قسط نمبر 2
اب مسئلہ یہ تھا کہ طلسم سامری کو پاش پاش کس طرح کیا جائے۔ اس سلسلے میں اپنے دوستوں سے مشورہ بھی کررہا تھا تاکہ کسی نتیجے پر پہنچا جائے اور پھر کوئی عملی قدم اٹھایا جائے۔ میرے مخلص دوستوں میں سب سے زیادہ اضطراب مرزا رشید بیگ کو تھا۔ ان کی رائے یہ تھی کہ بھٹو کا یہ اقدام دراصل بلوچستان کے لاکھوں عوام کے بنیادی حقوق کی نفی اور توہین ہے۔ اس مسئلے پر رشید بیگ سے تبادلہ خیال کرتا رہا۔ میں یہ چاہتا تھا کہ بھٹو کے اس جمہوریت کُش اقدام کے خلاف احتجاج کیا جائے اور احتجاج کو آہستہ آہستہ تحریک میں تبدیل کردیا جائے، اور یوں بلوچستان کے عوام کو بیدار کیا جائے تاکہ وہ اپنے حقوق کے لیے جدوجہد کریں۔
میرے مخلص ساتھی رشید بیگ کی رائے یہ تھی کہ یہ کام تنظیم کے بغیر نہیں ہوسکتا۔ اور اُس وقت میرا تعلق نہ کسی طلبہ تنظیم سے تھا، نہ میں کسی جماعت کا ممبر تھا، اور نہ میرے پاس اتنا وقت تھا کہ کسی تنظیم کی بنیاد رکھی جائے۔ لیکن اس کا حل میرے ذہن میں تھا۔ کوئی سا بھی نام رکھ کر احتجاج کا آغاز کیا جاسکتا تھا۔ رشید بیگ سے اس مسئلے پر بھی تبادلہ خیال ہوا۔ بہرحال میں فیصلہ کن نتیجے پر پہنچ چکا تھا اور اب اس پر عمل کا مرحلہ باقی تھا۔
لیکن اس مشکل اور اصل مرحلے کے لیے افراد کی ضرورت تھی۔ میں اکیلا تو کچھ نہیں کرسکتا تھا، مجھے ساتھیوں کی ضرورت تھی تاکہ نقشے میں رنگ بھرا جا سکے۔ میرے ذہن میں سب سے پہلا نام جس نوجوان کا آیا وہ علی احمد کرد تھا۔ اس نوجوان دوست سے میری واقفیت ایوبی دور سے ہوئی تھی جب ہم طلبہ ایوبی آمریت کے خلاف صف آرا تھے۔ علی احمد کرد سے میری پہلی ملاقات جس انداز سے ہوئی، میں شاید اس کو زندگی بھر نہ بھلا سکوں۔ ہم طلبہ ایوبی آمریت کے مقابل ڈٹ گئے تھے اور سراپا احتجاج تھے، اور بڑے منظم طریقے سے صدائے احتجاج بلند کررہے تھے۔ ایک دن جلوس لیاقت روڈ کے درمیان میں رکا جہاں تقاریر کا پروگرام تھا۔ اس دوران خیر جان بلوچ نے جو بی ایس او کے صوبائی چیئرمین تھے، مجھ سے کہا کہ ہماری طرف سے ایک طالب علم بھی تقریر کرے گا، اس کو بھی مختصر وقت دیں۔ (یہ واقعہ 1969ء کا ہے) اُس وقت ہم طلبہ فروٹ کی ریڑھی پر کھڑے ہوکر تقاریر کیا کرتے تھے اور اس کے گرد کپڑا لپٹا ہوتا تھا۔ میں ریڑھی پر موجود تھا، جب علی احمد کرد کا نام پکارا گیا اور اس نے تقریر شروع کی تو گھبراہٹ میں اس کی ٹانگیں کانپنا شروع ہوگئیں۔اس کا وجود بڑی شدت سے لرز رہا تھا۔ میں ریڑھی میں نیچے بیٹھ گیا اور دونوں ہاتھوں سے کرد کی دونوں ٹانگیں مضبوطی سے پکڑ لیں اور کہا کہ فکر نہ کرو، تم اپنی بات جاری رکھو۔ یوں میرے اس نوجوان دوست نے خطاب کیا، لیکن اس دوران باقی کسی کو بھی پتا نہ چلا تھا کہ علی احمد کرد کس طوفان سے گزر رہا ہے۔
