مسلم لیگ (ن) اس وقت ایک بڑے داخلی بحران سے گزر رہی ہے۔ اگرچہ پارٹی کی قیادت کو اس کا ادراک نہیں لیکن سیاسی سمجھ بوجھ رکھنے والوں کو اندازہ ہے کہ انتخابات سے قبل پارٹی کو بڑے بحران کا سامنا ہے۔ اصولی طور پر جو بھی سیاسی جماعت انتخابی میدان میں اترتی ہے اُس کے لیے بہتر نتائج کے حصول میں اہم مسئلہ اپنا سیاسی استحکام اور داخلی مسائل سے نمٹنا ہوتا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کو بھی اس وقت انتخابات سے قبل ایک بڑے بحران کا سامنا ہے۔ اگرچہ مسلم لیگ(ن) کی قیادت اپنی کارکردگی کی بنیاد پر انتخابی میدان میں اترنے کی حکمت عملی بنارہی تھی، لیکن اب اس کا مسئلہ کارکردگی سے زیادہ قانونی اور سیاسی محاذ پر موجود وہ بحران ہے جس نے اس کو ایک بڑی سیاسی مشکل میں ڈال دیا ہے۔ محض پارٹی ووٹر ہی نہیں بلکہ کارکنوں کو بھی دوعملی پر مبنی پالیسی نے مایوس کیا ہوا ہے، وہ سوچ رہے ہیں کہ کس پالیسی کا حصہ بنیں؟ اُس پالیسی کا جو نوازشریف بیان کررہے ہیں؟ یا اُس پالیسی کا جو شہبازشریف پیش کرتے ہیں؟
اگرچہ مسلم لیگ(ن)کی قیادت اس فہم سے قاصر ہے کہ وہ ایک بڑے داخلی بحران سے گزر رہی ہے، مگر پارٹی میں کچھ لوگ ایسے ہیں جو اعتراف کرتے ہیں کہ ہم پارٹی کی موجودہ پالیسی کے باعث ایک بندگلی میں داخل ہورہے ہیں، اور اگر اس کا فوری علاج تلاش نہ کیا گیا تو 2018ء کے انتخابات میں ہمیں مزید سیاسی تنہائی کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ مسلم لیگ (ن)کے حالیہ داخلی بحران کو سمجھنے کے لیے یہ نکتہ کافی ہے کہ اس کی اصل طاقت پنجاب ہے، اور اسی کی مدد سے وہ ہمیشہ سے اقتدار کی سیاست میں بالادست رہی ہے۔ لیکن پنجاب میں جس تیزی سے اس کے ارکانِ قومی اور صوبائی اسمبلی یا طاقتور اور بااثر افراد پارٹی چھوڑ کر تحریک انصاف کا حصہ بن رہے ہیں اس نے پارٹی کے داخلی بحران کو اور زیادہ سنگین کردیا ہے۔ پنجاب میں پارٹی کے لوگوں کا اتنی بڑی تعداد میں پارٹی چھوڑ کر تحریک انصاف میں جانا ظاہر کرتا ہے کہ پنجاب میں ہونے والی یہ تبدیلی مسلم لیگ(ن) کو پیچھے بھی دھکیل سکتی ہے۔ اگرچہ مسلم لیگی قیادت پارٹی میں حالیہ تقسیم یا پارٹی چھوڑنے کے بحران کو اسٹیبلشمنٹ کی سازش سے جوڑتی ہے، لیکن وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ پاکستان کی انتخابی سیاست کے جو لوازمات ہیں اس میں انتخابات لڑنے والے لوگ ہارنے کے بجائے جیتنے کے لیے میدان میں اترتے ہیں۔ وہ طاقت کا بھائو دیکھ کر اپنا فیصلہ کرتے ہیں۔ کل ان کا فیصلہ مسلم لیگ(ن) کے حق میں تھا اور آج مسلم لیگ (ن) کے خلاف ہے۔کیونکہ بااثر انتخابی امیدوار سیاست میں اپنی طاقت کو برقرار رکھنے کے لیے انتخاب لڑتا ہے۔ مالی وسائل اور اختیار کی طاقت اسے جہاں سے ملے گی وہ اُدھر ہی جائے گا۔ اس لیے جو لوگ آج پارٹی چھوڑ کر نوازشریف سے جدا ہورہے ہیں اُن کے سامنے نئے حالات، نئے امکانات اور نئی بساط ہے ۔یہ کہنا کہ یہ لوگ محض اسٹیبلشمنٹ کےدبائو پر پارٹی چھوڑ رہے ہیں مکمل سچ نہیں۔ ایک سچ پارٹی کا داخلی بحران بھی ہے جس نے ان کو متبادل فیصلہ کرنے پر مجبور کیا ہے۔ اس میں خود نوازشریف اور شہبازشریف کی اپنی سیاسی حکمت عملی کا حصہ ہے کہ وہ کئی برسوں سے پارٹی معاملات میں جو کوتاہی کررہے تھے اس کا ایک بڑا نقصان حالیہ دنوں میں ان کو پارٹی میں بغاوت کی صورت میں دیکھنے کو مل رہا ہے۔ جیسے ہی ملک میں نگران حکومتیں بنتی ہیں، مزید کئی اور اہم ارکان بھی پارٹی کو چھوڑ کر تحریک انصاف کا حصہ بن سکتے ہیں۔
