بجٹ2018ء فرائیڈے اسپیشل فورم

بجٹ ایک منصوبہ ہے جس میں کُل آمدنی کا اندازہ لگاکر اخراجات کا تعین کیا جاتا ہے۔ رقم دوسرے وسائل کی طرح منصوبہ بندی چاہتی ہے۔ تھوڑی بہت منصوبہ بندی و تیاری آپ کے مالی استحکام کے لیے مددگار ثابت ہوسکتی ہے۔ لیکن یہ منصوبہ بندی پاکستان میں کس قدر عملی ہے یہ خود ایک سوال ہے۔ پاکستان کے موجودہ مالی سال کے بجٹ کے حوالے سے بھی کئی سوالات موجود تھے اور ہیں جن میں یہ بات بھی شامل تھی کہ کیا یہ حکومت بجٹ پیش کرنے کا اختیار رکھتی ہے جس کی مدتایک ماہ رہ گئی ہے؟ اور پھر انھی سوالات اور اسی کشمکش میں بجٹ پیش بھی کردیا گیا، جبکہ حزبِ اختلاف احتجاج کررہی ہے۔ گو کہ پاکستان کی تاریخ میں یکم جولائی سے شروع ہونے والے مالی سال کے لیے بجٹ کا اعلان مئی کے آخر یا جون کے شروع میں ہوتا تھا، لیکن اِس بار بجٹ اپریل میں پیش کردیا گیا ہے۔ اب یہ بجٹ کتنا عوام دوست ہے، اس میں عوام کے لیے کیا ہے اورکیا اس سے پاکستان کی معیشت مستقبل میں بہتر ہوگی؟ یا پاکستان کی معیشت کے لیے یہ بجٹ برا ثابت ہوگا؟ ان سوالات کے جواب کے لیے ہم نے فرائیڈے اسپیشل کے زیر اہتمام ’’بجٹ 2018-19ء‘‘ کے عنوان سے فورم کا اہتمام کیا جس سے ماہرین معیشت نے اظہار خیال کیا جو اپنے شعبوں میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ ان میں ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی معروف ماہر اقتصادیات، ریسرچ اسکالر اسلامی بینکاری و مالیات، سربراہ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک بینکاری و مالیات، اقتصاری موضوعات پر کالم نگار۔ پروفیسر ڈاکٹر شاہدہ وزارت، ریسرچ اسکالر (اکنامکس)، ڈین کالج آف اکنامکس اینڈ سوشل ڈویلپمنٹ، سربراہ اکنامکس ڈپارٹمنٹ، سابق مدیر اعلیٰ پاکستان بزنس ریویو۔ محمد زبیر موتی والا، معروف صنعت کار، تاجر و صنعت کار برادری کے قائد، کراچی ایوان تجارت و صنعت کے سابق صدر، سرمایہ کاری بورڈ سندھ، اور سائیٹ ایسوسی ایشن آف انڈسٹری کے رکن، اور اپٹما کے سابق چیئرمین۔ شمیم فرپو، تجارتی و صنعتی برادری کی معروف شخصیت،کراچی ایوان تجارت و صنعت کے سابق سینئر نائب صدر اور سابق صدر، متعدد سماجی، تجارتی اور صنعتی انجمنوں کے صدر۔ پروفیسر ڈاکٹر اطہر احمد، اقتصادی مبصر، ڈین فیکلٹی آف مینجمنٹ سائنس، گرین وچ یونیورسٹی کراچی شامل ہیں۔ امید ہے فورم کی روداد پڑھنے کے بعد قارئین کو نہ صرف پاکستان کی معیشت کے خدوخال کو سمجھنے میں مدد ملے گی بلکہ رواں مالی سال کا بجٹ ان کے لیے کیسا ہوگا، اس کا بھی اندازہ ہوجائے گا۔ فورم کی میزبانی جہانگیر سید نے کی۔
٭…٭…٭

غیر حقیقت پسندانہ بجٹ ہے,ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی

ماہر اقتصادیات
یہ بجٹ ایک ہزار 8 سو 9 ارب روپے خسارے کا بجٹ ہے۔ اس میں ناقابلِ فہم مفروضے ہیں جو پورے نہیں ہوں گے۔ یہ تضادات کا مجموعہ اور غیر حقیقت پسندانہ بجٹ ہے جس کے متعلق ایک بات ذمے داری کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ معیشت کو جو چیلنج درپیش ہیں یہ ان سے نمٹنے کی کوئی صلاحیت نہیں رکھتا، نہ اس کی کوشش کی گئی ہے۔ پہلی بات یہ کہتے ہیں کہ صوبے 286 ارب روپے فاضل دیں گے۔ کیوں دیں گے؟ کیا آپ نے کوئی معاہدہ کرلیا ہے؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ 286 ارب روپے آنے والے نہیں ہیں۔ وفاق کہہ رہا ہے کہ این ایف سی ایوارڈ سے ہم پیسے دیتے ہیں۔ اس کے جواب میں صوبے کہتے ہیں کہ وفاق نے ہمارا استیصال کیا۔ یہ بات کہنے والے کیا آپ کو 286 ارب روپے دے دیں گے؟ بجٹ خسارے میں آپ اس کو بڑھا لیجیے تو 22 سو ارب تو یہ ہوگیا۔ دوسری بات یہ ہے کہ ٹیکس ایمنسٹی اسکیم آئی تھی، جس کے لیے مفتاح اسماعیل نے کہا کہ یہ ٹیکس چوروں اور ڈاکوئوں کے لیے نہیں ہے۔ تو پھر کیا ایمان داری سے ٹیکس دینے والوں کے لیے ہے؟ ٹیکس ایمنسٹی کا مطلب یہ ہے کہ آدمی کہتا ہے کہ میں چور ہوں، آپ مجھے معاف کردیں، تھوڑا سا ٹیکس لے لیں، دو فیصد لے لیں۔ یہ غیر آئینی ہے۔ اس میں یہ کیا گیا ہے کہ ٹیکس چوری کرنے والوں، چوروں، اسمگلروں کو آپ نے مراعات دے دیں کہ آپ لوٹی ہوئی دولت 2 سے 5 فی صد دے کر سفید کرائیں۔ اس پر انحصار کیا گیا ہے اور عوام پر بوجھ ڈالا گیا ہے۔ آپ یہ کہتے ہیں کہ 4 لاکھ سالانہ سے اوپر آمدنی پر ٹیکس ہوگا۔ 12 لاکھ والی فیگر واپس لے لی ہے۔ ممنون صاحب کا آرڈی نینس ختم ہوگیا۔ اب سوال یہ ہے کہ4 لاکھ سے کم جس کی آمدنی ہے، اُس نے موبائل میں بیلنس ڈالا، آپ نے ٹیکس کاٹ لیا۔ ایک خاتونِ خانہ ہے، اس کے پاس دولاکھ روپے ہیں، اس کو 10 ہزار روپے سود ملا، باقی کوئی آمدنی نہیں ہے، اس پر آپ نے 10 فی صد کاٹ لیا۔ اس نے اپنے دو لاکھ میں سے 50 ہزار ٹرانسفر کرائے، آپ نے ود ہولڈنگ ٹیکس کاٹ لیا۔ جن کی آمدنی 4 لاکھ سے زائد نہیں ہے، اُن سے آپ نے غیر آئینی ٹیکس کاٹا۔ اور جو اربوں روپے لوٹ رہے ہیں اُن کو مراعات دے دیں۔ یہ ہے آپ کا بجٹ!
