اس پے چیدہ، بکھری بکھری سی زندگی میں جب آدمی کو اپنے بارے میں سوچنے کی مہلت مشکل ہی سے ملتی ہے، ان شخصیتوں کی بابت غور کرنے، انھیں یاد کرنے کی فرصت کہاں سے اور کیسے نکلے جن سے کبھی محبت اور یگانگت کا تعلق رہا ہو، ایسا تعلق کہ فراموش کردینے یا ہوجانے کے باوجود جو حافظے کی کال کوٹھری میں کہیں نہ کہیں موجود ہوں اور یاد کرنے سے ایسے یاد آئیں کہ
آتے ہی چلے جائیں۔ بہ قول شاعر ؎
آئی جو ان کی یاد تو آتی چلی گئی
ہاں وہ دو بھائی تھے جن سے محبت کا رشتہ تھا، اور آج بھی دل محبت کی اسی ڈور سے بندھا ہے جس سے برسوں پہلے بندھا تھا، وقت اور زمانے کی گردش نے اس رشتے پر بہت گرد و غبار ڈالے، مگر جب بھی یہ دونوں بھائی جن کی حیثیت میرے لیے بہ منزلہ بزرگ اور بڑوں کی تھی، یاد آئے، پلکیں ہمیشہ ان کی یاد سے اشک بار ہی ہوئیں۔ سید کاظم علی اور سید ذاکر علی اوّل الذکر چھوٹے تھے ثانی الذکر سے۔ لیکن چھوٹے بھائی کا تذکرہ پہلے ضروری یوں ہوا کہ تعلق مراسم و محبت کا پہلے ان ہی سے استوار ہوا۔ کیسے اور کب ہوا؟ یہ تو اب بالکل یاد نہیں، بس ایک قدرِ مشترک تھی۔ وہ بھی اور یہ ادنیٰ سا خاکسار بھی کہ عمر میں ان کا خرد تھا، ایک ہی تمنا، فقط ایک ہی آرزو اپنے دل میں رکھتے تھے، اور وہ یہ کہ ملک ہمارا دینی ملک بن جائے، اسلام کا سورج طلوع ہو اور قرونِ اولیٰ کی روایات اسی سرزمینِ پاک سے ازسرِنو زندہ ہوکر مملکتِ عزیز کو عدل و انصاف، مساوات، اور احساسِ بندگی سے سرشار ہوکر اخوت و محبت کی اسی ڈور سے باندھ دیں جس سے بندھنے کے بعد ساری منفی اور تحزیبی عادات مفاد پرستی، مصلحت آمیزی، منافقت و دورنگی، حرص و ہوس، طمع و لالچ، زرپرستی اور جاہ پرستی کی رخصت ہوجائیں اور یہ معاشرہ ایک آئیڈیل نظام کے نفاذ کے سبب اقوام عالم کے لیے مثال بن جائے۔ یہ خواب اگر ادھورا رہ گیا اور تعبیر اس کی نہ نکل سکی تو بہت سی وجوہ، کچھ لغزشیں اپنی اور کچھ رکاوٹیں زمانے کی ایسی رہیں کہ جن کا تذکرہ نہ اس وقت مقصود ہے اور نہ موقع محل ہی اس کا ہے۔ ذکر تھا سید کاظم علی صاحب کا، جو اب مرحوم ہوچکے۔ تب وہ جماعت اسلامی ملیر کے نہایت اہم ذمے داروں میں سے تھے اور یہ خاکسار جامعہ ملیہ کالج ملیر میں فرسٹ ائیر کا طالب علم اور اسلامی جمعیت طلبہ میں شامل تھا۔ سید کاظم علی جماعت کے اُن محترم لوگوں میں تھے جنہوں نے اپنی زندگیاں جماعت کے لیے کھپا دی تھیں، جو جماعت سے کُل وقتی طور پر وابستہ تھے، یعنی جن کا اٹھنا بیٹھنا، چلنا پھرنا اور سونا جاگنا سب جماعت ہی کے لیے تھا، اور جماعت چوں کہ احیائے دین کی داعی تھی تو بالواسطہ طور پر ان شخصیتوں کی کُل زندگی دین ہی کے لیے سرگرمِ عمل تھی۔
