جلسوں اور جوڑ توڑ کی سیاست

طبل جنگ بج چکا ہے اور ملک بھر میں سیاسی جماعتوں نے اعلانیہ انتخابی مہم شروع کردی ہے۔ اتوار کے روز تین بڑی سیاسی جماعتوں نے ملک کے تین شہروں میں انتخابی جلسہ کے نام پر اپنی افرادی اور انتظامی قوت کا مظاہرہ کردیا ہے۔ سندھ کے دارالحکومت کراچی میں پیپلز پارٹی نے 44 سال بعد لیاقت آباد (لالوکھیت) میں ایک بڑا جلسہ کیا جس سے خطاب کرتے ہوئے بلاول بھٹو نے پہلی بار قوم کو بتایا کہ کراچی بھٹو کا شہر ہے اور یہ کہ اس شہر میں بلاول اور اُن کی ماں بے نظیر پیدا ہوئے اور یہیں پڑھے ہیں۔ پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں تحریک انصاف نے مینار پاکستان پر جلسہ کیا اور دعویٰ کیا کہ حاضری کے اعتبار سے انہوں نے اپنا ہی سابقہ ریکارڈ توڑ دیا ہے۔ جبکہ خیبرپختونخوا کے اہم سیاسی شہر مردان میں ایم ایم اے کا پہلا لیکن بڑا جلسہ ہوا جس سے مولانا فضل الرحمن نے خطاب کیا۔ توقع ہے کہ بہت جلد ایم ایم اے کی قیادت مختلف شہروں میں مشترکہ جلسے کرے گی۔ مردان جلسہ بھی ایک کامیاب جلسہ تھا، ان جلسوں کے بعد لگتا ہے کہ جلسوں کا ایک مقابلہ شروع ہوگیا ہے۔ ایم کیو ایم بہادر آباد اور ایم کیو ایم پاکستان نے لیاقت آباد کے اسی ایریا ٹینکی گرائونڈ میں جلسہ کرنے کا اعلان کیا ہے جہاں اتوار کو بلاول نے ایم کیو ایم کو زیادہ اور مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کو نسبتاً کم چیلنج کیا تھا۔ جبکہ جماعت اسلامی نے بھی 13 مئی کو لاہور میں جلسہ کا اعلان کیا ہے اور لاہور سے اپنے قومی و صوبائی اسمبلیوں کے بیشتر امیدواروں کا باضابطہ اعلان کردیا ہے۔ اتوار کو ہونے والے تینوں جلسے بلاشبہ کامیاب اور بڑے جلسے تھے جن کی کامیابی پر یہ پارٹیاں خوشیاں منارہی ہیں اور ٹاک شوز میں اِن کے اثرات پر گفتگو ہورہی ہے۔ اگرچہ اس موقع پر مسلم لیگ (ن) نے کوئی جلسہ نہیں کیا لیکن نواز شریف اپنی سیاسی اہمیت اور سیاسی ماحول کے باعث میڈیا پر اُسی طرح چھائے رہے جس طرح تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی اس موقع پر چھائی ہوئی ہیں۔ ان جلسوں میں دیگر امور کے علاوہ سب سے زیادہ زیر بحث یہ نکتہ تھا کہ پیپلز پارٹی لالو کھیت میں 44 سال بعد یہ جلسہ کرسکی ہے، کیا وہ لسانی سیاست کے دبائو میں اردو بولنے والی آبادی میں جلسہ نہیں کررہی تھی، کیا وہ جلسہ کرنے کے سلسلے میں کسی خوف کا شکار تھی، یا کسی نے اسے جلسہ کرنے سے روکے رکھا تھا۔ اس سوال کا جواب پیپلز پارٹی کے ذمہ ہے اور شاید ایم کیو ایم اپنے جلسہ میں جو وہ اسی گرائونڈ میں کرنے جارہی ہے اس سوال کا جواب بھی دے۔ آئندہ چند روز میں باقی سیاسی جماعتیں بھی اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے والی ہیں۔ پنجاب کے شہروں میں نئی نیم سیاسی مذہبی جماعت ’’لبیک یارسول اللہ تحریک‘‘ نے جلسوں اور سرائیکی علاقے میں حال ہی میں وجود میں آنے والے ’’جنوبی پنجاب محاذ‘‘ کے پاور شو کا لوگوں کو انتظار ہی ہے۔ ساتھ ہی بلوچستان میں ری پبلکن پارٹی کی طرح راتوں رات بننے اور صوبائی وزارت اعلیٰ اور چیئرمین سینیٹ کی اہم نشستیں جیتنے والی جماعت کا انتظار کیا جارہا ہے کہ تینوں نئی جماعتیں کس طاقت اور افرادی قوت کے ساتھ انتخابی میدان میں اُترنے والی ہیں۔
