سانحہ ایبٹ آباد کے سات برس گزر گئے۔ آج سے سات برس قبل 2 مئی 2011ء کو امریکی صدر بارک اوباما نے دنیاکو یہ خبر دی کہ رات 12 بج کر 35 منٹ پر امریکی اسپیشل فورسز نے پاکستان کے شہر ایبٹ اباد کے ایک مکان پر حملہ کیا اور ’’القاعدہ‘‘ کے سربراہ اسامہ بن لادن‘ ان کے بیٹے اور تین ساتھیوں کو ہلاک کردیا۔ اس آپریشن کا نام ’’پنچون اسپیئر‘‘ رکھا گیا تھا۔ امریکی فوج کے خصوصی دستوں نے پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت کو مطلع کیے بغیر پاکستان ملٹری اکیڈمی کاکول سے کچھ فاصلے پر بلال ٹاؤن میں ایک قلعہ نما کمپاؤنڈ پر فوجی کمانڈو آپریشن کیا تھا جس کا ہدف امریکی حکومت کو مطلوب ترین شخص اسامہ بن لادن تھا۔ صدر اوباما نے دنیا کو مطلع کیا کہ امریکی خصوصی کمانڈوز نے انتہائی کامیاب آپریشن کرکے اپنے سب سے بڑے دشمن اسامہ بن لادن کو ہلاک کردیا ہے۔ اس واقعے کو سات سال گزر چکے ہیں لیکن اس کے حقائق پر آج بھی اسرار کا پردہ پڑا ہوا ہے۔ اسی طرح جس طرح نائن الیون کے پراسرار واقعے کے اصل حقائق دنیا سے اب بھی پوشیدہ ہیں۔ نائن الیون کے پراسرار واقعے کے فوری بعد امریکی صدر بش جونیئر نے بغیر کسی تحقیقات کے اعلان کیا کہ دہشت گردی کے اس واقعے کی منصوبہ بندی افغانستان میں پناہ گزین اسامہ بن لادن اور اس کی تنظیم ’’القاعدہ‘‘ نے کی تھی۔ امریکی صدر بش نے ایک طرف تو افغانستان کی حکومت پر فائز امارات اسلامیہ افغانستان (طالبان) کے سربراہ ملا محمد عمر سے مطالبہ کیا کہ وہ اسامہ بن لادن اور ان کے ساتھیوں کو امریکہ کے حوالے کردے‘ اس مطالبے کے جواب میں ملا عمر نے امریکی حکومت سے اس کی شہادت طلب کی، امریکہ نے دہشت گردی کے منصوبہ سازوں کے بارے شواہد اور ثبوت پیش کرنے کے بجائے افغانستان پر حملہ کرنے کا اعلان کردیااور پاکستان کے اس وقت کے فوجی صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کو فون پر دھمکی دی اور پوچھا کہ تم ہمارے ساتھ ہو یا نہیں؟
پہلے تو جنرل پرویز مشرف نے بھی یہ سوال کیا کہ ہمیں اس کے شواہد دیے جائیں کہ افغانستان میں پناہ گزین‘ دنیا سے چھپا ہوا شخص امریکہ میں ایسی واردات کر سکتا ہے یا نہیں؟ لیکن جنرل پرویز مشرف امریکی دھمکی اور ڈالروں کے لالچ سے زیر ہوگئے اور ’’سب سے پہلے پاکستان‘‘ کا نعرہ لگا کر پاکستان کی خود مختاری اور سالمیت کے تحفظ سے دست بردار ہوگئے۔ امریکہ نے اسامہ بن لادن‘ ملا عمر‘ طالبان اور القاعدہ کے خلاف دہشت گردی کے خاتمے کی نام نہاد عالمی جنگ کا آغاز کیا۔ اس جنگ نے عالمِ اسلام کو بالخصوص اور پوری دنیا کو عملاً دہشت گردی کی آگ میں جھونک دیا ہے۔ پاکستان کی سالمیت اور خودمختاری کے حوالے سے اس جنگ کا نقطۂ عروج سانحہ ایبٹ آباد ہے۔ امریکہ ایبٹ آباد میں فوجی آپریشن کرکے ایک ایسے ملک کے خلاف ریاستی دہشت گردی کا مرتکب ہوا جو دہشت گردی کے خاتمے کی جنگ میں خطِ اوّل یعنی فرنٹ لائن اتحادی کہلاتا تھا۔ جس طرح نائن الیون کے حقائق چھپائے گئے‘ عراق پر فوج کشی کے لیے وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی جھوٹی رپورٹ شائع کی گئی‘ اسی طرح سانحہ ایبٹ آباد کے اصل حقائق کو آج تک دنیا سے پوشیدہ رکھا گیا ہے۔ امریکہ جو بھی فرد جرم عائد کرتا ہے اسی پوری دنیا کو ماننے پر مجبور کر دیتا ہے اور اس کے آلۂ کار پاکستانی حکمران امریکی فرد جرم کو تسلیم کر لیتے ہیں۔ آج تک امریکہ اس بات کی کوئی شہادت پیش نہیں کرسکا کہ ایبٹ آباد کے اس کمپاؤنڈ میں اسامہ بن لادن موجود بھی تھا یا نہیں۔ امریکی صدر نے خاص طور پر اس موقع پر پاکستان کے حکمران اور سیاسی و عسکری قیادت کو رسوا کرنے کی کوشش بھی کی۔ یہ اعلان خاص طور پر کیا گیا کہ پاکستان کی عسکری اور سیاسی قیادت کو جان بوجھ کر اس آپریشن سے بے خبر رکھا گیا۔ جب امریکی صدر بارک اوباما نے اعلان کیا تو دنیاکو معلوم ہوا کہ پاکستان کے ایک اہم شہر میں جو دارالحکومت سے زیادہ فاصلے پر بھی نہیں ہے‘ امریکی ہیلی کاپٹرز داخل ہوئے اور اپنے مطلوب شخص کو قتل کرکے اور اس کی لاش بھی ساتھ لے گئے۔ اس سانحے کے بعد پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت کے حوالے سے بہت سے سوالات سامنے آئے لیکن ان کا آج تک جواب نہیں دیا گیا۔ اس سانحے کے بعد جسٹس (ر) جاوید اقبال کی سربراہی میں تحقیقی و تفتیشی کمیشن بھی قائم کیا گیا لیکن اس کی رپورٹ بھی تالے میں بند ہے۔ امریکی حکومت کی جانب سے اسامہ بن لادن کی موت کے اعلان کے باوجود ’’وارن آن ٹیرر‘‘ جاری ہے حالانکہ اب نہ اسامہ بن لادن زندہ ہیں نہ ان کو پناہ دینے والے ملا عمر اس دنیا میں رہے ہیں۔ یہ بات اس کی علامت ہے کہ دہشت گردی کا خاتمے کی امریکی جنگ خود ایک فریب ہے۔ اس جنگ کے نتیجے میں نہ صرف پاکستان میں بلکہ پوری دنیا میں دہشت گردی پھیلی ہے اور امریکی حکومت اپنی ہی اتحادی حکومت یعنی پاکستان ، اس کی فوج اور آئی ایس آئی کو دہشت گردی کا سرپرست قرار دیتی ہے۔ پاکستان میں میمو گیٹ بھی اسی کشمکش کا شاخسانہ ہے۔ امریکہ نے پاکستان کو دہشت گردوں کی سرپرستی کرنے والے ممالک کی فہرست میں شامل کرنے کی دھمکی دی ہوئی ہے اور FATF کی ’’گرے لسٹ‘‘ میں شامل کرکے اقتصادی پابندیوں کی تلوار لٹکا رکھی ہے۔ اسی کے ساتھ پاکستان کے داخلی امور میں مداخلت بھی جاری ہے۔ این آر او جیسا بدنام زمانہ معاہدہ امریکی وزیر خارجہ کنڈو لیزا رائس نے کرایا تھا۔ اس معاہدے کے باوجود معاہدے کی شریک بے نظیر بھٹو پراسرار انداز میں سفاکانہ دہشت گردی کا نشانہ بنا دی گئیں۔ ان کی پراسرار موت پر بھی اسرار کے پردے پڑے ہوئے ہیں۔ بے نظیر بھٹو کی پراسرار موت کے باوجود معاہدہ برقرار رہا،اب سات برس کے بعد روس کے ذرائع نے خبر دی ہے کہ پاکستان میں گرفتار امریکی جاسوس شکیل آفریدی کو جیل سے رہا کرانے کی سی آئی اے نے منصوبہ بندی کی تھی جو ناکام ہوگئی۔ سانحہ ایبٹ آباد سے سبق یہ ملتا ہے کہ اس جنگ کے سائے میں امریکہ نے پاکستان میں سی آئی اے اور ایف بی آئی کے ایجنٹوں کا جال بچھا دیا ہے جو پاکستان کی داخلی سلامتی کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے لیکن کوئی بھی سیاسی جماعت امریکی عزائم کے مقابلے میں بند باندھنے کے لیے تیار نہیں۔