یہ زیادتی کرنے کے بعد بڑا کارنامہ یہ انجام دیا کہ انہوں نے اپنے اہداف کم کردیے۔ ہمارا وژن 2025 یہ تھا کہ 2018ء اور اس کے بعد معیشت گرو کرے گی، 8 فی صد سے زائد یہ ہدف تھا اس حکومت کا۔ اب انہوں نے کہا کہ 6.2 ہوگا، جو نہیں ہوگا۔ اور یہ کہا کہ اس سال 5.8 فی صد ہے، جو نہیں ہے، یہ دعویٰ جھوٹ ہے۔ اگلی حکومت آئے گی وہ اس کو صحیح کردے گی۔ برآمدات کا اس سال کا ہمارا ہدف 35 بلین ڈالر تھا، جمع ہوگا 25 ارب ڈالر۔ ایک سال میں 10 ارب ڈالر کا جھٹکا لگ گیا۔ برآمدات میں آپ نیچے جا رہے ہیں۔ ٹیکس جی ڈی پی کا ہدف اگلے سال کے لیے 13.8 رکھا ہے۔ 1995-96ء میں 14.4 تھا۔ چار حکومتیں آئیں، ان چاروں نے یہ کہا کہ ہم نے تاریخی کامیابی حاصل کی ہے۔ 22 سو ارب کا خسارہ ہے۔ وہ یہ کہتے ہیں آپ یوٹیلٹی کے نرخ کم کریں جو ہونے چاہئیں، مگر آپ نے ٹیکس دیا کہاں ہے! کون پاکستان میں ٹیکس دے رہا ہے! کم کیسے کریں گے؟ حکومت ٹیکس لینا نہیں چاہتی اور تاجر، صنعت کار، وڈیرے، جاگیردار، اسٹاک ایکسچینج والے، دولت مند مافیا ٹیکس دینا نہیں چاہتے۔ یہ ہے ہمارا مسئلہ۔
اٹھارہویں ترمیم کے بعد صوبوں کی بھی اتنی ہی اہمیت ہے۔ اس وقت وفاق اور چاروں صوبوں میں گٹھ جوڑ ہے۔ تین پارٹیاں جو اقتدار میں ہیں یعنی تحریک انصاف، پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) ان میں کچھ چیزوں میں گٹھ جوڑ ہے۔ وہ یہ کہ تعلیم اور صحت کا بجٹ کم ہوگا، عوام پر بوجھ ڈالا جائے گا، بجلی،گیس اور پیٹرول کے نرخ بڑھائے جائیں گے۔ یہ ساجھے داری پاکستانی معیشت کے خلاف ہے۔ ٹیکس ایمنسٹی کے بارے میں کہا کہ ون ٹائم، اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کے بعد معافی نہیں ہے۔ انہوں نے نان فائلر کے لیے ٹیکس 0.6 سے 0.4 فیصد کردیا۔ اگر آپ ایمنسٹی لارہے ہیں تو پھر ایسا کیوں کیا؟ اہم بات یہ ہے کہ جو فائلر نہیں ہے وہ 40 لاکھ سے زیادہ کی پراپرٹی نہیں لے سکتا، لیکن اگر وہ ریٹرن فائل کرے اور 100 روپے ٹیکس دے دے تو وہ 15 کروڑ کی پراپرٹی لے سکتا ہے۔ یہ تماشا انہوں نے کہا ہے۔ تعلیم کا آپ دیکھیں، 2009ء میں یہ طے ہوا تھا کہ جی ڈی پی کا 7 فی صد خرچ کریں گے۔ اس کا مطلب ہے 25 ارب روپے۔ اب یہ صوبائی مسئلہ تھا۔ چاروں صوبوں نے 15 سو ارب روپے تعلیم میں کٹوتی کی ہے۔ صوبے پراپرٹی اور زراعت پر ٹیکس لگانے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ تبدیلی کی بات کرتے ہیں، یہ کیسے آئے گی؟ آج اپوزیشن یہ کہہ رہی ہے کہ ہم ٹیکس ایمنسٹی کو مسترد کرتے ہیں۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں یہ اس کو پاس کریں گے۔ کیوں کہ یہ فنانس بل میں آگیا ہے۔ بجٹ کی وجہ سے ٹیسٹ کیس یہ ہے کہ تحریک انصاف یا سندھ میں پیپلز پارٹی کہہ رہی ہے کہ ہم اپنے صوبے میں ڈی سی ریٹ کو مارکیٹ ریٹ پہ لے آئیں گے۔ یہ وفاق ختم نہیں کرسکتا۔ یہ حق صوبوں کا ہے، اگر وہ لے آئیں تو ٹیکس ایمنسٹی اسکیم آنا ختم۔ یہ ہے وہ گٹھ جوڑ جو میں نے بتایا۔ تعلیم اور صحت کا بجٹ کم کیا اور طاقت ور طبقوں پر ٹیکس نہیں لگایا۔ تعلیم میں دیکھیں کہ 2 کروڑ 40 لاکھ بچے اسکول نہیں جا رہے، بجٹ میں بے وقوف بنا کر گئے ہیں، کہتے ہیں سوفی صد بچے اسکول جائیں گے اور میٹرک کریں گے، اور سو فی صد بچے گریجویشن کریں گے۔ یہ اس صدی میں تو نہیں ہو سکتا۔ پہلے یہ بتا دیں 2 کروڑ 40 لاکھ بچوں کے لیے کتنے اسکول درکار ہیں؟ کتنے اساتذہ چاہئیں؟ آپ نے تو 15 سو ارب روپے تعلیم میں کم کیے ہیں اور کہتے ہیں کہ 2 کروڑ 40 لاکھ بچوں کو اسکول میں لے آئیں گے۔ یہ سب مل کر دھوکا دے رہے ہیں۔ صحت کا بجٹ جی ڈی پی کا 5 فی صد ہونا چاہیے، یعنی 16 سو ارب۔ یہ رکھتے ہیں 0.8 فی صد۔ ایمنسٹی اسکیم لانے کا مطلب یہ ہے کہ آپ چاہتے ہیں کہ کالا دھن ختم ہوجائے۔ اگر نیا کالا دھن آج پیدا ہورہا ہے، معیشت دستاویزی نہیں ہے، کالے دھن کو سفید کرنا ممکن ہے تو ٹیکس ایمنسٹی لانا جرم ہے۔
پیٹرولیم لیوی سے 300 ارب روپے آمدنی کا ہدف رکھا ہے، اس کا کیا مطلب ہے؟ اس سے تو کاسٹ آف پروڈکشن بڑھے گی۔ ٹرانسپورٹ کے کرائے بھی بڑھیں گے۔ پیٹرولیم لیوی کا یہ طے ہوا تھا کہ جب ٹیکس چوری روکیں گے تو اس کو ختم کر دیں گے، اب یہ اس کو بڑھاتے جا رہے ہیں۔ ہماری ریاست، سیکورٹی ریاست ہے۔ ہمارا دفاعی بجٹ زیادہ ہے، ترقیاتی بجٹ کم ہے۔ 11 سو ارب روپے رکھے ہیں دفاع کی مد میں۔ 260 ارب رکھے ہیں فوجیوں کی پنشن کی مد میں۔ وفاقی ترقیاتی بجٹ 8 سو ارب روپے ہے۔ تین چیزیں ہوتی ہیں، ایک ہوتا ہے ٹیکس، دوسری بچتیں، اور تیسری انوسٹمنٹ۔ ان تینوں میں ہم 12 سو ارب روپے ہر سال کم وصول کررہے ہیں اور ترقی کے دعوے کررہے ہیں،یہ خود فریبی اور خود کو اور قوم کو دھوکا دینا ہے۔
