کراچی کی ابتدائی ووٹر لسٹ 2018ء اغلاط کا مجموعہ

راجا عارف سلطان ایڈووکیٹ
شفاف، منصفانہ اور غیر جانب دارانہ انتخابات کے لیے شفاف اور درست ووٹر لسٹ کا ہونا بنیادی شرط ہے۔ اگر ووٹر لسٹ درست نہ ہو، اس میں انجینئرنگ کی گئی ہو تو انتخابات کبھی شفاف نہیں ہوسکتے۔ شفاف اور درست ووٹر لسٹ مرتب کروانا الیکشن کمیشن کی ذمے داری ہے۔ کراچی پاکستان کا سب سے بڑا شہر اور تجارتی حب ہے، پچھلے کئی برسوں سے اس پر خاص لسانی تنظیم کا قبضہ کروا دیا گیا ہے، جس کا ذریعہ جعلی انتخابات ہیں۔ پہلے حلقہ بندیاں اور ووٹر لسٹیں اپنی مرضی کی تیار کروائی جاتی ہیں اور پھر الیکشن کے دن ٹھپے لگوانے کی کھلی چھوٹ دے کر عوام کے مینڈیٹ پر ڈاکا ڈالا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ یہ عوامی نمائندے ہیں۔ اب اس بات کو تسلیم بھی کیا جارہا ہے، پکڑدھکڑ بھی جاری ہے اور سرپرستی بھی۔
آج ہمارا موضوع کراچی کی نئی ووٹر لسٹ ہے جو کہ اغلاط کا مجموعہ ہے۔ جب یہ فہرست ڈسپلے سینٹر پر رکھی گئی تو ہم نے کچھ شماریاتی بلاکس کی فہرستیں حاصل کرکے تجزیہ شروع کیا، ساتھ ہی مردم شماری کے اعداد و شمار کے ساتھ موازنہ کیا تو معلوم ہوا کہ آبادی سے کئی گنا زیادہ ووٹ ایک شماریاتی بلاک میں موجود ہیں۔ یہ دیکھ کر ہماری تشویش اور دلچسپی بڑھتی گئی، ہم نے تمام اضلاع سے مختلف شماریاتی بلاکس کا تجزیہ شروع کردیا۔
یہاں اس بات کا ذکر ضروری ہے کہ آبادی اور ووٹر کا تناسب تقریباً 50 فیصد ہوتا ہے، یعنی آبادی اگر 100ہے تو ووٹ 50کے قریب ہوں گے، تھوڑے کم یا زیادہ ہوسکتے ہیں البتہ اوسط یہی ہوگی۔ مثلاً پاکستان کی کُل آبادی 20کروڑ 77لاکھ ہے اور ووٹ 10کروڑ 44 لاکھ ہیں۔ اسی طرح کراچی کی آبادی ایک کروڑ 60 لاکھ ہے اور ووٹ 80 لاکھ سے کچھ کم ہیں، جو تقریباً 50 فیصد بنتے ہیں۔
لیکن جب ہم نے مختلف بلاکس کا جائزہ لیا، ایک طرف آبادی جو کہ حال ہی میں ہوئی اور دوسری طرف ووٹر لسٹ ان بلاکس کی، تو معلوم ہوا:
i)آبادی سے کئی گنا زیادہ ووٹر ہیں۔
ii) یا آبادی کے قریب قریب ووٹر بھی ہیں۔
iii) یا آبادی بہت زیادہ ہے اور ووٹر نہ ہونے کے برابر یعنی 10فیصد سے بھی کم۔
اس صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے ہم نے الیکشن کمیشن کو پہلا خط 31 مارچ 2018ء کو لکھا اور آگاہ کیا، جس کا جواب کراچی کے REC نے یہ دیا کہ آپ کی بات واضح ہے، ہم نے اضلاع سے رپورٹ طلب کرلی ہے۔ جب مزید حقائق سامنے آئے تو ہم نے دوسرا خط 11اپریل 2018ء کو مزید ثبوتوں کے ساتھ الیکشن کمیشن کو لکھا، اس پر 16اپریل 2018ء کو REC نے تو وہی جواب دیا البتہ مرکزی الیکشن کمیشن اسلام آباد سے جواب آیا کہ ڈسپلے سینٹر جگہ جگہ کھلے ہیں، وہاں جاکر ان اغلاط کو درست کروایا جائے۔ ہم نے اپنا کام جاری رکھا اور بہت بڑی تعداد میں بے قاعدگیاں سامنے آئیں تو پھر ہم نے 23 اپریل 2018ء کو تیسرا خط تحریر کیا، جس میں تقریباً 1200 شماریاتی بلاکس کے اعدادو شمار بھیجے جن میں آبادی اور ووٹر کا تناسب درج تھا۔ ان میں سے 45 بلاکس کے اعداد و شمار اس چارٹ میں دئیے گئے ہیں۔
