رمضان کیا چاہتا ہے؟

تبصرہ کتب
تبصرہ کتب

کتاب : رمضان کیا چاہتا ہے؟
مرتب : امجد عباسی (ماہنامہ ترجمان القرآن لاہور)
صفحات : 152 قیمت220روپے
ناشر : شرکت الامتیاز۔ رحمان مارکیٹ، غزنی اسٹریٹ، اردو بازار لاہو۔
فون نمبر : 0322-234482- 0333-8867047

رمضان شریف کا مبارک مہینہ سایہ فگن ہوچکا ہے۔ عموماً اہلِ دین میں سے اہلِ دل حضرات رمضان شریف کے فضائل اور مسائل سے آگاہی کے لیے پمفلٹ اور کتب لکھتے اور چھپواتے رہتے ہیں اور ان کو عامۃ الناس کی خدمت میں پیش کرتے رہتے ہیں ۔ اسی سلسلے میں ہمارے بھائی امجد عباسی صاحب نے رمضان کے سلسلے میں اپنے مرتبہ مضامین جو ماہنامہ ترجمان القرآن میں شائع ہوتے رہے ہیں، اس کتاب میں جمع کردیے ہیں۔ وہ تحریر فرماتے ہیں:
’’ایک مسلمان کے لیے اس سے بڑی خوش بختی اور کیا ہوسکتی ہے کہ اس کی زندگی ہی میں اسے گناہوں کی مغفرت اور جنت کی ضمانت دے دی جائے۔ رمضان وہ مہینہ ہے جو یہ خوش خبری لے کر آتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق جس نے ایمان اور احتساب کے ساتھ روزے رکھے اُس کے وہ سب گناہ معاف کردیے جائیں گے جو اس سے پہلے سرزد ہوگئے ہوں گے۔
یہی وجہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کی آمد سے قبل اس کی تیاری کا خصوصی اہتمام فرماتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ سے دعا فرماتے تھے کہ اللہ تعالیٰ سلامتی والا رمضان عطا کرے اور اسے قبولیت کا ذریعہ بنادے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی رمضان کی آمد سے قبل خصوصی عبادات کا اہتمام فرماتے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بھی مختلف خطبات کے ذریعے اس ماہِ مبارک کی آمد اور تیاری کے لیے ترغیب دلاتے تھے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ماہ کو انسانوں کی مغفرت کا مہینہ قرار دیا اور اُس شخص کو بدنصیب قرار دیا جو رمضان کا مہینہ پائے اور اپنی مغفرت نہ کروا سکے۔
رمضان المبارک کی اسی خصوصی اہمیت کے پیش نظر اس کتاب میں رمضان کی برکات کو احسن انداز میں سمیٹنے کے لیے مختلف پہلوئوں کو اجاگر کیا گیا ہے۔ بیشتر مضامین راقم کے تحریر کردہ اور مرتب کردہ ہیں اور ماہنامہ عالمی ترجمان القرآن میں مختلف مواقع پر شائع شدہ ہیں۔ مولانا مودودی اور امام حسن البنا شہید کی تحریریں بھی پیش کی گئی ہیں۔
اس بات کی کوشش کی گئی ہے کہ رمضان کی آمد سے مسلمانوں میں جذبۂ ایمان بڑھ جاتا ہے اور وہ نیکی اور خیر کے کاموں میں سبقت لے جانے کی کوشش کرتے ہیں، یہ جذبہ رمضان کے بعد بھی ترو تازہ رہے اور سال بھر اس کے اثرات کو سمیٹا جاسکے۔ جہاں اس کی غرض و غایت بیان کی گئی ہے وہیں عبادات کے حاصل کی صورت میں اسلامی حکومت کے قیام کے لیے مسلمانوں کے فرضِ منصبی کی تیاری کی طرف بھی توجہ دلائی گئی ہے۔
