچان سکیں۔ ان کے پیچھے رہ جانے والوں سے ان کا پرسہ کرسکیں۔ ایسے میں بے ساختہ گلزار کی نظم ’’دستک‘‘ یاد آتی ہے۔‘‘
(روزنامہ ایکسپریس۔ 23 مئی 2018ء)
آپ نے دیکھا اس اقتباس میں بھارتی لابی کی مخصوص ذہنیت پوری طرح جلوہ گر ہے۔ زاہدہ حنا کو شکایت ہے کہ پاکستان اور بھارت برسوں سے سرحد پر لڑے جارہے ہیں، اور ان کی لڑائی سے ’’دونوں طرف‘‘ بے گناہ افراد مارے جارہے ہیں۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ سرحد یا جنگ بندی لائن پر ’’دونوں ملک‘‘ کہاں لڑ رہے ہیں! صرف بھارت لڑرہا ہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ 2017ء میں بھارت نے جنگ بندی لائن کی 1300 سے زیادہ بار خلاف ورزی کی۔ پاکستان کے ان اعداد و شمار کو بھارت کے ممتاز اخبار انڈین ایکسپریس نے اپنے صفحات پر جگہ دی۔ 2018ء کو شروع ہوئے ابھی صرف پانچ ماہ ہوئے ہیں اور بھارت 190 مرتبہ جنگ بندی لائن کی خلاف ورزی کرچکا ہے۔ بھارت کے اس جارحانہ رویّے سے اب تک 13 عام شہری جاں بحق اور 65 زخمی ہوچکے ہیں۔ زاہدہ حنا انصاف سے کام لیں اور بتائیں کہ پاکستان نے 2017ء سے اب تک جنگ بندی لائن کی کتنی بار خلاف ورزیاں کی ہیں؟ اور اس کی فائرنگ یا گولہ باری سے کتنے بے گناہ ’’بھارتی شہری‘‘ ہلاک ہوئے ہیں؟ اخبارات کے صفحات اور ٹیلی ویژن چینلوں کی خبریں گواہ ہیں کہ پاکستان نے گزشتہ ڈیڑھ برس میں کئی بار اقوام متحدہ کے مبصرین اور بین الاقوامی برادری کے نمائندوں کو جنگ بندی لائن کی صورتِ حال سے آگاہ کیا ہے اور ان کو سرحد کا دورہ کروایا ہے۔ زاہدہ حنا بتائیں کہ بھارت نے ڈیڑھ برس میں کتنی بار یہ ’’نیک کام‘‘ کیا ہے؟ ظاہر ہے کہ بھارت جنگ بندی لائن کی خلاف ورزی کرتا ہے تو پاکستان بھی جواب میں کچھ نہ کچھ تو کرتا ہی ہوگا۔ لیکن پاکستان چاہ کر بھی سرحد کے اُس پار عام شہریوں کو نشانہ نہیں بناسکتا، کیوں کہ سرحد کے ’’اُس پار‘‘ وہ کشمیری رہتے ہیں جو پاکستان کے ساتھ الحاق چاہتے ہیں۔ چناں چہ پاکستان جواب دیتا بھی ہے تو وہ بھارت کے فوجی ٹھکانوں کو نشانہ بناتا ہے۔ چناں چہ زاہدہ حنا کا یہ خیال ایک سفید جھوٹ کے سوا کچھ نہیں کہ سرحد کے ایک طرف ’’رخسانہ‘‘ مرتی ہے تو دوسری طرف ’’رکمنی‘‘ ماری جاتی ہے۔ بلاشبہ سرحد کے اِس طرف رخسانائیں شہید ہورہی ہیں مگر سرحد کے اُس طرف مارے جانے کے لیے کوئی ’’رکمنی‘‘ اور کوئی ’’ببلو‘‘ موجود ہی نہیں۔