اس ماحول میں جب سیاسی جماعتیں لنگر لنگوٹ کس کر میدان میں اُتر چکی ہیں، الزامات اور جوابی الزامات کی سیاست عروج پر ہے، پنجاب حکومت اپنی جو کارکردگی بتا رہی ہے اسے تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی دھوکا اور لوٹ مار قرار دے رہی ہیں۔ خیبرپختونخوا میں کارکردگی کے تحریک انصاف کے دعوے کوئی دوسری جماعت تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ سندھ حکومت کے دعوے بھی بے اثر ہیں، کردار کشی کی مخالفانہ مہم زوروں پر ہے۔ اسٹیبلشمنٹ اپنی ڈوریاں ہلا رہی ہے، عدالتوں میں جنگ کی سی فضا ہے اور الیکشن کمیشن بہت جلد الزامات کی زد میں آنے والا ہے۔ ایسے میں امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق نے چونکا دینے والی ایک بات کہی ہے جس پر سب کو غور کرنا چاہیے اور ابھی سے ان خدشات کو دور کرنے کے لیے منصوبہ بندی کرلینی چاہیے ورنہ 2018ء کے انتخابات 2013ء کے انتخابات سے زیادہ متنازع ہوجائیں گے۔ اُن انتخابات کو پولنگ کے بعد تمام سیاسی جماعتوں نے تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ مگر موجودہ انتخابات اپنے انعقاد سے قبل ہی متنازع ہوجائیں گے اور انہیں کوئی قبول نہیں کرے گا۔ یہ انتخابات دنیا بھر میں پاکستان کا مذاق بن جائیں گے اور پاکستان کے اندر انتشار، سیاسی عدم استحکام اور تباہ کن پولرائزیشن کا سبب بنیں گے۔ جس سے نہ صرف ملکی استحکام کو بھی خطرات کا سامنا ہوگا بلکہ پورا جمہوری نظام ہی خطرے میں آجائے گا۔
جناب سراج الحق نے کہا ہے کہ اگر 2018ء کے انتخابات بھی سینیٹ کے حالیہ انتخابات جیسے ہوئے تو اُس سے پورا نظام ہی خطرے میں آجائے گا۔ یہ وہ خدشہ ہے جو نظر سب کو آرہا ہے لیکن سب خاموش ہیں۔ لیکن اس ملک کے طاقتور طبقے کا یہی انداز ہے اور سیاست دان اپنی کمزوریوں اور مصلحتوں کے باعث اُسے قبول کرتے چلے آرہے ہیں۔
یہ بات تو تقریباً طے شدہ ہے اور بہت جلد پایہ ثبوت کو پہنچ جائے گی کہ آئندہ ہونے والا انتخاب اسٹیبلشمنٹ کا انتخاب ہے۔ وہ نہ صرف اس کے لیے پوری طرح سرگرم ہے، جوڑ توڑ کررہی ہے اور اپنے مہروں کو آگے پیچھے بھی کردیا ہے۔ کچھ سیاسی جماعتوں کے لیے مشکلات پیدا کی جارہی ہیں، کچھ کو فری ہینڈ مل رہا ہے، نئی سیاسی جماعتیں بنائی جارہی ہیں، نئے اتحاد وجود میں آرہے ہیں، ایک دوسرے کے جانی دشمن سیاسی حریف اعلانیہ یا تکنیکی بنیادوں پر اکٹھے کیے جارہے ہیں جو ایک دوسرے کو گالیاں بھی دے رہے ہیں۔ ایک دوسرے کو ووٹ بھی ڈال رہے ہیں، الیکشن کمیشن سردست گہری نیند سو رہا ہے لیکن ممکن ہے کہ انتخابی ماحول گرم ہونے پر کچھ سیاسی گروپوں کے خلاف متحرک اور سرگرم ہوجائے اور کچھ کو من مانیاں کرنے دے۔ الیکشن کمیشن کا یہ مجرمانہ فعل لاہور میں تحریک انصاف کے حالیہ جلسہ کے موقع پر واضح طور پر نظر آیا۔ 1970 کی طرح اس بار تحریک انصاف نے لاہور میں پیسہ پانی کی طرح بہا کر اپنا جلسہ کامیاب کرایا۔ شہر کی تین سو یونین کونسلوں میں استقبالیہ کیمپ لگائے گئے،لاہور ہی نہیں پورے پنجاب بلکہ پاکستان بھر سے لوگوں کو بسوں اور گاڑیوں پر لاد کر یہاں لایا گیا، لاہور شہر کی ہر سڑک پر بڑے بڑے بینرز اور ہورڈنگ لگائے گئے اور ہر کھمبے پر PTI کا جھنڈا لگایا گیا تھا۔ یہ سب کچھ 1970ء کی یاد تازہ کر رہا تھا جب پنجاب بھر کے شہروں میں پیپلزپارٹی کے جھنڈے ہر کھمبے اور ہر عمارت پر لگادیے گئے تھے۔ ویسی فضا اس بار تحریک انصاف نے بنائی ہے، کروڑوں روپے کے خرچ سے چند لاکھ افراد کو اکٹھا کرکے شہریوں کی سوچ کو یرغمال بنایا جارہا ہے اور الیکشن کمیشن خاموش ہے۔ اس وقت لگتا ہے اسٹیبلشمنٹ مسلم لیگ (ن) کے لیے مشکلات کھڑی کرے گی۔ کراچی میں ایم کیو ایم کو تین حصوں میں تقسیم کردیا گیا ہے، بلوچستان میں نئی سیاسی جماعت بنادی گئی ہے، سرائیکی علاقے میں مسلم لیگ (ن) کے خلاف میدان سج گیا ہے، پیپلز پارٹی کو بلوچستان میں فری ہینڈ دے دیا گیا ہے،
(باقی صفحہ 41)
جلسوں اور جوڑتوڑ کی سیاست/سید تاثیر مصطفی
تحریک انصاف کو اُس کی مقبولیت کے حوالہ سے فری ہینڈ مل رہا ہے، مسلم لیگ (ق) بھی اپنا حصہ لینے اسٹیبلشمنٹ کے پاس پہنچ چکی ہے۔ دینی جماعتوں کا اتحاد بھی موثر قوت بن رہا ہے۔ اور تحریک لبیک یا رسول اللہ بھی کسی کو ہرانے اور کسی کو بنانے میں کردار ادا کرسکتی ہے۔ ایسے میں لگتا یہ ہے کہ انتخابات کے نتیجے میں کئی گروپوں پر مشتمل گروپ سامنے لایا جائے گا کسی کے پاس واضح اکثریت نہیں ہوگی، پھر اپنی پسند کے گروپوں کا اتحاد بنوا کر چیئرمین سینیٹ جیسے نتائج حاصل کرلیے جائیں گے۔ یہ مسلم لیگ (ن) سے نجات کا ایک راستہ تو ہوسکتا ہے لیکن ملکی نظام میں بہتری کا حل نہیں ہے۔ مصنوعی اکثریت سے بننے والی حکومت اسٹیبلشمنٹ کے زیر اثر رہے گی یہی شایدپاکستان کا مقدر بھی ہے۔ اور ایک دوسرے کا ووٹ کھینچنے کی کوشش بھی ہے۔ اس لیے ایسا ہی کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان میں نہ ماضی کے انتخابات شفاف ہوئے ہیں نہ آئندہ انتخابات صاف شفاف ہوں گے۔ 1970ء کے انتخابات میں عوامی لیگ نے مشرقی پاکستان اور پیپلز پارٹی نے پنجاب اور سندھ میں طوفان کھڑا کر رکھا تھا۔ مخالفین کو جلسے تک نہیں کرنے دیے جارہے تھے۔ 1985ء میں بلدیات سے آنے والی قیادت نے پیسے کی بنیاد پر سب کو چاروں شانے چت کردیا اور بعد کے انتخابات پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کی پولرائزیشن کے باعث مکمل طور پر اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھ میں ہیں اور اب بھی لگتا یہی ہے کہ آئندہ انتخابات میں سیاسی جماعتیں ہاریں گی اور اسٹیبلشمنٹ جیتے گی۔ ماضی کی طرح۔ اللہ اس ملک پر اپنا رحم کرے۔