بنیادی طور پر نوازشریف نے جو نیا بیانیہ ترتیب دیا ہے وہ پوری پارٹی کی پالیسی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نوازشریف کے بیانیہ کی جماعتی سطح پر حمایت کرنے والے چند لوگ ہیں جو ہم کو میڈیا کی سطح پر بالادست نظر آتے ہیں۔ کیونکہ مجموعی طور پر مسلم لیگ کی سیاسی تاریخ دیکھیں تو یہ لوگ ٹکرائو کی کے مقابلے میں بڑی طاقتوں کے ساتھ مفاہمت یا کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر آگے بڑھتے ہیں۔ لیکن حالیہ بحران میں نوازشریف نے پارٹی کو مزاحمت کی راہ پر ڈال دیا ہے۔ یہ مزاحمت سیاسی حریفوں تک رہتی تو برداشت کی جاسکتی تھی، مگر ریاستی اداروں کے ساتھ ٹکرائو کی پالیسی نے پارٹی میں نئی کشمکش کو جنم دیا، اور یہی عمل پارٹی میں پہلے سے موجود تقسیم کو مزید گہرا کرنے کا سبب بنا ہے۔ اس نے عملی طور پر پارٹی کو کئی حصوں میں تقسیم کردیا ہے۔ پچھلے دنوں سابق وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے جو کچھ کہا وہ نوازشریف کے بیانیہ کے برعکس ہے، اور ان کے بقول اس بیانیہ نے نہ صرف نوازشریف کو بلکہ پارٹی اور ملک کی سلامتی کو بھی نقصان پہنچایا ہے۔
ایک طرف نوازشریف مزاحمت اور دوسری طرف شہبازشریف مفاہمت کے سیاسی کارڈ کے ساتھ میدان میں ہیں، لیکن سب جانتے ہیں کہ دونوں بھائیوں کے سیاسی مفادات ایک ہیں۔ مزاحمت اور مفاہمت کے کارڈ سیاسی ضرورتوں کے تحت ہی کھیلے گئے ہیں اور اس میں دونوں کردار اندر سے ایک ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دو مختلف پالیسیوں کے باوجود دونوں بھائی ایک دوسرے کی سیاست کے ساتھ کھڑے نظر آتے ہیں۔ حالیہ اخباری انٹرویو جس میں نوازشریف نے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے ساتھ ممبئی حملوں میں پاکستان کے ملوث ہونے یا پاکستان کی جانب سے ان دہشت گردوں کو نہ روکنے اور ان کے خلاف عدالتی کارروائی نہ کرنے کا بیان دے کر عملی طور پر قومی سلامتی کو بھی دائو پر لگایا ہے۔ اس بیان کے بعد پارٹی میں عملی طور پر ایک سیاسی بھونچال آگیاہے۔
پارٹی کے صدر شہبازشریف کے بقول نوازشریف کا انٹرویو کرانے والا اُن کا اور پارٹی کاسب سے بڑا دشمن ہے۔ یہ بڑا دشمن کون ہے؟ اگر شہبازشریف ہمت کرکے اس کا نام بھی بتادیتے تو صورت حال واضح ہوجاتی۔ لیکن یہ بات ذہن نشین رہے کہ نوازشریف کوئی معصوم بچہ نہیں۔ تین بار وزیراعظم رہنے والے نوازشریف کا حالیہ انٹرویو اُن کی خاص منصوبہ بندی یا حکمت عملی کا حصہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شہبازشریف اور وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی جانب سے خبر کو غلط انداز میں پیش کرنے کی منطق کو بھی نوازشریف نے مسترد کردیا۔ شہبازشریف کوشش تو کررہے ہیں کہ حالیہ بحران کو وہ کم کرسکیں، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ان کی حیثیت ایک نمائشی صدر کی ہے۔ طاقت کا مرکز اوّل تو نوازشریف ہیں، اور اگر ان کے بعد کسی کو اہم حیثیت حاصل ہے تو وہ مریم نواز ہیں۔ اس لیے شہبازشریف کوشش تو کرتے ہیں کہ وہ بطور صدر خود معاملات میں لیڈ کریں، مگر نوازشریف اور مریم نواز اُن کو وہ طاقت دینے کے لیے تیار نہیں جو عملی طور پر نوازشریف کے مقابلے میں شہبازشریف چاہتے ہیں۔ نوازشریف اب بھی خود کو ہی لیڈر مانتے ہیں اور پارٹی کا ریموٹ کنٹرول بھی وہ اپنے ہی ہاتھ میں رکھ کر انتخابی ماحول کو سجانا چاہتے ہیں۔
