پارلیمنٹ کی آئینی مدت مکمل ہونے میں دو ہفتے رہ گئے ہیں، پورے ملک کی نگاہیں نگران حکومت اور مستقبل کے سیاسی منظرنامے پر لگی ہوئی ہیں۔ نوازشریف کے خلاف احتساب عدالت میں مقدمہ آخری مرحلے میں داخل ہوچکا ہے، عین اس ماحول میں نوازشریف نے ممبئی حملوں سے متعلق متعدد سوال اٹھاکر ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے، اور صورتِ حال اس قدر تلخ ہوئی کہ فوجی قیادت کی تجویز پر وزیراعظم کو قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس بلانا پڑا۔ اس اجلاس میں کیا بحث ہوئی، اور فیصلہ کیا ہوا وزیراعظم نے اجلاس کے بعد پریس کانفرنس ضرور کی لیکن فی الحال اس حوالے سے کوئی خبر نہیں۔ تاہم اس اجلاس میں کچھ فیصلے ہوئے جن پر آئندہ چند دنوں میں عمل درآمد شروع ہوجائے گا۔ خبر جاننے کے لیے اٹھائے جانے والے اقدامات پر نظر رکھنا ہوگی۔ اس اجلاس کے حوالے سے تجزیہ یہی ہے کہ تحمل کو طاقت بنانے کا فیصلہ ہوا ہے، تاہم سخت پیغام ضرور دیا گیا ہے۔ معاملہ چونکہ بہت حساس ہے اس لیے نوازشریف خاطر جمع رکھیں کہ انہیں جواب ضرور ملے گا۔ ڈان لیکس ٹو سے جو گرد اُڑی، اس میں پاکستانی شہری عتیق کو گاڑی کی ٹکر سے کچل کر ہلاک کرنے والے امریکی سفارت کار کرنل جوزف اسلام آباد سے امریکہ روانہ کردیے گئے۔ اگر ان تمام واقعات کو آپس میں جوڑ کر دیکھا اور پرکھا جائے تو ساری صورتِ حال کا فائدہ امریکی سفارت کار کو ملا ہے۔ امریکی سفارت کاروں کے لیے جاری ہونے والے نئے مراسلے کو دفن کردینا چاہیے جس میں حکومت نے ان کی نقل و حرکت کے لیے نئے رولز اور ضابطوں کا اعلان کیا تھا۔ اس تمام صورتِ حال کو اگر ایک جانب رکھ دیا جائے اور قومی سلامتی کمیٹی سے جڑے ہوئے فیصلوں کی بات تک محدود رہا جائے تو بھی وزیراعظم عباسی ایک کمزور انسان ثابت ہوئے کہ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کے بعد ان کی پریس کانفرنس سرکاری ٹی وی نے نہیں دکھائی۔ یہ فیصلہ وزیراعظم کا نہیں بلکہ مریم نواز کا تھا، اسی لیے یہ پریس کانفرنس براہِ راست نشر نہیں ہوئی۔ ملکی سیاست میں رونما ہونے والے یہ چھوٹے چھوٹے واقعات بڑی کہانیوں کا عنوان بنے ہوئے ہیں۔ مسلم لیگ(ن) کی حکومت جس روز ختم ہوگی اس کے بعد ملک میں ایک نیا سیاسی منظر ہوگا، پھر سیاسی تصادم کی نئی بساط بچھے گی، جس میں مسلم لیگ(ن) ایک نئے امتحان سے گزرے گی۔
وفاقی دارالحکومت کے اہم اور باخبر حلقوں میں یہ بحث چھڑی ہوئی ہے کہ نگران وزیراعظم کون ہوسکتا ہے؟ اگرچہ یہ کوئی غیر معمولی سیاسی پیش رفت نہیں ہوگی۔ نگران حکومت سیاسی اور جمہوری لحاظ سے کوئی اہمیت نہیں رکھتی، لیکن ملک میں سیاسی بحران، خطے کی صورتِ حال اور پاکستان کے سیاسی نظام میں عالمی اسٹیبلشمنٹ کی غیر معمولی حد تک دلچسپی کے باعث نگران حکومت کے سربراہ کے نام کی اہمیت مسلسل بڑھ رہی ہے۔ متعدد نام اس حوالے سے لیے جارہے ہیں، تاہم حتمی فہرست میں جسٹس تصدق جیلانی، حبیب بینک کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے چیئرمین سلطان علی الانہ، ڈاکٹر شمشاد اختر، ڈاکٹر عشرت حسین، ملیحہ لودھی، الیکشن کمیشن کے سابق سیکریٹری اشتیاق احمد خان کے نام سامنے آئے ہیں۔ کوئی بڑی اور غیر معمولی تبدیلی نہ ہوئی تو انہی میں سے کسی ایک پر اتفاق ہوجائے گا، اور ان کے علاوہ کسی نئے نام کے سامنے آنے کا بھی سو فیصد چانس موجود ہے۔ نگران وزیراعظم کے نام میں دلچسپی اس لیے بھی بڑھ رہی ہے کہ اس وقت دو بنیادی سوالات زیر بحث ہیں، پہلا یہ کہ کیا انتخابات اپنے وقت پر ہوجائیں گے اور کیا نگران حکومت اپنے
