انڈیا کی دہلی کی عدالت نے پاکستانی انٹیلی جنس سروسز کو خفیہ ریاستی معلومات دینے کے جرم میں انڈین سفارت کار کو تین سال قید کی سزا سنائی ہے۔
انڈین سفارت کار مادھوری گپتا کو نئی دہلی میں ایک عدالت نے اسلام آباد میں اپنی پوسٹنگ کے دوران ’جاسوسی اور معلومات کی غیر مناسب ترسیل‘ کا قصوروار پایا۔
61 سالہ مادھوری گپتا کو 2010ء میں گرفتار کیا گیا تھا۔ ان پر الزام تھا کہ انھوں نے پاکستان کی انٹیلی جنس ایجنسی آئی ایس آئی کو خفیہ معلومات فراہم کیں۔ مادھوری گپتا قدرے زیادہ سینئر سفارت کار نہیں تھیں اور انھیں دو سال تک قید میں رکھنے کے بعد ضمانت پر رہا کردیا گیا تھا۔ مادھوری گپتا غیر شادی شدہ ہیں اور اسلام آباد میں واقع بھارتی ہائی کمیشن میں وہ انفارمیشن اور پریس کے شعبے سے وابستہ تھیں۔ ان کا تعلق انڈین فارن سروس سے تھا اور وہ اسلام آباد کے علاوہ کوالالمپور میں بھی کام کرچکی ہیں۔ وہ اردو کی مترجم بھی تھیں اور بعض اطلاعات کے مطابق دو سال سے زیادہ عرصے سے اسلام آباد میں تعینات تھیں۔
انہیں 2010ء میں سارک کے سربراہی اجلاس میں مدد کے بہانے دہلی بلایا گیا تھا۔ انھیں دہلی میں ان کی رہائش گاہ سے گرفتار کیا گیا تھا۔ گرفتاری کے وقت مادھوری گپتا کی عمر 53 سال تھی۔ اُس وقت وہ اسلام آباد میں واقع بھارتی سفارت خانے میں سیکنڈ سیکریٹری (پریس اور انفارمیشن) کے عہدے پر فائز تھیں۔ تفتیشی اداروں نے ان کے خلاف سات سو صفحات پر مشتمل فردِ جرم داخل کی تھی اور دہلی پولیس کا دعویٰ تھا کہ آئی ایس آئی کو خفیہ معلومات فراہم کرنے کے لیے انھوں نے ایک لاکھ روپے کی رقم بھی لی تھی۔ پولیس نے ان کے خلاف 30 گواہوں کے بیانات بھی عدالت میں پیش کیے تھے۔ تفتیش کاروں کا دعویٰ تھا کہ وہ ای میل کے ذریعے پاکستانی ایجنٹوں کو خفیہ معلومات فراہم کرتی تھیں۔ تفتیش کے دوران اسلام آباد میں ان کی رہائش سے پانچ کمپیوٹر بھی ضبط کیے گئے تھے جو وہ مبینہ طور پر استعمال کرتی تھیں۔ فردِ جرم میں کہا گیا ہے کہ ’ان کے ای میل پیغامات سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ جمشید سے محبت کرتی تھیں اور دونوں شادی کا منصوبہ بنا رہے تھے۔ پیغامات کے متن سے بالکل واضح ہے کہ جم (جمشید) پاکستانی شہری ہیں۔‘
آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل درانی اور را کے سابق سربراہ اے ایس دلت کی مشترکہ کتاب
آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) اسد درانی کے بیٹے عثمان درانی کو مئی 2015ء میں ممبئی میں گرفتار کیا گیا تھا، اسے کامیابی کے ساتھ بھارتی ایجنسی ’را‘ نے بازیاب کرایا اور واپس پاکستان بھیجا۔ اس بات کا انکشاف حال ہی میں شائع ہونے والی کتاب ’’دی اسپائی کرانیکلز‘‘ میں کیا گیا ہے، یہ کتاب جنرل اسد درانی اور بھارتی را کے سابق چیف اے ایس دولت نے مشترکہ طور پر تحریر کی ہے۔ کتاب میں بتایا گیا ہے کہ مئی 2015ء میں جنرل درانی کے بیٹے عثمان درانی جرمن کمپنی کے کام کے سلسلے میں بھارتی شہر کوچی پہنچے۔ عثمان جس شہر سے یہاں داخل ہوئے تھے انہیں وہیں سے واپس جانا تھا، لیکن ان کی کمپنی نے ممبئی سے ان کی فلائٹ کی بکنگ کی۔ انہیں ممبئی میں حکام نے روکا اور اس کے بعد 24 گھنٹوں تک انہیں ویزا کی خلاف ورزی کے باوجود بھارت سے باہر نکالنے کے راستے تلاش کیے جاتے رہے۔ درانی نے اس کتاب میں بتایا ہے کہ ہم افراتفری کا شکار تھے کیونکہ ہمیں نہیں معلوم تھا کہ اب کیا ہوگا۔ لیکن اس کے باوجود ممبئی اسپیشل برانچ کے لوگوں نے عثمان سے یہ نہیں کہا کہ تمہارے پاس ممبئی کا ویزا نہیں ہے، تم یہاں کیا کررہے ہو؟ پکڑو، اندر کرو اسے۔ ایسا ہوسکتا تھا، لیکن نہیں ہوا۔ اس تمام عرصے کے دوران میری بیوی اور میں ایک اور پریشانی میں مبتلا تھے کہ کیا ہوگا اگر کسی نے یہ بات ظاہر کردی کہ سابق آئی ایس آئی چیف کا بیٹا ممبئی میں گھوم رہا ہے، حالانکہ ممبئی والوں کے ذہنوں میں 26/11 کے واقعے کی یاد تازہ تھی۔ جب درانی کو معلوم ہوا کہ عثمان کو گرفتار کرلیا گیا ہے تو انہوں نے دولت سے رابطہ کیا، دولت نے ’را‘ چیف راجندر کھنہ سمیت کئی لوگوں سے رابطہ کیا۔ لیکن معاملات ٹھیک ہوگئے اور عثمان کو ایک دن بعد واپس جرمنی جانے دیا گیا۔ دولت کا کہنا تھا کہ اہم موقع وہ تھا جب میں نے کھنہ سے رابطہ کرکے ان کا شکریہ ادا کیا جنہوں نے درانی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ تو ہمارا فرض تھا، کیونکہ آخر تو وہ ہمارے ساتھی ہی ہیں۔ جنرل (ر) درانی نے اس واقعے کی تصدیق کی اور کہا ہے کہ کتاب جلد پاکستان میں دستیاب ہوگی۔
(جنگ۔20مئی )
افغان حکومت ۔ نئی آزمائش میں
افغان طالبان کی جانب سے فوج اور پولیس کو عام معافی کے اعلان کے بعد بہت سے افغان فوجی چھائونیاں چھوڑ گئے ہیں جسے عسکری اصطلاح میں ’بھگوڑا‘ کہا جاتا ہے۔ آج افغانستان کے مشرانو جرگہ (سینیٹ) میں اس صورت حال پر تفصیلی بحث ہوئی اور سینیٹرز نے نیٹو کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ سینیٹرز کا کہنا تھا کہ نیٹو کے فوجی چھائونیوں میں بیٹھے ہیں جبکہ ہمارے بچے طالبان کے رحم و کرم پر ہیں۔ آدھے سے زیادہ ملک پر طالبان کا قبضہ ہے جس کی وجہ سے افغان فوج کی نقل و حرکت محدود و معطل ہوکر رہ گئی ہے۔ سینیٹرز نے حکومت کو یاد دلایا کہ دو معاہدوں یعنی Bilateral Security Agreement (BSA) اور Status of Forces Agreement (SOFA)کے تحت نیٹو کے سپاہی افغان فوج کے شانہ بشانہ لڑنے کے پابند ہیں لیکن نیٹو فوجی نہ صرف چھائونیوں سے باہر نکلنے کو تیار نہیں بلکہ ان چھائونیوں کے باہر حفاظتی چوکیوں پر تعینات افغان سپاہی بھی طالبان کے نشانے پر ہیں۔ بحث میں حصہ لیتے ہوئے سینیٹر زلمی زبولی نے کہا کہ نیٹو معاہدات کو منسوخ کردینا چاہیے کہ اس سے افغان قوم کو بدنامی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہورہا۔ سینیٹر افضل شامل نے کہا کہ ہمارے لیے یہ انتہائی شرم کی بات ہے کہ نصف سے زیادہ ملک باغیوں کے قبضے میں ہے اور ایسی حکومت کو حکمرانی کا قانونی جواز حاصل نہیں۔ سینیٹر حنیف حنیفی اور فضل ہادی مسلمیار نے بھی BSA اور SOFA معاہدوں کی منسوخی کا مطالبہ کیا۔ طالبان عام معافی کے معاملے میں کتنے مخلص ہیں اس کے بارے میں کچھ کہنا مشکل ہے کہ نیتوں کا حال تو اللہ ہی جانتا ہے لیکن اس پیشکش نے افغان حکومت کو ایک نئی آزمائش میں ڈال دیا ہے، اور پارلیمان میں اس قسم کے بحث مباحثے سے کابل انتظامیہ اور امریکہ کے تعلقات متاثر ہوسکتے ہیں۔ فلسطینیوں کے معاملے پر ڈاکٹر اشرف غنی کے دوٹوک مؤقف سے صدر ٹرمپ پہلے ہی سخت غصے میں ہیں۔
(مسعود ابدالی)
محب وطن بنگالی پاکستانی
یہ مارچ 1972ء کی دوپہر تھی، میڈرڈ کے پاکستانی سفارت خانے کے ایک نوجوان تھرڈ سیکریٹری کے چھوٹے سے اپارٹمنٹ میں فون کی گھنٹی بجی۔ نوجوان تھرڈ سیکریٹری نے فون اٹھایا تو دوسری طرف سے کال کرنے والے نے بتایا کہ اس کا نام بیدی ہے اور وہ میڈرڈ کے بھارتی سفارت خانے میں سیکنڈ سیکریٹری ہے۔ پاکستانی تھرڈ سیکریٹری بہت حیران ہوا کہ بھارتی سفارت کار اس کی رہائش گاہ پر کال کیوں کررہا ہے؟ اس سے پہلے کہ یہ نوجوان پاکستانی سفارت کار کچھ بولتا، بیدی نے بڑی اپنائیت سے کہا کہ سنو میرے دوست! مجھے نئی دہلی سے ہدایات ملی ہیں کہ مجھے آپ کو ڈھاکا پہنچانا ہے اور کچھ بھاری رقم بھی آپ کو دینی ہے، لہٰذا مجھے آپ سے ملنا ہے، بتائیے آپ مجھے کب مل سکتے ہیں؟ یہ الفاظ سن کر پاکستانی سفارت کار کو ایک جھٹکا لگا، کیونکہ یہ سب اس کے لیے بہت غیر متوقع تھا۔ بھارتی سفارت کار بہت گھاگ اور عیار تھا۔ اس نے اپنی بات جاری رکھی اور کہا کہ تمہارا وطن تمہارے انتظار میں ہے۔ یہ الفاظ سن کر پاکستانی سفارت کار کے اندر سے آواز آئی: میرا وطن پاکستان ہے اور میں اپنا وطن چھوڑنے کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔ پاکستان سے محبت اس نوجوان سفارت کار کی زبان پر آگئی اور اس نے انڈین سیکنڈ سیکریٹری کو کہا کہ دوبارہ مجھے کال کرنے کے بارے میں سوچنا بھی نہیں۔ اس سے پہلے کہ پاکستانی سفارت کار فون بند کرتا، کال کرنے والے چالاک شخص نے کہا: تم سوچ لو اور جب چاہو مجھے سفارت خانے میں فون کرکے بتادینا، ہم کہیں بھی مل سکتے ہیں۔ وہ مزید بات کرنا چاہتا تھا لیکن پاکستانی سفارت کار نے فون بند کردیا۔ یہ نوجوان سفارت کار فون بند کرکے سوچنے لگا کہ اب اسے کیا کرنا چاہیے؟ چند ہی لمحوں میں اس نے فیصلہ کیا کہ یہ واقعہ فوری طور پر اسپین میں پاکستان کے سفیر کے نوٹس میں لانا ضروری ہے، اور پھر یہ نوجوان اپنے اپارٹمنٹ سے نکلا اور سفیر کے پاس جا پہنچا۔ اس نوجوان پاکستانی تھرڈ سیکریٹری کا نام سید افتخار مرشد تھا جو ڈھاکا کا رہنے والا تھا۔ اس نوجوان کا تعلق ڈھاکا کے معروف مرشد خاندان سے تھا۔ اس کے والد سید مقبول مرشد جاپان سمیت کئی ممالک میں پاکستان کے سفیر رہ چکے تھے۔ ان کے چچا جسٹس محبوب مرشد ڈھاکا ہائی کورٹ کے چیف جسٹس رہ چکے تھے۔ افتخار مرشد صرف چند ماہ قبل ہی اپنی ٹریننگ مکمل کرکے میڈرڈ آئے تھے۔
