تحریکِ پاکستان کے ستاسی سالہ کارکن، بزرگ سیاسی، سماجی رہنما، دانشور اور کئی بڑی کتابوں کے مصنف پروفیسر آزاد بن حیدر ایڈووکیٹ نے اپنی زندگی فروغِ نظریۂ پاکستان، پاکستان کے قیام کے اغراض و مقاصد، قائداعظم کے فرمودات اور فکرِ اقبال کی روشنی میں پاکستان کے مسائل کے حل کے لیے وقف کردی ہے ۔ وہ عوام الناس بالخصوص نئی نسل کی تربیت کے لیے گزشتہ کئی دہائیوں سے سرگرمِ عمل ہیں۔ اس سلسلے میں آپ نے ’’جناح تھنکرز فورم‘‘ کے پلیٹ فارم سے فروغِ فکرِ اقبال موضوعاتی مذاکرہ و مشاعرہ کا سلسلہ بھی شروع کیا ہوا ہے جہاں ملک کے معروف دانشور اور شعرائے کرام اظہار خیال کرتے ہیں۔ اسی سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے آپ نے اپنی تربیتی جماعت’’جناح مسلم لیگ‘‘ کے تحت نظریاتی کارکنوں کی تعلیم و تربیت و آگاہی کے لیے ایک تربیتی نصاب بھی شائع کیا جس کا مطالعہ کرنا کارکنوں کے لیے لازمی ہے۔ موجودہ تعلیمی زوال کے خاتمے کے لیے بھی آپ سرگرم عمل ہیں اور گزشتہ دنوں ’’قلم خریدو کتاب پڑھو‘‘ کی تحریک کا آغاز’’ جناح تعلیمی اسمبلی‘‘ سے کیا اور ایک قرارداد کے ذریعے اسمبلی سے منظور کردہ قراردادیں چیف جسٹس پاکستان کو ارسال کیں۔
موجودہ سیاسی صورتِ حال کے تناظر میں آپ نے پاکستان کی 70 سالہ سیاسی تاریخ کا جائزہ لیتے ہوئے عوامی مسائل کے تدارک اور پاکستان کے روشن مستقبل کے لیے اپنی تجویز ’’28 نئے صوبے کرپشن فری منصوبے‘‘ نامی کتاب کی صورت میں پیش کی ہے جس میں نئے صوبوں کے قیام کے لیے اکابرین ملت کی تائیدی تحریریں، انٹوویوز اور بیانات شامل ہیں۔ اس قیمتی فکری اثاثے کی روشنی میں نئے صوبوں کے قیام کا حل بہ آسانی تلاش کیا جا سکتا ہے۔
’’28 صوبے،کرپشن فری منصوبے‘‘ کی تقریب اجراء میں معروف دانشور، صحافی محمود شام نے بحیثیت صدرِِ تقریب اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ نئے صوبے بنانا ملک کے پیچیدہ مسائل کا حل ہے۔ نئے صوبوں کے قیام سے ثقافت اور زبان پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ ہمارا معاشرہ آج دنیا سے کئی صدی پیچھے ہے۔ ہمارے ہاں نہ تعلیم ہے، نہ زندگی کی ضروریات، پاکستان کے نوجوان بھی روشن مستقبل کے خواب دیکھتے ہیں اور اچھی خواہشیں رکھتے ہیں۔ ان کے خوابوں کی تعبیر کے لیے بھی نظام میں مثبت تبدیلیاں کرنا ہوں گی۔ موجودہ صوبے عوام کے مسائل حل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ انہوںنے آزاد بن حیدر کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے ستاسی سالہ بزرگ دانشور آج بھی نوجوانوں سے زیادہ متحرک ہیں، یہ پاکستان کے مسائل کا حل چاہتے ہیں اور اس کی اصلاح کے لیے اپنے حصے کا چراغ جلا رہے ہیں۔ انہوں نے پاکستان بنتے دیکھا ہے اور ہجرت کے دکھ جھیلے ہیں۔ میں بھی ان دکھ جھیلنے والوں میں سے ہوں۔
