کشیدگی کے کواڑ پر امن کی دستک؟

بھارتی فوج کے سربراہ کا چونکا دینے والا “اعتراف”

پچھلے دنوں پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے کاکول میں کیڈٹس کی پاسنگ آؤٹ پریڈ سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ مسئلہ کشمیر جیسے کور ایشو سمیت پاکستان اور بھارت کے تمام مسائل کا حل جامع اور بامعنی مذاکرات میں ہے، اس طرح کے مذاکرات کسی ایک ملک کے لیے نہیں بلکہ خطے کے مجموعی امن کے لیے ضروری ہیں۔ پاکستان مذاکرات کے لیے ہمہ وقت تیار ہے، مگر ان کی بنیاد برابری، عزت اور وقار ہونا چاہیے۔
جنرل قمر جاوید باجوہ کے اس بیان کے دوسرے ہی روز بھارتی فوج کے سربراہ جنرل بپن راوت کا ایک چونکا دینے والا بیان سامنے آیا جس میں انہوں نے اعتراف کیا کہ کشمیری حریت پسند اور سیکورٹی فورسز بندوق کے زور پر اپنے مقاصد حاصل نہیں کرسکتے۔ بندوق کے بجائے مذاکرات ہی مسائل کا حل ہیں۔
یہ بیانات، اور جنوبی ایشیا کی دو متحارب طاقتوں اور حالتِ جنگ میں کھڑی فوجوں کے سربراہوں کا یہ انداز جنوبی ایشیا میں ایک نئی صبح کے طلوع کا عنوان بننے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ پاکستان کے دفاعی امور میں فوجی اسٹیبلشمنٹ کی جو حیثیت اور طاقت ہے، کم وبیش مقبوضہ کشمیر اور پاکستان کے ساتھ معاملات طے کرنے میں وہی اہمیت و صلاحیت بھارت کی ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی بھی ہے۔ اپنے اپنے ملکوں میں اسٹرے ٹیجک امور میں دونوں فوجوں کی بالادستی یقینی ہے۔ بھارت میں سیاست دان بہت سے معاملات میں بااختیار ہیں، مگر سیکورٹی اور اسٹریٹجی کے امور میں یہ بالادستی برائے نام رہتی ہے۔ ماضی میں اس طرح کی بے شمار مثالیں موجود ہیں جب بھارتی حکمرانوں نے پاکستان کے ساتھ معاملات طے کرنے کے لیے پیش رفت کی کوشش کی، مگر فوج کی مداخلت سے وہ بے بسی کی تصویر بن کر رہ گئے۔ اس لحاظ سے جنرل بپن راوت اور جنرل قمر جاوید باجوہ کے بیانات دونوں یکساں اہمیت کے حامل ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں محبوبہ مفتی کی حکومت نے دونوں فوجی سربراہوں کے بیانات کا خیرمقدم کیا ہے۔ حریت کانفرنس کے راہنمائوں نے جنرل راوت کے بیان کو کشمیریوں کی اخلاقی فتح سے تعبیر کیا ہے۔
جنرل بپن راوت کی طرف سے حریت پسندوں کے بندوق کے ذریعے کامیابی حاصل نہ کرنے کا بیان تو روایتی ہے مگر سیکورٹی فورسز کے مقاصد حاصل نہ کرنے کا اعتراف اس بات کا پتا دے رہا ہے کہ بھارت کی فوجی قیادت نے ظلم وجبر کا ہر ہتھکنڈہ آزماکر دیکھ لیا ہے۔ گولیوں کے بے محابا استعمال سے حریت پسندوں کی ایک نئی اور تازہ دم کھیپ سامنے آتی ہے۔ پچھلے دنوں بھارتی فوج کا ایک اہلکار کیمپ سے غائب ہوا اور پھر اچانک اس کی تصویر حریت پسندوں کے ایک گروپ کے ساتھ سوشل میڈیا پر سامنے آئی۔ بھارتی فوج کشمیریوں پر جس قدر ظلم ڈھاتی ہے، آزادی اور حریت کے جذبات اسی قوت سے بھڑک اُٹھتے ہیں۔ اب اگر بھارتی فوج نے اس تجربے سے سیکھ لیا ہے کہ فوجی طاقت کے بل بوتے پر کشمیریوں کو دبانا ممکن نہیں، تو پھر کشمیر جیسے اُلجھے ہوئے مسئلے سمیت تمام مسائل کے حل کے لیے جامع مذاکرات کا آغاز ہونا چاہیے۔ جنرل قمرجاوید باجوہ اور بپن راوت، دونوں کے بیانات امن کی طرف مراجعت کی خواہش کے مظہر ہیں۔ امن اور مذاکرات کا کوئی نعم البدل نہیں، مگر امن کا قیام مسائل کو قالین تلے دبانے سے نہیں، کھلے دل سے تسلیم کرنے سے ممکن ہوتا ہے۔ اگر نیت صاف ہو اور مقصد وقت گزاری نہ ہو تو جنرل راوت کا بیان مسئلہ کشمیر پر جامع مذاکرات کی بنیاد بن سکتا ہے۔ ان بیانات کے بعد ہی کنٹرول لائن پر جاری کشیدگی اور بھارت کی طرف سے آزادکشمیرکی آبادی کو نشانہ بنانے کے معاملے پر پاکستان اور بھارت کے ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز کے درمیان رابطہ ہوا۔ پاکستان کے ڈی جی ایم او نے اپنے بھارتی ہم منصب پر واضح کیا ہے کہ بھارت پاکستان پر الزام تراشی کے بجائے اپنے معاملات بہتر بنائے، اور دیرپا امن کے لیے کنٹرول لائن اور ورکنگ بائونڈری پر جنگ بندی کے معاہدات کی پابندی کرے۔ رواں سال بھارتی فائرنگ سے 219 افراد شہید ہوچکے ہیں جن میں 112خواتین اور 12بچے شامل ہیں۔ پاکستان کے ڈی جی ایم اوکی طرف سے بھارتی ہم منصب کو جنگ بندی کی پاسداری کرنے پر زور دینا حد درجہ اہمیت کا حامل ہے۔ بھارتی فوج بہت عرصے سے جنگ بندی کے تمام معاہدات اور امن کے تمام ضابطوں کو نظرانداز کرکے آزادکشمیر کی نہتی آبادی کو نشانے پر رکھے ہوئے ہے۔ بھارتی درندگی کا ثبوت چار ماہ سے کم عرصے میں 219 افراد کی شہادت ہے، اور ان میں خواتین اور بچوں کا تناسب سب سے زیادہ ہے۔ معاشرے کے یہ وہ طبقات ہوتے ہیں جنہیں خوفناک جنگوں میں بھی نشانہ نہیں بنایا جاتا۔ ان کا احترام اور سلامتی یقینی بنانا تہذیب اور شائستگی کی علامت سمجھا جاتا ہے، مگر یوں لگتا ہے کہ بھارت کی فرسٹریشن اب ڈپریشن کی حدوں میں داخل ہوگئی ہے اور اسی لیے بھارتی فوج اب خواتین اور بچوں کو سب سے زیادہ ہدف بنانے لگی ہے۔ بھارت طاقت کے نشے میں بدمست ہوکر مقبوضہ کشمیر میں بھی ظلم وستم کی نئی کہانیاں رقم کررہا ہے۔ طاقت کے ذریعے مسائل کا حل بھارت کی خودفریبی ہے۔ بھارت کو شمالی اور جنوبی کوریا کے درمیان ہونے والی حالیہ سفارت کاری اور واقعات سے سبق حاصل کرنا چاہیے۔ ابھی کچھ ہی عرصہ پہلے شمالی اور جنوبی کوریا کے درمیان کشیدگی کا گراف بہت بلند تھا۔ ایٹمی حملوں کی دھمکیاں، میزائل پھینکنے کی باتیں عام تھیں۔ یوں لگ رہا تھا کہ دونوں خطوں کا امن ایک غلطی اور غلط فہمی کی مار ہے اور اس کے بعد خطہ ایک بار پھر ہیروشیما اور ناگاساکی کا منظر پیش کرے گا۔ یہ منظر اچانک بدل گیا، کیونکہ دونوں ملکوں نے یہ راز پالیا کہ جنگ تباہی اور بربادی کا دوسرا نام ہے۔ جنگ کے بجائے مسائل کو حل کرنے کا بہترین طریقہ مذاکرات ہیں۔ شمالی کوریا کے سربراہ جو کل تک امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو بھی تباہی اور بربادی کی دھمکیاں دے رہے تھے، جنوبی کوریا جا پہنچے، اور یوں کشیدگی کا سارا منظر ہی بدل گیا اور جزیرہ نما کوریا میں امن اور آشتی کی ہوائیں چل پڑیں۔ فی زمانہ جنگیں بچوں کا کھیل نہیں ہوتیں۔ ہتھیاروں میں آنے والی جدت نے ان کی ہلاکت خیزی بھی بڑھا دی ہے۔ بھارت اس تلخ حقیقت کو سمجھ کر جس قدر جلدی اقدامات اُٹھائے گا، بہتر ہوگا۔