قسط نمبر 2
جو کچھ اُس وقت کہا تھا اس کا لب لباب کچھ یوں تھا:
پنجاب میں پولیس نے نوجوانوں کو ننگا کیا، یہ قوم کی توہین ہے، یہ نوجوانوں کی توہین ہے۔ پولیس کو شرم آنی چاہیے، ڈوب مرنا چاہیے۔ اپنی ہی قوم کے ساتھ یہ سلوک شرمناک اور قابلِ نفرت ہے۔ لیکن پولیس کو یاد رکھنا چاہیے کہ یہ بلوچستان ہے، پنجاب نہیں ہے۔ یہاں اگر پولیس نے کسی نوجوان یا طالب علم کے ساتھ ایسا کیا تو بلوچستان میں خون بہے گا۔ سڑکوں پر لاشیں نظر آئیں گی اور بلوچستان کے لوگ انتقام لیں گے۔ خبردار اگر ایسی حرکت کی۔ یہ ساری کارروائیاں بھٹو کے زیر سایہ ہورہی ہیں۔ بلوچستان کی منتخب حکومت کو سازش کے ذریعے ختم کیا گیا۔ جمہوریت کو قتل کیا گیا، اور نواب بگٹی اس سازش میں شریک ہیں۔ بگٹی صاحب آپ کا تعلق بلوچستان سے ہے، آپ تو بلوچستان کے فرزند ہیں۔ آپ کیوں اپنا دامن داغ دار کرتے ہیں! جہاں تک بھٹو کی بات ہے تو میں اس کو پاکستان کا غدار سمجھتا ہوں۔ ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان توڑا ہے۔ میں اس کی حکومت کو تسلیم نہیں کرتا۔ نہ میں اُس پاکستان کو تسلیم کرتا ہوں جو نیا پاکستان ہے اور جو بھٹو کا پاکستان ہے۔ میں تو صرف اُس پاکستان کو جانتا ہوں جو 1947ء میں بنا تھا۔ جو قائداعظم کا پاکستان تھا، جس کے لیے لاکھوں انسانوں نے اپنے خون کی قربانی دی تھی۔ اور فوج نے مشرقی پاکستان میں ہتھیار ڈالے ہیں۔ فوج عوام پر سنگین نہ تانے۔ جائے، جاکر بھارت سے اپنا بدلہ لے۔ اس لیے کہ مسلمان اپنی شکست کا بدلہ ضرور لیتا ہے۔ انتقام لیتا ہے۔
جلسہ گاہ کے اطراف کی سڑکوں پر مسلح پولیس کے دستے ٹرکوں پر موجود تھے۔ ان پر نظر پڑی تو روئے سخن اُس طرف ہوگیا۔ میں نے کہا:
ہمیں کوئی خطرہ نہیں ہے کہ آپ یہاں مسلح کھڑے ہیں۔ ہم عوام کی نمائندگی کررہے ہیں، اُن محروم عوام کی جن کے حقوق پر ڈاکا ڈالا گیا ہے۔ مظلوم اور غریب عوام پر گولیاں چلاتے ہو! ہمارے ہاتھ میں بھی بندوقیں ہوں گی تو پھر دیکھیں گے کہ گولیاں کون چلاتا اور بھاگتا کون ہے!