نیکی کے عمل کے تسلسل کے پیش نظر آخر میں ’’مثالی اسلامی بستی‘‘ کا عملی خاکہ بھی پیش کیا گیا ہے۔ اگر ہر بستی میں ’’اسلامی مرکز‘‘ قائم کرلیا جائے جہاں سے اللہ کی بندگی کا شعور، نظام صلوٰۃ کے قیام اور قرآن کی تعلیمات عام ہوں اور دوسری طرف اہلِ بستی کے مسائل کے حل اور معاشی کفالت کے لیے ’’ نظام زکوٰۃ‘‘ کا بستی کی سطح پر اجرا کردیا جائے، تو اس طرح ایک تسلسل سے رمضان کے پیغام اور اس کے ثمرات کو بخوبی سمیٹا جاسکتا ہے۔
اللہ تعالیٰ اس کاوش کو شرفِ قبولیت بخشے، اور رمضان کی برکات کو سمیٹنے، اپنی بستی کو مثالی و اسلامی بستی بنانے، نیز اسلامی نظام حکومت کے قیام کی منزل کو سر کرنے کا باعث بنادے، آمین‘‘۔
کتاب میں جو مضامین شامل کیے گئے ہیں وہ درج ذیل ہیں:
رمضان کی آمد، رمضان کے روزے، روزے کی حکمت، رمضان کی برکات، نماز اور لذتِ ایمان، تہجد اور تربیتِ نفس، قیامِ لیل اور تراویح، شب قدر: فضیلت اور تقاضے، رمضان: ماہِ جود و سخا، اپنے صدقات ضائع نہ کریں، غزوۂ بدر اور نصرتِ الٰہی کا قانون، عید مبارک، عبادات کا حاصل، رمضان کا سبق رمضان کے بعد، مثالی اسلامی بستی، مدینہ کی اسلامی بستی، مثالی بستی کا قیام، نظام صلوٰۃ، بندگیٔ رب کا شعور اور تزکیہ و تربیت، اسلامی معاشرت کا فروغ، نظام زکوٰۃ: معاشی کفالت اور تحفظ، اصلاحِ معاشرہ، ظلم کے خلاف آواز، مرکزِ خواتین کا قیام، مثالی اسلامی بستی، تحریک کا حصہ بنیے۔
کتاب سفید کاغذ پر عمدہ طبع کی گئی ہے۔

کتاب

مصنف : بحر الفصاحت
(حصہ ششم و ہفتم)
مولوی نجم الغنی رام پوری
مرتب : سید قدرت نقوی
صفحات : 488 قیمت500روپے
ناشر : ڈاکٹر تحسین فراقی۔ ناظم مجلسِ ترقی ادب
نرسنگھ داس گارڈن۔ 2 کلب روڈ لاہور
فون نمبر : 042-99200856-042-99200857
ای میل : majlista2014@gmail.com
ویب سائٹ www.mtalahore.com

بحرالفصاحت حکیم مولوی نجم الغنی رام پوری مرحوم کی مشہور کتاب ہے جو نظم و نثر کے خصائص سے بحث کرتی ہے۔ اس کے کچھ حصوں کا تعارف اس سے قبل ہم فرائیڈے اسپیشل میں کرا چکے ہیں۔ زیرنظر کتاب اس کا چھٹا اور ساتواں حصہ ہے۔ مرتب کتاب تحریر فرماتے ہیں:
’’بحرالفصاحت کا یہ چھٹا حصہ ہے جس میں تیسرے جزیرے کے تیسرے شہر کو پیش کیا جارہا ہے۔ یہ شہر علمِ بدیع سے متعلق ہے۔ علمِ بدیع میں صنائع لفظی و صنائع معنوی سے بحث کی گئی ہے۔
شعر کا سرچشمہ خیال ہے۔ خیال اپنے اظہار کے لیے الفاظ کا محتاج ہے۔ خیال جب ذہن میں آتا ہے، تو اپنے ساتھ الفاظ لاتا ہے۔ یہ الفاظ معنی کی نمائندگی کرتے ہیں۔ مگر خیال جن مفاہیم و مطالب پر مبنی ہوتا ہے، الفاظ صرف ان کی طرف رہنمائی کرتے ہیں۔ یہی رہنمائی اظہار کہلاتی ہے۔ قاری و سامع ان الفاظ سے جو کچھ اخذ کرتا ہے وہ فضائے تخلیق سے حاصل کرتا ہے۔ لیکن یہاں پہنچ کر شاعر نے اپنے خیال میں جو ماحول پیدا کیا تھا اور جہاں اس نے مفہوم و معنی کے اظہار کے لیے الفاظ کا انتخاب کیا تھا، وہ تحقیقی ماحول ہے۔ اس ماحول تک کبھی قاری و سامع پہنچ جاتے ہیں اور کبھی نہیں۔ علم بدیع میں مختلف صنائع لفظی و معنوی کو اسی لیے بیان کیا گیا ہے کہ قاری و سامع کی ذہنی رسائی تخلیقی ماحول تک ہوجائے۔
