دنیا بھرکی طرح پاکستان کے طول و عرض میں بھی یکم مئی کو ’’یومِ مزدور‘‘ منایا گیا۔ اس موقع پر چھوٹی بڑی ہر سیاسی جماعت کے قائدین نے دل خوش کن الفاظ پر مبنی بیانات جاری کیے اور مزدوروں کے حقوق کے تحفظ کی قسمیں کھائیں۔ بعض جماعتوں نے ریلیوں کا اہتمام بھی کیا، جن میں سرخ پرچموں کے زیرسایہ تقاریر اور نعروں میں مزدوروں کے مطالبات کے لیے تن، من، دھن وار دینے کے اعلانات کیے گئے۔۔۔ مگر ان نعروں اور تقاریر کے دوران بھی مجال ہے قائدین اور محنت کشوں کے درمیان موجود فاصلے میں کمی آنے دی گئی ہو۔ جی ہاں ۔۔۔ ’’سیکورٹی‘‘ اور ’’پروٹوکول‘‘ کے تقاضوں کا خیال رکھنا بھی تو لازم ہے۔ مگر اس مجموعی اور عمومی روش میں ایک فرد، ایک لیڈر، ایک قائد، ملک کے ایوانِ بالا کا ایک رکن، ایک صوبے کا دو بار وزیر خزانہ رہنے والا رہنما ایسا بھی تھا جس کے لیے کسی ’’پروٹوکول‘‘ کا کوئی مسئلہ تھا اور نہ ہی ’’سیکورٹی‘‘ کے تقاضے اس کے آڑے آئے، اور وہ صرف محاورے کی زبان ہی میں نہیں، فی الحقیقت غریبوں اور محنت کشوں میں گھل مل گیا۔۔۔ اور اس کا یہ عمل کسی کو بھی مصنوعی اس لیے محسوس نہیں ہوا کہ وہ پہلی بار ایسا نہیں کررہا تھا، یہ اس کا روزمرہ کا معمول ہے۔ وہ ایک مزدور کا بیٹا ہے اور خود بھی محنت مزدوری کرتا ہوا بڑا ہوا ہے۔ وہ ہمارے دیگر قائدین اور رہنماؤں کی طرح منہ میں سونے کا چمچہ لے کر پیدا نہیں ہوا۔۔۔’’پدرم سلطان بود‘‘ کی بنا پر قیادت کے منصب کا حق دار نہیں ٹھیرایا گیا۔۔۔ بلکہ اس کی اہلیت اور صلاحیت نے اسے اس منصبِ جلیلہ تک پہنچایا ہے۔ منصب پر بٹھانے سے قبل اس کے ساتھیوں نے خوب ٹھوک بجاکر اسے آزمایا ہے۔ وہ خود کبھی اس منصب کا طلب گار نہیں پایا گیا، اگر ایسا ہوتا تو یہ اس کی نااہلی کی دلیل قرار پاتا۔ بہرحال آج وہ اپنی جماعت کا امیر ہے، حالانکہ وہ جماعت کے ارکان کی اکثریت کے مقابلے میں غریب ہے۔ اور ’’خودی نہ بیچ، غریبی میں نام پیدا کر‘‘ کی روشن مثال ہے، کہ اس کی جماعت میں ’امارت‘ کے لیے امیری معیار نہیں۔۔۔ اہلیت، صلاحیت اور تقویٰ جیسی خوبیاں لازم ہیں۔
یہ لیڈر، یہ قائد، یہ رہبر، یہ رہنما۔۔۔ امیر جماعت اسلامی سراج الحق ہے جس نے یوم مئی منفرد انداز میں منایا۔۔۔ اور گفتار ہی نہیں، کردار سے بھی یہ ثابت کیا کہ وہ مزدوروں میں سے ہے، مزدوروں کے مسائل و مصائب کو سمجھتا اور ان کے حل کی اہلیت بھی رکھتا ہے۔۔۔ وہ دیگر سیاسی رہنماؤں کی طرح دور دور سے محنت کی عظمت کے نعرے نہیں لگاتا۔ اسے مزدور سے ہاتھ ملا لینے کے بعد جراثیم کُش صابن سے ہاتھ دھونے کی ضرورت پیش نہیں آتی، بلکہ وہ اس یقین سے مالامال ہے کہ ’’دانہ خاک میں مل کر گل و گلزار ہوتا ہے‘‘۔۔۔ اپنے اسی یقین کی بدولت سینیٹر سراج الحق نے یکم مئی کا دن اپنے محنت کش ساتھیوں سے عملاً یک جہتی کا اظہار کرتے ہوئے گزارا۔ دن کا آغاز امیر جماعت کی حیثیت سے منصورہ میں اپنی جماعت کے مرکزی دفاتر کی صفائی، سیکورٹی اور دیگر کاموں پر مامور عملہ کے ساتھ بیٹھ کر ناشتے سے کیا۔ اس موقع پر فرداً فرداً اپنے ان کارکنوں کے مسائل سنے، اور محض سننے ہی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ موقع پر ہی ان کے حل کے لیے ضروری ہدایات بھی جاری کیں۔