تقریر کے دوران نعرے شدت سے گونج رہے تھے اور فضا عوام کے جوش و خروش سے دہل رہی تھی۔ جلسہ اپنے شباب پر تھا۔ نواب بگٹی کا سحر ٹوٹ رہا تھا اور ان کی دہشت اور قوت کے زوال کے آثار ہویدا تھے، بلوچوں کے ذہن سے بگٹی صاحب اتر چکے تھے اور ذوالفقار علی بھٹو کبھی بھی بلوچستان کے عوام کی نظروں میں معتبر نہ تھے، اور اس اقدام سے تو بلوچستان کے محروم عوام کی نفرت کا نشانہ ٹھیرے اور کبھی بھی وہ بلوچستان کے عوام کے دلوں میں جگہ نہ بنا سکے۔ اور یہی ’’اعزاز‘‘ جنرل ٹکاخان کو حاصل ہوا۔
جب میری تقریر ختم ہوئی تو میں نے علی احمد کرد کا نام پکارا۔ علی احمد کرد کا تقریر کرنے کا اپنا ایک منفرد انداز ہے اور بلوچستان کے عوام اس نوجوان کو بڑے شوق سے سنتے ہیں، اور ان کی تقریر بڑی جذباتی ہوتی ہے۔ وہ عوام سے ان کی سوچ کے مطابق بولتے ہیں۔ علی احمد کرد کی تقریر کا انداز تو نہیں بدلا مگر اب تک کئی پارٹیاں بدل چکے ہیں، اور اب پی این پی میں شامل ہیں۔
مقام فیض نظر میں کوئی جچا ہی نہیں
علی احمد کرد نے تقریر کی اور کہا:
بھٹو نے بلوچستان کی جمہوری حکومت کو اپنے آمرانہ ہتھکنڈوں اور سازش کے ذریعے برطرف کیا ہے، جس کے خطرناک نتائج بھٹو کو بھگتنا ہوں گے، اور بگٹی کو بھی اس کے نتائج کا سامنا کرنا ہوگا۔ بلوچ جس کے دوست بنتے ہیں اس سے نبھانا بھی جانتے ہیں، اور بلوچ کا انتقام بھی اپنی مثال آپ ہے۔ آج عوام کی بھاری اکثریت میں موجودگی نے اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کے مؤقف کی تائید کردی ہے کہ ہم جو کچھ کہہ رہے ہیں وہ وقت کی آواز ہے، اور بلوچستان کے عوام کی اس بھرپور شرکت اور ان کے جذبات کے اظہار نے ثابت کردیا ہے کہ انہوں نے نہ صرف بگٹی کو مسترد کردیا ہے بلکہ بھٹو کے ڈکٹیٹرانہ اقدام کو بھی رد کردیا ہے۔ بھٹو کے اس غیر قانونی، غیر اخلاقی عمل کو بلوچستان کے عوام نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور ہم لوگ اس ظلم کے خلاف احتجاج کرنے آج میدان میں آئے ہیں۔ آج عوام کے اس عظیم جلسے کے ذریعے یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ بگٹی کی حکومت چند دنوں کے اندر ہی ناکام ہوگئی ہے اور ہم سیاسی ورکرز اور بلوچستان کے عوام اس نام نہاد ناکام حکومت کو کسی قیمت پر برداشت نہیں کریں گے۔ بلوچستان کے عوام کی منتخب حکومت کو ختم کرنے میں بھٹو اور سی آئی اے برابر کے شریک ہیں۔ بھٹو نے سی آئی اے کے ایما پر بلوچستان کی منتخب حکومت کو ختم کیا ہے اور اس سازش میں سی آئی اے کا ایجنٹ شہنشاہ ایران بھی شریک ہے۔ ہم شہنشاہ ایران کی مذمت کرتے ہیں اور بھٹو کی بھی شدید مذمت کرتے ہیں۔
علی احمد کرد کی تقریر کے ساتھ ہی 3 مارچ کا تاریخی احتجاجی جلسہ اپنے اختتام کو پہنچا۔ اس جلسے نے نواب بگٹی کی گورنری ختم ہونے پر مہرثبت کردی اور ان کا جانا ٹھیر گیا تھا۔
