آخر بین الاقوامی سطح پر ہونے والی مخالفتوں، اقوام متحدہ کی قراردادوں اور اقوام عالم کی طرف سے کی جانے والی مذمتی بیانات کے باوجود صہیونیت نواز امریکہ نے کچھ عرب ملکوں کو پوری طرح اپنے دام فریب میں لیکر امریکی سفارت خانے کو تل ابیب سے مقبوضہ بیت المقدس۔ (یروشلم) منتقل کر نے کے اپنے بیہودہ اور غیر قانونی فیصلے کو کل یعنی 14 مئی 2018 کو عملی جامہ پہنا ہی دیا۔ دنیا چیختی رہی لیکن ایک بار پھر امن کا جارح پیغامبر امریکہ نے غاصب و ظالم اسرائیل کی خوشنودی اور وائٹ ہاؤ س کے یہودی داماد کی دلجوئی میں فلسطینیوں کی پیٹھ میں ایک بار پھر بہت گہرائی تک چھرا گھونپ دیا۔ عالمی امن اور عالم انسانیت کے خلاف امریکہ کا یہ ایسا تاریخی وشواس گھات ہے جس کے مہلک نتائج کس شکل میں برآمد ہوں گے اس کا صحیح اندازہ وہی لوگ لگا سکتے ہیں جو قضیہ فلسطین کی تاریخ اور اس کی نزاکتوں سے پوری طرح آ گاہ ہوں۔ فی الحال بس اتنا جانتے چلیں کہ اس فیصلے کے بعد وہی بھیانک نتائج رونما ہوئے جن کا برسوں سے خدشہ تھا، مقبوضہ فلسطین میں امریکہ کے اس بے شرمی بھرے کھیل کے ساتھ ہی غرب اردن سے لیکر غزہ تک پورے فلسطین میں آگ لگ گئی ہے، اس وقت فلسطین کا ہر کونہ جھلس رہا یے، عالم اسلام خصوصا عرب ممالک کی مجرمانہ خاموشی کے باوجود جواں مرد فلسطینی ایک بار پھر سینہ تان کر ظالموں کے سامنے کھڑے ہو گئے، اور پھر ایک نئے نکبہ(1967 کے بعد کے خوں اشام فلسطینی ایام) کا دور شروع ہو گیا جس کی سالانہ یاد میں اہل فلسطین یوم نکبہ (14 اپریل) کو مصروف تھے، اس امریکی اقدام کے فورا بعد غزہ میں اس کے حدود کے اندر احتجاج کرنے والے پر امن مظاہرین پر اسرائیل کی دہشت گرد فوج نے اندھا دھند گولیاں چلا کر نہتے فلسطینیوں کا قتل عام شروع کردیا، بین الاقوامی ذرائع کے مطابق اسرائیل کی اس تازہ خوں ریزی میں اب تک 55 سے زائد فلسطینی شہید اور سیکڑوں زخمی ہو چکے ہیں جب کہ اموات کی تعداد میں مزید اضافے کا پورا اندیشہ ہے۔
فلسطین میں یہ کیا ہو رہا ہے؟ 2014 میں غزہ پر اسرائیل کے دہشت گردانہ حملے کی طرح کیا ایک بار فلسطین کو عین رمضان المبارک میں خوں آلود کرنے کی تیاری ہے؟ کب تک یہ مقدس سرزمین بے گناہوں کے خون سے نہاتی رہیگی؟ کیا امریکہ و اسرائیل کو اس دنیا نے ہر شیطانی عمل کر گذرنے کی اجازت دے رکھی ہے؟ عالم اسلام اب کیا اتنا بے حس ہو چکا ہے کہ وہ اپنے بیانات کی حد تک بھی ان ظالموں اور انصاف وانسانیت کے دشمنوں کے خلاف اپنے غصے کا اظہار نہیں کر سکتا،؟ کیا پورا عالمی نظام ( world oeder) یہودی نظام ( Jew Order) بن چکا ہے، کیا انسانیت کو ہم نے واشنگٹن اور تل ابیب کے ہاتھوں گروی رکھ دیا ہے؟ کیا سعودیہ کے ایک گم کردہ راہ شہزادے اور عرب کے کچھ جوکر نما کٹھ پتلے شاہوں کو یہ حق ہے کہ وہ امریکہ و اسرائیل سے فلسطین کا سودا کرکے اور اپنی غیرت حق بیچ کر مسلمانوں کے سیاہ و سفید کے مسلسل مالک بنے رہیں؟ کیا سفارتی تعبیرات اور سفارتی مقامات بدلنے سے حقیقتیں بھی تبدیل ہوجاتی ہیں ؟ کیا ظالموں کی ظاہری قوت و شوکت اور مظلوموں کی بے کسی و بے چارگی سے ظلم و ستم کے معنی بھی بدل جاتے ہیں؟میرے یہ سوالات صرف سوالات نہیں ہیں بلکہ دل کے وہ زخم ہیں جنھیں ہمیں اس وقت تک زندہ رکھنا چاہیے جب تک مظلوموں کو انصاف نہ مل جائے اور ظالم گروہوں اور ان کے ہم نوا منافقوں کو کیفر کردار تک نہ پہنچا دیا جائے۔غزہ کی سرزمین سے مقتولوں کی اٹھتی لاشوں، دلدوز چینخوں اور انسانیت کو شرمسار کردینے والی تصویروں نے ایک بار پھر صہیونیوں اور ان کی غیر قانونی دہشت گرد ریاست کے سیاہ و مکروہ چہرے کو دنیا کے سامنے عیاں کردیا ہے، آج حال یہ ہے کہ دنیا کی مصلحت پرستانہ خاموشی اور فلسطین کے تعلق سے سعودیہ سمیت بعض عرب ممالک کے رویے میں پیدا ہونے والی معنی خیز تبدیلی سے شہ پاکر یہودی فسطائیت اپنے باریک سے باریک نقوش کے ساتھ برہنہ ہوکر سامنے آ چکی ہے، لیکن انسانوں کی یہ جامد و بے حس دنیا اس بد نما داغ کو کل بھی پہچاننے میں ناکام رہی اور آج بھی ناکام ہی نظر آ رہی ہے ، ہاں مذمتوں کا رسمی و وقتی سلسلہ حسب معمول جاری ہے۔ مگر افسوس کہ ان سطروں کے لکھے جانے تک یروشلم و فلسطین مین میں وہی ہو رہا ہے جو اسرائیل اور اس کے ضمانت دار امریکہ کا مڈل ایسٹ منصوبہ ( Middle East Road Map )ہے۔ امریکہ کو نہ تو اپنے فیصلے پر کوئی ندامت ہے اور نہ فلسطینیوں کے قتل عام پر کوئی افسوس، بلکہ وہ الٹے اسے فلسطین و مشرق وسطی کے مسائل کے حل کی ایک پیش رفت سے تعبیر کر رہا ہے یعنی اس خطے کی قسمت پنجہ یہود میں دینا اور عربوں کو اپنا غلام بنا کر رکھنا ہی اس کی نظر میں اس مسئلے کا حل ہے۔۔۔۔۔۔۔اور یہ کیفیت اس وقت باقی رہے گی جب تک عالم عرب اس عیار ملک پر انحصار کر کے جانتے بوجھتے اس سے یوں ہی فریب کھاتا رہے گا۔
اس مسئلے کا ایک اور قابل غور پہلو یہ ہے کہ ہم دنیا کی ظالم و غاصب قوتوں کے خلاف اپنا ممکنہ رد عمل تو کبھی کبھی ظاہر کرتے ہیں لیکن اکثر اس کے سر پرستوں کو واک آؤٹ دے جاتے ہیں، میرا یہ ماننا ہے ہمارا یہ رویہ بھی مسئلہ فلسطین کے حل میں رکاوٹ رہا ہے، اگر اسرائیل ایک ظالم و غاصب ریاست ہے تو امریکہ اس کا سر پرست ہے اور یہ واشنگٹن یونیورسٹی کے پروفیسرز کی بھی رائے یہی ہے کہ امریکہ کی حمایت کے بغیر اسرائیل فلسطین میں اپنا قبضہ ایک دن بھی برقرار نہیں رکھ سکتا۔ اسرائیل سے تعلقات کا انقطاع اس وقت تک بے معنی ہے جب تک امریکہ سے بھی ہر قسم کا تعلق منقطع نہ کر لیا جائے اور اسرائیل کا سفارتی و معاشی بائیکاٹ اس وقت تک بے اثر رہے گا جب تک مسلم مالک امریکہ سے بھی معاشی و سفارتی تعلقات پوری طرح ختم نہیں کر لیتے، یروشلم میں اپنا سفارتی دفتر امریکہ نے کھولا ہے نہ یہ اقدام امریکہ کا ہے نہ کہ اسرائیل کا، اس لئے حق یہ ہے اس مسئلے میں اسرائیل سے پہلے امریکہ کا محاسبہ کیا جائے اور اس کے رد عمل میں امریکہ کا اس وقت تک سفارتی بائیکاٹ کیا جائے جب تک کہ وہ القدس کو اسرائیل کی بجائے فلسطین کی راجدھانی ماننے اور وہاں سے اپنا سفارت خانہ دوبارہ منتقل کرنے پر راضی نہ ہوجائے۔
امید کا دیا اس وقت بس ایک مسلم ملک میں ٹمٹما رہا ہے اور دلوں میں یہ امید پیدا کر رہا ہے کہ شاید وہ مایوس و تاریک عالم اسلام کے لئے قندیل رہبانی بن جائے۔۔۔یہاں فلسطین کے سیاق میں یہ بات بطور اعتراف عر ض ہے، (نہ کہ بطوراعتقاد )۔ کہ ترکی کے صدر رجب طیب اردگان وہ اکیلے مسلم لیڈر ہیں جنھوں نے اس خونیں واقعے کا سخت نوٹس لیتے ہوئے غاصب طاقتوں کے ذریعہ فلسطینیوں کے تازہ قتل عام کو “نسل کشی’’۔ قرار دیتے ہوئے نہ صرف اس کے خلاف اپنے شدید غصے سے عالمی برادری کو آگاہ کیا ہے، بلکہ امریکہ اور اسرائیل سے اس نے اپنے تمام سفارتی عملہ کو واپس بلا لیا ہے۔ میں اردگان کے حوصلے اور ان کی طرف سے حق کی طرف داری میں اٹھائے گئے اس بروقت قدم پر انھیں سلام کرتا ہوں، جنوبی افریقہ نے بھی اسرائیل و امریکہ کے اس غیر قانونی اقدام کے خلاف اسرائیل سے بطور احتجاج اپنے سفراء4 کو واپس بلا لیا ہے، لیکن افسوس کہ ابھی تک کسی بڑے عرب ملک کی طرف سے اس طرح کا کوئی احتجاجی اقدام سامنے نہیں آیا ہے۔کاش دیگر مسلم ممالک ترکی و جنوبی افریقہ کیان کے نقش قدم پر چل کر عدل و انصاف کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے القدس کے تعلق سے اپنا فرض ادا کرتے اور اردگان جیسے مسلم قائدین کو تنہا نہ چھوڑتے۔۔۔۔ حقیقت یہ ہے کہ بے رحم غاصبوں اور ان بے شرم ہمنواؤں پر دباؤ بنانے اور مظلوموں کی داد رسی کے لئے اس وقت اسی قسم کے ٹھوس اور فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔ آخر عالم اسلام بیت المقدس کے مسئلے پر متحد و بیدار نہیں ہوگا تو اور کہاں ہوگا؟
