حافظ سلمان بٹ نے جماعت اسلامی سے اپنی والہانہ وابستگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کہ آپ کو بتادوں کہ میں پیدائشی رکن جماعت ہوں، ان شاء اللہ زندگی کی آخری سانس تک جماعت اسلامی سے وابستہ رہوں گا۔ آپ لوگ جانتے ہیں کہ میں رکنِ جماعت اسلامی کی حیثیت میں 1985ء، 1990ء اور 2002ء میں جماعت کی پالیسی کے مطابق آزاد حیثیت میں قومی اسمبلی کا الیکشن لڑ کر ان تمام میں رکن اسمبلی منتخب ہوا۔ البتہ جماعت اسلامی کی ایڈجسٹمنٹ کی پالیسی کی وجہ سے 2013ء کے الیکشن میں مَیں نے حصہ نہیں لیا تھا، بہت آخر میں جماعت نے آزاد حیثیت میں الیکشن میں حصہ لینے کی اجازت دی تھی، لیکن تیاری نہ ہونے کی وجہ سے حصہ نہیں لے سکا تھا۔
2002ء میں آزاد امیدوار کے طور پر الیکشن لڑا، جس میں کامیابی کے بعد مَیں جماعت کی پالیسی کے مطابق متحدہ مجلس عمل میں شامل ہوگیا۔
حافظ سلمان بٹ نے دورانِ گفتگو مزید بتایا کہ انھوں نے1970ء سے 1984ء کے دوران اسلامی جمعیت طلبہ یونین کے پلیٹ فارم سے طالب علموں کے حقوق کے لیے زبردست جدوجہد کی، اس دوران ناظم جمعیت بھی رہے۔ طلبہ یونین، ٹریڈ یونین، ملکی سیاست میں طویل جدوجہد کے دوران چھوٹی بڑی نوعیت کے سات سو کے قریب ان پر جھوٹے مقدمات قائم کیے گئے جن میں سے بیشتر ارادۂ قتل کے مقدمات تھے، سب میں باعزت بری ہوگئے۔ اسلامی جمعیت طلبہ کے پلیٹ فارم سے طلبہ کے حقوق کے لیے زبردست جدوجہد کے دوران لاہور اسلامی جمعیت طلبہ اور پنجاب یونیورسٹی اسٹوڈنٹس یونین کے نائب صدر بھی منتخب ہوئے۔ انھوں نے کھیلوں کے میدان میں بھی فعال کردار ادا کیا۔ مزید یہ کہ وہ1983ء سے پاکستان فٹ بال فیڈریشن کے رکن ہیں۔ 1986ء سے پاکستان سوئمنگ فیڈریشن کے بھی رکن ہیں۔1990ء سے لاہور ڈسٹرکٹ ہاکی
ایسوسی ایشن کے رکن ہیں۔ کرکٹ کے میدان میں بھی اپنی صلاحیتوں کو منوا چکے ہیں۔
پاکستان ریلوے سے تعلق کے پس منظر میں حافظ سلمان بٹ نے بتایا کہ پاکستان ریلوے ایمپلائز (پریم) یونین سی بی اے کا جنرل سیکریٹری اور صدر منتخب ہوتا رہا۔ پریم کا موجودہ منتخب مرکزی صدر ہوں۔ نیشنل لیبر فیڈریشن کا نائب صدر بھی ہوں۔ مزدور یونینوں کے اس مشترکہ پلیٹ فارم نیشنل لیبر فیڈریشن سے مزدوروں کے حقوق کے لیے زبردست جدوجہد کی اور مسلسل کررہا ہوں۔ ہم اپنی مشترکہ جدوجہد میں پی آئی اے، اسٹیل ملز اور واپڈا جیسے قومی اداروں میں حکومت کی نجکاری پالیسی کی شدید مذمت اور اس کے خلاف شدید مزاحمت کررہے ہیں۔
جب ہم نے محکمہ ریلوے اور اس کی نجکاری کے حوالے سے سوال پوچھا تو حافظ صاحب کا کہنا تھا کہ ’’محکمہ ریلوے کی نجکاری کے خواب دیکھنے والا حکمران ٹولہ کہتا ہے کہ دنیا میں تو نج کاری کا رواج عام ہے، پریم ریلوے یونین اور آپ کی جماعت اسلامی پاکستان میں نجکاری کی کیوں اتنی شدید مخالف ہیں؟ میں کہتا ہوں کہ یہ بات درست ہے کہ دنیا بھر میں قومی اداروں کو نجی شعبے کے حوالے کرنے کی پالیسی چل رہی ہے، لیکن پاکستان میں قومی اداروں کو نجی شعبے کے ہاتھوں فروخت کرنے کی قطعی گنجائش نہیں ہے۔ ہمارے ملک کے کچھ ایسے تلخ حقائق ہیں جن کی بنا پر ہم یعنی جماعت اسلامی، ریلوے پریم یونین اور نیشنل لیبر فیڈریشن قومی اداروں کی نجکاری کے شدید مخالف ہیں۔ دنیا کے بیشتر ممالک میں دفاعی امور، خارجہ امور، کرنسی اور ملک میں امن و امان قائم رکھنے کے معاملات وفاقی حکومت کے پاس ہوتے ہیں۔ خدمات سمیت دیگر تمام شعبے اور نجی ادارے اپنے طور پر چلائے جاتے ہیں، لیکن غیر ممالک میں یہ نجی ادارے بہت دیانت داری اور ایمان داری کے ساتھ ملک و قوم کی خدمت کے جذبے سے چلائے جاتے ہیں۔ وہاں کسی صورت ایک ادارے کی دوسرے ادارے پر اجارہ داری قائم نہیں ہونے دی جاتی۔ قومی اور نجی ادارے عوام کی خدمت پر یقین رکھتے ہیں۔ لیکن ہمارے ملک میں اس کے برعکس ہوتا ہے۔ ہمارے حکمران قومی اداروں کو خود ہی تباہ کرتے ہیں۔ اگر ہمارے ہاں قومی ادارے نجی شعبے کے ہاتھوں بیچ دیے گئے تو ان کا بھی حشر وہی ہوگا جو ہمارے بینکوں اور سیمنٹ ساز فیکٹریوں کا ہوا ہے۔ ہوتا یہ ہے کہ نجی شعبے کے ادارے اپنی اجارہ داری قائم کرلیتے ہیں اور پھر پول بناکر لوٹتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ محکمہ ریلوے پبلک، پرائیویٹ پارٹنرشپ کا ایک ایسا ادارہ ہو جس میں کسی ادارے کی اجارہ داری قائم نہ ہو اور عوام کے مفاد میں اداروں کے درمیان مثبت مقابلے کی فضا قائم رہے۔ لیکن بدقسمتی سے ہمارے ملک میں ایسا قطعی نہیں ہورہا ہے۔ یہاں موجودہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی سے میرا سوال ہے کہ اُن کے پاس دو ائرلائنز ہیں، ایک قومی ائرلائن پی آئی اے اوردوسری اُن کی ذاتی ائرلائن۔ قومی ائرلائن تین سو ارب روپے خسارے میں آگئی ہے، اس کے مقابلے میں اُن کی اپنی ائربلیو بڑے منافع میں ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ یہی سوال میں نے نااہل نوازشریف سے بھی اُن کی حکومت میں کیا تھا کہ آپ کے دور میں پاکستان اسٹیل ملز تباہ ہورہی ہے جبکہ آپ کی اتفاق فونڈری دن رات ترقی کررہی ہے، اس کا کیا راز ہے؟ حالانکہ حکومت کے سربراہ ہونے کے ناتے آپ کی قیادت میں ذاتی ادارے کے مقابلے میں قومی ادارے کی ترقی ہونی چاہیے تھی۔ آپ کی ذاتی اسٹیل ملز اتفاق فونڈری کے مقابلے میں پاکستان اسٹیل ملز کو منافع بخشں ہونا چاہیے تھا۔ دیکھیں، اس بگاڑ کی اصل وجہ یہ ہے کہ جو بھی حکمران آتا ہے، اپنی پارٹی کے لوگوں کو نوازنے کے لیے انھیں سرکاری اداروں میں بھر دیتا ہے جو ان اداروں پر مستقل بوجھ بن جاتے ہیں۔ مطلب یہ کہ حکمران ذاتی اور پارٹی مفادات کے لیے قومی اداروں کو کھوکھلا اور اپنے ذاتی اداروں کو منافع بجش بنانے کے لیے ہر جائز و ناجائز طریقے اختیار کرتے ہیں۔ ایسی صورت میں قومی اداروں کا جو حال ہونا تھا وہ آپ کے سامنے ہے۔ قومی اداروں کو تباہی کے دہانے پر پہنچانے کے بعد حکومت والے کہتے ہیں کہ اداروں کو نجی شعبے میں بیچ کر جان چھڑاؤ۔ یہ کہاں کا انصاف ہے!