اس چارٹ میں آبادی اور ووٹر کا تناسب آپ واضح طور پر دیکھ سکتے ہیں۔ ایک طرف آبادی کم اور ووٹ بہت زیادہ، اور دوسری طرف ووٹر بہت زیادہ، اور آبادی کم ہے۔ یہ جائزہ تقریباً1200بلاکس کا ہے جن کی تفصیل ضلع وار اس چارٹ میں ہے۔
ابتدائی سطور میں ہم نے مختلف شماریاتی کوڈ کے حوالے سے آبادی اور ووٹر ز کی تعداد کا تقابلی جائزہ قارئین کی نذر کیا۔ یہ بات واضح رہے کہ آبادی سے زیادہ ووٹرز کی تعداد نہیں ہوسکتی۔ اس طرح یہ کسی انجینئرنگ کا نتیجہ ہے۔ اب ہم یہ حقائق بیان کریں گے کہ انجینئرڈ ووٹر لسٹ کن لوگوں نے تیار کی ہے اور وہ کیسے تیار ہوئی، دوسرا اس لسٹ کو درست کرنے کے لیے جماعت اسلامی انفرادی طور پر اور دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل کر کیا کیا کوششیں کررہی ہے۔ تقریباً7 سال قبل پورے پاکستان میں نئے سرے سے ووٹر لسٹ مرتب ہورہی تھی، جو بعد میں 2012ء کی حتمی ووٹر لسٹ کے طور پر شائع ہوئی، اور اسی لسٹ پر قومی انتخابات 2013ء اور بلدیاتی انتخابات 2015ء کا انعقاد ہوا۔
جب ابتدائی فہرست شائع ہوئی تو جماعت اسلامی کراچی نے اس پر آواز اٹھائی کہ یہ ووٹر لسٹ جعلی ہے، اس میں ووٹرز کو بکھیر دیا گیا ہے، اور جن حلقہ جات میں متحدہ قومی موومنٹ کے ووٹ ضائع ہوجاتے تھے وہ دوسرے حلقہ جات میں جعلی پتوں پر درج کروا دیئے گئے ہیں۔ اس طرح کے سینکڑوں ثبوت ہم نے الیکشن کمیشن کو فراہم کیے، لیکن الیکشن کمیشن بے بس نظر آیا۔ اسی دوران حتمی ووٹر لسٹ 2012ء شائع ہوگئی جس پر جماعت اسلامی نے احتجاج کیا۔ ایک ٹرین مارچ کراچی تا اسلام آباد تمام جماعتوں نے کیا اور اپنی تجاویز اور ثبوت الیکشن کمیشن پاکستان کو دیئے، لیکن ووٹر لسٹ میں کوئی درستی نہ ہوسکی۔ پھر عدالتِ عظمیٰ سے رجوع کیا گیا۔ CP-111/2012 سپریم کورٹ میں داخل کی گئی۔ سپریم کورٹ نے ہمارے حق میں فیصلہ دیا اور الیکشن کمیشن کو حکم دیا کہ پورے کراچی میں گھر گھر جاکر تصدیق کا عمل دوبارہ کیا جائے اور یہ عمل فو ج یا ایف سی کی نگرانی میں ہو۔ کیونکہ ووٹر لسٹ کے ہر عمل کو ایم کیو ایم ہائی جیک کرلیتی تھی، تصدیق کنندہ ان کے سامنے بے بس ہوجاتے تھے، اس لیے فوج یا ایف سی کی ضرورت تھی ۔ اس فیصلے کے بعد امید بندھ چلی تھی کہ اب ووٹر لسٹ شاید ٹھیک ہوجائے۔ لیکن اس شہر کی بدقسمتی کہ ہجرت کالونی میں ایک فوٹو سیشن ہوا اور الیکشن کمیشن کو رپورٹ دی گئی کہ گھر گھر تصدیق کا عمل فوج کی نگرانی میں مکمل ہوگیا ہے۔ لیکن ووٹر لسٹ جوں کی توں رہی۔ ہم آواز اٹھاتے رہے لیکن کوئی شنوائی نہ ہوسکی۔