سید کاظم علی جنہیں ہم لوگ کاظم صاحب کہا کرتے تھے، پست قامت، گٹھے ہوئے بدن کے، شلوار قمیص میں ملبوس، آنکھوں پہ عینک جس کے عقب سے جھانکتی ہوئی ان کی چھوٹی چھوٹی آنکھیں، لبوں پر زیر لب تبسم… مصافحہ کرتے تو دیر تک ہاتھ نہ چھوڑتے، نہایت محبت و شفقت سے تھامے رہتے… غالباً ان کی ذمے داری جماعت کی طرف سے جمعیت کے لڑکوں سے رابطے میں رہنا اور ان کی دینی تربیت کے ساتھ ساتھ ان کے ہر طرح کے مسائل میں ان کے ساتھ آج کل کی زبان میں شیئر کرنا بھی تھا۔ چناں چہ مجھے یاد ہے کہ وہ کالج تو کبھی تشریف نہ لائے لیکن گھر اُن کا میرے گھر سے نزدیک تھا۔ وہ ماڈل کالونی میں اور میں سعود آباد میں رہتا تھا، تو اکثر صبح سویرے تشریف لے آتے تھے اور گلی کے نکڑ پہ ہی کھڑے کھڑے حال احوال دریافت کرتے اور مختلف موضوعات پہ گفتگو کرکے رخصت ہوجاتے۔ کبھی کبھار اپنے گھر پہ بھی مدعو فرماتے۔ چوں کہ ایک بزرگ کے طور پر بہت شفقت کا رویہ رکھتے تھے تو میں بھی گاہے بہ گاہے اُن کے گھر جاتا رہتا تھا۔ چوں کہ ہمارا گھرانہ مشرقی پاکستان سے لٹ لٹاکر آیا تھا تو مالی حالات گھر کے اچھے نہ تھے۔ کاظم صاحب کو اس کا علم تھا۔ لہٰذا انھوں نے ایک احسان میری ذات پر ایسا کیا جس کا تذکرہ شاید مناسب نہ ہو، لیکن اتنا ضرور ہے کہ اس احسان کو یاد کرتا ہوں تو جذبۂ احسان مندی سے دل بھر جاتا ہے۔
کاظم صاحب اور ذاکر صاحب غالباً ابتدائی زمانے ہی سے جماعت اسلامی سے وابستہ تھے۔ دونوں بھائیوں میں مزاج اور عادات و اطوار کے فرق کے باوجود شرافت و نجابت، وضع داری، دردمندی کی اقدار قدرِ مشترک کی حیثیت رکھتی تھیں۔ یاد پڑتا ہے کہ کاظم علی صاحب کی گفتگو سے یہ نتیجہ بھی اخذ کیا تھا کہ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی سے ان کے گھرانے کے گھریلو قسم کے مراسم قائم تھے۔ چناں چہ اسی زمانے میں مولانا کراچی تشریف لائے تو اکابرینِ جماعت اور خصوصاً کاظم صاحب کی درخواست پر سعود آباد کی مسجد فاروقی جو جماعت ہی کے زیر انتظام تھی، مولانا رات کے وقت تشریف لائے تھے۔ اُس رات کا سماں نگاہوں میں آج بھی روشن ہے۔ سعود آباد کی سڑکیں مولانا کے دیدار کے متمنی مداحوں سے کھچا کھچ بھری تھیں۔ مسجد فاروقی کے صحن میں ایک اسٹیج سا بنادیا گیا تھا جس پر ایک کرسی مولانا کے بیٹھنے کے لیے رکھ دی گئی تھی اور ساتھ ہی لائوڈ اسپیکر بھی خطاب کے لیے موجود تھا۔ مولانا گاڑی سے اتر کر کارکنانِ جماعت کے حصار میں کہ کھوے سے کھوا چھلتا تھا، بہ مشکل اسٹیج تک پہنچے۔ فضا ’’انقلاب انقلاب اسلامی انقلاب‘‘ اور ’’عالم اسلام کا قائد سیدی مودودی‘‘ جیسے فلک شگاف نعروں سے گونج رہی تھی۔ مولانا سنجیدگی اور شائستگی سے ان نعروں کا کوئی اثر لیے بغیر خاموشی اور متانت سے بیٹھے رہے۔ نعرے جب رکے تو بھی شور نہ رکا۔ صحن مولانا کی دید و شنید کے شائقین کی تعداد کے اعتبار سے چھوٹا پڑ رہا تھا۔ لوگ بھی ایک دوسرے پر ٹوٹے پڑ رہے تھے۔ قدرتی طور پر بدنظمی کا سا ماحول پیدا ہوگیا۔ مولانا جنھوں نے زندگی بھر جماعت کے کارکنوں میں نظم و ضبط پیدا کرنے کو اپنی ترجیح اوّل جانا تھا، بھلا ادنیٰ سی بھی بدنظمی کو کیسے گوارا کرسکتے تھے! چناں چہ انھوں نے مائیک سنبھال کر نہایت ٹھیرے ہوئے پُرسکون مگر کسی قدر سرزنش کے انداز میں فرمایا کہ جماعت کے جلسے میں یہ بدنظمی میرے لیے افسوس ناک امر ہے، میں آپ حضرات کو پانچ منٹ کا وقت دیتا ہوں، ازراہِ کرم آپ لوگ خاموشی اختیار فرمائیں، ورنہ مجھے رخصت ہونے کی اجازت دیں۔ اس تنبیہ کا ایسا اثر ہوا کہ پانچ منٹ سے پہلے ہی ایسی خاموشی چھائی کہ سوئی گرتی تو آواز آجاتی۔ میں اپنے بھائی پرویز فاروق (جو اب شفیق احمد فاروق ہیں) کے ساتھ ہی اس جلسے میں موجود تھا۔ نہایت نزدیک سے مولانا کو دیکھنے اور پہلی بار ان کی تقریر سننے کی سعادت ملی۔ ان کی تقریر کا موضوع تو حافظے میں اب محفوظ نہیں رہا، البتہ کسی دینی رہنما کا اپنے مداحوں اور مقلدوں پر یہ غیر معمولی اثر پہلی بار دیکھا تھا، جس کا تاثر آج بھی ذہن میں تازہ ہے۔ مولانا کی تقریر مختصر تھی۔ کاظم صاحب مولانا کے ساتھ ہی آئے تھے اور ان کے ہمراہ ہی رخصت ہوئے۔ اور مجھے یاد ہے کہ مولانا کے جانے کے بعد مسجد سے باہر نکل کر ہم نے اپنی چپلیں ڈھونڈیں تو میرے بھائی پرویز فاروق کی نئی چپل غائب تھی جو تلاش بسیار کے باوجود نہیں ملی، جس کا قلق انھیں بعد میں بھی رہا۔
دوسرے واقعے کا تعلق مولانا کی وفات سے ہے۔ امریکہ سے مولانا مرحوم کی میت پی آئی اے کے طیارے سے کراچی ایئرپورٹ لائی گئی تو ہزارہا سوگواران ایئرپورٹ پر استقبال کے لیے موجود تھے۔ میں اُن دنوں مجیب الرحمن شامی صاحب کے ہفت روزہ ’’بادبان‘‘ سے، اور برادرم ہارون الرشید، سجاد میر صاحب کے رسالے ہفت روزہ ’’تعبیر‘‘ سے منسلک تھے۔ ہم دونوں اپنے اپنے رسالے کی طرف سے رپورٹنگ کے لیے وہاں موجود تھے۔ جب مولانا کی میت نمازِ جنازہ کے لیے ایئرپورٹ کے نزدیکی میدان میں غالباً ٹرک پر لائی گئی تو دور سے میں نے دیکھا کہ کاظم صاحب اس پر سوار تھے۔ ہر طرف سر ہی سر نظر آرہے تھے۔ ہجوم کی وجہ سے ہم لوگ گاڑی سے سڑک پر ہی اتر گئے تھے اور پیدل میدان کی طرف رواں دواں تھے۔ مجھے یاد ہے پیدل چلنے والوں میں علامہ عباس حیدر عابدی بھی تھے جن کی شیروانی کے اوپری بٹن کھلے تھے اور دھوپ سے پسینے میں نہائے تیز تیز قدموں اس ہستی کو الوداع کہنے جا رہے تھے جس نے اپنی انقلابی فکر سے ہر مکتبۂ فکر ہی کو نہیں، پورے عالم اسلام کی تحریکات کو متاثر کیا تھا۔ مولانا کے انتقال کی خبر آئی تو اس پر ایک تاثراتی تحریر لکھ کر ’’بادبان‘‘ کو ارسال کی، جسے شامی صاحب نے ’’نہ نیند آئی، نہ چین آیا، نہ خواب آیا‘‘ کے پُرکشش عنوان سے شائع کیا تھا۔ اور جب کراچی ایئرپورٹ پر الوداعی نماز کی رپورٹ چھپی تو برادرم ہارون الرشید نے نہایت انصاف پسندی سے داد دی کہ تمھاری رپورٹ مجھ سے زیادہ متاثر کن ہے۔