پاکستان کی سیاست میں بھارت سے تعلقات کی نوعیت ایک حساس مسئلہ ہے۔ اسی مسئلے پر سیاست دانوں اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان تنائو بھی نظر آتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نوازشریف کے حالیہ انٹرویو نے ان کو اور ان کی جماعت کو ملکی سیاست میں ایک بڑی مشکل میں ڈال دیا ہے۔ ان کی پارٹی کے لوگ سمجھتے ہیں کہ اگر وہ عوامی یا میڈیا کے محاذ پر ممبئی حملوں یا اداروں سے ٹکرائو کے بیانیہ پر نوازشریف کی حمایت کرتے ہیں تو یہ سیدھا سادہ اداروں سے ٹکرائو ہوگا اور ان کی اپنی ذاتی سیاست اور مفاد کو نقصان پہنچائے گا۔ اس سے قبل ختمِ نبوت کے مسئلے پر بھی بحران پیدا کیا گیا جو پارٹی کے خلاف گیا۔ اس ردعمل نے نوازشریف اور مذہبی جماعتوں کے درمیان بھی خلیج پیدا کی اور مذہبی حلقوں میں نوازشریف کی جانب سے ختمِ نبوت کے حوالے سے ترمیم پر شدید تحفظات دیکھنے کو ملے، اور اس کا بڑا ردعمل خود مسلم لیگیوں کو عوامی سطح پر پُرتشدد مظاہروں کی صورت میں بھی دیکھنے کو ملا تھا۔
مسلم لیگی امیدواروں،کارکنوں اور اہم راہنمائوں کی جانب سے اس خدشے کا بھی اظہار کیا جارہا ہے کہ اگر نوازشریف کی جانب سے ٹکرائو کی پالیسی جاری رہی تو اس سے ان کو اپنی انتخابی مہم بھی آزادانہ بنیادوں پر چلانے کا موقع نہیں مل سکے گا اور مخالفین ختمِ نبوت، بھارت نوازی، فوج اور عدلیہ سے ٹکرائو کے الزامات لگاکر ووٹروں کی سوچ پر بھی اثرانداز ہوں گے جو ان کے حق میں نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پارٹی کے حالیہ پارلیمانی پارٹی اجلاس میں جس کی صدارت شہبازشریف نے کی، کھل کر نوازشریف کے بیانیہ کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ خود شہبازشریف نے یقین دلایا کہ وہ نوازشریف کو قائل کریں گے کہ وہ اپنا بیانیہ تبدیل کریں۔ مگر وہ یہ کیسے کرسکیں گے، یہ خود سوالیہ نشان ہے۔ کیونکہ شہبازشریف اور شاہد خاقان عباسی نے اس حالیہ انٹرویو کے مندرجات پر جو مفاہمتی رویہ اپنانے کی کوشش کی، نوازشریف اور مریم نواز نے اسے مسترد کرکے صورت حال کو اور زیادہ پیچیدہ بنادیا ہے۔
مسلم لیگ(ن) میں ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو سمجھتا ہے کہ نوازشریف کو اس صورت حال تک لانے میں خود ان کی بیٹی مریم نواز کا بھی بڑا حصہ ہے۔ وہ پارٹی کی سینئر قیادت پر حاوی نظر آتی ہیں اور انہوں نے پارٹی کے اندر ایک متبادل کیبنٹ تشکیل دے کر پارٹی فیصلوں پر اپنی سوچ اور فکر کو مسلط کردیا ہے۔ نوازشریف کوشش کررہے ہیں کہ وہ بیانیہ کی مدد سے عوام اور اپنی پارٹی کو یہ باور کروا سکیں کہ ان کے خلاف جو کچھ ہورہا ہے وہ اسٹیبلشمنٹ کا پیدا کردہ ہے۔ یعنی وہ اس بیانیہ کی مدد سے خود کو سیاسی شہید بنانا چاہتے ہیں۔ لیکن سیاسی شہید بننے کی اس سوچ میں ان کو اپنی جماعت، ریاستی مفاد اور اپنے ووٹر کی کوئی پروا نہیں۔ مسلم لیگ (ن) میں اصل بحران نگران حکومت بننے کے بعد شروع ہوگا۔ ایک طرف نوازشریف کا بیانیہ ہوگا تو دوسری طرف نیب کی عدالتوں سے متوقع فیصلے ہوں گے۔ اگر یہ فیصلے نوازشریف کے خلاف آتے ہیں تو انتخابی مہم میں پارٹی کو نقصان پہنچا سکتے ہیں، اور عملی طور پر پارٹی، قیادت کے طرزِعمل کے باعث بند گلی میں داخل ہوگئی ہے۔ وہ اس مخمصہ سے کیسے نکل سکے گی، یہی اس کا اصل امتحان ہے۔ کیونکہ اگر مسلم لیگ (ن) کی قیادت اس موجودہ داخلی بحران سے نمٹ نہ سکی تو اس کا نتیجہ ان کو انتخابات میں شکست کی صورت میں دیکھنے کو مل سکتا ہے۔