نریندر مودی کی متنازع کشن گنگا ڈیم کے افتتاح کی غرض سے کشمیر آمد کے موقع پر تحفے اور رمضان المبارک کے آغاز کی سوغات کے طور پر بھارت نے کشمیریوں کی طرف جنگ بندی کا سکہ اُچھال دینے کا فیصلہ بہت پہلے ہی کررکھا تھا، صرف اس معاملے کو ایک اچھا موڑ اور رنگ دینے کے لیے ایک پیچیدہ طریقہ کار اپنایا گیا۔ مقبوضہ کشمیر کی وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی نے اچانک بھارتی حکومت اور فوج سے رمضان المبارک میں سیز فائر کی اپیل کردی۔ بھارتیہ جنتا پارٹی نے پہلے پہل تو سیزفائر کی تجویز کو مسترد کیا، مگر جب محبوبہ مفتی کے اس بیان کی تائید فاروق عبداللہ کی نیشنل کانفرنس نے بھی کی تو بی جے پی نے قالین پیروں کے نیچے سے کھسکتا دیکھ کر اور وادی کی دو جماعتوں کے بی جے پی کے مقابل کھڑا ہونے کے اندیشے سے اپنا مؤقف بدل لیا اورایک روز بھارت کے وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے محبوبہ مفتی کو یک طرفہ سیز فائر کی اطلاع دی اور کہا کہ اس دوران اگر بھارتی فوج پر حملہ ہوا تو بھرپور جواب دیا جائے گا۔ محبوبہ مفتی نے سیزفائر کے فیصلے پر نریندر مودی اور راج ناتھ سنگھ کا شکریہ ادا کیا ہے۔
اس اعلان کے چند گھنٹوں بعد ہی شوپیاں کے جنگلات میں فوج اور حریت پسندوں میں تصادم ہوا۔ مشترکہ مزاحمتی فورم کے راہنمائوں سید علی گیلانی، میر واعظ عمر فاروق اور محمد یاسین ملک نے سیزفائر کے اعلان کو یہ کہہ کر مسترد کیا تھا کہ بھارت محض وقت گزاری سے کام لے رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ کشمیری اس جنگ کا مستقل خاتمہ چاہتے ہیں جو ان پر مسلط کی گئی ہے۔ حریت پسندوں کے کچھ مسلح گروپوں نے بھی اسے محض سیاسی اعلان اور ڈراما قرار دے کر مسترد کردیا تھا۔ خود کشمیر کے عام باشندوں کے جو خیالات میڈیا میں سامنے آئے ہیں ان کے مطابق بھارتی فوج سیزفائر کے نام پر اپنا کام جاری رکھے گی، اور ایسا ماضی میں واجپائی کے دور میں بھی ہوچکا ہے جب سیزفائر کے باوجود فوج نے انسانی حقوق کی پامالی کا سلسلہ جاری رکھا تھا اور عملی طور پر سیزفائر کا کوئی نام و نشان نہ تھا۔
مقبوضہ کشمیر کئی سال سے برہان وانی کی شہادت کے واقعے کے حصار میں ہے۔ اس نوجوان کی شہادت کے بعد بھارتی فوج کو کشمیر میں سکون اور چین میسر نہیں آسکا۔ کشمیری عوام بھارت کے پہلے ہی قریب نہیں تھے مگر اس واقعے کے بعد اُن کی دوری اور نفرت بڑھتی چلی گئی۔ جب بھی فوج اور حریت پسندوں کے درمیان کوئی تصادم ہوتا ہے تو عام لوگ گھروں سے نکل کر تصادم کے مقام پر پہنچ کر مظاہرہ کرتے ہیں۔ فوج پر پتھرائو کرکے محصور حریت پسندوں کے بھاگ نکلنے کی راہ ہموار کرتے ہیں۔ اس دوران عام شہریوں کا بھی بہت نقصان ہوتا ہے جس کی وجہ سے مقبوضہ کشمیر کی صورتِ حال ہر گزرتے دن کے ساتھ خراب ہوتی جارہی ہے۔ اب اس صورتِ حال میں بھارت نے ایک سیاسی کارڈ کھیلنے کی کوشش کی ہے، جس کا مقصد بپھرے ہوئے کشمیریوں کو یہ یقین دلانا ہے کہ بھارت کو ان کے دکھوں اور مشکلات کا احساس ہے اسی لیے وہ رمضان میں جنگ بندی چاہتا ہے۔ ان وقتی چالوں سے مسئلے کی سنگینی اور شعلوں کی حدت اور شدت کو کم نہیں کیا جا سکتا۔ اس طرح کے اعلانات سے نمبر اسکورنگ تو ہوسکتی ہے مگر یہ مسئلے کا حقیقی اور پائیدار حل نہیں۔ ماضی میں کئی بار بھارت نے کشمیر میں یک طرفہ جنگ بندی کے اعلانات کیے، مگر جنگ بندی کے سائے میں کشمیریوں کی نسل کُشی جاری رہی، اور اس کا نتیجہ ایک اور جنگ کی شکل میں برآمد ہوتا رہا۔ جنگ بندی کی سب سے مؤثر کوشش وہی تھی جب 2000ء میں واجپائی دور میں کشمیر کی مسلح تنظیم حزب المجاہدین کے چیف کمانڈر عبدالمجید ڈار نے برطانیہ اور امریکہ کی کوششوں سے جنگ بندی کا یک طرفہ اعلان کیا تھا، مگر بھارت نے جنگ بندی کے بعد مسلح گروپ کے ساتھ بات چیت کے لیے ایک نچلی سطح کی کمیٹی قائم کرکے جنگ بندی کی اہمیت کو پہلے مرحلے پر ہی کم کردیا تھا۔ اس نے جنگ بندی کی اس کوشش کو ایک بڑے قضیے کے بجائے’’اپنے لوگوں سے اپنا معاملہ‘‘ بناکر پیش کیا تھا، اور یوں یہ جنگ بندی بمشکل دو ہفتے ہی چل پائی تھی۔ اس جنگ بندی میں بھارت نے پاکستان کو مکھن سے بال کی طرح نکال کر کشمیریوں سے معاملہ طے کرنے کی کوشش کی تھی، مگر جنگ بندی کے انجام نے یہ حقیقت عیاں کی تھی کہ پاکستان اس تنازعے کا ایک ایسا فریق ہے جسے نظرانداز اور الگ کرکے مسئلے کا پائیدار حل تلاش نہیں کیا جا؎سکتا۔ اس کے بعد بھی بھارت کی طرف سے کئی بار جنگ بندی کے اعلانات ہوئے مگر زمینی حقیقتیں اپنی جگہ پر موجود اور برقرار رہیں، کیونکہ ان کوششوں اور اعلانات میں مسئلے کو حل کرنے کی سوچ دور دور تک دکھائی نہیں دے رہی تھی۔ اب بھی مودی نے کشمیر میں تعمیر وترقی کو ہی تمام مسائل کا حل قرار دے کر مسئلہ کشمیر کے سیاسی پہلو کو پرِکاہ برابر اہمیت نہیں دی۔ جنگ بندی کی اس طرح کی کوششوں سے بہتر ہے کہ بھارت کشمیریوں کی خواہشات کا احترام کرتے ہوئے مسئلے کو سہ فریقی مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کا راستہ اپنائے۔ مصنوعی اقدامات اور فیصلوں سے اب کشمیریوں کی توجہ حاصل کرنا ممکن نہیں رہا۔
ایک طرف بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں یک طرفہ جنگ بندی کا اعلان کیا تھا تو دوسری جانب بھارتی فوج نے وادی کے ساتھ ساتھ کنٹرول لائن پر نہتی آبادی کے خلاف جارحیت اور جنگ کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی کشمیر آمد کے موقع پر بھارتی فوج نے آپے سے باہر ہوکر مختلف سیکٹرز میں اندھادھند فائرنگ کا سلسلہ شروع کیا۔ پکھلیاں، چیراڑ، چاور، شکر گڑھ سیکٹروں میں بھارتی گولہ باری سے چھے افراد شہید ہوئے جن میں دو بچے بھی شامل تھے۔ بھارتی جارحیت کے باعث پچیس کے قریب افراد زخمی ہوگئے ہیں۔ اسلام آباد میں دفتر خارجہ میں بھارتی ہائی کمشنر کو طلب کرکے نہتی آبادی کو فائرنگ کا نشانہ بنانے پر احتجاج کیا گیا۔2003ء میں پاکستان اور بھارت کے درمیان ہونے والی فائربندی اب محض کاغذوں میں باقی ہے۔ بھارت نے اس فائربندی کی دھجیاں اُڑانے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ رواں سال بھارت نے 1050بار کنٹرول لائن اور بین الاقوامی سرحد پر جنگ بندی کی خلاف ورزی کی۔ اس دوران بھارتی فائرنگ سے اٹھائیس افراد شہید اور ایک سو سترہ زخمی ہوچکے ہیں۔ بھارت کی اس جارحیت کی وجہ وہ فرسٹریشن اور مایوسی ہے جس نے مقبوضہ کشمیر کی صورتِ حال سے جنم لیا ہے۔ بھارت مقبوضہ کشمیر میں عوام کے دل جیتنے میں ناکام ہوچکا ہے اور ہر گزرتے دن کے ساتھ کشمیریوں کا جذبۂ آزادی سرد اور ماند پڑنے کے بجائے بڑھتا ہی جارہا ہے۔ اس ناکامی کا بدلہ کنٹرول لائن اور بین الاقوامی سرحد پر موجود آبادیوں سے لیا جارہا ہے۔ بھارت کی یہ چیرہ دستیاں ہر شعبے میں جاری ہیں اور وہ پاکستان کے حصے کا پانی غصب کرنے کا سلسلہ بھی جاری رکھے ہوئے ہے۔کشن گنگا پروجیکٹ پر پاکستان کے ا عتراضات کوپرکاہ برابر اہمیت دئیے بغیر بھارت نے اس پاور پروجیکٹ کا افتتاح کردیا ہے۔پاکستان نے بھارت کی طرف سے اس یک طرفہ قدم کی مذمت کی ہے اور عالمی بینک سے جو سندھ طاس معاہدے کا ضامن بھی ہے، کہا ہے کہ وہ اس معاملے میں اپنا کردار ادا کرے۔حالت یہ ہے کہ بھارت اب عالمی بینک کی بات سننے کا بھی روادار نہیں۔