خیبر پختون خوا جہاں کبھی مسلم لیگ (ن) کا طوطی بولتا تھا، اور جہاں دو دفعہ حکومت کرنے کے مواقع ملنے کے باوجود وہ کبھی بھی اس صوبے کی پاپولر سیاسی جماعت نہیں رہی ہے، اس کے برعکس اے این پی اور پیپلز پارٹی کو یہاں تین دفعہ شراکتِ اقتدار کا موقع ملا ہے، جبکہ یہ سہرا مذہبی جماعتوں کے اتحاد متحدہ مجلس عمل اور پاکستان تحریک انصاف کے سر ایک ایک بار سج چکا ہے۔ آئندہ انتخابات کے حوالے سے چونکہ فی الوقت کوئی بات حتمی طور پر کسی کے لیے بھی کہنا ممکن نہیں، اس لیے ہر جماعت اپنی استطاعت کے مطابق اپنی مقبولیت کی دھول اڑاتی نظر آرہی ہے، جس میں فی الوقت یہ اندازہ لگانا ممکن نہیں ہے کہ صوبے کا آئندہ سیاسی منظرنامہ کیا بنے گا۔ لیکن خیبر پختون خوا کا سیاسی بیانیہ چونکہ دیگر صوبوں کی نسبت بہت مختلف ہے اور یہاں کے ووٹرز چونکہ اپنی رائے کے حوالے سے ہمیشہ آزاد منش واقع ہوئے ہیں اس لیے ملک کی ہر قابلِ ذکر جماعت نے خیبر پختون خوا کے ووٹرز کی اس آزادی پسندی کا فائدہ اٹھانے کی ہمیشہ کوشش کی ہے۔ خیبر پختون خوا کے ووٹرز کی اسی آزادی پسندی اور سیاسی بلوغت کا نتیجہ ہے کہ ماضی میں یہاں سے تمام قابلِ ذکر جماعتوں مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی، اے این پی، جمعیت (ف) اور پی ٹی آئی کو حکومت سازی کا موقع مل چکا ہے۔ اس پس منظر کو ذہن میں رکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ آنے والے انتخابات کم ازکم خیبر پختون خوا کے حوالے سے انتہائی دلچسپی اور اہمیت کے حامل ہوں گے، کیونکہ صوبے میں وجود رکھنے والی تمام قابلِ ذکر جماعتوں کو جہاں اس صوبے میں اقتدار کا مینڈیٹ مل چکا ہے، وہیں یہ مینڈیٹ چونکہ عموماً تبدیل ہوتا رہا ہے، لہٰذا سیاسی تجزیہ کار آنے والے انتخابات کو انتہائی دلچسپی سے دیکھ رہے ہیں کہ صوبے کے باشعور ووٹرز اپنی اجتماعی طاقت کس پلڑے میں ڈالیں گے۔ چونکہ پنجاب، سندھ اور بلوچستان کے برعکس خیبر پختون خوا کے ووٹرز کے موڈ کے بارے میں پیشگی طور پر کچھ کہنا یا اس حوالے سے کوئی اندازہ لگانا مشکل ہوتا ہے، اس لیے سیاسی مبصرین خیبر پختون خوا کی انتخابی سیاست کو پورے ملک کے لیے ایک ٹرینڈ سیٹر کے طور پر دیکھتے ہیں۔ تادم تحریر خیبر پختون خوا میں مذہبی جماعتوں کے اتحاد متحدہ مجلس عمل کے سوا باقی تمام جماعتیں سولوفلائٹ کے موڈ میں نظر آتی ہیں جس سے یہ نتیجہ اخذ کرنا چنداں مشکل نہیں ہے کہ آئندہ انتخابات میں ہر جماعت اپنے زورِ بازو کو آزمانے کے بعد حکومت سازی کے اہم مرحلے میں اپنی چوائس اور سائز کے مطابق زیادہ سے زیادہ بہتر بارگیننگ کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ ایسے میں مسلم لیگ(ن) جس کا ماضی میں خیبر پختون خوا کی حد تک زیادہ تر ووٹ بینک ہزارہ ڈویژن تک محدود رہا ہے اور ماضی میں اس کے دونوں ادوارِ حکومت میں اس کے وزرائے اعلیٰ کا تعلق ہزارہ سے رہا ہے، اس مرتبہ اس کی صوبائی قیادت کا زیادہ تر فوکس پختون علاقوں پر ہے، جن میں ملاکنڈ ڈویژن اور وسطی اضلاع قابلِ ذکر ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کی خیبر پختون خوا میں دلچسپی کی ایک اور اہم وجہ ایک طویل عرصے کے بعد اس کے صوبائی صدر کا ہزارہ کے بجائے پختون علاقوں سے ہونا ہے۔ واضح رہے کہ جب سے پیر صابر شاہ کی جگہ امیر مقام کو مسلم لیگ (ن) کا صوبائی صدر مقرر کیا گیا ہے، ان کی توجہ کا زیادہ تر مرکز ملاکنڈ ڈویژن کے اضلاع سوات، شانگلہ، دیرپائین وبالا، چترال، بونیر اور ملاکنڈ ایجنسی کے ساتھ ساتھ بعض وسطی اضلاع مثلاً مردان، صوابی اور پشاور ہیں۔ اس حوالے سے یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ انھوں نے پچھلے چند ہفتوں کے دوران سوات، چترال، دیر، مردان، شانگلہ اور بونیر میں بڑے بڑے جلسہ ہائے عام منعقد کرکے جہاں مرکزی قیادت کو اپنی فعالیت کا گرویدہ بنایا ہے، وہیں ان جلسوں کے ذریعے وہ مسلم لیگ (ن) کو منظم اور عوامی سطح پر مقبول بنانے میں بھی کم ازکم ماضی کی نسبت خاصے کامیاب نظر آتے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کی خیبر پختون خوا میں ان بڑھتی ہوئی سرگرمیوں کے باوجود مسلم لیگ (ن) کے لیے یہ بات بھی یقینا باعثِ تشویش ہوگی کہ پچھلے چند ہفتوں میں اس کے کئی نامی گرامی راہنما اگر ایک طرف پی ٹی آئی میں شامل ہوئے ہیں جن میں پشاور سے اس کے اکلوتے رکن صوبائی اسمبلی اکبر حیات خان، صوبائی سیکرٹری اطلاعات ناصر خان موسیٰ زئی اور ضلعی صدر عبدالستار خلیل
شامل ہیں، تو دوسری جانب ضلع لکی مر وت سے مسلم لیگ (ن) کے سابق صوبائی صدر اور ہر کڑے وقت میں مسلم لیگی قیادت کا ساتھ دینے والے انورکمال مروت مرحوم کے اہلِ خاندان کے علاوہ سیف اﷲ خان خاندان کا مسلم لیگ (ن) سے راہیں جدا کرتے ہوئے ایک آزاد اور الگ گروپ تشکیل دے کر آئندہ انتخابات میں پی ٹی آئی کے ساتھ پہلے سے انتخابی اتحاد طے کرنا ہے۔ یاد رہے کہ اس اتحاد کا اعلان سلیم سیف اﷲ خان، وزیراعلیٰ پرویز خٹک کے ساتھ ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں چند ہفتے قبل کرچکے ہیں۔ اسی طرح مسلم لیگ (ن) کے گڑھ سمجھے جانے والے ہزارہ ڈویژن کے بالائی علاقوں مانسہرہ، بٹ گرام اور کوہستان سے بھی مسلم لیگ (ن) کی اندرونی صفوں میں اختلافات کی خبریں مسلسل سامنے آرہی ہیں جن میں نمایاں خبر وفاقی وزیر مذہبی امور سردار محمد یوسف کے خلاف مسلم لیگ (ن) کے رکن صوبائی اسمبلی صلاح محمد خان کی جانب سے بغاوت کا اعلان کرتے ہوئے آئندہ انتخابات میں این اے 13کی نشست پر سردار محمد یوسف کے خلاف آزاد حیثیت میں الیکشن لڑنے کا اعلان کرکے اپنی انتخابی مہم زور و شور سے شروع کرنا ہے۔ اطلاعات کے مطابق مانسہرہ سے مسلم لیگ (ن) کے رکن قومی اسمبلی اور میاں محمد نوازشریف کے داماد کیپٹن (ر) صفدر نے ان دونوں راہنمائوںکے درمیان اختلافات کے خاتمے کی متعدد مرتبہ کوششیں کی ہیں اور اس ضمن میں ناراض رکن صوبائی اسمبلی کو منانے کے لیے مقامی عہدیداران کے ہمراہ جرگے بھی کیے ہیں لیکن مصالحت کی دال تاحال گلتی ہوئی نظر نہیں آتی، جس سے مسلم لیگ (ن) کو آئندہ انتخابات میں اس اہم نشست پر سخت نامساعد حالات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ یہاں اس امر کی نشاندہی کرنا بھی خالی از دلچسپی نہ ہوگا کہ ہزارہ جو مسلم لیگ (ن) کا نہ صرف گڑھ سمجھا جاتا ہے بلکہ یہاں سے میاں نوازشریف بھی متعدد مرتبہ الیکشن لڑ کر رکن قومی اسمبلی منتخب ہوتے رہے ہیں، یہاں گزشتہ کچھ عرصے سے پارٹی کے کئی نامی گرامی راہنما سابق صوبائی وزیر وجیہ الزمان اور سابق وزیر خزانہ عمر ایوب خان سمیت کئی راہنما پارٹی کو داغِ مفارقت دیتے ہوئے پی ٹی آئی میں شامل ہوچکے ہیں، دوسری جانب فاٹا سے مسلم لیگ (ن) کے رکن قومی اسمبلی شہاب الدین خان کی پارٹی سے علیحدگی کے اعلان کے بعد آئندہ انتخابات میں پارٹی کو فاٹا میں بھی ٹف ٹائم ملنے کا امکان ہے۔
اس تمام تر بحث کے نتیجے میں کہا جاسکتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کو خیبر پختون خوا میں اے این پی، متحدہ مجلس عمل اور پی ٹی آئی کی بڑھتی ہوئی عوامی مقبولیت، نیز مسلم لیگی قیادت کی تمام تر توجہ کا متوقع مرکز پنجاب ہونے کے امکانات کو مدنظر رکھتے ہوئے عام انتخابات میں یقینا سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جو پارٹی کے صوبائی صدر امیر مقام کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہوگا۔