۔ ہم ظالموں کے بزدلانہ اقدامات پر لعنتیں بھیجنے کے ساتھ ہی اہل فلسطین کی نا قابل شکست جرات و غیرت کو سلام کرتے ہیں لیکن ظاہری تجزیہ یہی بتا رہا ہے کہ نہ صرف فلسطین بلکہ پورے مشرق وسطی کی عام صورت حال بہت مایوس کن اور دھماکہ خیز ہے، فلسطین ایک بار پھر لہو لہو ہے، ہزاروں ٹکڑوں کی طرح اس کا سب سے قیمتی اور مقدس ٹکڑا اب تو رسمی طور سے بھی اس کے ہاتھ سے نکل رہا ہے، مگر عالمی برادری پر اب بھی عملا اسرائیل کو سبق سکھانے کے لئے تیار نہیں ہے۔ نہ کہیں انسانی غیرت کا ثبوت مل رہا ہے، اور نہ کہیں موثر احتجاج ہے، نہ تو ظلم کے خلاف کوئی طاقتور اتحاد دکھائی دے رہا ہے اور نہ ظالموں کے معاشی و سفارتی بائیکاٹ کی کوئی تیاری۔ اس حالت میں اگر ایک بار پھر اسرائیل و فلسطین میں جنگ چھڑتی ہے، یا صحیح لفظوں میں، اگر ایک بار اسرائیل غزہ یا فلسطین کے بچے کھچے کسی علاقے پر دہشت گردانہ حملہ کرتا ہے، تو جانتے ہیں کیا ہوگا؟ پہلے معصوموں کو اسرائیلی توپوں اور میزائیلوں کا نشانہ بننے کے لئے تنہا چھوڑ دیا جائے گا، مظلوموں کے لہو سے ایک بار پھر سر زمین انبیاء4 سرخ ہوگی، اور اس کے بعد بڑے اطمینان سے سفارتی میزیں سجیں گی، عالمی طاقتوں کی طرف سے صلح پسندی کے رسمی بیانات دئے جائیں گے،، جگہ جگہ امن کے لئے دو طرفہ تبادلہ خیال پر زور دیا جائے گا، اسرائیل کی حفاظت کی ابدی ضمانت حاصل کرنے کے فارمولوں کی تجاویز بھی سامبے لائی جائیں گی، اور بس،۔۔۔ دیکھا یہ گیا ہے کہ جب جب قضیہ فلسطین نے شدت اختیار کی ہے امن کے لئے فریقین کو گفت و شنید کی نصیحت کر کے بات ختم کردی جاتی ہے، حالانکہ ہند و افریقہ کی آزادی کی طرح مکمل آزادی فلسطین ہی، جو کہ اس مسئلے کا اصل عنصر ہے، اس مسئلے کا اصل حل ہے، لیکن اس پہلو کو ہر بار بڑی چالاکی سے نظر انداز کر دیا جاتا ہے، اس بار بھی عیار طاقتوں سے اس سے زیادہ کی امید نہیں کہ وہ امن کی تو بات کریں گی لیکن اہل فلسطین کی ازادی و حقوق کے حصول پر کوئی عملی اقدام نہیں ہوگا۔
فلسطین کا مسئلہ اور فلسطینیوں کی حالت میں فرق کیسے آئے ؟۔۔ اصل مسئلہ یہ بھی ہے کہ اسرائیل کو فلسطینیوں کی نسل کشی کا ذمہ دار قرار دے کر بین الاقوامی فورم میں اسے اس جرم کی سزا کیسے دی جائے،فلسطینیوں کا قتل عام، جو اب روز مرہ کی داستان کا حصہ بن چکا ہے، رکے کیسے ؟اورصہیونی غاصبوں کو غیر قانونی قبضے سے بے دخل کیسے کیا جائے؟ حقیقت یہ ہے کہ ان سوالات کا جواب کہیں اور نہیں محض عالم اسلام کے اتحاد اور ان کی غیرت میں مضمر ہے، اگر یہاں اس کا جواب نہیں ملا تو ہمیں سمجھ لینا چاہیے کہ منزل ابھی بہت دور ہے اور فلسطین میں صہیونیوں کا یہ خونی کھیل یوں ہی جاری رہے گا، میں یہ اس لئے کہ رہا ہوں کہ صہیونیت زدہ موجودہ عالمی نظام میں نہ تو انصاف جوئی کی کوئی خواہش موجود ہے اور نہ فلسطینیوں کی مقبوضہ زمینوں سے غاصبوں کو بے دخل کرنے کا کوئی حقیقی منصوبہ، یہاں نہ مہاجر فلسطینیوں کو ان کے گھروں میں دوبارہ بسانے کی دور دور تک کوئی مہم ہے اور نہ دہشت گرد اسرائیلی ریاست کو معصوم فلسطینیوں کی نسل کشی و قتل عام سے باز رکھنے کی کوئی جرات مندانہ آواز۔۔۔ اب جو کچھ کرنا ہے وہ بس مسلمانوں کو اپنے دم پر کرنا ہے اور اپنے بل بوتے پر ہی اہل فلسطین کی مدد کے لئے انھیں آگے انا ہوگا۔
آج کا یہ بھی عجیب المیہ ہے کہ اگر عالم اسلام کا کوئی قائد یا کوئی لیڈر بیت المقدس کے تحفظ کے لئے کبھی آگے آنے کی جرات بھی کرتا ہے تو مکار طاقتیں اہسی چالیں چلتی ہیں کہ وہ دنیا میں یکہ و تنہا ہو کر رہ جائے، ان کا منصوبہ یہ ہوتا ہے کہ مسلکی و سرحدی تنازعات کے بل پر مسلمانوں کے درمیان خود اس مخصوص قائد کے کردار کو کسی طرح متنازعہ و ناقابل اعتماد بنا کر رکھ دیا جائے، اور اگر اس سے بھی کام نہ چلے تو اسے راستے سے ہی ہٹا دینے کی تدبیر چلی جائے۔۔۔ایک طرف یہ شیطانی منصوبے ہیں دوسری طرف ملت کا حال یہ ہے کہ ان کے قائدین اور دینی و ملی تنظیمیں ہی نہیں عام مسلمان بھی ہر مسئلے میں مسلکی و گروہی خطوط پر بٹے ہوئے ہیں، اب تو فلسطین جیسا حساس مسئلہ بھی انھیں متحد کرنے میں ناکام رہتا ہے اور وہ اسرائیل کی مذمت اور حماس کی حمایت کے لئے بھی وہ اپنے مسلکی و گروہی مراکز کے اشاروں کے انتظار میں رہتے ہیں۔ مسجد اقصی کا ہر مقدس پتھر اور اسرائیل کے ہاتھوں فلسطینیوں کے بہنے والے لہو کا ہر قطرہ اہل اسلام سے اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ وہ القدس کی حفاظت اور اس کے مکینوں کی حمایت کے لئے ایک ہوجائیں۔
فلسطین و بیت المقدس کی آزادی اور مظلوم و مقہور فلسطینیوں کی حمایت و دادرسی کے لئے اب یہ ضروری ہو گیا ہے کہ مسلم ممالک دنیا کے تمام انصاف پسند لیڈروں کو ساتھ لیکر اپنے دشمن اول اسرائیل کے خلاف متحد ہوجائیں اور اسے 1967 کے پہلے کی جغرافیائی تقسیم کو قبول کرنے اور مزید علاقوں کو ہڑپنے سے روکنے پر مجبور کر دیں۔ ایسا کرتے ہوئے انھیں صہیونیوں کی ہر قسم کی فتنہ پرور چالوں سیخود کو محفوظ رکھنا بھی ضروری ہے۔ امریکہ و اسرائیل اور عالمی طاقتوں کے موجودہ رویے کو دیکھتے ہوئے اس کے علاوہ اس وقت مسئلہ فلسطین کا اور کوئی حل نظر نہیں آرہا ہے۔133 اے رب کریم ہمیں معاف کردینا کہ ہم اپنے مظلوم فلسطینی بھائیوں کی چیں خیں سن کر بھی ان کی کوئی مدد نہیں کر پارہے ہیں، اب بس تو ہی ان کاحامی و مددگار ہے،۔۔۔۔
مدد اے رب مدد۔ لک اللہ یا اقصی، لک اللہ یا غزۃ