وہ میڈرڈ میں پاکستان کے سفیر میجر جنرل عابد بلگرامی کے پاس پہنچے اور بھارتی سفارت کار بیدی کی فون کال کے بارے میں انہیں بتادیا۔ بلگرامی صاحب نے پوری بات غور سے سنی اور پائپ کے کش لگاتے ہوئے دھواں اڑانے لگے۔ وہ دل ہی دل میں نوجوان افتخار مرشد کی وطن سے محبت کو داد دے رہے تھے اور انہیں اپنا نوجوان داماد یاد آرہا تھا جو مشرقی پاکستان میں میجر کے طور پر اپنے فرائض سرانجام دیتے ہوئے شہید ہوا تھا۔ بلگرامی صاحب نے افتخار مرشد سے کہا کہ تم بیدی کو ملو اور پتا کرو کہ بھارتی سفارت خانہ یہاں کس قسم کی سرگرمیوں میں ملوث ہے، ہوسکتا ہے کہ ہمیں کوئی اہم انفارمیشن مل جائے۔
(حامد میر۔ جنگ،21مئی2018ء)
کہانی ایک ۔۔ کردار مختلف
اگر 1988ء میں جنرل اسلم بیگ اور جنرل اسد درانی کا آئی جے آئی کو بنانے میں کردار تھا تو2002ء میں جنرل پرویزمشرف اور جنرل احتشام ضمیر نے مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے ٹکڑے کیے اور قاف لیگ اور پی پی پی پیٹریاٹ کے نام سے کنگز پارٹیاں بنائیں۔ آج بھی یہی کام خوب زور و شور سے جاری ہے، لیکن اس آج کی کہانی پر آج بات کرنے پر پابندی ہے۔ اگرچہ کل تبصرے کے لیے یہ معاملہ بھی کھل جائے گا، لیکن یاد رہے کہانی وہی ہے جسے بار بار دُہرایا جارہا ہے، صرف کردار بدلتے ہیں۔ قومی مفاد میں اگر کل نیب کو استعمال کیا گیا تاکہ وہ سیاست دان جو کنگز پارٹی میں شامل ہونے سے گریزاں تھے اُنھیں یہ سمجھایا جاسکے کہ اُن کی اپنی ذات کے وسیع تر مفاد میں بھی یہی بہتر ہے کہ وہ اپنی اپنی سیاسی جماعتوں کو خیر باد کہہ کر کنگز پارٹی میں شامل ہوجائیں، تو آج ایسا کرنے سے نیب کیوں ہچکچائے گا! کرپشن کا خاتمہ تو کبھی نیب کا مقصد تھا ہی نہیں۔ کرپشن تو بہانہ ہے۔ اگر ایسا نہیں تو کوئی اس بات کا جواب دے سکتا ہے کہ کھربوں کی کرپشن کے این آر او مقدمات کو کھلے نو سال گزرنے کے باوجود ایک بھی اہم ملزم کو نہ جیل بھیجا گیا اور نہ ہی اُس سے مبینہ لوٹی ہوئی قومی دولت واپس لی گئی۔ نیب تو سیاسی جوڑ توڑ اور حکومتوں کو بنانے گرانے کے کام میں ہمیشہ پیش پیش رہا۔ اب کوئی کیسے مان لے کہ باقی سب کو بھول کر نون لیگ کے رہنمائوں کے خلاف مقدمات بنا بنا کر نیب واقعی کرپشن کے خاتمے کا خواہاں ہے! نیب تو ایک مہرہ ہے۔ اس لیے جو لوگ جنرل اسلم بیگ اور جنرل اسد درانی کا احتساب چاہتے ہیں وہ ضرور غور کریں کہ کیا آئی جے آئی کے بعد سیاسی معاملات میں مداخلت کا کام بند ہوچکا؟کیا سول حکومتوں کو کمزور کرنے اور انہیں بنانے، گرانے جیسے معاملات ماضی کا حصہ بن چکے ہیں؟ اگر ایسا نہیں تو پھر جنرل اسلم بیگ اور جنرل درانی کے خلاف یہ شور و غوغا کیسا!
