متحدہ مجلس عمل کی بحالی سیاست پر غالب سیکولر عناصر کے لیے کسی دھچکے سے کم نہیں، جو یہ سمجھے بیٹھے تھے کہ پاکستان کی سیاست میں دین کا کوئی کردار اب باقی نہیں رہا۔ اس کے پیش نظر بڑی کہلانے والی سیاسی جماعتوں کے مرکزی رہنمائوں نے اپنی سیاسی تقاریر اور گفتگوؤں میں اسلام اور نظریۂ پاکستان کے ذکر کو غیر متعلق اور غیر مفید تصور کرتے ہوئے کلیتاً ترک کردیا تھا، جب کہ ان کے منشور جن میں دکھاوے کے لیے ہی سہی، کسی نہ کسی انداز میں اسلام کے ملک میں نفاذ کا وعدہ کیا جاتا تھا اور ریاست مدینہ کو پاکستان کے لیے نمونہ قرار دیا جاتا تھا، اب الفاظ کی حد تک بھی ان کا اندراج غیر ضروری اور متروک قرار پایا ہے، اسی طرح سیاسی جلسوں کا رنگ ڈھنگ بھی اب بالکل ہی تبدیل ہوچکا ہے اور ان میں اسلامی ثقافت و اقدار کے مظہر اور دین سے وابستگی کے اظہار پر مبنی نعرے بھی اب سنائی نہیں دیتے، ان کی جگہ اب ڈی جے اور ناچ گانا ضروری قرار پا چکا ہے… اس سیاسی ماحول میں دینی جماعتوں کے اتحاد متحدہ مجلس عمل کی حیاتِ نو اسلام اور پاکستان کی نظریاتی اساس سے محبت کرنے والی ملک کی عظیم اور خاموش اکثریت کے لیے ہوا کا ایک خوشگوار جھونکا ہے جس نے اس اتحاد کے سیاسی منظر پر ابھرنے سے اطمینان کا سانس لیا ہے۔ اس اتحاد کے میدانِ عمل میں آنے سے دین سے محبت کرنے والوں کی مایوسی بڑی حد تک چھٹ گئی ہے اور انہیں امید ہوچلی ہے کہ یہ اتحاد نہ صرف ملک سے فرقہ وارانہ منافرت میں کمی کرکے مسلمانوں میں باہمی الفت و یگانگت اور ہم آہنگی کو فروغ دے گا بلکہ اس سے ایک نیا ولولہ، جذبہ، عزم اور حوصلہ بھی دین سے محبت کرنے والوں کو حاصل ہوگا۔
متحدہ مجلس عمل نے اپنی بحالی کے فوری بعد ملکی سیاست میں اپنے وجود کا احساس دلایا ہے۔ اتحاد کا سب سے پہلا بڑا جلسہ مردان میں منعقد ہوا جو صوبہ خیبر کی تاریخ میں حاضری اور جوش و جذبے کے لحاظ سے مثالی جلسہ تھا۔ پھر ملتان اور مستونگ میں بھی بڑے جلسے کرکے متحدہ مجلس عمل نے یہ ثابت کیا کہ وہ کسی ایک علاقے یا صوبے تک محدود نہیں بلکہ اس کے چاہنے والے پورے ملک میں پھیلے ہوئے ہیں۔ 2 مئی کو وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں اتحاد کے کارکنان کا کنونشن بھی ہر لحاظ سے کامیاب رہا… تاہم یہ بات چونکہ مسلمہ ہے کہ ملکی سیاست کا دل لاہور کے ساتھ دھڑکتا ہے اور لاہور ہی ہمیشہ سے ملکی سطح پر تبدیلی کا مرکز و محور رہا ہے، اس لیے متحدہ مجلس عمل نے آئندہ اتوار 13 مئی کو لاہور میں اپنی سیاسی اور افرادی قوت کا ایک بڑا مظاہرہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس روز ایم ایم اے کے چاہنے والے مشرق و مغرب اور شمال و جنوب ہر جانب سے تاریخی مینارِ پاکستان کے سائے تلے جمع ہوں گے، جس کے پہلو بہ پہلو بادشاہی مسجد، شاہی قلعہ، تصورِ پاکستان کے خالق، شاعر مشرق علامہ اقبال مرحوم و مغفور کی آخری آرام گاہ اور قومی ترانے کا تحفہ پاکستانی قوم کو دینے والے، عظیم شاہنامہ اسلام کے تخلیق کار حفیظ جالندھری کا مزار بھی پاکستان کی نظریاتی اساس کی نشاندہی کرنے کے لیے موجود ہیں۔ اسلامیانِ پاکستان 13 مئی کو یہاں جمع ہوکر ایک بار پھر اپنے اس عزم کا اعادہ کریں گے کہ وہ اس جگہ جہاں 23 مارچ 1940ء کو مسلمانانِ برصغیر نے ہندوستان کے کونے کونے سے جمع ہوکر اپنے لیے اسلامی پاکستان کے حصول کا عہد کیا تھا، مملکتِ خداداد اسلامی جمہوریہ پاکستان کو ایک حقیقی اسلامی، جمہوری اور مضبوط و مستحکم فلاحی ریاست بناکر دم لیں گے، جو پوری اسلامی دنیا کے لیے مشعلِ راہ کا کام دے گی۔
