جمعہ27 اپریل کو شمالی کوریا کے صدر کم جونگ ان نے پیدل چلتے ہوئے شمالی و جنوبی کوریاکے درمیان واقع سرحدی لکیر کو عبور کرکے تاریخ رقم کردی۔ 1953ء کی جنگِ کوریا کے بعد پہلی بار شمالی کوریا کے کسی سربراہ نے جنوبی کوریا کی سرزمین پر قدم رکھا ہے۔ اس سے پہلے 2007ء میں جنوبی کوریا کے سابق صدر رو مو ہیون (Roh Mooh- Hyun) نے شمالی کوریا کے دارالحکومت پیانگ یانگ کا دورہ کیا تھا جس میں آٹھ نکاتی معاہدۂ امن تشکیل پایا تھا۔ اُس وقت کم جونگ ان کے والد کم جونگ ال (Kim John- Il) شمالی کوریا کے سربراہ تھے۔ جیسا کہ ہم نے اس سے پہلے ایک نشست میں عرض کیا تھا کہ جزیرہ نمائے کوریا گزشتہ سواسو سال سے کشیدگی کا شکار ہے، اور اس بدنصیب علاقے کی تاریخ خونریزی و قتل عام سے بھری پڑی ہے۔ یہ خطہ پہلی بار 1894ء میں جاپان اور چین کے درمیاں جنگ کا میدان بنا، جس کے بعد 1904ء میں روس اور جاپان نے جزیرہ نمائے کوریا پر قبضے کے لیے خوفناک جنگ کی۔ 1950ء سے 1953ء تک شمالی کوریا اور جنوبی کوریا و امریکہ کے درمیان وحشت کا بازار گرم رہا جس میں جنوبی کوریا راکھ کا ڈھیر بن گیا، اور 3سال جاری رہنے والی اس خونریزی میں 25 لاکھ کوریائی شہری ہلاک ہوئے، لاکھوں خواتین بے آبرو کی گئیں، شمالی کوریا کے 5لاکھ اور جنوبی کوریا و امریکہ کے 2لاکھ فوجی مارے گئے۔ مالی نقصانات کا تخمینہ 1500 ارب ڈالر ہے۔
حالیہ کشیدگی کا آغاز اُس وقت ہوا جب 2015ء کے آغاز سے شمالی کوریا نے اپنے دُور مار منجنیقی یا Ballistic میزائلوں اور جوہری ہتھیاروں کے تجربات کا آغاز کیا، اور اگلے دوسال کے دوران ان تجربات میں شدت آگئی۔ امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ کے حلف اٹھاتے ہی امریکی صدر اور کم جونگ کے درمیان توہین آمیز ٹوئٹس کا مقابلہ شروع ہوا اور کشیدگی چنگاری میں تبدیل ہوگئی، بلکہ 2017ء کے وسط میں تو خوفناک جوہری جنگ بس دنوں کی بات معلوم ہورہی تھی، اور یہ چین تھا جس کی کوششوں سے معاملہ کچھ ٹھنڈا ہوا۔ اگست 2017ء میں سلامتی کونسل نے شمالی کوریا سے کوئلے، لوہے اور مچھلیوں کی برآمد پر پابندی لگادی اور چین نے اس فیصلے کی
بھرپور حمایت کی۔ اس کے بعد گزشتہ سال ستمبر میں پابندیوں کو مزید سخت کرتے ہوئے شمالی کوریا کو خام تیل اور پیٹرول و ڈیزل مہیا کرنے پر پابندی لگادی گئی، ایک بار پھر چین نے سلامتی کونسل کے فیصلے کو ویٹو نہیں کیا اور شمالی کوریا کے غیر ذمے دارانہ رویّے کی مذمت کی۔ شمالی کوریا کے دوسرے نظریاتی حلیف روس نے بھی سردمہری کا مظاہرہ کیا۔ چین نے ایک قدم آگے بڑھ کر شمالی کوریا سے تجارتی تعلقات عملاً منقطع کرلینے کے ساتھ چینی ائرلائن کی شمالی کوریا کے لیے پروازیں بھی ختم کردیں۔ سخت ترین پابندیوں نے شمالی کوریا کی معیشت کا گلا گھونٹ کر رکھ دیا۔ ملک کو غذائی قلت کا سامنا ہے۔ ڈیزل کی کمی کی بنا پر کئی شہروں میں پبلک ٹرانسپورٹ ٹھپ ہے۔ کارخانے بند ہیں جس کی وجہ سے نہ صرف مزدوروں کی بڑی تعداد بے روزگار ہے بلکہ روزمرہ استعمال کی اشیا بھی بازار سے غائب ہیں۔ کم جونگ نے ایک بار پھر چین کو رام کرنے کی کوشش کی اور وہ چینی قیادت سے بات کرنے خود بیجنگ گئے، لیکن امریکہ کی جانب سے چینی مصنوعات پر پابندیوں اور بیجنگ کے جوابی اقدامات سے ایک خاموش تجارتی جنگ کا آغاز ہوچکا ہے جو چین کے حق میں نہیں۔ چنانچہ چین نے شمالی کوریا کا ساتھ دینے سے صاف انکار کردیا کہ اِس وقت اقتصادی کمال چین کا ایک نکاتی ہدف ہے۔
امید کی اس آخری کرن کے معدوم ہوجانے پر کم جونگ کے لیے امریکی شرائط کو من و عن قبول کرلینے کے سوا اور کوئی چارہ نہ تھا، لہٰذا پیانگ یانگ نے جنوبی کوریا کے ذریعے امریکہ کو اپنے ارادوں سے آگاہ کردیا، جس کے مطابق شمالی کوریا تحفظ کی ضمانت پر اپنا جوہری پروگرام ختم کرنے کے لیے تیار ہے۔ اپریل کے آغاز میں شمالی و جنوبی کوریا کے اعلیٰ اختیاراتی وفد کے درمیان دونوں ملکوں کے درمیان واقع غیر عسکری علاقے یا Demilitarized Zone میں جو ملاقات ہوئی اس میں بھی شمالی کوریا نے امریکی شرائط قبول کرنے کا عندیہ دیا اور طے کیا گیا کہ 27 اپریل کو جنوبی و شمالی کوریا کی سربراہ کانفرنس میں تفصیلات طے کرلی جائیں۔ اس اعلیٰ سطحی ملاقات کا معنی خیز پہلو اس میں جنوبی کوریا کی جانب سے کوریا انضمام کے وزیر چو میونگ جیان (Cho Myoung- Gyon) کی شرکت بلکہ وفد کی قیادت تھی۔ جنوبی کوریا شمالی کوریا کو اپنا حصہ تصور کرتا ہے اور اسی بنا پر اُس نے اپنی کابینہ میں انضمام کا ایک قلمدان ترتیب دے رکھا ہے۔ اس وزارت پر شمالی کوریا کو سخت اعتراض ہے اور پیانگ یانگ اسے جنوبی کوریا کے توسیع پسندانہ رویّے اور بدنیتی کی علامت قرار دیتا ہے۔ مزے کی بات یہ کہ شمالی کوریا میں بھی ایسا ہی ایک ادارہ ’کمیٹی برائے پُرامن انضمام‘ کے نام سے کام کررہا ہے۔ اِس بار انضمام کی وزارت کو تنقید کا نشانہ بنانے کے بجائے جنوبی کوریا کے وزیر برائے انضمام کی قیادت میں آنے والے وفد سے ملاقات کے لیے کم جونگ نے ری سن گون (Ri Son Gwon)کو بھیجا جو شمالی کوریا کی کمیٹی برائے پُرامن انضمام کے سربراہ ہیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ شمالی کوریا نہ صرف اپنے جنوبی پڑوسی سے اختلافات کے خاتمے میں مخلص ہے بلکہ مستقبل میں دونوں ملکوں کا انضمام بھی خارج ازامکان نہیں۔ اس ملاقات کے بعد شمالی کوریا کے حکومتی ذرائع نے واشنگٹن سے براہِ راست رابطہ کیا اور ٹرمپ انتظامیہ کے ایک اعلیٰ اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر صحافیوں کو بتایا کہ شمالی کوریا کی حکومت نے امریکہ کو باضابطہ طور پر مطلع کیا ہے کہ اس کے سربراہ کم جونگ ان صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ اپنی ملاقات میں پیانگ یانگ کے جوہری ہتھیاروں پر بات کرنے کو تیار ہیں۔
اس یاددہانی کی تصدیق کے لیے امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کے سربراہ اور نامزد وزیرخارجہ مائیک پومپیو نے شمالی کوریا کا خفیہ دورہ کیا۔ اس وقت تک جناب پومپیو کی بطور وزیر خارجہ امریکی سینیٹ سے توثیق نہیں ہوئی تھی۔ یہ ایک تاریخی لمحہ تھا کہ اس سے پہلے اکتوبر 2000ء میں کلنٹن انتظامیہ کی وزیرخارجہ میڈلین البرائٹ نے پیانگ یانگ میں کم جونگ کے والد کم جونگ ال سے ملاقات کی تھی۔ یعنی 18 سال بعد امریکی وزیرخارجہ کا یہ پہلا دورۂ شمالی کوریا تھا۔ جناب پومپیو صدر ٹرمپ کے انتہائی بااعتماد ساتھی ہیں اور یہ دورہ انھوں نے صدر ٹرمپ کے ایلچی کی حیثیت سے کیا تھا۔ ملاقات ایسٹر کے موقع پر ہوئی جسے دوہفتے تک خفیہ رکھا گیا۔ امریکی سینیٹ میں جناب پومپیو کی توثیق کے لیے جو سماعت ہورہی تھی اُس میں بھی مسٹر پومپیو کے دورۂ شمالی کوریا کی بازگشت سنائی دی۔ مسٹر پومپیو نے اس ملاقات کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ وہ ٹرمپ کم جونگ ملاقات کے بارے میں بے حد پُرامید ہیں۔ اس کے بعد امریکہ کا دورہ کرنے والے جاپانی وزیراعظم سے ملاقات کے بعد صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے کہا کہ شمالی کوریا اور امریکہ کے درمیان اعلیٰ سطحی بات چیت ہورہی ہے، لیکن انھوں نے پومپیو کا نام نہیں لیا۔ 18 اپریل کو صبح 5 بج کر 42 منٹ پر جاری ہونے والے ایک ٹوئٹ میں صدر ٹرمپ نے اعلان کیا کہ مائیک پومپیو نے گزشتہ ہفتے کم جونگ ان سے ملاقات کی ہے جو بہت خوشگوار رہی اور شمالی کوریا سے عمدہ تعلقات استوار ہوتے نظر آرہے ہیں۔ سربراہ ملاقات کی تفصیلات طے ہورہی ہیں۔ امریکی صدر نے کہا کہ جوہری ہتھیاروں کا خاتمہ دنیا کے ساتھ شمالی کوریا کے لیے بھی بہت بہتر ہے۔
اس پس منظر میں شمالی و جنوبی کوریا چوٹی کانفرنس کے نتائج کے بارے میں ساری دنیا پُرامید تھی، اور توقع کے مطابق ملاقات میں دونوں رہنما بے حد پُرجوش نظر آئے۔ جیسے ہی کم جونگ جنوبی کوریا میں داخل ہوئے اُن کے جنوبی ہم منصب نے انھیں گرم جوشی سے گلے لگایا اور شمالی کوریا آنے کی خواہش ظاہر کی، جس پر کم جونگ نے ہنس کر جوکہا اس کا ترجمہ ’’چشمِ ما روشن دلِ ما شاد‘‘ ہوسکتا ہے۔ یہ کہتے ہوئے انھوں نے صدر مون کا ہاتھ تھاما اور سرحدی لکیر عبور کرکے شمالی کوریا کی جانب آگئے جہاں دونوں رہنمائوں نے تصویر کھنچوائی۔