کرپشن سے ہمارا سالانہ نقصان 3500 ارب روہے ہے۔ نیب سب سے بڑا ادارہ ہے اینٹی کرپشن کا۔ نیب کی ویب سائٹ سے ایک پریس ریلیز جاری ہوئی کہ جاوید اقبال صاحب کہتے ہیں کہ ہم نے 298 بلین وصول کرکے 15 سال میں قومی خزانے میں جمع کرائے ہیں۔ میں پچھلے سال کی رپورٹ نکال رہا تھا اُس وقت 7 ارب روپے جمع کرائے تھے۔ بہت ہوا ہو گا تو 10 ارب جمع کرادیئے ہوں گیٍ، اور یہ 298 ارب روپے جمع کرانے کا دعویٰ کررہے ہیں۔ اتنی ریکوری نہیں ہوئی پاکستان میں۔ پھر کچھ قرضے ری شیڈول ہوئے تھے، اس کو انہوں نے نقد وصولی دکھایا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ دیانت کے ساتھ اہلیت کا بھی مسئلہ ہے۔ اگر نیب کی اصلاح نہیں ہوتی اور احتساب بھی نہیں ہوتا تو پھر کرپشن تو ختم نہیں ہو سکتی۔ اس حکومت کی یہ پالیسی نظر آرہی ہے کہ یہ مہنگی شرح سود پر قرضے لے رہی ہے تاکہ آئی ایم ایف کے پاس نہ جانا پڑے۔ لیکن یہ لوگ اگلی حکومت کے لیے ایسا کام کرکے جارہے ہیں کہ وہ آئی ایم ایف کے پاس بھاگے۔ آئی ایم ایف کے پاس جانے کا مطلب یہ ہے کہ خودکشی کرلیں۔ دسمبر 2016ء سے دسمبر 2017ء تک ہمارے بیرونی قرضے بڑھے 13 ارب ڈالر، اور اکتوبر 2016ء سے اب تک اسٹیٹ بینک کے ساڑھے سات ارب ڈالر ریزرو بھی نہیں تھے۔ 20 ارب ڈالر کا جھٹکا آپ کو لگا ہے، 2 ارب ڈالر سے کیا ہوگا! یہ بے تحاشا قرضے لے رہے ہیں۔ چین بھی دے دے گا، بانڈز بھی بک جائیں گے، لیکن اس سے کچھ ہو گا نہیں۔ اس لیے کہ ہمارا کرنٹ اکائونٹ ڈیفیسٹ 12.71 ارب ڈالر تھا، اب شاید 15 ارب ڈالر ہوگیا ہوگا۔ یہ تباہی پاکستان کی شروع ہوئی فرینڈز آف پاکستان گروپ سے۔ دھوکا دیا گیا تھا قوم کو حکومتِ پاکستان کی طرف سے۔ شوکت ترین نے پارلیمنٹ میں دھوکا دیا کہ فرینڈز آف پاکستان ہمیں نقد رقم دیں گے، حالاں کہ معاہدہ میں نے خود دیکھا ہے، اُنہوں نے کہا تھا کہ ہم آپ کو قرض دلائیں گے اور یہ کہتے رہے نقد دیں گے۔ یہ حکومت آئی، اس نے خط دیا آئی ایم ایف کو جس میں یقین دلایا کہ ہم تین سال تک بجلی اور گیس کے نرخ بڑھائیں گے۔ 19 اگست 2013ء کے خط میں یہ لکھا ہے کہ تمام صوبے اور مشترکہ مفادات کونسل اس سے متفق ہیں۔ اس کی ایک میٹنگ ہوئی تھی کونسل ٓف پاور انٹرسٹ میں، اس میں یہ فیصلہ ہوا تھا۔ کوئی میٹنگ نہیں ہوئی تھی، یہ خط جھوٹا تھا۔ میں نے یہ خط تمام بڑی پارٹیوں کو دیا کہ عدالت چلے جائیں، لیکن کوئی تیار نہیں ہوا۔ کیوں کہ طاقت ور طبقوں کو نوازنے کے لیے سب اندر سے ملے ہوئے ہیں۔ 2018ء کے بعد اگر یہی آتے ہیں تو یہی کریں گے جو کیا ہے۔ کہاں بہتری نظر آرہی ہے! شرعی عدالت کے پاس سود کا مقدمہ 2002ء سے التوا میں پڑا ہے، 16 سال سے فیصلہ نہیں کر پارہے کہ سود اسلام میں حلال ہے یا حرام؟ جو یہ کہتے ہیں کہ سود اللہ تعالیٰ سے جنگ ہے، وہ پارلیمنٹ میں قرارداد کیوں نہیں لاتے؟ میری تجاویز یہ ہیں کہ پہلے اس بجٹ کو مسترد کریں۔ اس کے بعد مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس ہو اور آل پارٹیز کانفرنس ہو، اس میں کچھ چیز طے کی جائیں: 1۔ وفاق اور صوبے ہر قسم کی آمدنی پر موثر طور پر ٹیکس لگائیں۔ کوئی چھوٹ نہ ہو، 2: ڈی سی ریٹ کو مارکیٹ کے نرخوں پر لائیں، 3۔ معیشت کو دستاویزی بنائیں۔ وہ اسکمیں جن سے کالا دھن سفید ہوتا ہے انہیں ختم کردیں۔ ودہولڈنگ ٹیکس کا نظام ختم کردیں۔ نان فائلر کوئی چیز نہیں ہوتی، جس کی آمدنی 4 لاکھ سے کم ہے وہ نان فائلر کیوں ہے؟ اس پر تو ٹیکس لاگو ہی نہیں ہوتا، اس کو ختم کردیں۔ انہوں نے بینک سے رقم نکالنے پر ٹیکس لگایا، سود یا منافع پر 10 فی صد ٹیکس لگایا۔ دوسرے یہ کہ تعلیم پر 7 فی صد خرچ کریں، ابھی 2.3 فی صد ہے۔ یعنی 15 سو ارب روپے کا اضافہ صوبوں کو کرنا ہوگا۔ اور صحت پر تقریباً 4 فی صد۔ اس طرح ہمیں 26 سو ارب روپے اضافی لگانے پڑیں گے۔ اس طرح آمدنی کا ہدف 9 ہزار ارب روپے ہونا چاہیے۔ سودی نظام نے ہماری معیشت کو تباہ کیا ہے۔ شرعی عدالت کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑ سکتے، یہ قرآن کا حکم ہے۔ پارلیمنٹ فیصلہ کرے، اپیل واپس لی جائے اور سود کو حرام قرار دیا جائے۔ جب یہ مقدمہ شرعی عدالت میں گیا تھا اُس وقت قرضے تھے 3 ہزار ارب روے، اب وہ 261 ہزار ارب روپے ہوگئے ہیں۔ حکومت بجٹ خسارے کے لیے جو قرضے بینکوں سے لے رہی ہے اس پر پابندی لگائی جائے۔ بینکوں کا کام حکومت کو قرضے دینا نہیں ہے۔ اسمگلنگ، انڈر انوائسنگ اور انفرائنگ ہماری معیشت کو تباہ کر رہی ہیں، اس کو روکنے کے لیے قانون سازی کریں۔ نیب کی تنظیم نو کریں اور نیب کا احتساب کریں۔ جو اہداف 2019ء کے لیے رکھے ہیں ان کو ریوائز کریں۔ پھر ہمارا نیشنل ایکشن پلان نامکمل اور غلط ہے، اس سے معیشت ٹھیک نہیں ہوسکتی۔ ہماری بہت ساری پالیسیاں ہیں جن پر فنانشنل ایکشن ٹاسک فورس ہم پر اقتصادی دہشت گردی کا الزام لگا سکتی ہے۔ یہ تمام چیزیں نیشنل ایکشن پلان میں آنی چاہئیں۔ اس میں پوری قیادت شامل ہے۔ اسمگلنگ روکنے میں آرمی بہت بڑا کردار ادا کرسکتی ہے۔ یہ ذمے داری ان پر ڈالی جائے اور ہر ایک کا احتساب ہو۔ ورنہ خدانخواستہ یہ خطرہ ہے کہ نہ صرف آئی ایم ایف کے پاس جائیں گے لکہ سی پیک سے ہمیں لینے کے دینے پڑ جائیں گے، جوہری پروگرام کو بھی خطرہ لاحق ہو جائے گا۔