الفاظ کے در و بست سے جو مفہوم و مطلب پیدا ہوتا ہے وہ فضائے تخلیق ہے۔ یہ فضائے تخلیق الفاظ کے مختلف معانی سے پیدا ہوتی ہے اور اکثر و بیشتر تخلیقی ماحول سے دور ہوجاتی ہے۔ الفاظ کے در و بست اور اس سے پیدا شدہ مفہوم و معنی کی مختلف جہات کو اسی علم کی بدولت حاصل کیا جاتا ہے۔ انہی جہات کے مختلف پیرایہ ہائے اظہار پر روشنی ڈالی جاتی ہے۔ چنانچہ آپ ملاحظہ فرمائیں گے کہ کئی صنعتوں کی وضاحت میں ایک ہی شعر پیش کیا گیا ہے۔
فاضل مصنف نے بڑی کدوکاوش کے ساتھ اس موضوع کے جملہ مباحث پر سیر حاصل وضاحت سے کام لیا ہے۔ نہایت باریک بینی اور دقیقہ رسی کا مظاہرہ کیا ہے۔ چونکہ مرحوم کی تعلیم عربی و فارسی کی تھی اور ان دونوں زبانوں کے علوم و فنون پر دسترس حاصل تھی، اس وجہ سے ان کی زبان قدیم طرز پر مبنی ہے جس میں اکثر و بیشتر گنجلک پیدا ہوجاتی ہے، اس لیے مفہوم مبہم ہوجاتا ہے۔ ہم نے کوشش کی ہے کہ رموزِ اوقات اور تشریحات کے ذریعے زیادہ سے زیادہ وضاحت کی جاسکے۔
بعض مباحث کی تشریح و وضاحت تعلیقات کے ذریعے کردی گئی ہے، اس لیے ان پر بحث لا حاصل ہے۔ وہ صرف تکرار ہی ہوگی۔ قارئین تعلیقات کو ضرور ملاحظہ فرمائیں۔‘‘
علم بدیع کی تعریف میں لکھا ہے:
’’بدیع ایک علم یعنی ملکہ ہے جس سے چند امور ایسے معلوم ہوجاتے ہیں جو خوبیٔ کلام کا باعث ہوتے ہیں مگر اول اس بات کی رعایت ضرور ہے کہ کلام مقتضائے حال کے مطابق ہو اور اس کی دلالت مقصود پر خوب واضح ہو۔ کیونکہ ان دونوں خوبیوں کے بعد ہی کلام میں محسنات سے حسن و خوبی آسکتی ہے، ورنہ بغیر ان امور کی رعایت کے علم بدیع پر عمل کرنا ایسا ہے جیسے بدشکل عورت کو عمدہ لباس اور زیور پہنا دینا۔ اس وجہ سے اس علم کا مرتبہ علم معانی اور علم بیان کے بعد سمجھا گیا ہے۔ بلکہ بعض تو یہ کہتے ہیں کہ یہ کوئی علمِ مستقل نہیں، انہی کے ذیل میں داخل ہے۔ مگر یہ قول ان کا تحقیق کے خلاف ہے، اس لیے کہ اس علم کے رتبے کے تأخّر سے یہ لازم نہیں آتا کہ یہ مستقل ایک علم نہ ہو۔ اگر ایسا ہی سمجھا جائے تو بہت سے علوم ایسے نکلیںگے کہ اپنے مراتب کے تأخّر کے لحاظ سے علیحدہ علیحدہ علم نہ رہیںگے۔ اس تقریر سے علم بدیع کا موضوع اور غرض و غایت اچھی طرح روشن ہوگئی۔
’’خیر البلاغت‘‘ کے ایک رسالے میں لکھا ہے کہ علم بدیع وہ ہے جس سے کلامِ بلیغ کی عارضی خوبیوں کا حال معلوم ہوجاتا ہے۔ اس کا موضوع کلامِ بلیغ ہے، اپنی خوبیوں کے اعتبار سے غایت اس کی یہ ہے کہ ذہن کلام کی عارضی برائیوں سے محفوظ رہے۔