ظلم کے سلسلے میں پاکستان اور بھارت یا مسلمانوں اور ہندوئوں کو ’’یکساں‘‘ دکھانے کی ’’نفسیات‘‘ سیکولر اور بائیں بازو کے لوگوں کی بہت پرانی نفسیات ہے۔ اردو ادب میں اس کا سب سے بڑا مظہر اردو کے ممتاز افسانہ نگار اور ’’ترقی پسند‘‘ ادیب کرشن چندر ہیں۔ موصوف نے 1947ء میں ہونے والے فسادات پر جتنے افسانے لکھے ہیں ان میں انہوں نے دس مسلمان مروائے ہیں تو دس ہی ہندوئوں کو موت کے گھاٹ اتارا ہے۔ انہوں نے ایک مسلمان عورت کو اغوا ہوتے دکھایا ہے تو ایک ہندو عورت کو بھی مسلمانوں کے ہاتھوں بے عصمت ہوتے دکھایا ہے۔ اس طرزِعمل کو ’’انسانی‘‘ کہا جاتا رہا ہے۔ بلاشبہ ظلم مسلمان کے ساتھ ہو یا ہندو کے ساتھ، ظلم ظلم ہوتا ہے مگر ’’انسانیت‘‘ جھوٹ بولنے کا نام نہیں۔ انسانیت کو جہاں یہ دیکھنا چاہیے کہ ظلم کس کے ساتھ ہوا، وہیں ’’انسانیت‘‘ کی ذمے داری یہ بھی ہے کہ وہ یہ بتائے کہ ظلم کا آغاز کرنے والے کون تھے، ہندو یا مسلمان؟ یہ سوال اس لیے اہم ہے کہ برصغیر کے مسلمان ایک چھوٹی سی اقلیت تھے۔ وہ ’’چاہ‘‘ کر بھی فسادات شروع نہیں کرسکتے تھے۔ چناں چہ مار کاٹ ہندوئوں نے شروع کی اور انہوں نے سکھوں کو اپنے بازوئے شمشیر زن کے طور پر استعمال کیا۔ بلاشبہ مسلمانوں نے بھی مار کاٹ میں حصہ لیا، مگر ’’ردِعمل‘‘ میں۔ بلاشبہ ردِعمل میں کیا جانے والا جرم بھی جرم ہی ہوتا ہے، مگر دنیا کی ہر عدالت ردِعمل کی نفسیات کے لیے گنجائش پیدا کرتی ہے اور اس کے سلسلے میں نرمی کا مظاہرہ کرتی ہے۔ مگر پاکستان میں موجود بھارتی لابی اس فرق کو کبھی خاطر میں نہیں لاتی اور ’’حقیقی انسانیت‘‘ کے بجائے ’’جعلی انسانیت‘‘ کے مظاہرے میں لگی رہتی ہے۔ ظلم کے سلسلے میں ظلم کا ’’حجم‘‘ بھی اہم ہوتا ہے۔ قیام پاکستان کے وقت ہونے والے فسادات میں اگر مسلمانوں نے دس ہزار ہندو مارے ہوں گے تو ہندوئوں اور سکھوں نے دس لاکھ مسلمانوں کو قتل کیا ہے۔ مگر ترقی پسند، سیکولر عناصر اور بھارتی لابی کے لوگ اس دائرے میں بھی مسلمانوں اور ہندوئوں کو ’’ایک مقام‘‘ پر لاکھڑا کرتے ہیں۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو ترقی پسند، سیکولر عناصر اور بھارتی لابی کے اراکین کی انسانیت ایک اور دائرے میں جعلی، مصنوعی، سرسری، سطحی، مسلمان اور پاکستان دشمن ثابت ہوجاتی ہے۔ آئیے زیر بحث موضوع کے حوالے سے ایک اور مثال کا تجزیہ کرتے ہیں۔
مسعود اشعر پاکستان کے ترقی پسند ادیبوں میں سے ایک ہیں۔ انہوں نے اپنے ایک حالیہ کالم میں اس بات کا ماتم کیا ہے کہ فیض احمد فیض کی صاحبزادی منیزہ ہاشمی دِلّی گئیں مگر انہیں وہاں نہ ’’میڈیا سمٹ‘‘ میں شریک ہونے دیا گیا، نہ دلّی میں ٹھیرنے دیا گیا، حالاں کہ انہیں میڈیا سمٹ میں باضابطہ طور پر بلایا گیا تھا۔ منیزہ ہاشمی کے حوالے سے مسعود اشعر کو یہ بات بھی یاد آئی کہ کچھ عرصہ قبل معروف شاعرہ کشور ناہید کو بھی دلّی میں مشاعرہ نہیں پڑھنے دیا گیا تھا۔ ان واقعات پر ماتم کے بعد مسعود اشعر نے جو کچھ لکھا انہی کے الفاظ میں ملاحظہ کیجیے، لکھتے ہیں:
