متنازع کشن گنگا ڈیم کی تعمیر اور عالمی بینک کی ثالثی

ملک میں آئندہ حکومت کے قیام اور نئے انتخابات کے لیے سیاسی ماحول گرم ہے۔ اگر ہم سیاست دانوں اور ذرائع ابلاغ میں زیر بحث موضوعات کا جائزہ لیں تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ ملک و قوم کو درپیش کلیدی مسائل کہیں زیر بحث ہی نہیں ہیں۔ بڑے بڑے مسائل سیاسی کشمکش اور نعرے بازی کا شکار ہوچکے ہیں۔ پاکستان کو جو مسائل درپیش ہیں ان میں ایک مسئلہ بھارت کی آب دہشت گردی کا بھی ہے جس کے بارے میں کہیں کوئی بات ہی نہیں ہورہی ہے۔ اس وقت حکومت پاکستان کا ایک وفد اٹارنی جنرل اشتراوصاف علی کی قیادت میں امریکا میں موجود ہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان جو کلیدی اور متنازع امور درپیش ہیں ان میں پانی کی تقسیم ایک بڑا مسئلہ ہے، قیام پاکستان کے بعد عالمی بینک نے ثالثی کرکے پاکستان اور بھارت کے درمیان دریائوں کی تقسیم کا معاہدہ کرایا جسے سندھ طاس معاہدہ کہتے ہیں اس کے تین دریا، راوی، ستلج، بیاس کے حقوق بھارت کو دے دیے گئے اور دریائے سندھ اور جہلم کے پانی کے حقوق پاکستان کے پاس رہے۔ اس معاہدے کے نتیجے میں عالمی بینک کی مالی معاونت سے تربیلا اور منگلا پر ڈیم بنائے گئے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ بھارت نے سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے متنازع کشن گنگا ڈیم تعمیر کردیا ہے۔ بھارت کے متعصب اوراسلام و مسلمان دشمن وزیراعظم نریندر مودی نے متنازع کشن گنگا ڈیم کا افتتاح بھی کردیا، بھارت نے نہ صرف متنازع ڈیم تعمیر کیا ہے بلکہ پاکستان کا پانی بھی روکا ہے۔ جس کی وجہ سے پاکستان میں پانی کی قلت بھی پیدا ہو گئی ہے جس کا زراعت پر منفی اثر پڑنے کا خطرہ ہے اس بارے میں پاکستان کی جانب سے احتجاج کو بھارت کی جانب سے نظر اندازکیا گیا ہے یہ مسئلہ 2010ء سے عالمی بینک کی ثالثی عدالت کے پاس بھی موجود ہے، اس کے باوجود یہ مسئلہ حل نہیں ہوا ہے اور بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں متنازع کشن گنگا ڈیم کی تعمیر کے بعد پاکستان نے عالمی سطح پر احتجاج کا فیصلہ کیا ہے۔ ورلڈ بینک کی ضمانت اور ثالثی کی نتیجے میں سندھ طاس معاہدہ ہوا تھا اس لیے یہ ورلڈ بینک کی ذمے داری ہے کہ وہ دونوں ملکوں کے درمیان پانی کی تقسیم کے تنازع کی ثالثی کرائے، اس سلسلے میں امریکا میں عالمی بینک کی ثالثی عدالت میں پاکستانی وفد اپنے دعوے کے ساتھ موجود ہے۔ یہ مسئلہ جہاں تکنیکی ہے وہیں سیاسی بھی ہے۔ پاکستان بنیادی طور پر زرعی ملک ہے پاکستان کے تمام دریائوں کے سوتے کشمیر میں ہیں اسی وجہ سے قائداعظمؒ نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا۔ قیام پاکستان کے وقت بھی یہ بعض عنا صر ان خدشات کا اظہار کرتے تھے کہ بھارت پاکستان کے دریائوں کو خشک کرسکتا ہے۔ عالمی سیاست کے تناظر میں بھارت کے لیے یہ کام آسان نہیں تھا، لیکن پاکستان دشمنی کے تناظر میں اس خطرے کو نظر انداز نہیں کا جاسکتا تھا، پاکستان کو ا پنے قیام کے ساتھ ہی جو سب سے بڑی نعمت حاصل تھی وہ غذائی خود کفالت ہے اس لیے بھارت کی آبی دہشت گردی کی وجہ سے غذائی سلامتیٔ کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے اس لیے پاکستان اور بھارت کے درمیان دریائوں کے پانی کی تقسیم کے تنازع کا تعلق ’’غذائی سلامتی‘‘ سے بھی ہے۔ اب یہ مسئلہ عالمی بینک کے پاس ثالثی کے لیے ہے، بھارت مقبوضہ کشمیر میں متنازع کشن گنگا ڈیم تعمیر کرچکا ہے اس کا دعویٰ یہ ہے کہ اس نے پانی کو روکنے کے لیے ڈیم تعمیر نہیں کیا ہے بلکہ بجلی گھر تعمیر کیا ہے لیکن اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ وہ پاکستان کا پانی نہیں روکے گا۔ اس سلسلے میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کا یہ بیان ریکارڈ پر موجود ہے کہ وہ پاکستان کو بوند بوند کے لیے ترسانے کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہیں۔ اس تناظر میں بھارت کے دعووں پر کیسے اعتبار کیا جاسکتا ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ کشمیر متنازع علاقہ ہے کشمیر کے مستقبل کا تعین اقوام متحدہ کے زیر اہتمام متفقہ ہونے والی رائے شماری کے بعد ہوگا۔ لیکن عالمی ادارے نے اس سلسلے میں مجرمانہ خاموشی کا کردار ادا کیا ہے۔ یہی مسئلہ ورلڈ بینک کا بھی ہے۔ ورلڈ بینک سندھ طاس معاہدے کا ثالث اور ضامن ہے اس کی ذمے داری ہے کہ معاہدے کے تمام نکات پر عمل در آمد کرائے، یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ بھارت دریائوں کے پانی کی تقسیم کے معاہدے کی کھلی خلاف ورزی کررہاہے۔ اقوام متحدہ اور عالمی بینک کی شہ کی وجہ سے اب بھارت کی جرأت اس قدر بڑھ گئی ہے کہ وہ پاکستان کا جائز اور قانونی پانی بھی روک رہا ہے۔ ستلج، راوی اور جہلم کے بعد اب چناب بھی خشک ہورہاہے۔ یہ مسئلہ کئی دہائیوں سے درپیش ہے اس مسئلے کو پاکستان کے اہل دانش نے بھارت کی آبی دہشت گردی قرار دیا ہے اور بالکل صحیح قرار دیا ہے لیکن پاکستان کی جانب سے اس سلسلے میں جو آوازیں اٹھائی گئی ہیں وہ صدا بصحرا ثابت ہورہی ہیں۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ مختلف حکومتوں نے اس سلسلے میں کوئی لائحہ عمل مرتب نہیں کیا یہ غفلت اس کے باوجود ہے کہ بہت سے عالمی تجزیہ کار اور مبصرین یہ کہہ رہے ہیں کہ مستقبل کی جنگیں پانی کے مسئلے پر ہوںگی۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ سائنسی اور ٹیکنالوجیکل ترقی نے طاقتور اور دولت مند اقوام و ممالک کو یہ صلاحیت بھی دے دی ہے کہ وہ دریائوں کا رخ موڑ سکتے ہیں اس لیے بڑے ڈیم کی تعمیر اکثر ممالک کے درمیان تنازع کا موضوع ہے۔خود ہم اپنے ملک میں پانی کی تقسیم کو ایک مسئلہ بناچکے ہیں پاکستان کی بھی ضرورت ہے کہ وہ پانی کی قلت سے نمٹنے کے لیے زیادہ سے زیادہ آبی ذخائر تعمیر کرے جس کے لیے وسائل کی ضرورت ہے کالا باغ ڈیم تو ایک متناز مسئلہ بن چکا ہے سائنسی ترقی اور ڈیموں کی تعمیر کی وجہ سے ماحولیات کی خرابی اور موسم کی تبدیلی کا مسئلہ بھی درپیش ہے جس کے منفی اثرات کا مقابلہ کرنا ہے۔ لیکن ہمارے حکمران سندھ طاس معاہدے پر بھی عملدر آمد نہیں کرواسکے۔ یہ مسئلہ عالمی بینک کی ثالثی کی عدالت کے پاس 2010ء سے ہے۔ اس لیے عالمی بینک کی ثالثی عدالت میں متنازع اور غیر قانونی کشن گنگا ڈیم کا مسئلہ اٹھانا درست قدم ہے۔ امریکا میں پاکستان کے سفیر اعزاز چودھری نے پریس کانفرنس کرکے پاکستان کے وفد کی ورلڈ بینک کے عہدیداروں سے مذاکرات اور ثالثی کی تفصیلات بتائی ہیں۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہماری افسر شاہی کیا اپنا کردار پوری طرح سے ادا کررہی ہے، سندھ طاس معاہدہ، پانی کی تقسیم اور متنازع کشن گنگا ڈیم کی تعمیر پاکستان کی قومی سلامتی سے جڑا ہوا ہے۔ مختلف وجوہات کی بنا پر پاکستان کے حکمران اپنے شہریوں کو صاف پانی فراہم کرنے کی ضمانت بھی مہیا نہیں کرسکے۔ اب تو سندھ طاس معاہدے کی بھارتی خلاف ورزی کی وجہ سے زراعت کو بحران لاحق ہونے کا خطرہ پیدا ہوگیا ہے اب ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہمارے حکمرانوں نے ورلڈ بینک کے سامنے پاکستان کا مقدمہ لڑنے کے لیے کتنی تیاری کی ہے۔ بغیر تیاری کے ایسی تمام کوششیں بے سود رہیںگی۔ اس سے بھی بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے حکمران چاہے وہ سول و فوجی افسر شاہی سے متعلق ہوں یا سیاسی طبقے سے وہ عالم طاقتوں کے آلۂ کار بن جاتے ہیں اور اپنے مفادات کے لیے قومی مفادات کا سودا کرلیتے ہیں۔ سندھ طاس معاہدہ اس کی ایک شہادت ہے۔