منصورہ سے فراغت کے بعد سینیٹر سراج الحق نیشنل لیبر فیڈریشن کے مرکزی صدر رانا محمود علی، این ایل ایف کے سیکریٹری جنرل اور ریلوے کی منتخب سودا کاری یونین ’’پریم‘‘ کے صدر حافظ سلمان بٹ، امیر جماعت اسلامی لاہور ذکر اللہ مجاہد، مرکزی سیکریٹری اطلاعات قیصر شریف اور دیگر مزدور رہنماؤں کے ہمراہ ریلوے واشنگ لائن پہنچے جہاں انہوں نے بوگیوں کی صفائی میں مصروف ریلوے محنت کشوں کے کام میں عملاً حصہ لیا اور پھر وہیں مزدوروں اور قلیوں کے ساتھ زمین پر بیٹھ کر کھانا کھایا، جس کے دوران ہلکی پھلکی بات چیت کا سلسلہ بھی جاری رہا، اور امیر جماعت ریلوے کے ان نچلے درجے کے کارکنوں کے مسائل سے آگاہی حاصل کرتے رہے۔ ان کی ریلوے واشنگ لائن آمد کی اطلاع ملنے پر ذرائع ابلاغ کے نمائندے بھی وہاں پہنچ گئے تھے، چنانچہ اس موقع پر ان سے بھی گفتگو ہوئی جس کے دوران امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے کہا کہ موجودہ نظام مزدور اور محنت کش کو ریلیف دینے میں ناکام ہوچکا ہے۔ ظلم و جبر اور استحصال پر مبنی نظام نے ستّرسال میں مزدوروں اور کسانوں کو ترقی کرنے اور آگے بڑھنے کا موقع نہیں دیا، کسانوں کی محنت کا پھل جاگیردار اور وڈیرے کھاتے ہیں اور مزدوروں کی خون پسینے کی کمائی پر سرمایہ دار عیش کررہا ہے ۔ سرمایہ داروں کی فیکٹریاں اور کارخانے بڑھتے رہے جبکہ مزدور کے گھر کا چولہا بھی بجھ گیا۔ جس معاشرے میں مزدور کی عزت نہ ہو، وہ معاشرہ ترقی نہیں کرسکتا۔ اسلام نے محنت کشوں کو اللہ کا دوست قرار دیا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مزدور کے ہاتھوں کو بوسہ دے کر فرمایا کہ حلال روزی کمانے والے ہاتھوں کو جہنم کی آگ نہیں چھوئے گی۔ حکومت کو ریلوے مزدوروں کا احسان مند ہونا چاہیے کہ انہوں نے محنت و مشقت سے ریلوے کے پہیّے کو دوبارہ چلادیا ہے۔ نااہل حکمرانوں نے دنیا کی بہترین ائرلائن پی آئی اے اور ریلوے کو تباہ کردیا تھا۔ جب تک ظلم و جبر کا یہ استحصالی نظام مسلط ہے، ملک ترقی نہیں کرسکتا۔ مزدور سالانہ بیس ارب ڈالر کا زرمبادلہ کماکر پاکستان بھیجتے ہیں اور یہاں بیٹھے کرپٹ حکمران وہی دولت چوری کرکے بیرونی بینکوں میں منتقل کردیتے ہیں۔ جب ریل چلتی تھی تو ہر طرف ریل پیل تھی اور ریلوے مزدور بھی خوشحال تھا، لیکن جب حکمرانوں نے اس قومی ادارے کو اپنی من مانیوں کا مرکز بنالیا تو نہ صرف ریل کا پہیہ رک گیا بلکہ ریلوے ملازمین کے گھروں کے چولہے بھی ٹھنڈے ہوگئے، اور پھر حکمرانوں نے ان مزدوروں کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔ مزدور کے بچوں کے لیے تعلیم کا کوئی انتظام ہے نہ اسے علاج کی سہولت ملتی ہے۔ جماعت اسلامی اقتدار میں آکر مزدوروں کو کارخانوں اور فیکٹریوں، اور کسانوں کو کھیتوں کی پیداوار میں شامل کرے گی۔ حکمران اپنا علاج بیرونِ ملک کراتے ہیں، اس لیے انہیں تباہ حال ہسپتالوں سے کوئی سروکار نہیں۔ نبئ مہربان صلی اللہ علیہ وسلم مزدوروں سے بہت محبت کرتے تھے، آپؐ نے غزوۂ خندق کے موقع پر خندق کھودنے میں مزدوروں کی طرح کام کیا، اسی لیے ہم سمجھتے ہیں کہ مزدوروں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کا اصل دن غزوۂ خندق کا دن ہے۔
محنت کشوں سے یکجہتی کا یہ سلسلہ صرف امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق تک ہی محدود نہیں، بلکہ جماعت اسلامی پاکستان اور متحدہ مجلس عمل کے سیکریٹری جنرل لیاقت بلوچ نے بھی مزدوروں کے عالمی دن کے موقع پر علامہ اقبال ٹاؤن نیلم بلاک میں محنت کشوں کے اعزاز میں ناشتا تقریب کا اہتمام کیا اور مزدوروں میں گھل مل گئے۔ لیاقت بلوچ نے مزدوروں کو سوٹ اور رومال کے تحائف بھی دیئے۔ اس موقع پر ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے لیاقت بلوچ نے کہاکہ جماعت اسلامی مزدوروں کے حقوق کی ترجمان ہے، ان شاء اللہ جماعت اسلامی مزدوروں کو ان کے آئینی، قانونی اور سماجی حقوق دلا کر دم لے گی۔ کرپٹ سیاست دان، جاگیردار، سرمایہ دار محنت کشوں کا استحصال کررہے ہیں۔ مزدوروں کے بچوں اور ان کے خاندانوں کو صحت اور تعلیم کی مفت سہولت فراہم کرنا ریاست کی ذمے داری ہے لیکن حکمران خوابِ غفلت میں پڑے ہوئے ہیں۔ آج استحصالی طبقے کی بدولت ملک معاشی طور پر تباہ حال ہے۔