جلسے کے دوران تو نعرے لگ ہی رہے تھے، ختم ہونے پر بھی عوام کا جوش تازہ تھا اور وہ بڑی شدت سے بگٹی، بھٹو مُردہ باد کے نعرے لگا رہے تھے اور ساتھ ساتھ شہنشاہ ایران کے خلاف بھی بڑی شدت سے مُردہ باد کے نعرے گونج رہے تھے۔ ہم ساتھی منان چوک سے نیچے اتر آئے۔ لوگ گلے مل رہے تھے اور ہم سے ہاتھ ملا رہے تھے۔ ان کے چہرے خوشی سے دمک رہے تھے کہ کوئی تو ہے جس نے ظالموں کے ظلم کے خلاف آواز بلند کی ہے اور عوام کے کچلے ہوئے جذبات کو زبان دی ہے۔
جلسہ ختم ہونے کے بعد بھی عوام کا ہجوم سڑکوں پر موجود تھا۔ پولیس نے سڑکیں کھولنے کے لیے لاٹھی چارج کیا تاکہ ٹریفک رواں دواں ہو۔ میں نے علی احمد کرد اور امان بازئی سے کہا کہ ہمیں یہیں ٹھیرنا چاہیے۔ اور ہم وہیں چوک کے قریب جم کر کھڑے ہوگئے۔ پولیس لاٹھی چارج کرتے ہوئے ہمارے قریب آگئی مگر ہم اپنی جگہ کھڑے رہے۔ پولیس نے ہم سے کوئی تعارض نہیں کیا۔ عوام سڑکوں سے ہٹ کر فٹ پاتھ پر چلے گئے۔ وہ کھڑے ہوئے یہ نظارہ دیکھ رہے تھے۔ کچھ لمحوں کے بعد ہم آہستہ آہستہ باوقار انداز میں سڑک پر چل دیے۔ امان بازئی نے کہا ہم جلد گرفتار کرلیے جائیں گے، اس لیے کہ میں بھٹو کو جانتا ہوں، وہ ایک فاشسٹ مزاج شخص ہے، کبھی بھی اپنی مخالفت برداشت نہیں کرے گا۔ علی احمد کرد کی بھی یہی رائے تھی، اس نے کہا کہ ہمیں اپنے گھروں پر نہیں رہنا چاہیے تاکہ پولیس گرفتار نہ کرسکے۔
ہم یہ گفتگو سڑک پر چلتے ہوئے کررہے تھے۔ امان بازئی نے ہمیں چائے کی دعوت دی اور ہم سب عصمت سینما کی چھت پر گئے۔ وہاں بازئی نے ہمیں چائے پلائی۔ امان بازئی نے کہا کہ اگر تم کہیں اور رہنا چاہو تو اس کا انتظام ہوسکتا ہے۔ میں اپنے گھر پر رہنا چاہتا تھا اور نتائج کے لیے ذہنی طور پر تیار تھا، لیکن اس رات ہم میں سے کوئی بھی گرفتار نہ ہوا۔ ہمارے احتجاجی جلسے کے جواب میں نواب بگٹی کی طرف سے بھی جواب آیا۔ قطب خان لہڑی مرحوم بلوچ درنا کے سالار تھے۔ انہوں نے منان چوک پر جلسہ رکھنے کا اعلان کیا۔ یہ خبر اخبارات میں آگئی۔ ہم سب ساتھی آپس میں ملے اور مشورہ کیا کہ اس جلسے کو ہونے دیا جائے، ہم اس جلسے میں کوئی مداخلت نہیں کریں گے۔ لیکن جس دن جلسہ ہوا اُس دن لوگوں نے اسے درہم برہم کردیا اور قطب خان لہڑی کو بولنے نہیں دیا۔ اس دوران علی احمد کرد بھی پہنچ گئے تھے۔ عوام کے اصرار پر انہوں نے موجود لوگوں سے خطاب کیا۔ یوں بلوچ درنا کا بھرم جاتا رہا۔ بلوچ درنا نواب بگٹی صاحب کے ایما پر بنائی گئی اور نواب صاحب اس کی سرپرستی کررہے تھے۔ بلوچ درنا کے پیچھے نواب کا دماغ کارفرما تھا۔ ہمارے جلسے کے جواب میں نواب صاحب کے ہاتھ تاش کا ایک ہی پتّا تھا جس کو استعمال کرسکتے تھے، سو وہ انہوں نے کرکے دیکھ لیا اور اس کا انجام بھی دیکھ لیا۔ عوام کے ردعمل کے جواب میں قطب خان لہڑی حوصلہ ہار چکے تھے، اب وہ سامنا کرنے کی پوزیشن میں نہ تھے۔ ہم ساتھی آپس میں پھر بیٹھے اور فیصلہ کیا کہ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کی جانب سے دوسرا احتجاجی جلسہ کیا جائے۔ جب ہم ساتھی اس مسئلے پر گفتگو کررہے تھے تو ہمارے سامنے اب صورت حال مختلف تھی۔ قطب خان لہڑی کا جلسہ درہم برہم ہوچکا تھا۔ یہ ناکامی دراصل گورنر بگٹی کی ناکامی تھی، اور ان کی پشت پر بلوچ درنا کے سوا کوئی اور سیاسی قوت یعنی سیاسی پارٹی موجود نہ تھی۔ اس لیے ان کا مایوس اور مشتعل ہونا صاف عیاں تھا۔ ان کی طرف سے کوئی بھی جوابی کارروائی ہوسکتی تھی۔
گورنر بگٹی کی طرف سے بلوچ درنا کے جلسے کی صورت میں یہ سیاسی کارروائی تھی جس کو عوام نے ناکام کردیا۔ اب صرف دو کارروائیاں ہونا باقی تھیں۔ ایک قانون کا سہارا جو وہ بحیثیت گورنر لے سکتے تھے، اور دوسرا سہارا بندوق تھی جو وہ بطور سردار اکبر خان بگٹی لے سکتے تھے، اور ہم بطور سردار کے اُن سے زیادہ خطرہ محسوس کررہے تھے۔ ہمیں اندازہ ہوچکا تھا کہ ہمارا دوسرا جلسہ خیریت سے شاید ہی ہوسکے۔ میری تجویز تھی کہ اس جلسے کی صدارت میر احمد نواز بگٹی سے کرائی جائے، اگر ہم پر فائرنگ ہو تو وہ کئی دفعہ سوچیں گے۔ ہمارے سارے ساتھی متفق ہوگئے کہ اس صورت حال میں اس کے سوا کوئی کوئی چارہ نہیں۔ احمد نواز بگٹی سے ملاقات کی گئی، وہ راضی ہوگئے، اور ہم نے اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کی جانب سے اعلان کردیا کرہ منان چوک پر اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کی جانب سے احتجاجی جلسہ ہوگا جس کی صدارت احمد نواز بگٹی کریں گے۔ جلسہ 13 مارچ 1973ء کو ہونا تھا۔ جلسے کا وقت 3 بجے تھا، میں کوئی 2 بجے گھر سے نکلا تو حکومت کی طرف سے اعلان ہورہا تھا کہ شہر میں دفعہ 144 نافذ کردی گئی اور کوئی شخص جلسہ اور جلوس نہیں کرسکتا۔ بلکہ گورنر اکبر بگٹی نے ایک آرڈیننس اور بھی جاری کیا جس کی نظیر شاید پاکستان کی تاریخ میں نہ ملے، یعنی چوراہوں پر کوئی جلسہ نہیں ہوسکتا، اس کے لیے اسپیشل آرڈیننس جاری کیا گیا۔ میں نے بھی راستے میں اس اعلان کو سنا، لیکن ہمارے نزدیک اس کی کوئی اہمیت نہیں تھی۔ اس لیے کہ جب آمریت انسانی حقوق اور جذبات کو کچلنے میں کوئی ندامت محسوس نہ کرتی ہو تو آمرانہ قانون کی خلاف ورزی عین انصاف اور اس کو پامال کرنے میں انسانیت کی نجات ہے۔ اس اعلان کی وجہ سے اس قسم کے خیالات میرے ذہن میں آرہے تھے اور میں ان خیالات میں کھویا ہوا جماعت اسلامی کے دفتر پہنچ گیا۔ وہاں خلیفہ عبدالرحیم سے ملاقات ہوئی جن کو میں نے مشتعل انقلابی کا لقب دیا تھا۔ کچھ دیر ان کے ساتھ بات چیت ہوتی رہی اس لیے کہ جلسے میں ابھی وقت تھا۔ جب وقت کچھ قریب آگیا تو میں لیڈی ڈفرن ہسپتال کے قریب پہنچا ہی تھا کہ لوگ سڑک پر تیزی سے بھاگتے ہوئے نظر آئے اور فضا میں گولیاں چلنے کی آواز تھی۔ میں نے بھاگتے ہوئے لوگوں میں سے ایک کو روک کر پوچھا کہ کیا بات ہے؟ اس نے گھبراتے ہوئے جواب دیا ’’تصادم ہوگیا ہے اور گولیاں چل رہی ہیں۔‘‘