(انصار عباسی۔ جنگ،21مئی 2018ء)
ایران جوہری معاہدہ سے امریکی علیحدگی
اگر اسرائیل خود ایران کو کمزور کرنے کے مواقع سے فائدہ نہیں اٹھاتا، جس کے نتیجے میں مزید خطرات سر اٹھا سکتے ہیں، تو اس کے لیے ضروری ہے کہ امریکہ کو اس کھیل کا حصہ بنائے رکھے۔ اور وہ یہی کررہا ہے۔ حال میں شام میں بڑھتے ہوئے حملے دراصل امریکہ کو ایران کے ساتھ معاہدہ ختم کرنے کی طرف لے کر آنے کے لیے ہی تھے۔ ایران نے صدر ٹرمپ کے معاہدے سے باہر نکلنے کے اعلان پر شدید ردعمل ظاہر نہیںکیا، کیونکہ ایسا کرنے سے یورپ کو امریکہ کے قریب ہوجانا تھا، اور ایران یہ کبھی نہیں چاہے گا۔ اور پھر ٹرمپ کو ایران سے معاہدہ ختم کرنے کے فیصلے تک لانے کے سلسلے میں وزیراعظم کے طور پر نیتن یاہو کی پرفارمنس کو کیسے نظرانداز کیا جا سکتا ہے؟ چند ہفتے پہلے نیتن یاہو نے قرار دیا تھا کہ ایران نیوکلیئر ہتھیاروں کی تیاری کے حوالے سے دروغ گوئی سے کام لے رہا ہے اور اس طرح معاہدے کی پابندی نہیں کررہا۔ اس بیان کا مقصد امریکی صدر کو ایران کے خلاف اشتعال دلانے کے سوا اور کچھ نہ تھا۔ لیکن ٹرمپ اور نیتن یاہو کو اس حوالے سے آگے بڑھتے ہوئے روس سے نمٹنا ہوگا۔ اگرچہ روس کا اثر رسوخ اتنا نہیں رہا جتنا وہ دعویٰ کرتا ہے، اس کے باوجود اس کے پاس اتنی طاقت ہے کہ ایران کے خلاف امریکہ اور اسرائیل کے عزائم کی تکمیل کے سامنے رکاوٹیں کھڑی کرسکے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ شام میں روسی فوجی پورے جنگ زدہ علاقے میں پھیلے ہوئے ہیں، چنانچہ ملٹری منصوبہ سازوں کے لیے یہ ممکن نہیں کہ ماسکو کے ساتھ کوئی بین الاقوامی تنازع چھیڑے بغیر شام یا ایران کو ٹارگٹ کرسکیں۔ شام میں روس کی موجودگی فوجی ایکشن نہیں بلکہ محتاط سفارتی توجہ کی طالب ہے تاکہ روس کے ساتھ معاملات کو طے کیا جا سکے اور روسی صدر ولادی میر پیوٹن کو اس کے جواب میں موقع فراہم کیا جا سکے کہ وہ اپنی شرائط پیش کریں۔ اب صورتِ حال یہ ہے کہ جب بھی اسرائیل امریکہ پر ایران کے خلاف طاقت کے استعمال کے لیے زور دیتا، روس خبردار کردیتا کہ وہ ایران کو سطح زمین سے فضا میں ہدف کو نشانہ بنانے والا میزائل سسٹم فراہم کردے گا (تاکہ امریکہ اگر جارحیت کا مظاہرہ کرے تو اسے سبق سکھایا جا سکے)۔ جب امریکہ کا ایران کے ساتھ معاہدہ طے پا گیا تھا تو 2016ء میں روس نے ایران کو ایس 300 سسٹم کی فراہمی بند کردی تھی۔ اب حال ہی میں (گزشتہ اپریل میں) امریکہ نے شام میں میزائل حملہ کیا تو روس نے بھی اس تناظر میں اپنے اس پرانے ہتھکنڈے کو استعمال کرنے کی طرف توجہ دینی شروع کردی ہے۔
امریکہ کی جانب سے نیوکلیئر ڈیل سے باہر آنے کا مطلب یہ ہوا کہ دبائو زیادہ سے زیادہ بڑھانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا اسی پر اکتفا کرلیا جائے گا؟ اس معاہدے سے بیک جنبش قلم باہر آنے کا مطلب یہ ہے کہ سفارتی عمل کو مکمل طور پر نظرانداز کردیا گیا ہے۔ چنانچہ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ امریکہ کے اس معاہدے سے باہر آنے کے حربے کا تہران میں حکومت کی تبدیلی سے کوئی تعلق ہے۔
(نذیر ناجی۔ دنیا، 20مئی2018ء)