جب ہم نے پوچھا کہ حل کیا ہے؟ تو حافظ سلمان بٹ کا کہنا تھا:
’’دیکھیں، ہم چاہتے ہیں کہ دفاعی نوعیت کے اس حساس ادارے ریلوے کو پبلک اور پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت چلایا جائے۔ اس پر کسی شعبے کی اجارہ داری قائم نہ ہو۔ محکمہ ریلوے قومی ادارہ ہی رہنے دیا جائے، نجی شعبہ ریلوے کے آپریشن سسٹم اورانفرااسٹرکچر کی خدمات کرائے پر حاصل کرے اور معاہدے کے مطابق اس کا مناسب کرایہ محکمہ ریلوے کو ادا کرے۔ نجی شعبہ اپنے انجن لائے، اپنی بوگیاں لائے، اپنے لوگ لائے، اپنا فیول استعمال کرے، اپنے انجنوں اور بوگیوں کی مرمت خود کرے، جو بچت ہو سو فیصد رکھ لے۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ گاڑیاں، انجن، ریلوے ٹریک پرائیویٹ سیکٹر کو ہم فراہم کریں، آپریشن اور انفرااسٹرکچر کے اخراجات بھی محکمہ برداشت کرے اور نجی شعبہ محکمہ ریلوے کو 88 سیٹوں والی بوگیوں کے ریونیو کلکشن کا صرف40 فیصد ادا کرے۔ صرف ریونیو جمع کرنے کے عوض 60 فیصد پرائیویٹ ٹھیکیدار لے جائے۔ حکومت ریلوے میں اس طرح کا ٹھیکیداری نظام لانا چاہتی ہے۔ یہ ہمارے ساتھ فراڈ کیا جارہا ہے جو ہم کسی صورت نہیں ہونے دیں گے۔ حکومت ریلوے کے ایک لاکھ ملازمین کو دھوکا نہیں سکتی۔ حکومت ریلوے کی نجکاری کا خواب دیکھنا چھوڑ دے، اور یہ بھی بھول جائے کہ وہ ہم سے ریلوے کا آپریشن سسٹم اور اس کا انفرااسٹرکچر چھین کر نجی شعبے کے حوالے کردے گی۔ ہم کٹ مریں گے لیکن ایسا نہیں ہونے دیں گے۔ ہاں جس طرف میں نے پہلے بھی اشارہ کیا تھا کہ نجی شعبے کے لوگ آگے آئیں، ہمارا آپریشن اور انفرااسٹرکچر سسٹم استعمال کرنے، پلیٹ فارموں پر ٹکٹ بوتھ سمیت ریلوے کی جو بھی خدمات حاصل کریں اُس کا کرایہ محکمہ ریلوے کے کھاتے میں ڈال دیں۔ میں پھر کہتا ہوں کہ حکومت ریلوے میں ٹھیکیداری نظام لاکر ہمارے ایک لاکھ ملازمین سے دھوکا کرنا چاہتی ہے، ہم دھوکا کھانے کے لیے کسی صورت تیار نہیں ہیں۔