زکوٰۃ کی اصل روح
’’اے نبیؐ! تم ان کے اموال میں سے صدقہ لے کر انہیں پاک کرو اور (نیکی کی راہ میں) انہیں بڑھائو، اور ان کے حق میں دعائے رحمت کرو،کیونکہ تمہاری دعا ان کے لیے وجۂ تسکین ہوگی، اللہ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے۔‘‘(التوبہ9:103)
زکوٰۃ کی اہمیت
نماز کے بعد اسلام کا سب سے بڑا رکن زکوٰۃ ہے۔ عام طور پر چونکہ عبادات کے سلسلے میں نماز کے بعد روزے کا نام لیا جاتا ہے، اس لیے لوگ یہ سمجھنے لگے ہیں کہ نماز کے بعد روزے کا نمبر ہے۔ مگر قرآن مجید سے ہم کو معلوم ہوتا ہے کہ اسلام میں نماز کے بعد سب سے بڑھ کر زکوٰۃ کی اہمیت ہے۔ یہ دو بڑے ستون ہیں جن پر اسلام کی عمارت کھڑی ہوتی ہے۔ ان کے ہٹنے کے بعد اسلام قائم نہیں رہ سکتا۔
یہی وجہ ہے کہ سرکارِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جب عرب کے بعض قبیلوں نے زکوٰۃ دینے سے انکار کیا تو جناب صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے اُن سے اُس طرح جنگ کی جیسے کافروں سے کی جاتی ہے، حالانکہ وہ لوگ نماز پڑھتے تھے اور خدا اور رسولؐ کا اقرار کرتے تھے۔ اس سے معلوم ہوا کہ زکوٰۃ کے بغیر نماز، روزہ اور ایمان کی شہادت سب بے کار ہیں، کسی چیز کا بھی اعتبار نہیں کیا جاسکتا۔
(’’خطبات‘‘۔ ستمبر2003ء، صفحہ201۔202)
انفاق کا عام اور خاص حکم
انفاق کا ایک حکم عام ہے اور ایک خاص۔ ایک طرف تو یہ ہے کہ بخل اور تنگ دستی سے بچو کہ یہ برائیوں کی جڑ ہے اور بدیوں کی ماں ہے۔ اپنے اخلاق میں اللہ کا رنگ اختیار کرو جو ہر وقت بے حد وحساب مخلوق پر اپنے فیض کے دریا بہا رہا ہے، حالانکہ کسی کا اس پر کوئی حق اور دعویٰ نہیں ہے۔ راہِ خدا میں جو کچھ خرچ کرسکتے ہو، کرو۔اپنی ضرورتوں سے جتنا بچا سکتے ہو، بچائو اور اس سے خدا کے دوسرے ضرورت مندوں کی ضرورتیں پوری کرو۔ دین کی خدمت میں اور اللہ کا کلمہ بلند کرنے میں جان اور مال سے کبھی دریغ نہ کرو۔ اگر خدا سے محبت رکھتے ہو تو مال کی محبت کو خدا کی محبت پر قربان کردو۔ یہ تو ہے عام حکم۔
اور اس کے ساتھ ہی خاص حکم یہ ہے کہ اس قدر مال اگر تمہارے پاس جمع ہو تو اس میں سے کم ازکم اتنا خدا کی راہ میں ضرور صرف کرو اور اتنی پیداوار تمہاری زمین میں ہو تو اس میں سے کم ازکم اتنا حصہ تو ضرور خدا کی نذر کردو، پھر جس طرح چند رکعت نماز فرض کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ بس یہ رکعتیں پڑھتے وقت ہی خدا کو یاد کرو اور باقی سارے وقتوں میں اس کو بھول جائو، اسی طرح مال کی ایک چھوٹی سی مقدار راہِ خدا میں صرف کرنا جو فرض کیا گیا ہے، اس کا مطلب بھی یہ نہیں ہے کہ جن لوگوں کے پاس اتنا مال ہو بس انہی کو راہِ خدا میں صرف کرنا چاہیے، اور جو اس سے کم مال رکھتے ہوں انہیں اپنی مٹھیاں بھینچ لینی چاہئیں، اور اس کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ مال دار لوگوں پر جتنی زکوٰ ۃ فرض کی گئی ہے بس وہ اتنا ہی خدا کی راہ میں صرف کریں اور اس کے بعد کوئی ضرورت مند آئے تو اسے جھڑک دیں یا دین کی خدمت کا کوئی موقع آئے تو کہہ دیں کہ ہم تو زکوٰۃ دے چکے، اب ہم سے ایک پائی کی بھی اُمید نہ رکھو۔ زکوٰۃ فرض کرنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے، بلکہ اس کا مطلب دراصل یہ ہے کہ کم ازکم اتنا مال تو ہر مال دار کو راہِ خدا میں دینا ہی پڑے گا، اور اس سے زیادہ جس شخص سے جو کچھ بن آئے وہ اس کو صرف کرنا چاہیے۔
(’’خطبات‘‘۔ ستمبر2003ء، صفحہ235۔236)