تذکرہ کاظم صاحب کا تھا اور بات گھوم پھر کے کہیں اور چلی گئی۔ لیکن اب کیا کیا جائے کہ کسی جانثارِ جماعت کا ذکر ہو اور مولانا مرحوم اس قصے میں شامل نہ ہوں، بھلا یہ کیسے ممکن ہے! مختصر یہ کہ جب تک کالج میں رہا، کاظم صاحب سے ملاقاتیں بدستور ہوتی رہیں۔ یونیورسٹی میں پہنچا تو رابطہ ان سے کم کم ہوگیا، اور جب صحافتی پیشہ ورانہ زندگی شروع ہوئی ملنا ملانا تقریباً ختم ہوگیا۔ البتہ جب روزنامہ ’’جسارت‘‘ سے بندھا تو اخبار کے پبلشر سید ذاکر علی تھے جو کبھی کبھار دفتر بھی تشریف لاتے تھے۔ سفید شلوار، سفید کرتا اور سر پہ ٹوپی پہنے، چہرے کے نقوش اور اپنی برائے نام داڑھی سے پاکستانی کم اور چینی یا ویت نامی زیادہ لگتے تھے۔ ہنستے تھے تو سفید دانت نمایاں ہوجاتے تھے۔ ان کی بابت دو باتیں سن رکھی تھیں۔ ایک تو یہ کہ خالص شہد تیار کرنے کے ماہر ہیں۔ شہد کی مکھیوں کے ذریعے جب شہد کا چھتا تیار ہوجاتا تو اسے سلیقے سے اتار کے احباب اور شناسائوں میں قیمتاً تقسیم کرتے۔ دوسری بات یہ سن رکھی تھی کہ وہ اس خصوصی صلاحیت سے بہرہ ور ہیں کہ زمین کے کس مقام پر میٹھا پانی اندر موجود ہے، وہ اس کی بالکل درست نشان دہی کردیتے ہیں۔ وہ جب تک جیتے رہے، صحافی کوآپریٹو ہائوسنگ سوسائٹی کے اعزازی منیجنگ ڈائریکٹر بھی رہے۔ ان کی توجہ اور محنت سے اس سوسائٹی کی زمین محفوظ رہی، اب بھی محفوظ ہے اور ان شاء اللہ قیامت تک محفوظ ہی رہے گی۔ رہی بات قابلِ رہائش ہونے کی، تو اس کا حال اللہ ہی کو معلوم ہے۔ سنا ہے اس زمین پر بھی پانی کی تلاش ذاکر صاحب ہی کی وجدانی صلاحیت سے ممکن ہوئی۔ کسی زمانے میں وہ جسارت کے ایم ڈی بھی بنا دیے گئے تھے۔ تب میں شعبۂ صحافت میں لیکچرار ہوچکا تھا۔ ایک دن انھوں نے پیغام بھیج کر یاد کیا۔ حاضرِ خدمت ہوا تو ارشاد فرمایا کہ بھئی ہم چاہتے ہیں کہ جس طرح تم پہلے جسارت میں کالم لکھا کرتے تھے وہ سلسلہ پھر سے شروع کردو۔ میں نے عرض کیا کہ اب میں استاد ہوچکا ہوں تو اپنے نام سے لکھنا تو مناسب نہ ہوگا، ہاں قلمی نام سے آپ چاہیں تو لکھ سکتا ہوں۔ اس پہ کہنے لگے: ہمیں تو تمھارا کالم چاہیے چاہے قلمی نام سے ہو۔ یوں میں عمر خیام کے قلمی نام سے خاصے عرصے تک ادارتی صفحے پر چھپتا رہا۔ غالباً اس سے کچھ عرصہ قبل کی بات ہے معلوم ہوا کہ کاظم صاحب بسترِ علالت پہ ہیں۔ ماڈل کالونی میں واقع ان کے مکان پہ پہنچا۔ مل کر، دیکھ کر انھیں افسوس ہوا۔ کاظم صاحب اب وہ کاظم صاحب نہیں رہے تھے۔ بیماری نے جسم سے زیادہ ذہن کو متاثر کیا تھا۔ ان کی باتیں خاموشی سے سنتا رہا۔ پھر کچھ ہی دنوں بعد وہ دنیا سے رخصت ہوئے۔ ذاکر صاحب کا انتقال تو بہت بعد میں ہوا، لیکن اب دونوں بھائیوں کو، ان کی کرم فرمائیوں کو یاد کرتا ہوں تو یہ سوچ کر افسردہ ہوجاتا ہوں کہ زمین کھا گئی آسمان کیسے کیسے۔ اب بھی کبھی ماڈل کالونی یا سعود آباد جانے کا اتفاق ہوتا ہے تو ذہن میں خوابیدہ ساری یادیں حافظے میں جاگ اٹھتی ہیں اور میں سوچنے لگتا ہوں کہ یہ زندگی اور اس کی حقیقت بھی ایک التباس اور دھوکے کے سوا کیا ہے۔ ایک وقت آتا ہے جب ہر حقیقت خواب میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ سارے رشتے ناتے محبت اور اخلاص کے فنا پذیر ہوکر حافظے میں دفن ہوجاتے ہیں، اور جس حافظے میں یہ ہوتے ہیں اسے اپنے بلاوے کے انتظار میں ان ہی یادوں پر گزارہ کرنا پڑتا ہے! اس احساس کے ساتھ کہ ؎