کتاب : کامیابی کے بنیادی نکات
مصنف : محمد فاروق خان (دہلی)
ہندی سے اردو مترجم : سعود فیروز اعظمی
صفحات : 136 قیمت 150 روپے
ناشر : منشورات۔ پوسٹ بکس 9093ُ علامہ اقبال ٹائون لاہور
فون نمبر : 0320-5434909
042-35252211
ای میل : manshurat@gmail.com
کتاب میں جناب سلیم منصور خالد نے’’گزارشات کے عنوان سے تحریر درج کی ہے:
’’محمد فاروق خان (پ: 1932ء، موضع کرپی (Karpi) ضلع سلطان پور، یورپی) میں پیدا ہوئے۔ دینی تعلیم کے ساتھ جدید تعلیم حاصل کی۔ ان کا بڑا اور مقبول کام ’’کلام نبوت‘‘ کے عنوان سے سات جلدوں میں ایک جامع انتخابِ حدیث مع مختصر حواشی ہے۔ آپ کی دیگر کتب میں: ’’خدا کی پراسرار ہستی کا تصور‘‘، ’’قرآن کے تدریسی مسائل‘‘، ’’قرآن مجید کا صوتی اعجاز‘‘، ’’حقیقتِ نبوت‘‘، ’’علم حدیث ایک تعارف‘‘، ’’ہندوستان میں اشاعتِ اسلام‘‘، ’’آخرت کے سایے میں‘‘ وغیرہ ہیں۔ آپ قادرالکلام شاعر ہیں۔ ہندی مجموعہ کلام ’’چھی تج کے پار‘‘ (اُفق کے پار) اور اردو شعری مجموعہ ’’حرفِ صدا‘‘ شائع ہوچکے ہیں۔
محمد فاروق خان صاحب بہ یک وقت اردو، عربی، ہندی اور انگریزی پر دسترس رکھتے ہیں۔ ترجمہ و تالیف کی کاوشوں کے دوران ماہ نامہ برہان، تجلی، رفیق منزل اور زندگیِ نو میں عمدہ تحقیقی اور تخلیقی مقالے تحریر کیے۔ آپ نے غیر مسلموں کو دعوت دینے، نومسلموں کی تربیت، اور مسلمانوں کی تذکیر کے لیے لیکچر، مکالمے اور تحریر کو وسیلے کے طور پر استعمال کیا۔
زیر نظر کتاب ’’کامیابی کے بنیادی نکات‘‘ میں جناب محمد فاروق خان نے ایک عام نوجوان کے، قدرتِ حق سے ٹوٹے ہوئے رشتے کو جوڑنے اور اس کے ذریعے دنیوی و اُخروی زندگی کو کامیاب بنانے کی دعوت دی ہے۔ اُن کے پیش نظر ایک بڑی تعداد اُن نوجوانوں کی ہے جو دینِ اسلام اور اس کی دعوت سے واقف نہیں ہیں۔ تاہم، اس واقفیت کا کوئی چھوٹا سا سرا بھی انہیں منزل کا سراغ دے سکتا ہے۔ پھر ان کے پیش نظر ایک بڑی تعداد اُن نوجوانوں کی بھی ہے جو نسبت تو دینِ اسلام سے رکھتے ہیں، مگر تعلیم و تربیت کا نقص اور سماجی حرکیات کا جبر انہیں اس اَبدی چشمۂ صافی سے دور لے گیا ہے کہ جس کے وارث اور تقسیم کار وہ خود ہیں۔
جناب مصنف نے جاہلیت سے دہکتے ماحول اور کرب وبلا سے تڑپتی زندگی کو کامیابی کی راہیں سمجھانے کے لیے جن وسیلوں کو پیش نظر رکھا ہے، وہ ہیں:
قرآن کا نور، اُسوۂ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کا فیضان، مظاہر قدرت کی نشانیاں، فلسفے کا عطر، علم نفسیات کا پھاہا، مشاہدے کا ہالا، اور زندگی کے مشاہدات کا سلسلہ۔
