مینار پاکستان کے زیر سایہ‘ متحدہ مجلس عمل کی عوامی قوت کا مظاہرہ

اتوار 13 مئی 2018ء کی شب ایک جانب مینارِ پاکستان تو دوسری جانب تاریخی شاہی مسجد کے آسمان سے باتیں کرتے مینار اس بات کی شہادت دے رہے تھے کہ ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی۔۔۔ متحدہ مجلس عمل نے اس روز ان میناروں کے زیرِ سایہ اقبال پارک کے وسیع و عریض میدان میں اپنی زبردست عوامی قوت کا مظاہرہ کیا تھا، جس میں مجلسِ عمل میں شامل تمام جماعتوں کے چاہنے والے بہت بڑی تعداد میں شریک ہوئے تھے۔ الحمدللہ کہ اس جلسے میں ہر طرح کی فرقہ واریت اور علاقائی و لسانی عصبیتوں سے بالاتر ہوکر شرکاء صرف اور صرف مسلمان اور پاکستانی کی متفقہ و مشترکہ شناخت کے ساتھ شریک تھے۔ متحدہ مجلس عمل کی یہ پہلی بڑی کامیابی تھی کہ اس نے فرقوں میں بٹی قوم کو صرف اور صرف ’’مسلمان‘‘ کی حیثیت سے متحد، متفق اور یک جا کردیا تھا۔ جلسے میں اگرچہ تمام مکاتبِ فکر کے لوگ اور ان کے قائدین شریک تھے، مگر وہ سب یک زبان ہوکر ’’پاکستان کا مطلب کیا۔۔۔ لا اِلٰہ اِلا اللہ‘‘ کا نعرہ بلند کررہے تھے، جب کہ اسٹیج سے مختلف قائدین کی تقاریر کے دوران اور وقفوں وقفوں سے جو ترانہ لاؤڈ اسپیکر پر گونج رہا تھا اس میں کسی قائد سے عقیدت کے بجائے بار بار ایک ہی عزم کا اظہار کیا جا رہا تھا کہ ’’اسلام غالب آئے گا۔۔۔ اسلام غالب آئے گا۔۔۔ اس ملک میں تم دیکھنا۔۔۔ اسلام غالب آئے گا۔۔۔!!!
اپنے پہلے بڑے بھرپور اور کامیاب جلسہ عام کے ذریعے ملک کی دینی جماعتوں نے یہ ثابت کردیا ہے کہ وہ ملک کو متبادل قیادت فراہم کرنے کی پوری صلاحیت رکھتی ہیں۔ یہ جلسہ جو ایک لحاظ سے آئندہ عام انتخابات کے لیے متحدہ مجلس عمل کی انتخابی مہم کا نقطۂ آغاز بھی تھا، اس میں مجلس عمل کی قیادت نے اپنے مستقبل کے لائحہ عمل کا اعلان بھی کیا اور دوٹوک انداز میں یہ پیغام بھی دیا کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے بانیان نے ستّر برس قبل یہ ملک اسلام کی تجربہ گاہ کے طور پر حاصل کیا تھا، 70 برس کے دوران یہاں ہر قسم کے تجربات کیے گئے مگر یہاں کے اقتدار اور نظامِ حکومت کو اس کے اصل مقصدِ وجود ’’اسلام‘‘ سے ہمیشہ دور رکھا گیا، جس کے باعث یہاں بے پناہ مسائل نے جنم لیا۔ دینی قیادت نے اپنی تقریروں میں واضح کیا کہ ملک کے تمام مسائل و مصائب کا واحد علاج آج بھی اسلام اور صرف اسلام ہے، اور وہ پاکستان کو ہر صورت خوشحال اسلامی پاکستان بنا کر دم لیں گے۔ دنیا بھر کی سیکولر اور لبرل قوتیں اور ان کے آلۂ کار چاہے جتنی سرمایہ کاری کریں اور جتنا چاہیں زور لگائیں، پاکستان کو اس کی اسلامی شناخت سے محروم کرنے کی اُن کی کوششیں کسی طور کامیاب ہونے نہیں دی جائیں گی۔