حکومت برآمدی صنعت کی سرپرستی کرے,زبیر موتی والا

سابق صدر ایوانِ تجارت و صنعت کراچی
ایسا کیسے ہوسکتا ہے کہ پاکستان میں کوئی بجٹ آئے اور اس میں کوئی نیا ٹیکس نہ لگے، ریلیف ہی ریلیف ہو! 5,935 ارب روپے کا لے آئوٹ بھی آجائے کہ ہم اتنا ٹیکس جمع کریں گے۔4435 ایف بی آر جمع کرے گا! یہ اعدادو شمار بڑے عجیب سے لگتے ہیں۔ اس کو میں نے بغور دیکھا ہے، یہ پاکستان میں ممکن نہیں ہے ۔اس میں تقریباً 5 سو بلین کے نئے ٹیکس بھی ڈالے ہیں۔ ان کی ایمنسٹی کی جو اسکیم آئی ہے اُس میں ایک کلاز ہے پراپرٹی کی۔ پراپرٹی ایولیوشن کی جو بات کی ہے، سیل ویلیو جس کو ڈی سی ریٹ کہتے ہیں، ختم کیا ہے۔ اس میں 2کلاز ڈالے ہیں کہ اگر آپ نے ڈیکلیئر کیا ہے کسی چیز کو ایک کروڑ روپے کا، تو حکومت مجاز ہوگی کہ 2 کروڑ 10لاکھ میں آپ سے لے لے۔ اس کا مطلب 10کروڑ روپے کی جو پراپرٹی ڈیفنس میں ہے اُس کی رجسٹری 50 لاکھ میں ہوتی تھی اور ہم 4 فیصد پراپرٹی ٹیکس دیتے تھے۔ اب اگر آپ نے 10کروڑ کی پراپرٹی لی ہے تو آپ کو کم از کم ساڑھے پانچ کروڑ کی تو ڈیکلیئر کرنی ہی پڑے گی۔ یہ جو ساڑھے پانچ کروڑ ہے اور وہ جو پچاس لاکھ تھا، اس کا فرق اگرآپ دیکھیں تو یہ ٹین ٹائم فرق ہوجائے گا۔ اکثر کیسز میں آٹھ گنا کا فرق ہوگا۔ اس طرح بڑا ریونیو آئے گا۔
تو انائی پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ سی پیک کے تحت توانائی کے کارخانے ضرور لے کر آگئے ہیں لیکن جب آپ بات کرتے ہیں ایل این جی کی، گیس کی، اس کی طلب پاکستان میں ہے، اس کو سبسڈائز کرنا چاہیے، اگر آپ نہیں کریںگے تو ہم برآمدات میں دنیا کا مقابلہ نہیں کرسکیں گے۔ میں نے پری بجٹ میٹنگز میں پیشکش کی کہ جو فیس لگے گی وہ ہم دیںگے۔ آپ ایسا کریں جو مستری ہے، درزی ہے، دنیا کی بڑی فرمز ہیں آپ ان سے تخمینہ لگوالیں۔ مثال کے طور پر ایک شے پولو شرٹ درجن کے حساب سے بکتی ہے۔ کنٹینر میں لوڈ ہوکر جاتی ہے، آپ کو چاہیے تو یہاں کے مینو فیکچرز نے بنگلہ دیش سے درآمد کی ہے۔ 1.17 فی پیس۔ اور وہ خود جو یورپ کو برآمد کررہا ہے وہ ایک ڈالر 70 سینٹ کی ہے۔ اب مجھے بتائیں بنگلا دیش میں گیس کی قیمت پاکستان سے 40 فیصد کم ہوگی۔ بجلی کی قیمت 50 فیصد کم ہوگی۔ پانی موجود ہوگا۔ حکومت کہے گی کہ ٹیکسٹائل انڈسٹری کچھ نہیں کرتی،۔ ہم سب کچھ دینے کو تیار ہیں، ہر طرح کا تعاون موجود ہوگا۔ لیکن میں کیسے بنگلہ دیش کا مقابلہ کروں گا؟ بنگلا دیش کی 30 سے 34 بلین ڈالر برآمدات صرف ٹیکسٹائل میں ہے۔ اس لیے کہ ان کی 100 فیصد ویلیو ایڈڈ اشیاء برآمد ہوتی ہیں۔ ہم کھڑے ہیں 10 اور 12 بلین کے درمیان۔ کیوں؟ ہم تو کاٹن پیدا کرتے ہیں، جبکہ وہ کاٹن پیدا بھی نہیں کرتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارا برآمدی انفرا اسٹرکچر اس قابل نہیں ہے کہ ہم ان کے ساتھ مقابلہ کرسکیں۔ میں نے چیلنج کیا ہے آپ بنگلا دیش کے برابر کاسٹ لے آئیں۔ وہ 10 بلین ڈالر کی برآمدات بھی نہیں کر پائے گا، اور پاکستان 40 سے 50 بلین پر چلا جائے گا۔ حکومت ایکسپورٹ انڈسٹری کو اون کرے اور یہ ساری باتیں کرے۔ ہر بجٹ میں ہم تنقید کرتے ہیں لیکن اسی بجٹ میں تاجر برادری اور برآمد کنندگان کے کافی مسائل حل ہوئے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں گیند ہمارے کورٹ میں ہے، ہم کو آگے بڑھنا چاہیے۔
سی پیک ایک کمرشل وینچر ہے چائنا حکومت کا۔ ’’چائنا سے ہماری دوستی ہمالیہ سے بلند ہے، دریا سے گہری ہے‘‘ یہ سب باتیں ہیں۔ میں ان کو نہیں مانتا۔ جب آپ سی پیک دیکھتے ہیں تو بڑی بات ہوجائے گی۔ میں آپ کو مختصراً بتا سکتا ہوں کہ چائنا ان منصوبوں میں داخل ہوتا ہے جن میں مالی فائدہ ہو۔ جہاں دو پیسے کا فائدہ ہوگا وہ کام کرے گا۔ آپ کا انفرا اسٹرکچر بن جائے گا لیکن آخری دن آپ کی صنعت مشکلات کا شکار ہوجائے گی۔ آپ کی انڈسٹری کو کمپنی ٹیٹو ہونا پڑے گا۔ ہم ان کا مال بیچنے والے بن جائیںگے۔ افغانستان ہماری ورجن مارکیٹ ہے۔ وہ ہمارا پانچواں صوبہ ہے۔ یہ قیام پاکستان سے پہلے سے ہے۔ ایک یہی خطہ تھا، آج بھی ایک ہی خطہ ہے۔ ہماری 10 بلین ڈالر کی آفیشل اور ان آفیشل تجارت اُن کے ساتھ ہے۔ آج آفیشل 2.7 بلین ڈالر تھا، ہمارے تعلقات خراب ہوئے تو 1.5 پر پہنچ گیا۔ ایک بلین ڈالر کا ہمارا نقصان ہوا۔ ہم جس طرح حکومت کے ساتھ مل کر جارہے تھے ہمارا خیال تھا کہ 5 بلین تک تجارت پہنچ جائے گی۔ دوسرے 5 بلین کراس بارڈ ٹریڈ کو بھی ہم لے آئیںگے۔ اس طرح آپ کا کرنٹ اکائونٹ خسارہ صرف افغانستان کو سیدھا کرنے سے ختم ہوجائے گا۔ ہم واحد ملک ہیں جس کے لیے بہت زیادہ مواقع ہیں افغانستان میں۔