نقشِ ہجرت ہیں جن کی تصویریں
میں بھی اُن قافلوں میں شامل تھا
مال گاڑی کا وہ کھلا ڈبہ
اُن دنوں جنتوں میں شامل تھا
آزاد بن حیدر کی یہ کتاب دریا کو کوزے میں بندکرنے کے مترادف ہے جو اس مسئلے پر ہماری رہنمائی کرے گی۔
پروفیسر خیال آفاقی نے کہا کہ آزاد بن حیدر جیسے لوگ ابھی موجود ہیں جو پاکستان کی اہمیت و افادیت کو سمجھتے ہوئے اسے روشن اور بہتر پاکستان بنانے کے لیے سرگرم عمل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ مسئلہ اتنی اہمیت کا حامل ہے کہ جب علامہ اقبال ؒ اٹلی گئے تو وہاں کے دانشوروں نے آپ سے کہا کہ کچھ نصیحت فرمائیے، آپ نے جواباً کہا کہ اپنے شہروں کی بڑھتی ہوئی آبادی کو روکیے اور نئے شہر آباد کیجیے، یہ ہمارے نبی محترم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم ہے۔ پروفیسر محترمہ فرحت عظیم خان نے کہا کہ تنظیمی طور پر پاکستان کو اس طرح بنایا جائے کہ وہ کرپشن سے پاک ہو۔ تنظیم، تعلیم، ترقی ایک دوسرے سے جڑے ہوئے الفاظ ہیں۔ جب تنظیم ہوگی تو تعلیم بھی ہوگی اور ترقی بھی۔ ہمیں اپنے معاشرے کا جائزہ لینا ہوگا اور اس کے لیے مثبت تبدیلیاں ضروری ہیں۔ اس موقع پر صاحبِ کتاب پروفیسر آزاد بن حیدر نے کہا کہ آج بھی قانون اور زبان انگریز کی ہے۔ 75 فیصد پاکستان پر انڈیا کا قبضہ ہے۔ جب ہماری آبادی 3 کروڑ تھی تو چار صوبے تھے، آج 21 کروڑ آبادی ہے۔ ہمیں اس جانب سنجیدگی سے سوچنا ہوگا۔ قائداعظم بین الاقوامی آئین پر مکمل دسترس رکھتے تھے۔ انہوں نے پاکستان کے لیے فرانس کے صدارتی نظام کو منتخب کیا۔ آج پاکستان کا المیہ یہ ہے کہ مقننہ ہی انتظامیہ ہے۔ فرانس میں مقننہ کا کوئی فرد وزیر نہیں بن سکتا۔ وزارت کے لیے متعلقہ شعبے کا ایکسپرٹ ہونا لازمی ہے۔ فرانس کے طرزِ انتخاب کی ایک اور خوبی یہ بھی ہے کہ جب تک امیدوار کُل ووٹوں کا 51 فیصد ووٹ حاصل نہ کرے اُسے منتخب قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اور یہی شرط صدر کے انتخاب کے لیے بھی ہے۔ ایران میں قومی اسمبلی کے لیے ’’ماسٹر‘‘ کی ڈگری لازم ہے، اور کرغیزستان میں تمام وزراء پی۔ ایچ۔ ڈی ہیں۔ جناح مسلم لیگ ووٹرز کی تربیت کررہی ہے اور یہ کتاب اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ اس موقع پر آزاد بن حیدر نے اپنی تصانیف محمود شاہ کو پیش کیں۔ تقریب کی ابتداء محمد ابوبکر صدیق نے تلاوتِ کلام پاک سے فرمائی۔ محسن غیور فاروقی نے نعتِ رسولؐ پیش کی۔ تقریب کی نظامت راقم الحروف نے کی۔ اس موقع پر مختلف طبقہ ہائے زندگی کے نمائندہ افراد بڑی تعداد میں موجود تھے۔