مینڈیٹ کے اندر رہے گی، یا اس سے باہر نکلے گی؟ دوسرا سوال یہ کہ صدر ممنون حسین، جن کی مدت جولائی میں مکمل ہورہی ہے، انتخابات میں تاخیر ہونے کی صورت میں اپنے منصب پر رہیں گے یا چیئرمین سینیٹ قائم مقام صدر کے طور پر ذمے داری سنبھالیں گے اور صدر کا انتخاب نئی پارلیمنٹ کرے گی؟ ان سوالوں کا جواب فی الحال کسی کے پاس نہیں ہے۔
مستقبل کے سیاسی نقشے کو سمجھنے کے لیے پاکستان کے حوالے سے عالمی صورتِ حال اور اس خطے میں پاکستان کے حقیقی مقام کا جائزہ لینا بہت ضروری ہے۔ سی پیک کے بعد متعصب عالمی قوتیں پاکستان پر کس طرح کے مہرے بٹھاکر اپنے مفادات سمیٹنا چاہتی ہے، اس مکروہ کھیل کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت کس سیاسی جماعت میں ہے اور اس کا ویژن کیا ہے؟ پاکستان کو اندرونی اور بیرونی خطرات سے محفوظ رکھنے کے لیے ایک ایسا مستحکم، محفوظ جمہوری نظام چاہیے جو ریاست کے مفادات کے تابع رہے۔ آج کل عالمی اسٹیبلشمنٹ مختلف حکومتوں سے اطلاعات، معیشت اور سفارت کاری سے متعلق فیصلوں پر مکمل اختیار چاہتی ہے۔ عالمی سطح پر دنیا بھر کے طاقتور ممالک کے سیاسی نظام کا جائزہ لیا جائے تو یہی تین شعبے ان کی فوج کی طاقت کے طور پر یکجا نظر آتے ہیں۔ عالمی سطح پر اور اس خطے میں پاکستان جن مسائل اور خطرات سے گزر رہا ہے عالمی اسٹیبلشمنٹ کا مقابلہ اسی صورت ہوسکتا ہے کہ پاکستان میں بھی حکومت اطلاعات، معیشت اور سفارت کاری کو اسٹیبلشمنٹ کی قوت بنا کر فیصلے کرے۔ بلاشبہ اس وقت ہمیں اس خطے کے مسائل کے اعتبار سے سرحدوں کے اندر اور باہر نہایت غیر معمولی حالات اور خطرات کا سامنا ہے، ان حالات کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت نوازشریف جیسے سیاست دان میں نہیں ہے، یہ آصف علی زرداری اور عمران خان کے بس کا روگ بھی نہیں کہ نادان، کرپٹ، نیب زدہ اور سرکاری وسائل لوٹ کر اپنے وسائل بڑھانے کے عادی سیاست دانوں کی ٹیم ملک کے حقیقی مفادات کا تحفظ نہیں کرسکتی۔ ان تینوں میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہیں ہے جو قومی راز اپنے سینے میں محفوظ رکھنے کے قابل ہو۔ اسی لیے یہ بات پختہ ہوتی جارہی ہے کہ ملک میں آئندہ انتخابات سے قبل آپریشن ہوگا، ہر کرپٹ سیاست دان کی گردن ناپی جائے گی۔ یہ کام نگران حکومت کے دوران ہوگا۔ اسی لیے یہ بات بہت اہم ہے کہ نگران حکومت کا سربراہ کون ہوگا اور اس حکومت کا مینڈیٹ کیا ہوگا؟ اسی لیے عالمی قوتیں بھی اس تاک میں ہیں کہ نگران حکومت کا سربراہ کون ہوسکتا ہے جس کا اعلان پارلیمنٹ کی مدت مکمل ہونے کے بعد ہوگا۔ ہمارا آئین پارلیمنٹ کی مدت مکمل ہوجانے کے بعد نئے انتخابات کی بات تو کرتا ہے لیکن نگران حکومت کی مدت کے تعین میں خاموش ہے۔ تاہم آئین کے آرٹیکل 190 میں وضاحت دی گئی ہے کہ وفاقی حکومت اور اس کے تمام ادارے سپریم کورٹ کے فیصلوں پر عمل درآمد کے لیے اس کے حکم کی تعمیل کے پابند ہیں۔ مستقبل میں ملک میں پارلیمنٹ کے ذریعے اسی سیاسی نظام کی بنیاد ڈالی جائے گی جو اس خطے میں ریاست کو درپیش مشکلات، مسائل اور خطرات کے مقابلے کے لیے اطلاعات، معیشت اور سفارت کاری کو پالیسی سازوں کی قوت بناکر ملک کا نظام چلائے۔ ملک میں انتخابات کے ذریعے ایسا نظام لانے کے لیے عدلیہ اور پالیسی ساز قوت اس وقت ایک صفحے پر ہے، لہٰذا یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ مستقبل میں ہونے والے عام انتخابات کے نتیجے میں وجود پانے والی پارلیمنٹ سیاسی جماعتوں کی قیادت کے مفادات کے تابع نہیں ہوگی۔ ملک میں عام انتخابات بھی یہ ہوم ورک مکمل کیے بغیر نہیں ہوں گے، اور نئی پارلیمنٹ کے سامنے سرحدوں پر پیش آنے والے خطرات بھی ہوں گے۔ پالیسی ساز چاہتے ہیں کہ پارلیمنٹ ان خطرات سے نمٹنے کے لیے سرحدوں کی حفاظت کرنے والی قوت کے ساتھ یکسوئی کا مظاہرہ کرے اور قدم سے قدم ملا کر چلے۔ پاکستان کو اس وقت بھارت اور افغانستان کے حوالے سے سنگین اور شدید خطرات کا سامنا ہے۔ ایک رائے اور پختہ سوچ یہ پائی جاتی ہے کہ مدت مکمل کرنے والی حالیہ پارلیمنٹ اور مسلم لیگ(ن) کی حکومت ملک کو درپیش سیکورٹی خطرات کے حوالے سے اعتماد پر پورا نہیں اتری اسی لیے خیال پیدا ہوا کہ مستقبل میں ایسی حکومت اور پارلیمنٹ ہونی چاہیے جو ملک کو اندرونی اور بیرونی خطرات کا حقیقی ادراک رکھتی ہو، مستقبل کے سیاسی نقشے میں اپنا رنگ بھرنے کے لیے پیپلزپارٹی، تحریک انصاف اور مسلم لیگ(ن) پورا زور لگا رہی ہیں لیکن ان میں جو سیاسی جماعت معیار پر پوری اترے گی اور پیا من بھائے گی وہی سہاگن ہوگی۔ پیپلزپارٹی کے ذرائع بتاتے ہیں کہ ’’ہم بطور سیاسی جماعت کسی کو انکار نہیں کررہے، لیکن اقتدار کے لیے پیش کی جانے والی شرائط کی تپتی ریت پر پاؤں رکھنے کو بھی تیار نہیں ہیں‘‘۔ تحریک انصاف ہر شرط قبول کرنے کے لیے تیار نظر آتی ہے اور مسلم لیگ(ن) ابھی اپنا اعتماد بحال کرنے میں لگی ہوئی ہے اور سمجھتی ہے کہ نوازشریف کی سیاست میں واپسی کا راستہ بند ہوچکا ہے۔ تاہم شہبازشریف اور ان کی ٹیم کس حد تک اعتماد بحال کرنے میں کامیاب ہوتی ہے اس بات کا انحصار اس کی انتخابی مہم اور انتخابی بیانیہ پر ہوگا۔ مسلم لیگ(ن) کا خیال ہے کہ لندن فلیٹس کیس کے باوجود ابھی کچھ نہیں بگڑا، واپسی کی راہ کھل سکتی ہے، وہ عالمی اسٹیبلشمنٹ کی جانب دیکھ رہی ہے، لیکن شہبازشریف اور چودھری نثار علی خان سمجھتے ہیں کہ ملکی پالیسی ساز فیصلہ کیے بیٹھے ہیں کہ اب اسلام آباد کے فیصلے اسلام آباد کے اندر ہی ہوں گے اور پاکستان اپنے ہر اُس مفاد کا تحفظ کرے گا جو بطور ریاست اس کی سیکورٹی کے تقاضوں کے لیے ضروری ہوگا۔ اس پس منظر میں نوازشریف کا بیانیہ پالیسی سازوں کے لیے قابل قبول نہیں ہے۔ چودھری نثار علی خان بھی متعدد بار کہہ چکے ہیں کہ ’’مسلم لیگ(ن) کو محمود اچکزئی ڈاکٹرن سے باہر نکلنا ہوگا‘‘۔ جب انتخابی مہم شروع ہوگی تو اس وقت بہت سے مقدمات نوازشریف کا پیچھا کررہے ہوں گے، ان میں بھارت رقوم منتقلی کے علاوہ اصغر خان کیس بھی شامل ہے۔ اس کیس کا مختصر پس منظر یہ ہے کہ 16 جون1996ء کو اصغرخان نے اُس وقت کے چیف جسٹس سجاد علی شاہ کو ایک خط لکھا کہ آرمی چیف، آئی ایس آئی کے سربراہ اور صدر غلام اسحاق خان ایوان صدر میں ایک الیکشن سیل کھول کر انتخابی نتائج پر اثرانداز ہوئے ہیں، پیپلزپارٹی کے مقابلے میں آئی جے آئی تشکیل دی گئی ہے اور مختلف سیاست دانوں میں رقوم تقسیم کی گئی ہیں، اس رقم کا بندوبست یونس حبیب نے کیا جنہوں نے 140 ملین رقم کا انتظام کیا جس میں تین کروڑ روپے جنرل (ر) اسلم بیگ کی این جی او فرینڈز کو بھی دیے گئے۔ چیف جسٹس نے اسی خط کو پٹیشن میں تبدیل کرکے سماعت شروع کی اور یہ بات سامنے آئی کہ صدر غلام اسحاق خان کے دو معتمد ساتھی روئیداد خان اور اجلال حیدر بھی اس میں شامل رہے ہیں۔ اس کیس کی سماعت کے بعد عدالت اس نتیجے پر پہنچی کہ جنرل اسلم بیگ، اسد درانی اور صدر غلام اسحاق خان اس عمل کے ذمے دار تھے، اس سماعت کے بعد چیف جسٹس سجاد علی شاہ سپریم کورٹ میں پیش آنے والے واقعات کے نتیجے میں اپنے عہدے سے الگ کردیے گئے۔ ان کی برطرفی کے بعد چیف جسٹس سعید الزماں صدیقی نے یہ کیس داخلِ دفتر کردیا تھا، تاہم کئی سال بعد چیف جسٹس افتخار چودھری نے اس کیس کی دوبارہ سماعت کی اور ایف آئی اے کو انکوائری کا حکم دیا، لیکن اُس وقت کے قائد حزبِ اختلاف چودھری نثار علی خان نے کہا کہ ایف آئی اے پر مسلم لیگ(ن) کو اعتماد نہیں لہٰذا ایف آئی اے کو اس کیس کی انکوائری نہیں کرنی چاہیے۔ اس طرح معاملہ ٹھپ ہوگیا اور ملک میں نئے انتخابات کے بعد مسلم لیگ(ن) اقتدار میں آئی، لیکن اس نے سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل درآمد کے لیے کوئی پیش رفت نہیں کی۔ اب چیف جسٹس ثاقب نثار نے عدلیہ کے فیصلے کی روشنی میں تفتیش کرنے کا حکم دیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس کیس سے ایک نئے ابہام کے سوا کیا نکلے گا؟ ایف آئی اے کو اُس وقت بیان یونس حبیب نے ریکارڈ کروایا تھا کہ ان کا اسلم بیگ سے اُس وقت سے رابطہ تھا کہ جب وہ فوج میں بریگیڈیئر کے عہدے کے آفیسر تھے، مئی1990ء میں ان کی ملاقات اسلم بیگ سے ہوئی، جنرل بیگ اس وقت آرمی چیف تھے، اس وقت صدر غلام اسحاق خان سے بھی ان کا رابطہ تھا اور ملاقات بھی ہوئی جس میں بے نظیر بھٹو حکومت کے خلاف عدم اعتماد لانے کی تجویز پر غور ہوا، اس کھیل میں ایک کردار یوسف میمن کا بھی ہے۔ یوسف میمن متحدہ کے رہنما فاروق ستار کے عزیز ہیں۔ 1988ء میں یونس حبیب نے انہیں متحدہ کے بانی سے جنرل اسلم بیگ کی ملاقات کرانے کا پیغام دیا، اس ملاقات میں بھی بے نظیر بھٹو حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لانے کی تجویز آئی۔ بے نظیر بھٹو حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کے لیے ایک ملاقات میں نوازشریف بھی شریک رہے ہیں، تاہم عدم اعتماد کی تحریک ناکام ہوئی، یوسف میمن ان رابطوں کے ذریعے سینیٹ میں آنا چاہتے تھے لیکن ان کی خواہش پوری نہیں ہوئی۔ اب ایک بار پھر اس کیس کی بازگشت سنائی دی ہے اور عدالت نے آرٹیکل 6 لگانے یا تحقیقات کا معاملہ حکومت پر چھوڑ دیا ہے۔ مسلم لیگ(ن) کی حکومت کے پاس تو اب دو ہفتوں کا وقت رہ گیا ہے، نگران حکومت کے لیے اس کیس کے حوالے سے عدلیہ کی گائیڈ لائن کیا ہوگی، اس کے سبھی منتظر ہیں۔