مجھے یاد ہے سب ذرا ذرا
تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد
نہ میں اس واقعے کو بھولا ہوں اور نہ علی احمد کرد کو۔ یوں یہ دلچسپ واقعہ تعلقات کا سبب بن گیا۔
میں اس نوجوان دوست سے اس سلسلے میں ملنا چاہتا تھا۔ علی احمد سے ملاقات ہوئی اور جب اس مسئلے پر بات چیت ہوئی تو علی احمد کرد ذہنی طور پر بالکل تیار تھا۔ اس سلسلے میں ہماری ملاقاتیں ہوتی رہیں اور بالآخر ہم نے اس کو آخری شکل دینے کے لیے کیفے ڈان کا انتخاب کیا جو جناح روڈ پر واقع ہے۔ اس مرحلے سے قبل امان بازئی سے بھی بات چیت ہوچکی تھی۔ یوں اب ہم تین دوست ہم خیال بن چکے تھے اور جدوجہد کے لیے پوری طرح یکسو ہوچکے تھے۔ پہلی اور بھرپور ضرب لگانے کے لیے دن اور تاریخ کا مرحلہ اور نام کا مسئلہ باقی تھا۔ اسی مقصد کے لیے ہم کیفے ڈان میں بات چیت کرنا چاہتے تھے۔ ہم تینوں ساتھی کیفے ڈان میں مقررہ دن جمع ہوئے اور ہمارے درمیان اس مسئلے پر گفتگو ہوئی کہ جلسہ کہاں رکھا جائے۔ میری رائے تھی کہ احتجاجی جلسہ میزان چوک پر رکھا جائے، اس لیے کہ وہاں لوگ زیادہ ہوتے ہیں اور جلسہ کامیاب رہے گا۔ علی احمد کی رائے یہ تھی کہ جناح روڈ کے منان چوک پر رکھا جائے، اس لیے کہ پڑھے لکھے اور سیاسی سوچ رکھنے والے لوگ یہاں ہوتے ہیں، اگر لوگ کم بھی ہوئے تو پروا نہیں، ہماری بات پہنچ جائے گی۔ علی احمد کی رائے سے میں اور امان بازئی متفق ہوگئے۔ اتفاقِ رائے سے 3 مارچ کی تاریخ طے ہوئی، یہ شاید جمعہ کا دن تھا، اور وقت 3 بجے طے ہوا۔ ہماری اس نشست میں یہ بھی طے ہوا کہ بلوچستان اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کے نام سے اس جدوجہد کا آغاز کیا جائے۔ ہم نے یہ بھی طے کیا کہ اس میں کسی اور کو شامل نہیں کیا جائے گا۔ یہ بات اس لیے طے کی کہ ہم اس حقیقت سے واقف تھے کہ ہماری اس جدوجہد کے نتیجے میں بلوچستان کے عوام اٹھ کھڑے ہوں گے اور جو فضا نواب بگٹی کی شخصیت کی وجہ سے دہشت زدہ نظر آرہی ہے یہ باقی نہیں رہے گی اور ہر شخص اپنے دل کی بات کہہ سکے گا، بلکہ بات کہنا آسان ہوجائے گی، اور ہمارے ساتھ شامل ہونے میں کوئی خوف محسوس نہیں کرے گا۔
لیکن اصل مسئلہ تو یہ تھا کہ پہل کون کرے؟ یہ جرأت مندانہ اقدام کون کرے؟اس بروقت فیصلے کے لیے نہ نیپ تیار تھی اور نہ نیپ کی حامی طلبہ تنظیمیں۔ نیپ کے لیے تو مسئلہ تھا، اس لیے کہ نیپ کی حکومت کے اثرات کوئی خوشگوار نہ تھے اور نہ نیپ کے ذہن میں احتجاج کا کوئی منصوبہ تھا۔ شاید وہ بھٹو کے اس فوری اقدام کے نتیجے میں ابھی سنبھل بھی نہ پائی تھی بلکہ افراتفری کا سماں تھا، اور اگر نیپ اُس وقت احتجاج کرتی جس وقت ہم کرنا چاہ رہے تھے تو نیپ کو کوئی حوصلہ افزا ردعمل نہ ملتا بلکہ اسے شدید مایوسی سے دوچار ہونا پڑتا۔ نیپ سے متاثر طلبہ تنظیموں بی ایس او اور پی ایس او کی لیڈرشپ پر خوف اور دہشت کے سائے لہرا رہے تھے، اس لیے وہ روپوش ہوچکے تھے۔ ایک اور تنظیم پشتون زلمے کے نام سے موجود تھی، اس کے کمانڈر سید حسام الدین تھے۔ یہ برائے نام تنظیم تھی، نہ اس کی کوئی قوت تھی اور نہ عوام میں اس کے اثرات تھے۔ اس تنظیم کی کارکردگی اُس وقت دیکھنے کو ملتی جب نیپ کا کوئی رہنما آتا یا کوئی جلسہ ہوتا تو اس میں یہ تنظیم کچھ لوگوں کو سرخ سرخ ٹوپیاں پہنا دیتی۔ یوں جلسے میں رونق نظر آتی اور سرخ ٹوپیاں پہننے میں بھی طلبہ زیادہ ہوتے، اس تنظیم کے اپنے لوگ کم ہوتے۔ اس لیے اس کی طرف سے تو احتجاج کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔
باقی سیاسی گروہ اس مسئلے پر خاموشی اختیار کیے ہوئے تھے، بلکہ یہ کہا جائے تو زیادہ صحیح ہوگا کہ وہ بھٹو کے اس جمہوریت کُش اقدام سے خوش تھے لیکن اس کا اظہار برسرعام نہیں کرتے تھے، مگر جب آپس میں ملتے تو خوب بغلیں بجاتے۔
اس موقع پر کسی بھی سیاسی گروہ کی طرف سے صدائے احتجاج بلند نہیں ہوسکتی تھی۔ میری رائے ہے کہ اس وقت ہم دوستوں کے سوا کوئی بھی عملی اقدام کے لیے تیار نہ تھا اور اس تاریخی اقدام کے لیے وقت ہمارا منتظر تھا اور ہم تاریخ سے گلے ملنے منان چوک کی طرف رخ کرچکے تھے، اور تاریخ کا یہ اعزاز ہمارے حصے میں آیاکہ ہم اپنے دور کے جبرو ستم کے سامنے سینہ سپر ہوگئے اور وقت کے آمروں کو اتنی شدت اور قوت سے للکارا کہ عوام میں ان کی فرعونیت کا رنگ پھیکا پڑ گیا اور عوام کے حوصلے بلند ہوگئے۔ ایک جوش اور نیا ولولہ پیدا ہوگیا، اور اس کا نکتہ آغاز 3 مارچ بنا۔
ہم نے اس جلسے کی اطلاع اخبار کے ذریعے دی۔ 3 مارچ 1973ء کو کوئٹہ کے اخبار روزنامہ جنگ میں چند سطروں کی خبر چھپی۔ جب میں نے خبر پڑھی تو احساس ہوا کہ خبر نمایاں نہیں ہے۔ معلوم نہیں کہ لوگ آتے بھی ہیں یا نہیں، اور ہم نے طے کیا تھا کہ ہم سب ساتھی عین جلسے کے وقت ملیں گے۔ یہ احتیاط اس لیے کی تھی کہ ہمیں اس بات کا خطرہ تھا کہ ہم جلسہ کرنے سے قبل گرفتار ہوجائیں گے۔ میں نماز پڑھ کر جناح روڈ پہنچا تو اُس وقت کوئی آثار ہی نہیں تھے کہ یہاں کوئی جلسہ ہونے والا ہے۔ میں جائزہ لیتا ہوا ریگل سینما کے چوک کی جانب چلا گیا تاکہ پولیس کی نظر میں نہ آسکوں۔ وہاں مجھے بی ایس او کا ایک کارکن شاہ محمد بلوچ ملا۔ اس سے کچھ دیر بات چیت ہوتی رہی، وہ بھی جلسے کے لیے آیا تھا۔ میں نے اس سے کہا کہ میں جیسپی کارنر میں انتظار کروں گا۔ جب علی احمد اور امان بازئی آجائیں تو اطلاع کردینا۔ کچھ دیر بعد وہ آیا اور کہا کہ علی احمد کرد اور امان بازئی آگئے ہیں، لائوڈ اسپیکر لگایا جا رہا ہے۔ کچھ اور انتظار کے بعد میں منان چوک کی جانب چل دیا۔ جس وقت میں گھر سے جناح روڈ آرہا تھا تو ایک دوست نے راستے میں مجھ سے پوچھا کہ کہاں جا رہے ہو؟ میں نے مسکراتے ہوئے کہا کہ جیل جارہا ہوں۔ اُس نے میری بات کو مذاق سمجھا۔ میں نے کہا: دوست منان چوک جارہا ہوں جہاں مجھے تقریر کرنی ہے اور اپنے دور کے جباروں کے خلاف بولنا ہے، اس کا نتیجہ سوائے جیل کے اور کیا ہوسکتا ہے! اور گولی بھی ہوسکتی ہے، یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔
ہمیں سے سنتِ منصور و قیس زندہ ہے
ہمیں سے باقی ہے گل دامنی و کج کلہی
جب میں منان چوک پہنچا تو علی احمد کرد اور امان بازئی سے ملا۔ لوگ اب آہستہ آہستہ اسی جانب آتے دکھائی دے رہے تھے۔ سڑک پر ٹریفک موجود تھا، اس کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہ تھی۔ پولیس کے مسلح سپاہی ٹرکوں میں موجود تھے۔ میں نے علی احمد کرد سے پوچھا کہ بی ایس او کی جانب سے کون بولے گا؟ تو اس نے کہا کہ عطا اللہ بزنجو تقریر کرے گا۔ میں نے پوچھا کہ اس کو تقریر کرنا آتی ہے؟ تو کرد نے کہا کہ مجھے معلوم نہیں ہے۔ ہم دوستوں نے کیفے ڈان کی نشست میں طے کیا تھا کہ بی ایس او کے بھی کسی ساتھی کی تقریر ہوگی۔
علی احمد کرد اور میری گفتگو منان چوک پر کھڑے کھڑے ہورہی تھی، ہم جلسے سے متعلق بھی گفتگو کررہے تھے۔ اتنے میں دیکھا کہ نواب اکبر بگٹی کے صاحبزادے جمیل بگٹی منان چوک کے قریب سے گزرے۔ ہم نے اس طرف کوئی دھیان نہ دیا۔ کچھ دیر گزری تھی کہ کار پھر گزری۔ اب ہم متوجہ ہوگئے کہ جلسے کو شاید درہم برہم کرنے کا منصوبہ ہو۔ اس لیے کہ نواب صاحب سے ہر چیز کی توقع کی جاسکتی تھی، یا شاید اُن کا مقصد ہمیں خوفزدہ کرنا تھا۔ جبکہ ہماری حالت یہ تھی کہ ہم سر ہتھیلی پر لیے کھڑے تھے۔ علی احمد کرد نے مائیک پر کہا کہ پولیس کو چاہیے کہ سڑک پر ٹریفک روک دے، اس لیے کہ ہم یہاں جلسے کے لیے جمع ہوئے ہیں، ورنہ نتائج کی تمام تر ذمے داری پولیس پر عائد ہوگی۔ اِدھر یہ اعلان ہورہا تھا اور اُدھر جلسہ گاہ کے گرد ہجوم آہستہ آہستہ بڑھ رہا تھا۔ اس دوران پولیس نے باقی ٹریفک روک دیا۔ اب لوگوں کا ہجوم بڑھتا چلا جا رہا تھا، لوگ چوک کے گرد بڑی تعداد میں جمع ہوگئے تھے، اور منان چوک کے اطراف کی سڑکیں عوام کے ہجوم کے باعث خودبخود بند ہوگئیں۔ لوگوں کی آمد کا سلسلہ مسلسل جاری تھا۔ میں تو اتنے بڑے ہجوم کی توقع نہیں کررہا تھا۔ ہم تینوں ساتھی عوام کے اس ہجوم کو دیکھ دیکھ کر مطمئن ہورہے تھے۔ ہم نے آپس میں مشورہ کیا کہ جلسے کا آغاز کیا جائے۔ میں نے مائیک پر آکر عطا اللہ بزنجو کا نام پکارا۔ یہ طالب علم تھے۔ انہوں نے جب تقریر کا آغاز کیا تو مجھے اندازہ ہوگیا کہ اس نوجوان دوست کی زندگی کی یہ پہلی تقریر ہے۔ اور پھر یہ تقریر اس کی زندگی کی آخری تقریر بھی تھی، اس لیے کہ اس نے شادی کرلی اور پھر شاید اسے فرصت ہی نہیں ملی۔
مارا زمانے نے اسد اللہ خاں تمہیں
وہ ولولے کہاں وہ جوانی کدھر گئی
جب یہ نوجوان دوست بھٹو پر تنقید کے مرحلے میں داخل ہوئے تو ہماری حالت پتلی ہورہی تھی۔ تنقید کیا تھی، شعلہ بیانی تھی بلکہ خالص بلوچی لہجے میں تنقید تھی۔ یعنی قائدِ عوام کو انتہائی فحش گالی دی، جس پرہم انتہائی پریشان ہوگئے کہ نہ جانے یہ نوجوان اب مزید کیا گل کھلائے گا! اور میں تو اس لیے بھی پریشان تھا کہ لوگوں پر اس کا اثر منفی ہوسکتا ہے۔
لیکن مجمع پر اس گالی کا اثر اچھا پڑا۔ تمام مجمع ہنسنے لگا، ہم مطمئن ہوگئے۔ اب اس کا رخ نواب بگٹی کی طرف ہوا۔
عطا اللہ نے کہا: ’’نواب بگٹی بھٹو کے پیچھے چھپا ہوا ہے‘‘۔ وہ تو خدا کا شکر ہوا کہ عطا اللہ بزنجو کی تقریر جلد ختم ہوگئی۔ اس کے بعد میں نے اپنے نوجوان دوست امان اللہ بازئی کا نام پکارا۔
میں نے مجمع پر نگاہ کی۔ سڑکیں بھر چکی تھیں، فٹ پاتھ پر کھڑے ہونے کی جگہ نہ تھی اور لوگ دکانوں کے جنگلوں کو تھامے ہمہ تن شوق سننے کو بے تاب تھے۔ ہجوم بھی دیدنی تھا اور عوام کا جوش و خروش بھی۔ بھٹو اور بگٹی مُردہ باد کے نعرے بھی بڑے جوش و خروش سے لگ رہے تھے۔ امان بازئی نے مائیک سنبھالا۔ بڑی جذباتی تقریر تھی اور وہ انتہائی جارحانہ انداز میں پیپلز پارٹی اور بھٹو کی شخصیت کی دھجیاں بکھیر رہے تھے۔ چونکہ پیپلز پارٹی میں رہے تھے اس لیے اندرونِ خانہ بہت سی باتوں سے واقف تھے اور بھٹو کو قریب سے دیکھ چکے تھے۔ ان کی تقریر سے عوام میں بھٹو اور بگٹی صاحب کے خلاف اشتعال میں اضافہ ہوگیا۔ بگٹی صاحب کی شخصیت کا سحر ٹوٹ رہا تھا اور دہشت زدہ فضا دھندلا رہی تھی، اور عوام کے چہروں پر عزم و حوصلے کے آثار نمایاں ہوچلے تھے۔
صبح ہونے کو ہے اے دلِ بیتاب ٹھہر
امان بازئی کی تقریر ختم ہوئی تو ہجوم کا جوش وجروش عروج پر پہنچ رہا تھا۔ اس کے بعد علی احمد کرد نے میرا نام پکارا۔ مجھے ہجوم کی نفسیاتی کیفیت کا اندازہ ہوچکا تھا۔ اب بات امان بازئی سے آگے کی تھی ورنہ لوگ مایوس ہوتے۔ مجھے بھی تقریر کرنے کا لطف اُس وقت آتا ہے جب کوئی مقرر مجھ سے پہلے ہجوم کے جذبات کو انگیخت کرے اور ہجوم پرچھا جائے۔ بازئی یہ کام کرچکا تھا، اب میری باری تھی اور جگر تھامنے والی بات تھی۔
(جاری ہے)