اب چھٹی مردم شماری 2017ء اور ابتدائی ووٹر لسٹ 2018ء آویزاں ہوئی تو ہم اس خوش فہمی میں تھے کہ اِس دفعہ تو ووٹر لسٹ ضرور درست ہوگی۔ لیکن ایسا نہ ہوسکا۔ ہم نے کچھ شماریاتی بلاکس کی ابتدائی ووٹر لسٹیں حاصل کیں اور ان کا موازنہ انہی بلاکس میں آبادی کے ساتھ کیا تو عقل دنگ رہ گئی کہ اس میں تو 2012ء والی فہرست سے بھی برا حال ہے۔ اس میں آبادی سے کئی سو گنا زیادہ ووٹوں کا اندراج موجود ہے، مثلاً بلاک نمبر 417010307 میں آبادی 243 اور ووٹوں کی تعداد 792۔ اور یہ کوئی ایک بلاک نہیں، ایسے سینکڑوں بلاکس ہیں۔ اسی طرح بعض بلاکس میں آبادی بہت زیادہ اور ووٹر نہ ہونے کے برابر ہیں، مثلاً بلاک نمبر 441040106 میں آبادی 2467 جبکہ ووٹ24 جو2فیصد بھی نہیں۔ جب مزید شماریاتی بلاکس کے اعداد وشمار اکٹھے کیے گئے تو معلوم ہوا کہ یہ تعداد تو ہزاروں میں ہے۔ کراچی میں شماریاتی بلاکس کی تعداد14454ہے۔ ہم نے 2500 سے 3000 بلاکس کے اعداد و شمار کا جائزہ لیا تو اس میں 534 بلاکس میں آبادی سے 100فیصد سے زیادہ ووٹرز نکلے۔ 445 بلاکس میں 80 سے99فیصد تناسب نکلا، اور219 بلاکس میں 20فیصدکم تناسب نکلا۔ تو گویا یہ تقریباً40فیصد شماریاتی بلاکس میں زبردست قسم کی بے قاعدگیاں ہیں۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کیوں ہوا؟ کس نے کیا؟ اور اصل ذمے داری کس کی تھی؟
جیسا کہ ہم پہلے بیان کرچکے ہیں، درست اور شفاف ووٹر لسٹ مرتب کرنا الیکشن کمیشن کی ذمے داری ہے، لیکن جب ووٹر لسٹ 2012ء مرتب ہورہی تھی تب اس پورے کام کو متحدہ کے ورکرز نے ہائی جیک کرلیا جن کو اُس وقت کے گورنر سندھ کی سرپرستی حاصل تھی۔ یہ بیماری آج تک جوں کی توں موجود ہے۔ نہ گھر گھر تصدیق کا عمل ہوا اور نہ بوگس ووٹرز کا اخراج۔ اب ایک جگہ کے ووٹرز دوسری جگہ درج ہیں۔ انتخابات میں ووٹرز اثرانداز ہوتے ہیں اور نتائج تبدیل ہوجاتے ہیں۔
دوسری کاریگری چھٹی مردم شماری میں ہوئی جہاں بعض جگہوں پر آبادی زیادہ دکھا کر قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستیں بڑھوا لی گئیں۔ یہ کام سندھ حکومت نے کیا۔ درج ذیل چارٹ پر غور کریں۔
مذکورہ بالا چارٹ واضح طور پر بتا رہا ہے کہ ضلع ملیر میں آبادی اور ووٹرز کا تناسب کسی معیار پر پورا نہیں اترتا جو کہ 36.97 فیصد ہے، جب کہ یہ 50 فیصد کے قریب ہونا تھا۔ یہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ ضلع ملیر کی سیٹیں بڑھانے کے لیے مردم شماری میں آبادی زیادہ دکھائی گئی ہے۔ ساڑھے سات لاکھ ووٹ اگر درست ہیں تو 15لاکھ آبادی ہوسکتی تھی، اس طرح قومی اسمبلی کی 2 سیٹیں بنتیں۔ لیکن آبادی زیادہ دکھا کر 3 سیٹیں کروالی گئی ہیں۔ جب کہ ضلع جنوبی میں 10 لاکھ ووٹ ہیں، آبادی تقریباً18لاکھ دکھائی گئی ہے، اور وہاں اب ایک سیٹ کم ہوکر قومی اسمبلی کی صرف 2 سیٹیں رہ گئی ہیں۔
اس پوری بحث سے ثابت ہوتا ہے کہ ابتدائی ووٹر لسٹ ہو یا چھٹی مردم شماری، کراچی کی حد تک دونوں میں قبل از انتخاب دھاندلی ہوئی ہے، اپنی مرضی کے اعداد وشمارڈالے گئے ہیں، اور ان جعلی اعداد وشمار پر جعلی حلقہ بندیاں ہوئی ہیں۔ اب یہ کیسے ممکن ہے کہ ان حلقہ بندیوں اور ووٹر لسٹ کی بنیاد پر شفاف اور منصفانہ انتخاب ہوسکیں! اس شہر کا مینڈیٹ انہی سازشوں کے ذریعے چرایا گیا ہے اور من پسند افراد کو دلایا جاتا رہا ہے۔ اب الیکشن 2018ء کا بندوبست بھی کرلیا گیا ہے۔
nn