امریکہ کے عراق اور افغانستان پر فوجی قبضے کے بعد دہشت گردی کو فروغ ملا ہے۔ داعش نے عراق سے سراُٹھایا، پھر اس کی شاخیں کئی ممالک تک پھیل گئیں۔ یہ تنظیم دوسری دہشت گرد تنظیموں کے لیے بھی مرکزی حیثیت کی حامل بنی۔ افغانستان کے جنگجو اس کے پرچم تلے جمع ہونا شروع ہوئے۔ امریکہ نے القاعدہ ختم کرنے کے لیے افغانستان پر فوجی یلغار کردی۔ وہ ختم ہوئی، مگر جنگ افغانستان پر جاری رکھی۔ یقینی طور پر مقصد افغانستان پر قبضہ کرنا تھا جس میں وہ اپنے افغان آلہ کاروں کے تعاون سے کامیاب ہوا۔ اس طرح مقبوضہ افغانستان میں داعش کے نام سے مسلح جتھے مضبوط ہوگئے، اس کے لیے الزام امریکہ کو دیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ امریکہ ہی کے زیر سایہ داعش پھل پھول رہی ہے۔ گویا امریکہ کی وجہ سے دہشت گردی کو نئی صورت مل گئی۔ القاعدہ کے منتشر ہونے والے جنگجوئوں کو پاکستان کے قبائلی علاقوں (فاٹا) کی تنظیموں نے اپنے پاس رکھا۔آپریشن ضربِ عضب کے بعد یہ دہشت گرد گروہ افغانستان منتقل ہوگئے جہاں ان کے اور داعش کے تانے بانے جڑ گئے ہیں۔ داعش نے افغانستان میں بھی تباہ کن کارروائیاں جاری رکھی ہوئی ہیں۔ پچھلے دنوں کابل میں انتخابی اندراج کے مرکز کے باہر خودکش حملے میں57 افراد مارے گئے۔ تازہ مثال کابل میں 30 اپریل کے یکے بعد دیگرے خودکش حملے ہیں۔ ان حملوں میں 29 افراد شہید ہوئے جن میں 9 صحافی بھی شامل ہیں جو پیشہ ورانہ ذمے داریاں نبھاتے ہوئے لقمۂ اجل بن گئے۔ اسی حکمت عملی کے تحت کوئٹہ کے اندر متعدد خودکش حملے ہوچکے ہیں۔ دھماکا کیا جاتا، جب فورسز، امدادی ٹیمیں اور شہری اکٹھے ہوتے تو دوسرا دھماکا کردیا جاتا۔ ان تنظیموں نے پاکستان کو مسلسل نشانے پر رکھا ہوا ہے، حالانکہ ان کے خلاف آپریشن ردالفساد متوازی طور پر جاری ہے۔
اگر ہم بات بلوچستان یا کوئٹہ کی کریں تو رواں سال اب تک انسان کُشی کے درجنوں واقعات میں پچاس سے زائد افراد قتل کیے جاچکے ہیں جن میں پولیس، ایف سی، ہزارہ اور مسیحی برادری سمیت ہر طبقۂ فکر کے افراد شامل ہیں۔ ان حملوں کی ذمے داری افغانستان میں موجود دہشت گرد گروہ قبول کرچکے ہیں۔ یعنی حالیہ دنوں میں دہشت گردی خاص کر ہدفی قتل کے واقعات میں نمایاں اضافہ ہوچکا ہے۔24 اپریل کو ایئرپورٹ روڈ پر بلوچستان کانسٹیبلری کے ٹرک کو موٹرسائیکل سوار حملہ آور نے نشانہ بنایا۔ اس حملے میں 6 پولیس اہلکار جان کی بازی ہارگئے، آٹھ زخمی ہوئے۔ ایئرپورٹ روڈ پر اس دن سیکورٹی کے انتظامات کیے گئے تھے کیوں کہ آزاد کشمیر کے صدر سردار مسعود احمد خان کوئٹہ آرہے تھے۔ وہ پہنچ گئے، اس کے بعد اہلکار جانے لگے کہ اس اثناء میں ان پر خودکش حملہ ہوا۔ ان ہدفی حملوں سے چھٹکارا مستقل قریب میں دکھائی نہیں دیتا۔ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی افغانستان میں موجودگی کسی شر سے خالی نہیں ہے۔ امن افغانستان کی آزادی سے مشروط ہے۔ چنانچہ ہونا یہ چاہیے کہ خطے میں امن کی خاطر افغانستان سے امریکی انخلاء یقینی بنانے کے لیے زبردست سیاسی تحریک شروع ہو۔ پاکستان اور افغانستان کے اندر بالخصوص اس کی ضرورت ہے۔ دونوں ممالک کو امن کے مسائل کا سامنا ہے۔ بلوچستان کے وزیراعلیٰ عبدالقدوس بزنجو اور وزیرداخلہ سرفراز بگٹی کہہ چکے ہیں کہ 20 خودکش حملہ آور اور ٹارگٹ کلرز کے دو گروہ پکڑے جاچکے ہیں۔ اس میں دو رائے نہیں کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو کامیابیاں ملی ہیں، کئی دہشت گرد مارے جاچکے ہیں۔ مگر چند دن سکون رہتا ہے کہ پھر سے امن کے دشمن منظم ہوجاتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ان کے کیمپ افغانستان میں موجود ہیں۔ وہاں سے ان کی بھرتی ہوتی ہے، انہیں تربیت دی جاتی ہے اور وہیں سے کارروائی کی ہدایت دی جاتی ہے۔ مقامی نوجوان ان کے ہاتھوں استعمال ہورہے ہیں۔ یہ مقامی افراد شہر سے پوری طرح واقفیت رکھتے ہیں، اس بناء پر انہیں اپنے غیر اسلامی وغیر انسانی عزائم میں کامیابی مل جاتی ہے۔
ایئرپورٹ روڈ کے خونیں سانحے کے بعد عبدالقدوس بزنجو افغان مہاجرین پر لال پیلے ہوگئے اور کہا: ’’افغان مہاجرین کی کھلے دل سے مہمان نوازی کی گئی، اور اس کے بدلے ہمیں بدامنی ملی، اب اور مہمان نوازی نہیں کرسکتے‘‘۔ اس میں افغان مہاجرین کا کیا قصور ہے؟ وہ بیچارے تو افغانستان پر روسی قبضے کے بعد جان کی سلامتی کے لیے پاکستان آئے اور پاکستان کی اُس وقت کی حکومت نے ان لٹے پٹے افغانوں کو خوش آمدید کہا۔ افغانوں نے روسی افواج کے خلاف مزاحمت شروع کی، اور افغان جہاد کی وجہ سے پاکستان کی سلامتی یقینی بن گئی۔ افغان روسیوں کے آگے سیسہ پلائی دیوار نہ بنتے تو معلوم نہیں آج پاکستان کا نقشہ کیا سے کیا ہوتا۔ اور عبدالقدوس بزنجو اور اس قبیل کے دوسرے لوگ آج پتا نہیں کس کی فرماں برداری اور خدمت میں لگے ہوتے! پاکستان میں مقیم افغان باشندوں کی باعزت واپسی ضرور ہونی چاہیے، اور یہ عمل وفاقی حکومت کے دائرۂ اختیار میں ہے۔ طالبان دورِ حکومت میں جب وہاں امن قائم ہوا تو افغان باشندے بڑی تعداد میں جانے لگے۔ پھر امریکہ کے ہاتھوں افغانستان تاراج ہوا تو نہ صرف واپسی کا عمل رکا، بلکہ الٹا پھر سے پاکستان کی طرف نقل مکانی شروع ہوگئی۔ افغانستان سے جن مسائل اور خطرات کا پاکستان کو سامنا ہے یہ سب پرویزمشرف کی کارستانیاں ہیں۔ اس آمر نے امریکی جنگ میں شریک ہوکر پاکستان کی سلامتی دائو پر لگادی، ملک کا امن غارت کردیا۔ امریکی فوجیوں کی آمد کے ساتھ ہی بلوچ علیحدگی پسند منظم ہوگئے۔ عبدالقدوس بزنجو اپنے علاقے آواران نہیں جاسکتے۔ صوبائی دارالحکومت کے محفوظ ترین مقام یعنی کوئٹہ کی فوجی چھائونی میں رہائش پذیر ہیں۔ بلوچ شدت پسند عبدالقدوس بزنجو اور ان کے خاندان کے درپے ہیں۔ گویا آمر پرویزمشرف نے پاکستان کی محسن افغان قوم کو امریکہ کے ساتھ مل کر تباہی و بربادی سے دوچار کیا۔ دیکھا جائے تو افغانوں پر اس ظلم میں پاکستان برابر کا شریک رہا ہے۔ یہ حزبِ اسلامی افغانستان اور امارتِ اسلامیہ ہی ہے کہ ’’را‘‘ اور افغانستان کے اندر پاکستان دشمن عناصر کو لگام دے رکھی ہے۔ افغانوں کی مزاحمت نے ان کے آگے بند باندھ رکھا ہے، وگرنہ وہ کب کے پاکستان پر چڑھ دوڑتے۔ گویا ہمیں آج بھی افغانوں کا احسان مند ہونا چاہیے۔ یہ بات بھی سمجھنے کی ہے کہ ہم ماضی میں امارتِ اسلامیہ اور نہ ہی حزبِ اسلامی سے وفا کرسکے ہیں۔ پاکستان میں تعینات طالبان دور کے افغان سفیر ملاّ عبدالسلام ضعیف کی امریکیوں کو حوالگی، جن کو ہماری سرزمین پر امریکیوں نے زدوکوب کرنا شروع کیا اور گوانتاناموبے میں قیدی بناکر طویل عرصہ اذیتوں سے دوچار کیے رکھا، اس سے ہماری جگ ہنسائی ہوئی، بلکہ ہماری وفا پر سوالات اُٹھے ہیں، اور یہ ساری زیادتیاں وہ فراموش نہیں کرسکے ہیں۔ افغانوں کے بغیر پاکستان یہ جنگ جیت نہیں سکتا۔ لہٰذا افغان مہاجرین کو نفرت کا نشانہ بنانے سے بھی گریز ہونا چاہیے۔
سطورِ بالا میں ایئرپورٹ روڈ پر خودکش حملے کی بات ہوئی۔ اسی روز چند گھنٹے پہلے کوئٹہ کے جنوب میں نواحی علاقے میاں غنڈی میں ایف سی اور خودکش حملہ آوروں کے درمیان مقابلے کی اطلاع دی گئی۔ بتایا گیا کہ ایک حملہ آور نے چیک پوسٹ کے قریب خود کو اُڑا دیا، اور دوسرا فائرنگ کے تبادلے میں مارا گیا۔ چند تصویریں سوشل میڈیا پر وائرل کی گئیں جن میں ایف سی اہلکار زخمی پڑے ہوئے ہیں۔ کچھ دیر بعد ایف سی حکام نے بتایا کہ تصاویر جعلی ہیں۔ بہرحال یہ کہا گیا کہ 8 ایف سی اہلکار زخمی ہوگئے۔ گزشتہ چند ماہ میں اس طرح کے چند دوسرے واقعات بھی بتائے جاچکے ہیں۔ مثلاً یکم فروری کی رات بلیلی میں واقع ایف سی چیک پوسٹ پر خودکش حملے کا بتایا گیا کہ6 اہلکار زخمی ہوئے۔2 فروری کو ضلع مستونگ کے علاقے شیخ واصل میں ایف سی چیک پوسٹ پر خودکش حملے کی کوشش کی اطلاع دی گئی کہ ایف سی کی فائرنگ سے حملہ آور نے خود کو اُڑادیا اور دو اہلکار زخمی ہو گئے۔ پھر28 فروری کو نواحی علاقے نوحصار میں ’’خونیں تالاب‘‘ کے مقام پر ایف سی کیمپ پر خودکش حملے کی اطلاع دی گئی اور یہ کہا گیا کہ چار اہلکار شہید اور تقریباً دس زخمی ہوگئے۔ 22 مارچ کو کوئٹہ کے نواحی علاقے کچھ موڑ کے مقام پر سیکورٹی چیک پوسٹ کے قریب کھڑی گاڑی کو نشانہ بنانے کا بتایا گیا، فوری جوابی کارروائی میں حملہ آور مارا گیا۔ موقع پر پڑے ہلاک دہشت گرد کی تصویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی۔19اپریل کو مغرب کے بعد ایک اور اطلاع یہ دی گئی کہ بلیلی میں چشمہ اچوزئی کے علاقے میں ایف سی کی گاڑی پر خودکش حملہ ہوا اور تین اہلکار زخمی ہوئے۔ تصاویر جاری ہوئیں۔ گاڑی جلتی دکھائی دی۔ لاشوں اور زخمیوں کو سی ایم ایچ منتقل کرنے کا سارا بندوبست فورسز اور ایف سی ہی کی جانب سے بتایا گیا۔
nn