حاضری کے لحاظ سے جلسہ نہایت بھرپور تھا۔ مولانا فضل الرحمن کے بقول جلسے کا فیصلہ 2 مئی کو اسلام آباد کے کنونشن سینٹر میں منعقدہ مجلس عمل کے ’’ورکرز کنونشن‘‘ میں کیا گیا تھا، اور دس دن میں اس کے انتظامات کرنا اور اسے کامیاب بنانا کسی چیلنج سے کم نہیں تھا، مگر مجلس عمل کی قیادت اور کارکنان نے اس آزمائش میں زبردست کامیابی حاصل کی ہے۔ مولانا نے اس کامیابی کی مبارک باد دیتے ہوئے کارکنوں کے سامنے ایک نیا چیلنج بھی رکھ دیا کہ اب وہ گلی گلی کوچے کوچے پھیل کر 2018ء کے عام انتخابات میں کامیابی کو یقینی بنائیں۔ عمومی طور پر اس جلسے کا صرف دو ہفتے قبل 29 اپریل کو اسی مقام پر ہونے والے تحریک انصاف کے جلسے سے موازنہ کیا جا رہا تھا ۔ تاہم ذرائع ابلاغ نے حسبِ معمول دینی جماعتوں کی قوت کے اس زبردست اظہار کی کوریج میں نہایت کنجوسی کا مظاہرہ کیا ۔دونوں جلسوں کی رونق اور حاضری کا ایک پہلو جس پر ذرائع ابلاغ اور خود مجلس عمل کی قیادت نے بھی توجہ نہیں دی کہ 13 مئی کے جلسے میں 29 اپریل کے جلسے کے برعکس ایک بھی خاتون شریک نہیں تھی، جب کہ 29 مئی کے جلسے میں خواتین اور بچوں کی بہت زیادہ تعداد جلسے کی حاضری اور رونق بڑھانے کے لیے موجود تھی۔ یوں مجلس عمل کا جلسہ تحریک انصاف کے جلسے کے مقابلے میں نصف سے بھی کم آبادی کی نمائندگی کررہا تھا، اس کے باوجود مولانا فضل الرحمن کے بقول اس کے مقابل 29 اپریل کا جلسہ نہیں محض ’’جلسی‘‘ تھا، تو اگر مجلس عمل بھی کسی مرحلے پر اپنی عفت مآب خواتین کو میدان میں لے آتی ہے تو اس کے جلسے کی حاضری کہاں تک جا پہنچے گی، اس کا اندازہ شاید اپنوں کو ہے نہ پرایوں کو۔۔۔!!!
مجلس عمل کے اس عظیم الشان جلسے کے مقررین میں تمام رکن جماعتوں کی قیادت موجود تھی۔ جمعیت علماء اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن، سیکریٹری جنرل مولانا عبدالغفور حیدری، جماعت اسلامی کے امیر سینیٹر سراج الحق، جماعت اسلامی اور مجلس عمل کے سیکریٹری جنرل لیاقت بلوچ، جمعیت علماء پاکستان کے صدر پیر اعجاز ہاشمی اور سیکرٹری شاہ اویس نورانی، جمعیت اہلِ حدیث کے مولانا ابتسام الٰہی ظہیر اور رانا شفیق پسروری، اسلامی تحریک کے سربراہ علامہ ساجد نقوی، علامہ سبطین سبزواری اور عارف حسین واحدی کے علاوہ مجلس عمل پنجاب کے صدر میاں مقصود احمد، بلال قدرت بٹ، صوبہ خیبر پختون خوا کے امیر جماعت اسلامی سینیٹر مشتاق احمد خان، جمعیت علماء اسلام صوبہ خیبر پختون خوا کے مولانا گل نصیب خان، مولانا امجد خان، شمس الرحمن شمسی، شاہد محمود سرور اور متعدد رہنماؤں کی ایک طویل فہرست ہے جنہوں نے خطاب کیا، جب کہ حافظ لئیق احمد اپنے نغموں سے جلسے کی فضا کو گرماتے رہے۔

متحدہ مجلس عمل کے صدر مولانا فضل الرحمن نے اپنی تقریر میں واضح کیا کہہمارے لیے اصل چیلنج 2018ء کے انتخابات میں کامیابی ہے۔ ہم نے سیکولر امریکہ نواز حکمرانوں کی بالادستی پہلے قبول کی ہے نہ آئندہ کریں گے۔ آج ہم پاکستان کو ایک حقیقی اسلامی فلاحی ریاست بنانے کا عزم کرتے ہیں۔ ستّر سال سیکولر لوگوں نے حکومت کی، آج مینارِ پاکستان ان کے جھوٹ کی گواہی دے رہا ہے۔ امت کو جنگوں کا ایندھن بنایا جارہا ہے۔ امت کو خون کا دریا عبور کرنا پڑ رہا ہے۔ عراق و افغانستان کو تباہ کیا گیا۔ ایران اور سعودی عرب کو آپس میں لڑانے اور امتِ مسلمہ کو تقسیم کرنے کی سازش امریکہ اور مغرب کی ہے جو انسانی حقوق کی بات بھی کرتے ہیں اور پھر ان حقوق کا خون بھی کرتے ہیں۔ جب تک انسانی حقوق کا تحفظ نہیں ہوگا، دنیا میں امن کی کوئی ضمانت نہیں دے سکتا۔ ہمیں آزادی کی قیمت اچھی طرح معلوم ہے، ہماری سیاست اور پارلیمنٹ پر اقوام متحدہ قبضہ چاہتا ہے اور ہماری معیشت پر آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک قابض ہوچکے ہیں۔ بین الاقوامی معاہدات ہمیں ہمارے دفاع کا حق نہیں دے رہے۔ اقوام متحدہ کا چارٹر، جنیوا انسانی حقوق کے معاہدے ہمارے حقوق کو پامال کررہے ہیں۔ جب ہمارے قانون کے ساتھ بین الاقوامی قوانین کا تصادم ہو تو پھر ہمارا قانون غیر مؤثر ہوجاتا ہے۔ ہماری قومی اسمبلی خود قانون بنانے کے بجائے بین الاقوامی ڈکٹیشن لیتی ہے۔ بین الاقوامی دباؤ پر ہماری پارلیمنٹ نے اٹھارہ سال کے بعد اپنی جنس تبدیل کرنے کا قانون پاس کرلیا۔ اقوام متحدہ جسے چاہے دہشت گرد قرار دے دے اور ہم اس کی پابندی پر مجبور ہوں تو ہماری آزادی اور خودمختاری کہاں گئی؟ انسانی حقوق کی جو تشریح مغرب کرتاہے ہم اسے ملک میں قانون کی حیثیت دیتے ہیں، ہماری آزادی کہاں رہی؟ مولانا فضل الرحمن نے حاضرین سے وعدہ کیا کہ مجلس عمل اقتدار میں آئی تو ہم ملک کی آزادی اور خودمختاری کو ہر صورت یقینی بنائیں گے اور بیرونی غلامی سے نجات دلائیں گے۔
امیر جماعت اسلامی و نائب صدر متحدہ مجلس عمل پاکستان سینیٹر سراج الحق نے اپنے پُرجوش خطاب میں کہاکہ مینارِ پاکستان اور بادشاہی مسجد کے مینار کہتے ہیں کہ نیا نہیں اسلامی پاکستان بناؤ۔ ستّر سال گزر گئے لیکن ایک دن کے لیے ہم نے پاکستان میں اسلامی نظام نہیں دیکھا۔ قائداعظم کی قیادت میں لاکھوں مسلمانوں نے پاکستان کے لیے تاریخ کی عظیم قربانیاں ان سیکولر اور کرپٹ حکمرانوں کے لیے نہیں دی تھیں۔ انہوں نے کہاکہ اسلام آباد سنگِ مرمر کا قبرستان بن چکا ہے۔ ہم ملک میں ظلم و جبر اور کرپشن کے خلاف لڑ رہے ہیں۔ ہماری لڑائی افراد یا خاندانوں کے ساتھ نہیں۔ ہم عام پاکستانی کے لیے اقتدار کے ایوانوں کے دروازے کھولنا چاہتے ہیں۔ عوام اب اپنی ذات کے لیے ووٹ کا استعمال کریں اور ان ظالموں کے بنگلوں کا طواف چھوڑ دیں۔ میں ظلم و جبر کے اس استحصالی نظام سے بغاوت کا اعلان کرتا ہوں۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ الیکشن کمیشن آئندہ انتخابات میں بہن اور بیٹی کا حق کھانے والوں کو الیکشن لڑنے کی اجازت نہ دے۔ جو اپنی بیٹی اور بہن سے دھوکا کرتا ہے وہ قوم کا وفادارنہیں ہوسکتا۔ انہوں نے کہا کہ الیکشن کو مشکوک بنادیا گیا ہے۔ عمران اور نوازشریف نے الیکشن کو مشکوک بنایا۔ خلائی مخلوق اور نادیدہ قوتوں کی بات کرکے الیکشن پر سے عوام کا اعتماد ختم کردیا، اب اپنی پوزیشن کو کلیئر کرنا ان دونوں کے لیے ضروری ہے۔ ہم گالی اور گولی کے بجائے خوشحالی اور ترقی کی سیاست چاہتے ہیں۔ موجودہ بجٹ میں 2221 ارب روپے سود کی ادائیگی کے لیے رکھے گئے ہیں، سودی معیشت کبھی ترقی نہیں کرسکتی، ہم عشر و زکوٰۃ کا نظام قائم کریں گے۔ پاکستان کے صرف دو خاندانوں کا ایک ارب ڈالر سے زیادہ سرمایہ برطانیہ میں پڑا ہے، ان کی سیاست کا مرکز و محور دولت جمع کرنا ہے۔ سیاسی پارٹیاں لٹیروں کے یتیم خانے بن چکی ہیں۔ ایوب خان سے پرویزمشرف تک جرنیل مسلم لیگیں بناتے رہے۔ انہوں نے کہاکہ متحدہ مجلس عمل ملک میں لاالٰہ الا اللہ کا نظام قائم کرنا چاہتی ہے۔ زندگی کے آخری لمحے اور خون کے آخری قطرے تک ہم پاکستا ن میں شریعت کے نفاذ کے لیے لڑیں گے۔ دینی جماعتوں کے اتحاد سے آج امریکہ کے آلہ کار پریشان ہیں، وہ اپنے بنگلوں میں گم سم بیٹھے ہیں۔ اگر 1970ء میں متحدہ مجلس عمل جیسی قوت ہوتی تو پاکستان دولخت نہ ہوتا۔ دینی جماعتیں اس لیے متحد ہوئی ہیں کہ پھر قوم کو کوئی سانحہ نہ دیکھنا پڑے۔ کراچی میں 24 ہزار لوگ شہید ہوئے۔ دہشت گردی ہمارے 65 ہزار لوگوں کو کھا گئی۔ انہوں نے کہاکہ متحدہ مجلس عمل کی صفوں میں کوئی لینڈ مافیا، شوگر مافیا اور ڈرگ مافیا نہیں ہے، اور نہ آف شور کمپنیوں والے ہیں۔ ایم ایم اے کے قافلے میں عاشقانِ رسول ؐ ہیں۔ اندھے، گونگے اور بہرے حکمران کشمیر و فلسطین میں ہونے والے مظالم پر خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ آ ج امریکی دھمکیوں کے بعد عالم اسلام کو بھی ایم ایم اے کی ضرورت ہے۔ ہم بیت المقدس میں امریکی سفارت خانے کی منتقلی کی مذمت کرتے ہیں۔ ہم طیب اردوان کو سلام پیش کرتے ہیں اور ہمیں خوشی ہے کہ ملائشیا میں مہاتیرمحمد کی دوبارہ حکومت بن گئی ہے۔ ترکی، پاکستان اور ملائشیا مل کر فلسطین کی آزادی کے لیے مؤثر کردار ادا کرسکتے ہیں۔
جماعت اسلامی اور متحدہ مجلس عمل کے سیکریٹری جنرل لیاقت بلوچ نے جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ قائداعظم نے فرمایا تھاکہ پاکستان کا طرزِ حکومت قرآن میں طے کردیا گیا ہے۔ قیامِ پاکستان کو ستّر سال ہوچکے ہیں۔ آئین بنا، پاکستان ایٹمی قوت بنا، تمام قدرتی وسائل سے مالامال اور جفاکش عوام اور کروڑوں نوجوانوں کے باوجود ہم مسائل کا شکار ہیں۔ کسان اور مزدور محنت کرتے ہیں، انہیں محنت کا صلہ نہیں ملتا۔ انہوں نے کہاکہ 2018ء کا الیکشن پاکستان کے لیے ایک ٹرننگ پوائنٹ ہے۔ متحدہ مجلس عمل ان انتخابات میں کامیابی حاصل کرے گی۔ 2002ء سے 2013ء تک کے انتخابات ہمارے سامنے ہیں، جو لوگ حکومتوں میں آئے انہوں نے پاکستان کو مسائل سے دوچار کیا۔ اشتراکیت کے بعد مغربی سرمایہ دارانہ نظام ناکام ہے۔ لوٹ مار اور کرپشن کا بازار گرم ہے۔ سیاسی بے وفا اور نام نہاد الیکٹیبلز پارٹیاں اور جھنڈے بدل کر ملک و قوم سے دھوکا کرتے ہیں۔ مزدور، کسان، طلبہ، تاجر، وکلا، اساتذہ اور خواتین سمیت ہر طبقہ پریشان ہے۔ انہوں نے کہاکہ متحدہ مجلس عمل ایسی خارجہ پالیسی دے گی جس سے امت کے مسائل حل ہوں اور پاکستان دنیا میں سر اٹھا کر چل سکے۔ کشمیر اور فلسطین کی آزادی ہماری خارجہ پالیسی کا مرکزی نقطہ ہوگا۔ پانی کے ذخائر کی تعمیر و ترقی قومی اتفاقِ رائے سے کریں گے۔ انہوں نے کہاکہ متحدہ مجلس عمل تمام اقلیتوں کے آئینی حقوق کی محافظ بن کر دکھائے گی۔ اسی طرح خواتین اور دیگر تمام طبقات کے حقوق کا تحفظ بھی مجلسِ عمل ہی یقینی بنائے گی۔
جمعیت علماء پاکستان کے مرکزی صدر اور متحدہ مجلس عمل کے مرکزی نائب صدر پیر اعجاز احمد ہاشمی نے اپنے خطاب میں کہا کہ جنہوں نے پیسے کی بنیاد پر جلسہ کیا آپ نے ان کی یہاں پہنچ کر نیندیں اڑا دی ہیں، یہاں جلسہ کیا گیا اور خیبر پختون خوا حکومت کا پیسہ لگایا گیا اور انگلی والے کی مدد سے جلسہ کیا گیا، لیکن اسلام کے نفاذ کے لیے آپ نے اپنا نام لکھوا لیا۔ سابق ڈپٹی چیئرمین سینیٹ اور جمعیت علماء اسلام کے سیکریٹری جنرل مولانا عبدالغفور حیدری نے کہا کہ پاکستان ایک نظریے کے لیے بنا، ستّر سال گزرنے کے باوجود ہم اس مقصد سے دور ہیں۔ آج ایم ایم اے نے پوری قوم کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے ہوکر قیام پاکستان کے حصول کے مقصد کو پورا کرنے کی دعوت دی ہے، ایوانِ صدر اور ایوانِ وزیراعظم میں متحدہ مجلس کا جھنڈا لہرائے گا۔
امیرجماعت اسلامی و صدر متحدہ مجلس عمل پنجاب میاں مقصود احمد نے اپنے خطاب میں لاہور کے تاجروں، وکلا، طلبہ، مزدوروں اور کسانوں سمیت تمام شعبہ ہائے زندگی کے افراد کا جلسے میں بڑی تعداد میں شرکت کرنے پر شکریہ ادا کیا اور کہا کہ پنجاب کے عوام اسلامی انقلاب کا ہراول دستہ بنیں گے۔ انہوں نے کہاکہ پاکستان کے عوام ملک میں حقیقی تبدیلی چاہتے ہیں۔ آج کے کامیاب جلسے نے ثابت کردیا ہے کہ متحدہ مجلس عمل پورے پاکستان میں بھرپور کامیابی حاصل کرے گی۔ انہوں نے کہاکہ متحدہ مجلس عمل ملک میں اسلامی فلاحی مملکت کا قیام عمل میں لائے گی۔ ملک میں دینی قوتوں کا ووٹ بینک اکٹھا ہوگا اور سیکولر قوتوں کو شکستِ فاش ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ مینارِ پاکستان جلسے سے مجلس عمل نے اپنی انتخابی مہم کا آغاز کردیا ہے اور ان شاء اللہ 2018ء میں کامیابی متحدہ مجلس عمل کے قدم چومے گی۔
جلسے سے امیر جماعت اسلامی و نائب صدر متحدہ مجلس عمل سینیٹر سراج الحق، نائب صدر ایم ایم اے علامہ ساجد نقوی، پیر اعجاز ہاشمی، سیکریٹری جنرل ایم ایم اے لیاقت بلوچ، ترجمان متحدہ مجلس عمل پاکستان شاہ اویس نورانی، ایم ایم اے پنجاب کے صدر میاں مقصود احمد، سیکریٹری جنرل بلال قدرت بٹ، سینیٹر مشتاق احمد خان، مولانا گل نصیب خان، حافظ ابتسام الٰہی ظہیر، رانا شفیق پسروری، شاہد محمود سرور و دیگر نے بھی خطاب کیا۔ جلسے میں زندہ دلانِ لاہور سمیت ملک بھر سے عوام کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