’’لیکن جیسے ہم نے عرض کیا اس معاملے پر ہمیں بھی ٹھنڈے دل سے غور کرنا ہوگا۔ آخر کیا وجہ ہے کہ ہندوستان کے عوام پاکستان سے اتنی نفرت کرنے لگے ہیں کہ ایک دوسرے کی شکل بھی دیکھنا نہیں چاہتے؟ اور دونوں ملکوں کی حکومتیں ایک دوسرے سے اتنے فاصلے پر چلی گئی ہیں کہ آپس میں بات کرنے کو بھی تیار نہیں ہیں؟ ان حالات میں اگر میاں نوازشریف ممبئی حملے کے بارے میں کوئی بات کرتے ہیں تو اس پر ہم ناراض کیوں ہوتے ہیں؟ انہوں نے وہی بات تو کی ہے جو ہمارے ملک کے سنجیدہ حلقے شروع سے ہی کہتے چلے آرہے ہیں۔
پھر ہمیں یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ اس مسئلے پر ساری دنیا کیا کہہ رہی ہے۔ دنیا ہمارے ساتھ نہیں ہے۔ اگر چین کو چھوڑ دیں تو دنیا میں کوئی بھی ہمارے مؤقف کے ساتھ نہیں ہے۔ دنیا کو قائل کرنے کے لیے بھی ہمیں بہرحال سچ بولنا ہی پڑے گا۔ اور یہ سچ ہی پاکستان اور ہندوستان کے درمیان بڑھتی ہوئی نفرت کم کرسکتا ہے۔ اگر سچائی کا سامنا کرنے سے تلخی کم کرنے میں مدد ملتی ہے تو ہمیں بہادری کے ساتھ ایسا کرنا چاہیے۔ اگر ہم ایسا نہیں کریں گے تو ہماری منیزہ ہاشمی اور کشور ناہید کے ساتھ وہی ہوتا رہے گا جو دلی میں ہوا ہے۔ مان لیا کہ اس معاملے میں ہندوستانی مہمانوں کے ساتھ ہمارا رویہ وہ نہیں ہوتا جو ہندوستان میں پاکستانی مہمانوں کے ساتھ ہورہا ہے۔ لیکن ہمیں یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ بمبئی اور پٹھان کوٹ جیسے واقعات کہاں ہوئے ہیں؟ ہمیں الزام تراشیوں سے بالا ہوکر اس سوال پر کبھی تو غور کرنا ہوگا کہ کیا ہم اس خطے میں اسی طرح کشیدگی برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔‘‘
(روزنامہ جنگ۔ 15 مئی 2018ء)
آپ نے دیکھا، مسعود اشعر نے پاک بھارت تعلقات کی پوری تاریخ کو نظرانداز کرتے ہوئے تعلقات میں خرابی کی ساری ذمے داری پاکستان کے سر تھوپ دی ہے، وہ بھی پاکستان میں رہتے ہوئے… دن دہاڑے… ملک کے سب سے بڑے اخبار میں کالم کے ذریعے۔ لیکن اصل مسئلہ یہ نہیں ہے۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ مسعود اشعر نے جو کچھ کہا ہے، جھوٹ، دھوکے اور مکر و فریب کے سوا کچھ نہیں۔ پاک بھارت تعلقات کی تاریخ گواہ ہے کہ پاک بھارت تعلقات میں خرابی کا ذمے دار صرف اور صرف بھارت ہے۔ قائداعظم پاکستان اور بھارت کے درمیان امریکہ اور کینیڈا جیسے تعلقات چاہتے تھے، مگر بھارت نے قائداعظم کی زندگی ہی میں کشمیر پر طاقت کے ذریعے قبضہ کیا۔ اُس وقت پاکستان کی عسکری اور مالی طاقت کچھ بھی نہیں تھی، مگر اس کے باوجود قائداعظم نے جنرل گریسی کو کشمیر میں بھارت کے مقابلے کا حکم دیا۔ بھارت نے پاکستان کے حصے کی رقم روک لی اور اتنی ہٹ دھرمی دکھائی کہ موہن داس کرم چند گاندھی کو تادم مرگ بھوک ہڑتال کرنی پڑ گئی۔ بھارت ہی نے مسلم کُش فسادات کرائے، دونوں قوموں کے درمیان آگ اور خون کا دریا تخلیق کیا۔ بھارت نے کبھی پاکستان کو دل سے تسلیم نہیں کیا۔ بھارت نے صرف کشمیر پر نہیں بلکہ جونا گڑھ اور حیدرآباد پر بھی قبضہ کیا۔ اس کے جواب میں پاکستان نے بھارت کے کس حصے پر پنجے گاڑے؟ پاکستان نے بھارت کے کتنے وسائل پر ڈاکا ڈالا؟ مسلم قیادت نے کیا ہندوئوں کے قتلِ عام کا منصوبہ بنایا؟ بھارت مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ میں لے گیا مگر اس نے 70 برس میں کبھی کشمیر میں استصوابِ رائے نہیں ہونے دیا۔ بھارت نے 1971ء میں پاکستان کو دولخت کرنے میں مرکزی کردار ادا کیا اور وہ اب تک اس کردار پر ناز کرتا ہے۔ بھارت نے ہی سیاچن پر قبضہ کرکے دونوں ممالک کے درمیان ایک نیا تنازع برپا کیا۔ بھارت بچے کھچے پاکستان کے بھی درپے ہے۔ وہ بلوچستان میں حالات کی خرابی کا ذمے دار ہے۔ وہ افغانستان کو پاکستان کے خلاف استعمال کررہا ہے۔ وہ الطاف حسین کے سر پر ہاتھ رکھے کھڑا ہے۔ وہ میاں نوازشریف کے سلسلے میں گاڈ فادر کا کردار ادا کررہا ہے۔ اس کے جواب میں پاکستان نے بھارت کے خلاف جو کچھ کیا ہے اس کی نوعیت بھارت کے پیٹ میں ’’گُدگُدیوں‘‘ سے زیادہ نہیں۔ پاکستان کے سول اور فوجی حکمرانوں میں اس سے زیادہ کی جرأت ہی نہیں۔ مگر مسعود اشعر پاک بھارت تعلقات کی ساری خرابی کا ذمے دار پاکستان کو قرار دے رہے ہیں۔ انہوں نے سوال اُٹھایا ہے کہ آخر دنیا ہمارے مؤقف کو کیوں اہمیت نہیں دے رہی؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان کا مؤقف ایک اسلامی ملک کا مؤقف ہے۔ اسرائیل 70 سال سے فلسطینیوں پر ظلم کررہا ہے، آخر دنیا نے کب اسرائیل کے خلاف فلسطینیوں کی مدد کی ہے؟ برما روہنگیا مسلمانوں پر ظلم کررہا ہے، آخر دنیا ان کی مدد کیوں نہیں کررہی؟ چین سنکیانگ میں مسلمانوں پر ظلم کررہا ہے، آخر دنیا سنکیانگ کے مسلمانوں کی بات کیوں نہیں سن رہی؟ ان سوالات کا ایک ہی جواب ہے۔ دنیا نے کبھی مسلمانوں کی آواز نہیں سنی۔ ان سوالات کا دوسرا جواب یہ ہے کہ طاقت ور کبھی کمزور کی بات سنتے ہیں نہ اس کی بات مانتے ہیں۔