ملاقات کے دوران دونوں رہنمائوں کے رویّے، گرم جوشی اور مشترکہ اعلامیے سے صاف لگ رہا ہے کہ شمالی و جنوبی کوریا 65 سال سے زیادہ عرصے تک جنگ و جدل کے بعد امن و محبت سے رہنے پر راضی ہوگئے ہیں۔ نسلی و ثقافتی اعتبار سے پورا جزیرہ نمائے کوریا ایک ہی ملّت ہے۔ برصغیر کی طرح یہاں بھی ہزاروں خاندان منقسم ہیں اور یہ آپس میں ملنا چاہتے ہیں۔ مذہی اعتبار سے پورے علاقے میں الحادکا غلبہ ہے۔ شمالی کوریا کے ملّی و نظریاتی بیانیے Jucheکے مطابق مذہب ’افیون‘ ہے۔ مذہب کے باب میں جنوبی کوریا والے سرکاری طور پر کچھ نہیں کہتے لیکن عوام کی غالب اکثریت یہاں بھی الحاد کی حامی ہے۔ امریکی فوج کی چھائونیوں میں عیسائی پادری یا Chaplain تعینات ہیں جو تبلیغ کا کام کرتے ہیں، جن کے اثر سے جنوبی کوریا میں مسیحیت فروغ پارہی ہے، لیکن اب بھی عوام کو مذہب کی طرف کوئی خاص رغبت نہیں۔ ہمارے جن دانش وروں کا خیال ہے کہ دنیا میں مذہب ہی سارے جھگڑے اور فساد کا سبب ہے توکوریا میں بے چارہ مذہب کسی شمار و قطار میں نہیں لیکن فساد ایک صدی سے جاری ہے۔
امن کے لیے جنوبی و شمالی کوریا کی خواہش اپنی جگہ، لیکن کیا دنیا کی بڑی طاقتیں یہاں سے اپنی دکانیں بڑھانے پر راضی ہوجائیں گی؟ صدر ٹرمپ کا دعویٰ ہے کہ چوٹی ملاقات سمیت کوریا میں قیامِ امن کی ہر کوشش کو ان کی آشیرواد حاصل ہے، لیکن زمینی حقائق کسی اور جانب اشارہ کررہے ہیں۔ امریکہ کی 30 ہزار فوج جنوبی کوریا میں تعینات ہے جس کا خرچہ جنوبی کوریا اٹھا رہا ہے۔ شمالی کوریا کا ہوّا کھڑا کرکے امریکہ کی جوہری آبدوزیں اور جنگی جہاز علاقے میں مٹر گشت کررہے ہیں۔ اسی بہانے امریکی جہاز بحر جنوبی چین میں بھی موجود ہیں۔ شمالی کوریا کے ڈر سے جاپان امریکی اسلحہ خرید رہا ہے۔ جنوبی کوریا تو براہِ راست ہدف ہے، اس لیے امریکی دفاعی اداروں خاص طور سے Raytheon، Lockheed Martin، General Dynamics وغیرہ کی قیمتی ٹیکنالوجی کا ایک بڑا خریدار جنوبی کوریا ہے جو ہر سال 40 ارب ڈالر دفاع پر خرچ کرتا ہے۔ دوسری طرف کشیدگی کی بہتی گنگا میں روس اور چین بھی ہاتھ دھو رہے ہیں۔ روس اپنا اسلحہ شمالی کوریا کو بیچ رہا ہے، اور چین تو نفرت کی گنگا میں اشنان کررہا ہے۔ حالیہ جوہری تنازعے سے بہت پہلے ہی امریکہ شمالی کوریا کو ’’بدمعاش ریاست‘‘ یا Rogue Regime قرار دے چکا ہے، جس کی وجہ سے دنیا اس سے کاروبار کرتے ڈرتی ہے۔ اس وقت شمالی کوریا کی معیشت کا دارومدار چین پر ہے، اور بیجنگ ہرگز یہ پسند نہیں کرے گا کہ دونوں کوریا متحد ہوکر اُس کا پتّا کاٹ دیں۔ روس کو بھی اس تنازعے سے فائدہ ہے کہ ’علاقائی کشیدگی‘ پر نظر رکھنے کے بہانے وہ شمالی بحرالکاہل اور بحر جاپان میں اپنے جنگی جہاز تعینات کیے ہوئے ہے۔ شمالی کوریا کی سستی افرادی قوت منجمد سائبیریا میں مزدوری کررہی ہے، کہ ان بے چاروں کے لیے اپنے ملک میں مزدوری کے مواقع نہیں اور دوسرے ملک انھیں ویزہ نہیں دیتے۔
اقتصادی اور صنعتی اعتبار سے دونوں کوریا کے اچھے تعلقات ’’بڑوں‘‘‘ کے حق میں نہیں۔ جنوبی کوریا دنیا کی بہت بڑی معاشی قوت ہے۔ Samsung, KIA, Hyundai, Daewoo, Kumho Tires, LG برانڈ کی مصنوعات ساری دنیا پر چھائی ہوئی ہیں۔ سواپانچ کروڑ آبادی کے اس ننھے سے ملک کی برآمدات کا حجم 573 ارب ڈالر ہے جس میں سے امریکہ آنے والی مصنوعات کا تناسب صرف 12 فیصد ہے۔ یعنی صدر ٹرمپ کے محصولاتی چھرے سے جنوبی کوریا کی برآمدت محفوظ ہیں۔ بے پناہ ترقی کی بنا پر اس کے کارخانوں کو افرادی قوت کی ضرورت ہے جس کی شدید قلت محسوس کی جارہی ہے۔ سرحد کے دوسری جانب شمالی کوریا کی آبادی 3 کروڑ کے قریب ہے جہاں روزگار کے مواقع میسر نہیں۔ شمالی کوریا کی تنومند افرادی قوت جنوبی کوریا کی صنعت کے لیے توانائی کا انجیکشن ثابت ہوسکتی ہے۔ شمالی کوریا کا بڑا حصہ بلندوبالا پہاڑوں اور وادیوں پر مشتمل ہے۔ قدرت نے اس ملک کو شفاف پہاڑی جھرنوں اور آبشاروں سے مزین کررکھا ہے۔ امریکی حملے کا خوف، کمیونسٹ پالیسی، ویزوں پر پابندی اور جاسوسی کے نظام کی وجہ سے دنیا کے لیے شمالی کوریا شجرِ ممنوعہ بنا ہوا ہے۔ جنوبی کوریا کی سرمایہ کاری اور پالیسیوں میں تبدیلی سے شمالی کوریا سیاحوں کی جنت بن سکتا ہے۔
شمالی و جنوبی کوریا کی قیادتیں ایک جامع امن منصوبے کے حق میں ہیں۔ سربراہ مذاکرات کے بعد جو اعلامیہ جاری ہوا ہے اس میں صرف شمالی کوریا ہی نہیں بلکہ سارے جزیرہ نمائے کوریا کو جوہری ہتھیاروں سے پاک ’دارالامن‘ بنانے کا عزم ظاہر کیا گیا ہے، جس کا مطلب ہے کہ امریکہ کو جنوبی کوریا سے اپنی فوج ہٹانی ہوگی۔ بحرجاپان میں امریکہ، چین اور روسی جوہری آبدوزوں کا گشت ختم کرنا ہوگا۔ جاپان کے ساحلوں سے امریکی میزائلوں کے اڈے منہدم کرنے کا مطالبہ کیا جائے گا، جبکہ شمالی بحرالکاہل میں روسی بحریہ کی جوہری تنصیبات کو محدود کرنے کا سوال بھی اٹھ سکتا ہے۔ امن کے لیے کوریا کے لوگوں کی خواہشات اور عزائم اپنی جگہ، لیکن تجربہ بتاتا ہے کہ ’’عالمی چودھری‘‘ اپنے ’’رجواڑے‘‘ خالی کرنے پر کبھی راضی نہیں ہوں گے۔