متحدہ مجلس عمل کے زندہ دل کارکنان 13 مئی کے جلسہ عام کی تیاریاں زورو شور سے شروع کرچکے ہیں، شہر بھر میں جلسہ عام کے بینر شاہراہوں اور گلی محلوں میں آویزاں کیے جا چکے ہیں، جلسے کے انتظامات کے لیے 13 کمیٹیاں تشکیل دی گئی ہیں جن کی نگرانی متحدہ مجلس عمل لاہور کے صدر اور جماعت اسلامی لاہور کے جواں سال اور جواں عزم امیر ذکر اللہ مجاہد کے سپرد ہے۔ جب کہ مجلس عمل کے مرکزی سیکریٹری جنرل لیاقت بلوچ بھی ذاتی طور پر انتظامات کا جائزہ لینے کے لیے ہمہ وقت سرگرم ہیں، اور لاہور کے ساتھ ساتھ دیگر شہروں کے کارکنوں کو بھی متحرک کرنے کے لیے مجلس عمل کے دیگر قائدین پیر اعجاز ہاشمی، شاہ اویس نورانی، علامہ شبیر مہتمی، علامہ سبطین سبزواری، پیر محفوظ مشہدی اور محمد خان لغاری کے ہمراہ شہر شہر گھوم رہے ہیں۔
کمیٹیوں کے اجلاس روزانہ کی بنیاد پر ہورہے ہیں جن میں انتظامات کی پیش رفت کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ جلسے کی اجازت کے لیے باقاعدہ درخواست کئی روز پہلے ہی ضلعی انتظامیہ کو پہنچائی جا چکی ہے جس نے حسبِ معمول جلسے کی اجازت دینے سے انکار بھی کردیا ہے، تاہم مجلس عمل کے قائدین کا یہ واضح اعلان ہے کہ اجازت ملے نہ ملے 13 مئی کا جلسہ ہر صورت مینارِ پاکستان کے زیر سایہ منعقد ہوگا۔ اس ضمن میں جب مجلس عمل کے سیکریٹری جنرل لیاقت بلوچ سے استفسار کیا گیا تو اُن کا کہنا تھا کہ 13 مئی کو متحدہ مجلس عمل کا جلسہ عام ان شاء اللہ مینار پاکستان پر ہی ہوگا۔ انتظامیہ کو سیاسی اور جمہوری عمل پر پابندیاں عائد کرنے کا رویہ ترک کردینا چاہیے، خصوصاً اب جب کہ عام انتخابات کی آمد آمد ہے، صوبائی حکومت اور ضلعی انتظامیہ مینارِ پاکستان پر سیاسی جماعتوں کے اجتماعات کے انعقاد میں رکاوٹیں ڈالنے کا طرزعمل تبدیل کرے۔
لیاقت بلوچ نے اس یقین کا اظہار کیا کہ 13 مئی کا جلسہ ملکی تاریخ کا فقیدالمثال جلسہ ہوگا جو آئندہ ملکی سیاست کا رخ متعین کرے گا۔ مجلس عمل میں شامل تمام دینی سیاسی جماعتیں جلسے کی بھرپور تیاریاں کررہی ہیں اور ہمیں یقین ہے کہ یہ جلسہ ملک میں نظام مصطفی کے قیام میں اہم سنگِ میل ثابت ہوگا اور متحدہ مجلس عمل اس جلسے کے بعد سیاسی منظر پر پوری قوم کے سامنے ایک بڑی سیاسی قوت کی حیثیت سے نمایاں ہوگی، اور اس جلسے کے نتیجے میں ہمارے مخالفین خصوصاً پاکستان کو سیکولرزم کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے کوشاں عناصر پر مجلس عمل کی دھاک بیٹھ جائے گی۔
اس ضمن میں اگرچہ کوئی واضح اعلان تو مجلس عمل کی قیادت کی جانب سے سامنے نہیں آیا، تاہم سیاسی مبصرین کی توقع ہے کہ اس اہم جلسے میں اگر مجلس عمل کا پورا منشور نہیں تو اس کے اہم اور چیدہ چیدہ نکات کا اعلان ضرور کیا جائے گا۔