ان وسائل سے گندھے ہوئے چھوٹے چھوٹے مضامین کے ذریعے وہ اس طرح دست گیری کرتے ہیں کہ: گم کردہ راہ، راہِ راست پر آجائے۔ مایوسیوں کی اتھاہ گہرائیوں میں گرتا ہوا سنبھل جائے، اور بے خدا زندگی کی شاہراہ پر بگٹٹ دوڑنے والا سایہ خدائے ذوالجلال تلے آجائے۔ اس کتاب کا توجہ سے مطالعہ زندگی کو حسنِ اخلاق اور خوشبوئے کردار سے آراستہ کرے گا اور ناکامی و مایوسی کی دلدل سے نکالتے ہوئے دنیوی و اُخروی زندگی کی کامیابی کا نشانِ منزل دکھائے گا۔ یہ کتاب بنیادی طور پر ہندی میں لکھی گئی، جسے سعود فیروز اعظمی نے اردو کے قالب میں ڈھالا، مگر خود مصنف نے اس ترجمے پر نظرثانی کرکے اسے مستقل شکل دے دی۔
٭
محمد فاروق خان، دلی کی اداس جامع مسجد کے قریب محلہ چتلی قبر کی اس عمارت میں اکیلے مقیم ہیں جہاں کبھی جماعت اسلامی ہند کا مرکز ہوا کرتا تھا۔ نماز پڑھنے کے لیے نیچے اُترتے ہیں اور پھر تنگ سیڑھیاں چڑھتے ہوئے اپنے کمرے میں چلے آتے ہیں، جو بہ یک وقت ان کی مجلس گاہ، آرام گاہ، اسٹور اور کتب خانہ ہے۔ آپ بے پایاں اخلاص، محبت، نیک نیتی، غور و فکر اور دردمندی کا اثاثہ لیے اور یہ اثاثہ بانٹتے، چراغ اپنا روشن کیے ہوئے ہیں۔
محمد فاروق خان صاحب سے ملاقات کی چند ساعتیں گزار کر اندازہ ہوتا ہے کہ آپ تاریخ ہیں اور تاریخ کا حصہ بھی، علمی امانت ہیں اور علم کے امانت دار بھی۔ فکر و دانش کا پہاڑ ہیں، مگر باوقار فروتنی سے یہ تاثر پختہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ : ’’عزیزو، میں تو علم کے بازار کا ٹیلہ بھی نہیں‘‘۔ علامہ حمید الدین فراہیؒ سے فکری نسبت رکھتے ہوئے تنقیدی اور تجزیاتی ذوق کے مالک ہیں، لیکن گفتگو میں لفظوں کا چنائو کرتے وقت کسی جوہری کی طرح محتاط ہوجاتے ہیں۔ اور جہاں مخاطب کی رائے یا عقیدت سے ٹکراتی بات کہنا چاہتے ہیں، وہاں ان کے چہرے پر ایک جادوئی مسکراہٹ کھیلتی ہے، معصومیت سے خودبخود آنکھیں بند ہوجاتی ہیں اور وہ نازک لمحے سے بادِنسیم کی طرح گزر جاتے ہیں۔ غالباً ان کے مراقبوں کے زیر اثر وہ بات مخاطب کے دل میں یوں منتقل ہوجاتی ہے کہ ’’چپ رہتے رہتے کہہ بھی گئے‘‘۔ اس طرح وہ بیانیہ مجسم ہوجاتا ہے۔
میرا مشاہدہ ہے کہ محمد فاروق خان صاحب، تاریخ اور تہذیب کے کھنڈر پر واقع زندگی سے بھرپور شہر میں عملاً ایک ویرانے کے مکین ہیں، جب کہ علم کے متلاشی نوجوان عقیدت و احترام کے سنگ، حکمت و دانش کی پیاس بجھانے اس کنویں پر پہنچتے ہیں۔ ہر قسم کا سوال پوچھتے ہیں، جس میں مذہب سے لے کر فلسفہ، سماجیات سے لے کر اخلاقیات، تقابلِ ادیان سے لے کر مغربی تہذیب کی جادوگری، ادب سے لے کر تاریخ کی پُرپیچ گھاٹیاں سبھی گفتگو کی میزان پر تُلتی ہیں۔ اور پھر اس در پر آنے والے سوالی علم و حکمت کی سوغات سے دامن بھر کر اپنی قیام گاہوں کو پلٹتے ہیں ؎
یہ اُس کی دین ہے، جسے پروردگار دے‘‘
مصنف کتاب جناب محمد فاروق خان تحریر فرماتے ہیں:
’’انسانی زندگی کے بہت سے مسائل پائے جاتے ہیں۔ کچھ مسائل ایسے ہیں جن کا تعلق آدمی کی فکر اور نظریے سے ہے۔ اور کچھ مسائل انسانی زندگی میں ایسے پائے جاتے ہیں جو انسان کے جذبات اور اس کی تمنائوں سے متعلق ہیں۔
اس کے علاوہ انسانی زندگی میں کچھ ایسے مسائل بھی پائے جاتے ہیں جنہیں ہم تہذیبی، ثقافتی اور سماجی مسائل کہہ سکتے ہیں۔ پھر زندگی کے مختلف شعبوں میں، وہ شعبہ معاشیات کا ہو، یا سیاسیات کا، یا صلح وجنگ کا، ان کے سلسلے میں بھی بہت سے مسائل حل طلب ہمارے سامنے آتے ہیں، لیکن اکثر ہم ان کا صحیح حل تلاش کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔ ہماری ناکامی کی کچھ بنیادی وجوہ ہیں جن کی طرف ہماری نظر نہیں جاتی۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ انسانی زندگی سے متعلق جو مسائل بھی ہیں وہ باہم گہرا تعلق رکھتے ہیں۔ جب تک ان میں یگانگت اور ہم آہنگی نہ پائی جائے انسانی زندگی فساد سے پاک نہیں ہوسکتی۔ ایسی صورت میں انسان بے اطمینان کی حالت سے نجات نہیں پاسکتا۔ وہ ہمیشہ تنائو (Tension) کی حالت میں رہے گا۔ اور ایسے لوگوں کے ذریعے سے جو سوسائٹی وجود میں آئے گی وہاں بھی سکون ناپید ہوگا۔
اس کتاب میں انسان کے ظاہری و باطنی مسائل پر گہرائی سے نظر ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے، تاکہ ہم زندگی اور اس کے مسائل کے صحیح حل تک پہنچنے میں کامیاب ہوسکیں۔ اُمید ہے کہ ہمارے قارئین اس کتاب کا غور و فکر کے ساتھ مطالعہ کریں گے۔ ہمیں پوری توقع ہے کہ اگر خاطر خواہ فائدہ اُٹھایا گیا تو آدمی کی فکر و نظر اور اس کے اخلاق و کردار میں ایک خوش تر انقلاب آسکتا ہے۔‘‘
محمد فاروق خان صاحب کی یہ تحریریں فکری انشائیے ہیں، ان میں بہت سے افکار کی شائستہ و شستہ ادبی زبان میں توضیح کی گئی ہے جو قاری کے علم میں اضافے کے ساتھ ساتھ اس کے ذہنی ارتقا میں بھی ممدومعاون ہوں گی۔ کتاب میں جن موضوعات پر گفتگو کی گئی ہے وہ درج ذیل ہیں:
علم کے سرچشمے، دین داری کے تین درجے، زندگی کے تین بنیادی اصول، حکمت، گفتگو کا سلیقہ، شخصیت کی تعمیر، عزیمت، عظمت، مطلوبہ صفات اور قرآن، کردار کی طاقت، ایمان: پہچان اور پرکھ، زندگی کا ایک خاص قانون، انسانی فطرت میں مذہب کے آثار و شواہد، تعلقات، ٭ خاندان، معاشرہ، انسانی روابط کے تین درجات، پریشانیوں کے بنیادی اسباب، اللہ کا ذکر، انسان کی تین کیفیات، خرابیاں جو دکھائی نہیں دیتیں، انسانی شعور کی تین سطحیں، علم کی تین قسمیں، قرآن کا امتیاز، تربیت، اعلیٰ حقائق، جمال، سرمایے، طنزومزاح: اہمیت اور حدود، عبودیت کے کچھ اہم پہلو، کیا کھویا، جس کا احساس نہیں، اصل یافت
کتاب خوبصورت طبع کی گئی ہے جو منشورات کا اسلوب ہے، سادہ سرورق سے مزین ہے۔ دعوتی لٹریچر میں وقیع اضافہ ہے۔