لاہور میں تحریک انصاف کا جلسہ

اس میں کوئی شبہ نہیں کہ سیاسی منظرنامے میں تحریک انصاف اور عمران خان نے اپنے آپ کو دیگر جماعتوں کے مقابلے میں متبادل قیادت کے طور پر پیش کردیا ہے۔ عمران خان سے لاکھ سیاسی اختلافات کریں، لیکن اب ان کے سیاسی کردار کو کسی بھی صورت میں نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ اس بات سے قطع نظر کہ لاہور میں تحریک انصاف کے جلسے میں لوگوں کی تعداد کتنی تھی، یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ تحریک انصاف اور عمران خان نے ثابت کیا ہے کہ وہ بڑے جلسے کرسکتے ہیں۔ لاہور کا جلسہ کس حد تک تحریک انصاف کے لیے 2018ء کے انتخابات کے تناظر میں گیم چینجر ثابت ہوگا، یہ کہنا قبل ازوقت ہوگا۔ کیونکہ بڑے جلسے کی اہمیت اپنی جگہ، اصل بات بڑی تعداد میں موجود لوگوں کو ووٹ دینے پر مائل کرنا ہوتا ہے۔ عمران خان کی 2013ء کی انتخابی مہم میں بڑی شدت دیکھی گئی تھی، مگر انتخابی نتیجہ وہ نہیں نکل سکا جس کی عمران خان توقع کررہے تھے، دنیا بھر کی سیاست میں دو بڑی سیاسی قوتوں یا دو جماعتی نظام میں کسی تیسری قوت کا اپنے لیے راستہ بنانا بہت محنت طلب اورمشکل عمل ہوتا ہے۔ یہ کہنا کہ جلسے میں لاہور کے لوگ کم تھے درست نہیں، کیونکہ بڑا جلسہ مقامی لوگوں کی شرکت کے بغیر ممکن نہیں ہوسکتا تھا۔ کیونکہ عمران خان کی اہم طاقت ہی پنجاب کا شہری حلقہ ہے اور یہاںکے نوجوان ہیں۔
لاہور میں عمران خان ایک مختلف کردار میں نظر آئے۔ نہ وہ غصے میں تھے اور نہ ہی انہوں نے اپنی تقریر میں الزامات کی بنیاد پر جذباتی رنگ اختیار کرکے مخالفین پر چڑھائی کی۔ بڑی مدت کے بعد کسی سیاسی جماعت کے راہنما کو مخالفین پر کیچڑ اچھالنے کے بجائے ایشوز کی بنیاد پر مدلل گفتگو کرتے سنا۔ یہ بات صاف محسوس کی جاسکتی ہے کہ جلسے میں عمران خان کی تقریر روایتی تقریر نہ تھی۔ لوگوں نے جس طرح سکوت کی حالت میں ان کی تقریر سنی اُس سے بھی ظاہر ہوتا تھا کہ مجمع محض تماشائی نہیں تھا بلکہ وہ واقعی عمران خان کو سنجیدگی سے سن رہا تھا۔اس سے قبل عمران خان کے انداز میں غصہ ہوتا تھا، اور خاص طور پر وہ شریف برادران پر سخت تنقید کرتے تھے، لیکن اِس بار ان کا لب ولہجہ خاصا مختلف نظر آیاانہوں نے یہ تاثر دینے کی پوری کوشش کی کہ وہ نظام کی تبدیلی کے لیے کچھ کرنا چاہتے ہیں۔
یہ عمران خان نے آئین کی، بنیادی حقوق کی دفعات کا حوالہ دےکر عوام کے بنیادی حقوق، محرومی اور ناانصافی پر مبنی سیاسی، سماجی اورمعاشی تقسیم کو بڑی خوبصورتی سے اجاگر کیا۔ وہ دو پاکستان کو ایک پاکستان میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں، مگر یہاں دو پاکستان نہیں بلکہ سیاسی، لسانی، علاقائی، فرقہ وارانہ معاملات، معاشی اور سماجی عدم انصاف پر مبنی کئی پاکستان ہیں۔ یہ تقسیم شدہ ریاست ہے اور اس کو ایک کرنا یا جوڑنا آسان کام نہیں ۔ بہت سے لوگوں نے عمران خان کی تقریر پر تنقید کی ہے۔ یقینی طور پر عمران بہت سے معاملات پر بات نہیں کرسکے۔ البتہ دہشت گردی، ہمسایہ ممالک سے بہتر تعلقات، پانی، انصاف، بلوچستان، اور فوج کے سیاسی کردار پر بھی وہ کچھ نکات شامل کرسکتے تھے۔
بہت سے لوگ عمران خان کی سیاست کو اسٹیبلشمنٹ کی سیاست سے جوڑ کر دیکھتے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ کا یہ کھیل ہماری سیاست میں کوئی نیا نہیں، دلچسپ بات یہ ہے کہ جو لوگ عمران خان پر اسٹیبلشمنٹ کی سیاست کا الزام لگا رہے ہیں وہ خود کئی دہائیوں تک اسی اسٹیبلشمنٹ کی مدد اور حمایت سے اقتدار کی سیاست کرتے رہے ہیں۔