مہنگائی میں اضافہ ہو گا, شاہدہ وزارت

ریسرچ اسکالر
و سابق سربراہ اپلائڈ اکنامکس
زبیر موتی والا نے اس بجٹ کی بہت تعریف کی ہے۔ لیکن میں سمجھتی ہوں کہ یہ بہت زیادہ سیاسی بجٹ ہے۔ انھوں نے بھی مانا ہے کہ اِس حکومت نے پانچ بجٹ دیئے تھے لیکن ایسا بجٹ پہلی بار پیش کیا ہے۔ اس لیے بجا طور پر کہا جارہا ہے کہ حکومت اب جارہی ہے تو جاتے جاتے ایک سیاسی بجٹ دے کر جارہی ہے۔ اس حکومت نے اپنے گزشتہ پانچ سال میں ایسا بجٹ نہیں دیا جس سے عوام کی بہتری ہوتی۔ حکومت نے اپنے آخری تین ماہ میں جب اس کا مینڈیٹ ختم ہورہا ہے، پورے سال کا بجٹ دیا ہے۔ اس بجٹ کو اس حکومت کا پہلا جان دار بجٹ کہا جاسکتا ہے، لیکن مینڈیٹ ختم ہونے پر دیا ہے۔ وزیر خزانہ کا کہنا ہے کہ آئندہ جو بھی حکومت ہو، وہ اس بجٹ کو تبدیل کرسکتی ہے۔ اب اس میں دو ممکنہ صورتیں ہوں گی، اگر آئندہ حکومت یہی بجٹ برقرار رکھتی ہے تو لوگ کہیں گے کہ یہ تو پچھلی حکومت کا بجٹ ہے۔ اگر آنے والی نئی حکومت اس کو تبدیل کردیتی ہے یا کچھ مراعات واپس لے لیتی ہے تو اس کے لیے مسئلے کھڑے ہوجائیں گے اور کہا جائے گا کہ پچھلی حکومت نے اتنا کچھ دیا تھا، نئی حکومت نے واپس لے لیا۔ میں سمجھتی ہوں کہ موجودہ حکومت نے بہت سوچ سمجھ کر یہ سیاسی چال چلی ہے۔ میں دیکھتی ہوں کہ اس بجٹ میں خاصی مراعات ہیں، اس میں عوام کے لیے بہتری ہے، سرکاری ملازمین کی تنخواہوں کے ساتھ دس فیصد پنشن بھی بڑھائی گئی ہے، کم سے کم پنشن ساڑھے چار ہزار سے ساڑھے چھے ہزار روپے کردی گئی ہے۔ ٹیکس میں جو چھوٹ دی گئی ہے اس سے اوسط درجے کے لوگوں کی ایک چوتھائی آمدن بڑھ جائے گی۔ اس طرح تو حکومت نے پہلے کبھی نہیں کیا۔ جب وہ جارہی ہے تو سیاسی بجٹ دے کر جارہی ہے۔ دوسرے رخ پر دیکھیں، ملک کا بجٹ خسارہ اور کرنٹ اکائونٹ خسارہ بہت بڑھ گیا ہے۔ اس طرح کی گمبھیر صورتِ حال پچھلے کئی سال سے ہے۔ ادھر زبیر موتی والا کہہ رہے تھے کہ روپے کی قدر میں کمی سے ایکسپورٹ کو بہت فائدہ ہوا ہے، لیکن روپے کی قدر میں کمی کی ایک خرابی یہ ہے کہ اس کی بنا پر درآمدات مہنگی ہوجاتی ہیں۔ جب درآمدات مہنگی ہوتی ہیں تو ملک میں افراطِ زر کی شرح میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ چونکہ ہم آئی ایم ایف کے رجیم میں ہیں، اس لیے وہ کہتا ہے کہ افراطِ زر پر قابو پانے کے لیے ملک کی مالیاتی پالیسی سخت کریں اور قرضوں کی شرح سود بڑھائیں۔ قرضوں کی شرح سود بڑھنے سے تو ملک میں سرمایہ کاری متاثر ہوتی ہے جس سے ملکی پیداوار کی شرح نمو بھی متاثر ہوتی ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ روپے کی قدر میں کمی سے ایکسپورٹ میں اضافہ ہوجاتا ہے، لیکن اس سے جو مجموعی صورتِ حال پیدا ہوتی ہے اس کے ملکی معیشت پر زیادہ منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اس صورتِ حال کو صرف ایکسپورٹ میں اضافے کے پہلو سے نہ دیکھا جائے، بلکہ مجموعی تناظر میں دیکھا جانا چاہیے۔
میں بجٹ خسارے اور کرنٹ اکائونٹ خسارے کی بات کررہی تھی۔ اس حوالے سے کہا جارہا ہے کہ حکومت کے پاس ان کو کم کرنے کے لیے آپشن موجود ہے۔ لیکن حکومت کی عیاشیاں دیکھ کر تو لگتا ہے کہ ملک میں کسی قسم کا مالی مسئلہ نہیں ہے۔ وفاقی حکومت کے ساتھ ہماری صوبائی حکومتیں بھی عیاشیوں میں لگی ہوئی ہیں۔ پنجاب حکومت کو دیکھیں۔ سنا ہے کہ اس صوبائی حکومت نے 56 کمپنیاں بنائی ہوئی ہیں۔ ان کمپنیوں کے ایک ایک فرد کو پچیس سے پچاس لاکھ روپے ماہانہ تنخواہ ملتی ہے۔ یہاں سوال یہ ہے کہ یہ پیسہ کہاں سے آرہا ہے؟ ان کو یہ پیسے کون دے رہا ہے؟کیا کوئی ملک دے رہا ہے؟ ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ یہ پیسہ کہاں سے آرہا ہے اور کون دے رہا ہے۔ چیف جسٹس صاحب نے بھی کہا تھا کہ پنجاب کے سیکریٹری کی الائونسز سمیت کُل تنخواہ دو لاکھ کے لگ بھگ ہوتی ہے۔ یہاں ان کی تنخواہیں 25 سے 50 لاکھ تک ہیں تو اس سے لگ رہا ہے کہ ملک میں متوازی نظام لایا جارہا ہے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ حکومت ان افسروں کو بڑی بڑی تنخواہیں دے کر اپنا انتخابی حلقہ بنارہی ہے تاکہ نگراں حکومت آئے تو ان میں سے کسی کا نام نگراں حکومت میں دے دیں۔ ظاہر ہے کہ یہ کیئر ٹیکرز ان کی جیب میں ہوں گے، کیونکہ تنخواہیں بھی ان ہی کی جیب سے جارہی ہیں۔ ایک طرف ملکی مالی خسارے کا مسئلہ اتنا گمبھیر ہے، دوسری طرف حکمرانوں کی عیاشیاں عروج پر ہیں۔ پھر اگر ہم کرنٹ اکائونٹ خسارہ دیکھیں تو بہت عرصے سے سن رہے ہیں کہ ہمارے پاس بیرونی ادائیگیوں کے لیے تین ماہ کا بھی زرمبادلہ نہیں ہے۔ بہت سے ممالک اس طرح کی صورتِ حال میں پھنستے ہیں لیکن اُن کی حکومتیں اپنے ملک کو زرمبادلہ کے بحران سے نکانے کے لیے اپنے مقررہ اہداف پر کام کرتی ہیں۔ ان ممالک کی حکومتیں اپنا زرمبادلہ بچانے کے لیے پُرتعیش اشیاء کی درآمد پر پابندی عائد کردیتی ہیں۔ ایک بات اور کہ ملکی کرنسی کی قدر کم کرنے سے بھی مہنگائی میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ اس سارے بحران سے نکلنے کے لیے ترجیحات کا تعین کرکے بہت غور و فکر کے بعد ایک ویژن کو اپنایا جانا چاہیے اور اس پر پورے خلوص کے ساتھ عمل کرنا چاہیے۔ ہمیں دیکھنا ہوگا کہ ہماری معیشت کا پہیہ چلتا رکھنے کے لیے کون سی اشیاء ناگزیر نہیں ہیں، ان کی درآمد پر فوری پابندی لگادینی چاہیے۔ موجودہ حکومت پانچ سال سے بجٹ خسارے کا رونا رو رہی ہے لیکن حکومت نے اس کے لیے کچھ نہیں کیا، نہ اس پر قابو پانے کے لیے کوئی حکمت عملی مرتب کی۔ کہا جارہا ہے کہ یہ بجٹ سرمایہ کاروں کے لیے بہت اچھا ہے۔ کمپنیوں کے لیے موجودہ 30 فیصد کی ٹیکس شرح میں ہر سال ایک فیصد کی کمی کی جائے گی۔ بجٹ میں بونس شیئر پر 5 فیصد ٹیکس ختم کردیا گیا ہے۔ سپر ٹیکس بینکوں پر 3 اور کمپنیوں پر 4 فیصد ہے۔ اس میں ہر سال ایک فیصد کی کمی کرکے تین چار سال میں بتدریج ختم کردیا جائے گا۔ یہ بھی دعویٰ کیا جارہا ہے کہ ٹیکس کے نظام کو بہتر کیا جارہا ہے۔ ریفنڈ کے کلیمز کے مسئلے پر بجٹ تقریر میں کہا گیا ہے کہ درآمد کنندگان کے ریفنڈ بہت عرصہ پھنسے رہتے ہیں، لیکن اِس بار ریفنڈ کلیم کی ایک سال کے اندر بتدریج ادائیگیاں کردی جائیں گی۔ میرے خیال میں حکومت نے بجٹ میں زرعی شعبے کو کافی مراعات دی ہیں۔ کھاد اور زرعی مشینری کی درآمد پر کافی چھوٹ دی ہے۔ ہمارا ایک اور مسئلہ ہے، وہ یہ کہ ہمارے بڑے بڑے ذہنوں اور ماہرین کو خریدنے کے لیے انھیں بڑے بڑے پروجیکٹ دے کر نوازا جاتا ہے۔ ایسے پاکستانیوں کو پاکستان کیوں اچھا لگے گا؟
پاکستان میں مہنگائی پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کرکے کی جاتی ہے جس سے ملک میں ہر چیز مہنگی ہوجاتی ہے۔ حکومت نے ٹیکس نیٹ میں اضافے کے لیے کوئی پالیسی نہیں دی، جبکہ تنخواہوں میں ٹیکس چھوٹ کی بنیادی شرح 4 لاکھ سے بڑھاکر 12 لاکھ سالانہ کردینے سے 50 فیصد ٹیکس دہندگان ٹیکس نیٹ سے نکل جائیں گے۔ اس سلسلے میں بھی حکومت نے سیاست کی ہے۔ حکمرانوں نے سوچا کہ جاتے جاتے اتنی مراعات دی جائیں کہ اس کے نتائج آنے والی حکومت کو بھگتنا پڑیں۔ بجٹ میں حکومت نے نان فائلرز کو صرف چالیس لاکھ مالیت تک کی جائداد خریدنے کی چھوٹ دی ہے۔ یہ اقدام معیشت کو دستاویزی بنانے کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ میں سمجھتی ہوں کہ یہ مجموعی طور پر ایک سیاسی بجٹ ہے۔ حکومت کے علاوہ دیگر سیاسی جماعتوں کے لیڈروں کو پانچ سال بعد ہی ووٹروں کا خیال آتا ہے جب وہ ان سے ووٹ مانگنے جاتے ہیں، ورنہ وہ پانچ سال ملٹی نیشنل کمپنیوں سے مفادات حاصل کرنے میں ہی مصروف نظر آتے ہیں۔

عوامی نہیں انتخابی بجٹ ہے،سابق صدر کے سی سی آئی شمیم فرپو

پروفیسر شاہدہ وزارت کا یہ کہنا کہ یہ بجٹ پورے کا پورا سیاسی ہے، بالکل درست ہے۔ میں یہ کہوں گا کہ یہ بجٹ ایک الیکشن بجٹ ہے۔ الیکشن کے سال حکومت کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ پورے سال کا بجٹ پیش کرے، لیکن حکومت نے سیاسی پارٹیوں کو رد کرکے پورے سال کا بجٹ پیش کردیا اور ساتھ ہی کہہ دیا کہ اگر آنے والی منتخب حکومت بجٹ کو تبدیل کرنا چاہے تو تبدیل کرسکتی ہے۔ اس طرح آنے والوں کے لیے حکومت نے یہ مشکل کھڑی کردی ہے کہ وہ بجٹ کو تبدیل کریں تو اُن کے لیے مشکل، نہ کریں تو بھی مشکل۔ آپ اس بات سے اندازہ لگائیں کہ ہم بیس سال سے مطالبہ کررہے تھے کہ انکم ٹیکس کی شرح حقیقی بنیاد پر کم ہونی چاہیے، لیکن کسی نے نہیں سنی۔ اب ایسی کیا بات ہوگئی کہ بجٹ میں بنیادی قانونی ٹیکس چھوٹ کی حد کو 4 لاکھ سے بڑھاکر 12 لاکھ روپے سالانہ کردیا گیا؟ ظاہر ہے یہ سارا کھیل الیکشن کے تناظر میں ہے۔ پھر آپ یہ بھی کہتے ہیں کہ آئندہ حکومت میں جو بھی آئے، وہ اس کو دوبارہ تبدیل کرسکتا ہے۔ یہ کیا ہے! اس طرح تو آپ نے ٹیکس دہندگان کی تعداد میں اضافے کے بجائے ٹیکس دہندگان کی فہرست سے بڑی تعداد کو خود ہی کم کردیا ہے۔ آپ خود سوچیں، اگر ایک گھر کے 8 لوگ ہوں گے تو وہ 96 لاکھ کی آمدن پر بلا ٹیکس لطف اندوز ہوں گے۔ ظاہر ہے یہ الیکشن بجٹ ہے، موجودہ حکومت نے سوچا کہ ہمیں تو ایک ماہ بعد جانا ہی ہے، چلتے چلتے بہت کچھ مان لو، کیا فرق پڑتا ہے! سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں آپ نے کیوں اضافہ کیا ہے؟ اس اضافے سے چیزوں کی تیاری پر آنے والی لاگت بڑھ جائے گی۔ اب تو دودھ والا بھی موٹر سائیکل پر، اور دھوبی سوزوکی پر آتا ہے۔ ٹرانسپورٹ جب مہنگی ہوگی تو ہر چیز کی قیمت بڑھ جائے گی۔