سیوطی نے ’’اتمام الدرایہ‘‘ میں کہا ہے کہ بدیع سے کلام کی خوبی بعد رعایت مقتضائے حال اور وضوح الدلالۃ یعنی تعقید سے خالی ہونے کے معلوم ہوتی ہے۔ منفعت اس کی یہ ہے کہ کلام میں ایسی خوبی پیدا ہوجائے کہ کانوں کو بھلا معلوم ہو اور دل میں اثر کرجائے۔
اول جس نے ان قواعد کا نام علمِ بدیع مقرر کیا، عبداﷲ بن معتزعباسی ہے کہ 274ہجری میں اس نے علم بدیع کے قواعد اختراع کرکے ایک مستقل علم مقرر کیا۔ اس نے ایک کتاب میں سترہ قسم کی صنائع لکھی تھیں۔ پھر پیچھے آنے والے اس پر اضافہ کرتے گئے۔ اس علم کو علیحدہ اس لیے مقرر کیا ہے کہ یہ بھی ایک بڑے کام کی چیز ہے۔
اگرچہ علمِ معانی اور بیان سے کلام میں حسنِ ذاتی آجاتا ہے اور ان کے ہوتے ہوئے محسناتِ بدیعی کی تحصیل کی کوئی حاجت نہ تھی، لیکن انشا پردازوں نے کلام میں حسنِ عارضی کی طرف بھی توجہ کی ہے، اس لیے کہ اچھی چیز اگر مزئیات سے خالی ہو تو اکثر ایسا ہوجاتا ہے کہ بعض کوتاہ فہم اس کی ذاتی خوبیوں کی تفتیش نہیں کرتے، اس لیے اس سے فائدہ حاصل نہیں کرسکتے۔ اس کے بعد غور کرو کہ زائد خوبیاں یا تو اصلالۃً معنوی خوبیوں کی طرف راجع ہوتی ہیں، گو بالاتباع لفظی خوبیوں سے خالی نہیں ہوتیں یا لفظی خوبی کی طرف اصالۃً راجع ہوتی ہیں۔ پہلی صورت میں معنوی کہتے ہیں اور دوسری صورت میں لفظی۔‘‘
’’الغرض اس شہر میں دو باغ ہیں، ایک باغ صنائع لفظی کے بیان میں، دوسرا صنائع معنوی کے ذکر میں۔ وجہ تقدیم صنائع لفظی کی صنائع معنوی پر یہ ہے کہ اول لفظ سننے میں آتے ہیں، پھر معانی سمجھے جاتے ہیں۔ بعض مصنفین نے اس کے برخلاف معنی کو الفاظ پر تقدیم دے کر اوّل صنائع معنوی کو بیان کیا ہے پھر صنائع لفظی کو، کیونکہ مقصودِ اصلی اور غرضِِ اولیٰ معانی ہیں اور الفاظ ان کے توابع و قوالب ہیں۔
فائدہ: اگر شعر میں کئی صنعتیں مختلف ہوں تو اسے صنعتِ مرکب کہتے ہیں اور غایت علم پارسی بھی نام رکھا ہے۔‘‘
تفصیل کے لیے ضروری ہے کہ کتاب دیکھی جائے۔ اردو کے ہر استاد کو ضروری ہے کہ اس کا مطالعہ کرے اور اخذ کردہ علم شاگردوں کو منتقل کرے۔
حصہ ہفتم اس کتاب کا آخری حصہ ہے، اس سلسلے میں سید قدرت نقوی تحریر فرماتے ہیں:
’’یہ بحرالفصاحت کا ساتواں حصہ ہے۔ اسی حصے پر یہ کتاب ختم ہوجاتی ہے۔ فاضل مصنف نے اس حصے میں جن امور پر بحث کی ہے وہ اختلافی مسائل پر مبنی ہیں۔ مصنف موصوف کیونکہ قدیم دور سے تعلق رکھتے تھے اور قدیم اقدار کے سختی سے پابند تھے اس لیے اُن کی باتوں اور خیالات میں شدت پسندی ایک لازمی امر تھا جو بیانات سے ظاہر ہے۔ آج زمانہ بہت بدل چکا ہے، بہت سے امور آج رد ہوچکے ہیں، مثلاً نثر مرجز جسے کہا گیا ہے اس کا تعلق فارسی سے ہے، اردو سے نہیں۔ اردو میں باوزن غیر مقفیٰ شاعری کو نظم ِ معریٰ کہاجاتا ہے۔