عمران خان نے گیارہ نکاتی جو ایجنڈا دیا ہے وہ انتخابی سیاست میں یقینی طور پر نئی بحث پیدا کرنے کا سبب بنے گا۔ جو ایجنڈا عمران نے دیا ہے وہ حتمی نہیں، اس میں متبادل نکات اور بحثیں انتخابی سیاست کو ایشوز کی بنیاد پر طاقت فراہم کرسکتی ہیں۔ البتہ عمران خان کو یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ ان کا مقابلہ پنجاب میں ایک طاقت ور جماعت یعنی مسلم لیگ (ن) سے ہے۔ مسلم لیگ (ن) اور نوازشریف کی طاقت کو آسان نہیں لینا چاہیے۔ یہ بات بجا کہ عمران خان نے نوازشریف اور ان کی سیاست کو خاصا نقصان پہنچایا ہے، لیکن اس کے باوجود انتخابی سیاست میں جو صلاحیت اور ہنر نوازشریف کے پاس ہے وہ ابھی عمران خان کے پاس نہیں۔ البتہ یہ بات طے ہے کہ انتخاب کا اصل معرکہ پنجاب ہی ہوگا، جہاں عمران خان کا اصل مقابلہ نوازشریف کے ساتھ ہے۔ اور ان کی نااہلی کے باوجود انہیں پنجاب میں ہرانا ایک مشکل چیلنج ہے۔
عمران خان کو ایک نفسیاتی برتری یہ بھی حاصل ہے کہ پچھلے کچھ عرصے میں جس انداز سے نوازشریف اور ان کی جماعت کا شفافیت کا تاثر کمزور ہوا، جس انداز سے پارٹی میں ٹوٹ پھوٹ کا عمل سامنے آیا وہ ان کو فائدہ پہنچا سکتا ہے۔ جو برتری نوازشریف کو 2013ء میں حاصل تھی اب وہ متاثر ہوئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خود شریف برادران بھی اپنے مقابلے کے لیے عمران خان کو ہی سیاسی حریف سمجھتے ہیں۔ البتہ نوازشریف کی نااہلی کے بعد اگر پارٹی صدر شہبازشریف کو بھی عدالت سے کوئی غیر متوقع فیصلہ سننا پڑا تو حکمران جماعت مزید دبائو میں آجائے گی۔ یہی وجہ ہے کہ خود حکومتی جماعت برملا کہہ رہی ہے کہ انتخابات کا ماحول اُن کے خلاف اور عمران خان کے حق میں شعوری طور پر سجایا جارہا ہے، جو پری پول رگنگ میں آتا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اپنی ناکامیوں اورداخلی کمزوریوں کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں، اُسے محض اسٹیبلشمنٹ نے ہی کمزور نہیںکیا بلکہ وہ خود بھی اپنی پالیسیوں اور حکمت عملی کے باعث اپنی مقبولیت کھو رہی ہے۔ کچھ لوگ یہ دعویٰ کررہے ہیں کہ نوازشریف کا بیانیہ مضبوط ہورہا ہے۔ اس کا دارومدار بھی نیب کے فیصلوں، نگران حکومتوں، اور حکومت کے ختم ہونے کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال پر ہوگا۔
عمران خان کے بارے میں ایک تاثر یہ ابھرا ہے کہ وہ اب زیادہ تر انحصار انتخاب جیتنے والے افراد پر کررہے ہیں اور اسی بنیاد پر مختلف جماعتوں کے طاقتور لوگوں کو شامل کررہے ہیں۔ یہ واقعی عمران خان کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے،کیونکہ آج کا جو ہمارا انتخابی نظام ہے اُس میں کئی طرح کے سیاسی سمجھوتے کرنے پڑتے ہیں۔ 2013ء کے انتخابات میں بھی خود نوازشریف نے جنرل(ر) پرویزمشرف کے کئی درجن ساتھیوں کو لے کر سمجھوتا کیا تھا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ کچھ افراد انتخابی سیاست میں اپنی ذاتی اہمیت رکھتے ہیں۔
عمران خان واقعی مخالفین کے لیے واقعی گیم چینجر ثابت ہوں گےیہ ایک اہم سوال ہے، لیکن اور ان کو نظرانداز کرنا ممکن نہیں، ان کے مخالف نوازشریف کو سیاسی اور قانونی محاذ پر کئی طرح کے سنگین مسائل کا سامنا ہے۔ لیکن وہ کس حد تک اپنے مخالفین بالخصوص شریف برادران پر اپنی سیاسی برتری قائم کرتے ہیں، یہی ان کا اصل اور بڑا امتحان ہے۔