ملک بھر میں امن و امان کا مسئلہ تھا۔ کراچی اس سے بہت زیادہ متاثر تھا۔ ہم بار بار کہتے تھے کہ امن و امان کا مسئلہ حل کریں گے تو کراچی کی صنعت آگے بڑھے گی۔ ہماری سیاسی پارٹیوں نے کراچی میں امن وامان کے صورت حال درست نہیں کی۔ رینجرز پچھلے بیس بائیس سال سے کراچی میں تعینات ہے، اس سے بھی بات نہیں بنی۔ فوج نے جب رینجرز کو اختیارات دلوائے تو کراچی کے حالات بہتر ہوئے۔ کراچی میں امن قائم ہوتے ہی یہاں کی صنعت چلنا شروع ہوگئی۔ جو لوگ امن و امان کی خراب صورت حال کی وجہ سے اپنا کاروبار، اپنی صعنت کراچی سے باہر لے گئے تھے جب انھوں نے اپنی صنعتیں کراچی منتقل کرنا شروع کیں تو صوبائی اور وفاقی اداروں میں جھگڑے شروع ہوگئے۔ حکومتی اداروں نے بجلی اور گیس کا بحران کھڑا کردیا۔ حالانکہ وفاق اور صوبائی حکومت کو یہ مسئلہ بہت پہلے حل کرنا چاہیے تھا، لیکن کسی نے نہیں کیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کراچی میں بجلی اور گیس کی دوبارہ کمی ہوگئی۔ یہ ساری چیزیں سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ہوتی ہیں۔ میں نہیں سمجھتا کہ اس طرح کی صورت حال نیت کی خرابی کے بغیر پیدا ہوجائے۔ یہ صورتِ حال کراچی کو پیچھے دھکیلنے کے لیے پیدا کی جاتی ہے۔ سب جانتے ہیں کراچی پاکستان کا اقتصادی حب ہے۔ یہ پاکستان کو چلاتا ہے۔ بلکہ میں کہتا ہوں یہی پاکستان ہے۔ کراچی نہ ہو تو پاکستان نہ ہو۔ اس کے باوجود کراچی کو کیوں کھینچا اور گھسیٹا جاتا ہے؟ یہ عناصر کس کس طرح کراچی کے لیے مشکلات پیدا کرتے ہیں، کراچی کو پریشان کرتے ہیں! اب دیکھیں ہمارے وزیر خزانہ (اسحاق ڈار) جو تھے، اپنے آپ کو عقلِ کُل سمجھتے تھے، کسی کی سنتے ہی نہیں تھے۔ انھوں نے پانچ سال کیا کیا؟ وفاق کو چاہیے تھا کہ سب کو ایک جگہ جمع کرتا۔ لیکن آپ نے دیکھا وفاق تو ایک ’’فرقہ تعریفیہ تکفیریہ اور تحفیہ‘‘ ہے۔ ہم نے یہ بیڑہ اٹھایا، تمام چیمبرز کو یہاں جمع کیا، ان سب کو باور کرایا کہ جب تک ہم ایک آواز ہوکر حکومت پر دبائو نہیں ڈالیں گے، حکومت ہماری ایک نہیں سنے گی۔ ہم نے حکومت سے کہا ہم بجٹ تجاویز نہیں دیں گے، ہمارا ایک ہی مطالبہ ہے کہ حکومت ایف بی آر کو حاصل امتیازی اختیارات فی الفور ختم کرے۔ سب کے یکجا ہونے کا نتیجہ یہ نکلا کہ حکومت نے ٹیکس حکام کو حاصل امتیازی اختیارات ختم کردیے، جن کے تحت سپلائرز، مینوفیکچررز اور بڑے صنعت کاروں کے ہاں چلے جانا، چھاپے مارنا، مالکان کو اٹھا کر لے جانا معمول بن گیا تھا۔ اس اختیار نے بزنس مالکان کو اپنے لوگوں میں ذلیل کرکے رکھ دیا تھا۔ پھر حکومت کہتی ہے کہ تاجر ہماری معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔ ہمیں اپنی تذلیل کا بڑا دکھ تھا۔ ہم نے حکومت سے کہا کہ کسی تاجر و صنعت کار سے آپ کو شکایت ہے تو چیمبر کو بتائیں، ہم آپ کا ساتھ دیں گے، چیمبر کا کوئی ممبر ٹیکس نادہندہ نہیں ہوسکتا۔ چیمبر کا ممبر بننے کے لیے ٹیکس دہندہ ہونا ضروری ہے۔ اس میں چھوٹے بڑے ممبرز سبھی ٹیکس دیتے ہیں۔ اگر کوئی ممبر بدعنوان ہے تو چیمبر سے رجوع کریں، چیمبر حکومت کا ساتھ دے گا۔ یہ نہیں ہونا چاہیے کہ آپ کسی کو بدعنوان کہہ کر اُس کے بینک اکائونٹس منجمد کرکے اس کے اکائونٹ سے پیسے نکال لیں۔ الحمدللہ حکومت نے ہمارا مطالبہ مان لیا ہے اور ایف بی آر حکام کا امتیازی اختیار ختم کردیا ہے۔ ان شاء اللہ اس سے بہت بہتری آئے گی۔ ہم سب شروع ہی سے کہہ رہے ہیں کہ اشیاء کی تیاری پر آنے والی لاگت کو کم سے کم رکھنے کے لیے حکومت کو اقدامات کرنے چاہئیں۔ اگر آپ کو برآمدات بڑھانی ہے تو اس کے لیے اشیاء کی تیاری پر آنے والے لاگتی اخراجات کا بوجھ کم کرنا ہوگا۔ آپ کو ٹیکس کی شرح بھی کم کرنا ہوگی۔ بنگلادیش میں ٹیکسوں کی شرح ہم سے چالیس فیصد کم ہے۔ وہاں پانی کے کوئی نرخ وصول نہیں کیے جاتے۔ ہمارے ہاں سندھ اور پنجاب کے درمیان بھی پانی کے ریٹ میں بہت فرق ہے۔ پنجاب میں جس پانی کے ریٹ 50 روپے ہیں، یہاں اسی پانی کے ریٹ 256 روپے ہیں۔ اس فرق کی وجہ پوچھو تو کہتے ہیں پاکستان میں پانی نہیں ہے۔ صنعتوں کو پانی فراہم کرنا حکومت کا کام ہے، سوال یہ ہے کہ وہ نہیں کرے گی تو کون کرے گا؟کراچی میں گیس کے ریٹ بھی بنگلادیش سے دوگنا اور بجلی کے ریٹ بھی ساٹھ فیصد زیادہ ہیں۔ ہم کہتے ہیں کہ ہمیں سبسڈی نہیں چاہیے۔ سبسڈی کے نام پر اپنے اپنے لوگوں کو نوازا جاتا ہے۔ کاغذوں پر ایکسپورٹ ہوتی ہے۔ اس لیے ہم چاہتے ہیں کہ سبسڈی دینے کے بجائے مصنوعات کی کاسٹ آف ڈوئنگ میں خاطر خواہ کمی کی جائے۔ ہمارے مقابلے میں انڈیا، سری لنکا اور ویت نام جیسے ممالک ہیں۔ ان سے مسابقت میں چلنا ہوتا ہے۔ اس لیے اشیاء کی تیاری میں لاگتی قیمت کو کم رکھنا ہماری ایکسپورٹ بڑھانے کے لیے نہایت ضروری ہے۔