مصنف موصوف کے عہد میں ادبی انقلاب کی ابتدا ہوچکی تھی، خیالات میں تبدیلی آچکی تھی، زمانے کے انقلاب نے ذہنوں میں بھی انقلاب برپا کردیا تھا اور شعر و ادب میں انقلاب نے نئی نئی اصنافِ سخن کو جنم دینا شروع کردیا تھا۔ کیونکہ یہ ابتدائی دور تھا۔ عام ذہنوں میں رد و بدل کا علم جاری تھا۔ مصنف موصوف کو بھی ان تبدیلیوں کا علم تھا، چونکہ ان کے ذہن میں قدیم اقدار راسخ تھیں اس وجہ سے انقلاب کو قبول نہ کرسکے۔
موجودہ دور کو سامنے رکھ کر اس حصے میں بیان کردہ امور پر تنقیدی اور تنقیحی نظر ڈالی جائے تو ہر باب ایک الگ کتاب کا متقاضی ہے جو اس وقت مناسب نہیں، اس لیے یہ اظہاریہ یہیں ختم کیا جارہاہے۔
اس حصے میں جس کا عنوان ’’چوتھا جزیرہ‘‘ ہے، اس میں اقسام نثر
عیوب کلام
سرقاتِ شعر
اس جزیرے میں ایک ’’شہر لطافت خیر‘‘ اور دو صحرائے وحشت انگیز ہیں۔
کتاب سفید کاغذ پر عمدہ طبع کی گئی ہے، مجلد ہے، اور یہ اس کی طبع سوم ہے۔
اسلامی جمعیت طالبات پاکستان نے نہایت اہم موضوع یعنی گھر کی، خاندان کی اور ازدواجی زندگی کی بہتری کو مدنظر رکھ کر یہ مفید اور عمدہ کتاب مرتب کی ہے۔ دیباچے میں لکھا گیا:
’’گھر انسانی معاشرے کی وہ اکائی ہے جس کی بنیاد مرد اور عورت کے کندھوں پر رکھی گئی ہے۔ نکاح کے بندھن میں بندھ کر ایک مرد و عورت لگن اور توجہ سے گھر بنانے کا آغاز کرتے ہیں۔ اس میں عورت کا مثبت کردار گھر کو جنت بناتا ہے اور لاپروائی خاندان کو تباہ کرتی ہے۔
عورت کا یہ مثبت کردار ازدواجی زندگی کا وہ حسن ہے جو زوجین کے درمیان تعلقات کو خوشگوار رکھتا ہے۔ تاہم زوال پذیر، بے خدا مغربی تہذیب، مادہ پرستانہ الحادی تہذیب کا ہدف مسلم معاشرے کے خاندانی نظام کو تباہ کرنا ہے۔ یہ تہذیب مسلم معاشروں میں گھر کی اکائی کو پارہ پارہ کرنے میں پوری طرح مصروف ہے۔ ایسے میں ضرورت ہے کہ اسلام کے عادلانہ معاشرتی نظام کی بنیادوں اور ان کی اہمیت کو واضح کرتے ہوئے خواتین کے اندر یہ شعور اجاگر کیا جائے کہ معاشرے کی فلاح وبہبود کا انحصار ان کے خاندانی نظام کی پختگی پر ہے۔
اسلامی جمعیت طالبات پاکستان نے اسی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے طالبات اور نوجوان خواتین کے لیے یہ کتاب مرتب کی ہے، جو انہیں ازدواجی زندگی کے نئے سفر میں قدم رکھتے ہوئے نشیب و فراز سے آگاہ کرکے بہتر طرزِ زندگی اپنانے کی طرف رہنمائی میں مدد دے گی۔
اس بامقصد اور دلچسپ کتاب کی تیاری کے لیے ان تمام لوگوں کے تہِ دل سے شکر گزار ہیں جنہوں نے ہماری معاونت کی۔ ان سب کا دستِ شفقت ہمارے لیے باعثِ تقویت رہا‘‘۔
جناب سلیم منصور خالد تحریر فرماتے ہیں:
’’گھر ہی وہ بنیادی قلعہ ہے کہ جہاں سے انسانیت اور تہذیب کی کونپل پھوٹتی ہے۔ اسلام فرد کی انفرادی، اجتماعی اور گھریلو زندگی کے بارے میں جس قدر حساس ہے، بدقسمتی سے ہمارے معاشرے اسی قدر بے حس ہوتے جارہے ہیں۔ موجودہ جاہلی تصورات، رواجی جبر اور مغربی و بھارتی یلغار نے جہاں عام طور پر ہمارے معاشرے کو متاثر کیا ہے، وہاں خاص طور پر گھریلو زندگی کو برباد کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اس کے ساتھ ہمارے ہاں نچلی سطح تک مخلوط تعلیم کے بڑھتے ہوئے رواج نے صورتِ حال اور زیادہ تباہ کن بنادی ہے۔
افسوس کہ آج ہمارا معاشرہ بھی رفتہ رفتہ گھریلو زندگی کے کڑواہٹوں کی نذر ہونے اور طلاقوں کی شرح بڑھانے کی راہ پر چل نکلا ہے۔ اس میں ایک اہم کردار اہلِ خانہ ہی کا دیکھنے میں آتا ہے، جس میں کسی جگہ دھونس کا رواج ہوتا ہے، کہیں ناآسودگی کی پیاس ہوتی ہے، اور کہیں ٹکرا جانے کا جنون رنگ جماتا ہے۔ یوں تمام تر کشمکش کا آخری ہدف گھر، خاندان، بچے بنتے ہیں۔
اس خطرناک صورتِ حال کے مظاہر اور تلخ نتائج کو اسلامی جمعیت طالبات گہری تشویش کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ جمعیت طالبات، طالبات کی محض تعلیمی اور نجی زندگی کی متوازن تعمیر کے لیے کوشاں نہیں ہے، بلکہ ان کی عائلی اور گھریلو زندگی کو بھی سنوارنے کا عزم اور پروگرام رکھتی ہے۔ یہ کتاب اسی سمت میں ایک قدم ہے۔ کتاب کا پہلا حصہ دعوت، تذکیر اور غور و فکر پر مبنی ہے، جبکہ دوسرے حصے میں ادبِ لطیف تہذیب و تربیت میں مدد فراہم کرتا ہے۔ اس قیمتی مجموعے کو نہ صرف طالبات بلکہ اپنے گھرانوں اور ملنے جلنے والوں میں بھی پڑھوانے کا اہتمام کیا جانا چاہیے۔
منشورات ایک تعلیمی، رفاہی، دعوتی اور غیر کاروباری ادارہ ہے جس کے پیش نظر کم پیسوں میں معیاری، دیدہ زیب اور دلچسپ کتب کی اشاعت ہے۔‘‘
(کتاب میں درج ذیل مقالات شامل کیے گئے ہیں۔
٭
خاندان کا استحکام اور معاشرہ
ڈاکٹر رخسانہ جبین
٭
خطبۂ نکاح کا پیغام اور خاندان
زاہدہ سیف
٭
بیٹی کو ماں کی نصیحتیں
عربی سے ترجمہ
٭
تم ہی اُمت کا مستقبل ہو!
قانتہ رابعہ
٭
شوہر کے ساتھ رفاقت
ڈاکٹر ابن فرید
٭
ہرآن، ہر لمحہ، حق کی رفاقت
افشاں نوید
٭
نئے سرپرست، ساس اور سسر
ڈاکٹر ابن فرید
٭
ساس بہو تعلقات: مسائل اور حل
محمد محمود قاضی
٭
یہ زندگی بھر کا سودا ہے!
ڈاکٹر عائشہ صدیقہ
٭
بچے امانت ہیں
ڈاکٹرا بن فرید
٭
خواتین، ملازمت کی دہلیز پر
ڈاکٹر کوثر فردوس
٭
اندھیر معاشرے میں روشنی کی علامت
مدیحہ عزیز
٭
اپنی طرز سنوارو کہ برہمی نہ رہے!
عابدہ چغتائی
٭
صحابیات کی مثالی خانگی زندگی
طالب الہاشمی
٭
کرشمہ ساز
نصرت یوسف
٭
بنیادی فرق
غزالہ عزیز
٭
روشنی کے ساتھ رہیے!
قانتہ رابعہ
٭
چھوٹی چھوٹی باتیں
بنت الاسلام
یہ کتاب ہر گھر، بیٹی، بہن، بیوی کی ضرورت ہے۔ اس کا مطالعہ بہت سی گھریلو اُلجھنوں کو دور کرنے کا باعث ہوگا۔
کتاب سفید کاغذ پر منشورات نے اپنے روایتی اسلوب میں خوبصورت طبع کی ہے۔ رنگین سرورق سے آراستہ ہے۔
nn