دوسرے ریفنڈ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ ریفنڈ کے مسئلے کو حکومت نے بجٹ میں چھیڑا ہی نہیں۔ ایکسپورٹ میں اضافے کے لیے فنڈز درکار ہوتے ہیں، اس پر آپ کچھ کر ہی نہیں رہے ہیں۔ بجٹ میں یہ اچھا کیا کہ ایف بی آر حکام کے امتیازی اختیارات ختم کیے۔ آپ نے بہت سی چیزیں زیرو ریٹ کردیں، لیکن آپ یہ ویژن سامنے نہیں لائے کہ ایکسپورٹ کو بڑھایا کیسے جائے گا۔ جب تک آپ لاگتی اخراجات کو کم نہیں کریں گے، ایکسپورٹ میں اضافہ نہیں کرسکتے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ جو اچھی چیزیں آج رکھی گئی ہیں وہ کل تبدیل کردی جائیں گی۔ دوسرا خدشہ بلکہ یقین ہے کہ نئی آنے والی حکومت اسے اپنی ترجیحات کے مطابق جب چاہے گی تبدیل کردے گی۔ سوال یہ ہے کہ ایک ایسے بجٹ پر جسے کل تبدیل ہونا ہو، لوگ کیوں اعتبار اعتبار کریں؟ میری رائے میں بجٹ 19-2018ء عوامی بجٹ نہیں ہے، یہ ایک عبوری بجٹ ہے جسے آئندہ حکومت جب چاہے گی تبدیل کردے گی۔ شکریہ۔

بجٹ تضادات کا مجموعہ ہے،ڈاکٹر اطہر احمد

ڈین۔ گرین وچ یونیورسٹی

اتنے مؤقر پینل میں مجھے مدعو کرنا میرے لیے اعزاز بھی ہے اور بات کرنا مشکل بھی ہے۔ بہرحال ہمارا حالیہ بجٹ کچھ اس طرح کا ہے کہ اس ملک کو ہر روز کی بنیاد پر چلایا جانا ہے۔ مطلب یہ کہ بجٹ کو غور وفکر کی بنیاد پر نہیں بلکہ کام چلائو بنیاد پر بنایا گیا ہے۔ حکومت کو پتا ہی نہیں کہ ہماری سمت کیا ہے، ہمیں ملک کو کس رخ پر لے جانا ہے، ہمارے اہداف کیا ہیں، ہمیں کیا کرنا ہے کیا نہیں کرنا ہے۔ ایک طرف کہا جارہا ہے کہ بجٹ خسارہ بڑھتا جارہا ہے، دوسری طرف تصویر دکھائی جارہی ہے کہ ہماری ایکسپورٹ بڑھ رہی ہے، اس جنوری میں ہماری برآمدات بڑھ گئی ہیں۔ حکومت نے اس کا مطلب یہ نکالا کہ ایکسپورٹ میں اضافے کا رجحان پایا جاتا ہے۔ ملکی بجٹ کے تخمینے سالانہ بنیاد پر بنتے ہیں، ایک ایک ماہ کی بنیاد پر نہیں بنائے جاتے۔ ہم بجٹ کو جتنی اہمیت دیتے ہیں اُس سے کہیں زیادہ اہمیت ٹریڈ پالیسی کو ملنی چاہیے۔ ہمارے ہاں الٹا ہے۔ ٹریڈ پالیسی کو پیچھے رکھا جاتا ہے، بجٹ کو آگے کیا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں قومی ترجیحات نہیں ہیں۔ بچوں کو پینے کے لیے صاف اور پورا پانی نہیں ملتا لیکن ہمارے بچوں کے پاس ایک سے بڑھ کر ایک موبائل ہے۔ ہماری حکومت کو ترجیحات کا تعین کرکے بجٹ سے زیادہ ٹریڈ پالیسی کو اہمیت دینی چاہیے۔ میرا تعلق تعلیمی شعبے سے ہے۔ اس حوالے سے میری تین گزارشات ہیں۔ ملک کا زرمبادلہ ملک سے باہر بھیجنے میں ایجوکیشن سیکٹر سب سے آگے ہے۔ ہم اپنے میٹرک سسٹم کو حقیر سمجھ کر ’اے‘ اور ’او‘ لیول کو بہت معیاری تعلیم سمجھتے ہیں۔ انگلینڈ، امریکہ سمیت دوسرے ترقی یافتہ ممالک میں تعلیم حاصل کرنے پر بھاری زرمبادلہ بیرون ملک خرچ کردیتے ہیں۔ ہمارا میڈیا دکھاتا ہے میٹرک میں خوب نقل ہورہی ہے، ممتحن خود نقل کرا رہے ہوتے ہیں، کہتے ہیں خوب نقل کرو۔ لیکن اے اور او لیول کے امتحانات میں یہی ممتحن بااصول ہوجاتے ہیں۔ اس طرح ہم اپنے ملک میں رائج میٹرک سسٹم کو خود ہی بدنام کرتے ہیں اور او اور اے لیول کی ساکھ بناتے ہیں۔ حالانکہ او اور اے لیول کے تعلیمی اخراجات پر قوم و ملک کا بھاری زرمبادلہ خرچ ہوتا ہے، جو میٹرک سسٹم سے بچایا جاسکتا ہے۔ میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ علامہ اقبال، ڈاکٹر عطا الرحمان، ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی جیسے دانش وروں نے کیا اے، او لیول سے تعلیم حاصل کرکے دنیا میں مقام حاصل کیا تھا؟ نہیں، بلکہ یہ ٹاٹ اسکول سے پڑھے ہوئے ہیں۔
حالیہ بجٹ سے صاف ظاہر ہے کہ اس میں مستقبل کی فکر نہیں پائی گئی، یہ ایک وقتی اور چلاؤ بجٹ ہے۔ ہماری حکومت زرمبادلہ کمانے اور بچانے کی بہت بات کرتی ہے، دوسری طرف وہ کہتی ہے حکومت پاکستانیوں کو کاروبار کرنے کے لیے قرض بھی دے گی اور غیر ملکی برانڈ کی فرنچائز بھی لاکر دے گی۔ مطلب یہ کہ قرض قومی خزانے سے دیا جائے گا، غیر ملکی فرنچائز کمپنیاں اپنا برانڈ نیم استعمال کرنے کے عوض آپ کی آمدن میں سے خاصا بڑا حصہ لے اڑیں گی۔ جب حکومت پاکستانیوں کو قرضے فراہم کرنا چاہتی ہے تو مقامی برانڈ بناکر اس کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔ مثال کے طور پر برگر کا ایک مشہور غیر ملکی برانڈ ہے، وہ پاکستان میں اپنا برانڈ نیم استعمال کرنے پر پاکستان سے بھاری سرمایہ بیرونِ ملک لے جاتا ہے… مرغی ہماری، مسالے برگر تیار کرنے والے ماہرین ہمارے، یعنی سب چیزیں ہماری، وہ صرف اپنا نام لگانے کے عوض ہمارا زرمبادلہ لے جاتے ہیں۔ بجٹ میں زرمبادلہ بچانے کی کوئی فکر کی گئی ہے نہ مقامی برانڈز کو پروان چڑھانے کی منصوبہ بندی ہے۔ وقتی ضرورتوں کے لیے بجٹ دے کر حکومت نے اپنی جان چھڑا لی ہے۔ اُسے چاہیے تھا کہ اس بجٹ میں بیرونی قرضوں اور ان پر سود کی ادائیگی کے ذرائع و وسائل پیدا کرنے اور زرمبادلہ بچانے کے لیے منصوبے رکھتی۔ اس کے برعکس زرمبادلہ ضائع کرنے کے منصوبے دیئے جارہے ہیں۔