نام تصنیف: خدا دوست
مصنف: خیال آفاقی
سوانح: حضرت شیخ صوفی علاالدین نقشبندی
صفحات 256
ناشر بیت السلام، کراچی
قیمت درج نہیں
سچی بات تو یہ ہے کہ اپنی کم علمی کے باعث میں آج تک اپنے محبی پروفیسر خیالؔ آفاقی کی شخصیت اور فن کو سمجھنے سے قاصر ہوں، گوکہ 1995ء میں روزنامہ پاکستانی اخبار کراچی کے تعلق سے قائم ہونے والا محبت کا یہ رشتہ روز بروز مستحکم ہوتا جارہا ہے۔
1995ء میں جو آفاقی صاحب مجھے ملے تھے وہ خوش لباس، خوش گفتار، روشن خیال تھے اور دھیمے لہجے میں سلیقے سے گفتگو فرماتے، شائستہ تنقید فرماتے اور بعض اوقات اختلافِ رائے کے باوجود دل میں گھر کرلیتے۔ اُس وقت گفتگو کا موضوع اُن کے ناول اور ڈرامے ہوتے، جن میں اُس وقت بھی اخلاقی اقدار کا خیال رکھاجاتا۔ طویل غیر حاضری کے بعد ان سے حمدیہ، نعتیہ مشاعروں میں ملنے کا اتفاق ہوا، جہاں وہ ایک مبلغ دکھائی دیے، اقبال شناسی ان کا پسندیدہ موضوع ٹھیرا، اور اس ضمن میں انہوں نے کئی کتابیں لکھ ڈالیں۔
سیرتِ طیبہ صلی اللہ علیہ وسلم کو رپورتاژ انداز میں تحریر کرنا شروع کیا اور اسلامی فکر کے حامل ایک ڈائجسٹ میں یہ سلسلہ قسط وار شروع ہوا، جو اب ’’رسول اعظم‘‘ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام سے خوبصورت مجلّد صورت میں قارئین کے سامنے ہے۔2017ء کے آخر میں اقبال شناسی ایک نئے زاویے سے ’’شاعرِ اسلام‘‘ کے نام سے سامنے آئی۔ کتاب کی آمد کی تشہیر جاری تھی کہ پروفیسر صاحب نے روحانی بزرگ شخصیت حضرت شیخ صوفی علاء الدین نقشبندی مجددیؒ کی سوانح، افکار، احوال اپنے شگفتہ طرزِ نگارش میں ’’خدا دوست‘‘ میں بیان کردیے۔ ’’ہر اُس خدا دوست کے نام، جو خدا کے بندوں کو دوست رکھتے ہیں‘‘کی ابتدا میں رقم طراز ہیں:
’’جس دن نفرت کی پہلی چنگاری نے آنکھ کھول کر انسانیت کو خشمگیں نظروں سے دیکھا اُسی روز محبت کے بادل نے جھوم کر اپنی موجودگی کا اعلان کردیا اور بآوازِ بلند پکارکرکہا ’’ میں ہوں، میں ہوں، میرے ہوتے ہوئے انسانیت کو کوئی خطرہ نہیں‘‘۔
محبت فی الحقیقت نورِ خدا ہے جو خدا کی طرح ہر عیب اور آلائش سے پاک ہے۔ محبت کی روشنی اپنے خالص طریق پر تاریک ذہنوں کو جگمگاتی اور مُردہ دلوں کو زندگی بخشی ہے۔ اس نوری سمندر سے اٹھتی ہوئی موجوں نے تیرہ و تار خطوں میں احترامِ انسانیت اور بقائے باہمی کا حیات بخش اجالا پھیلا کر ذروں کو آفتاب اور پتھروں کو سیماب بنادیا۔
یہی سبب ہے کہ انسانیت آج بھی زندہ اور دنیا آج بھی پائندہ ہے، لیکن اس داستان کا سب سے دلچسپ اور روشن پہلو یہ ہے کہ محبت کے زمزمے جہاں سے پھوٹے وہ فلسفیوں کے دانش کدے، علما کے مکتب اور تاجوروں کے کاشانے نہیں، بلکہ گدڑی پوش فقیروں اور خرقہ زیب درویشوں کے آستانے ہیں۔ آسمان گیتی کے یہی آفتاب اور ماہتاب ہیں جو ہر دور اور ہر زمانے میں سحابِ رحمت اور ابرِ کرم کی صورت شعلۂ نفرت کو فرو کرتے آئے ہیں۔
یہ وہ مردانِ خدا ہیں جنہوں نے وقت کے ہر حصے اور زمین کے ہر خطے میں دلوں پر حکمرانی کی ہے اور اپنی نادیدہ سلطنت کا روحوں پر سکہ جمایا ہے۔ عطاءؒ ہو کہ رومیؒ، رازیؒ ہو کہ غزالیؒ، جنیدؒ ہو کہ ہارونیؒ، فریدؒ ہو کہ ہجویریؒ، نظامؒ ہو کہ اجمیریؒ، جیلانیؒ ہو کہ الف ثانیؒ، سچلؒ ہو کہ بھٹائیؒ… ان سب کا ایک ہی مشن اور ایک ہی نعرہ رہا ہے، یعنی
’’میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے‘‘
ہم اس وقت اسی کاروانِ محبت کے ایک راہ رو، شیخ صوفی علاء الدین نقشبندی، مجددیؒ کے حالات پیش کرنے جارہے ہیں۔‘‘
’’خدا دوست‘‘ سادہ دل، سادہ نظر، سادہ اُصول، عاشقِ بااللہ، شیدائے رسول صلی اللہ علیہ وسلم حضرت صوفی علاء الدین نقشبندی، مجددیؒ کی سوانح کے ساتھ اپنے عہد کی تاریخ بھی ہے۔ آپ بھارت کے معروف ضلع آگرہ کی تحصیل اعتماد پور کے قصبہ کھندولی کے ایک معزز خاندان میں 1908ء میں پیدا ہوئے، نصف صدی سے زیادہ عرصے تک بندگانِ خدا کی روحانی تربیت فرمائی اور 87 برس کی عمر میں اتوار 2 اپریل 1995ء کو کراچی میں وصال فرمایا، جہاں یٰسین آباد قبرستان میں مزارِ مبارک مرجع خلایق ہے۔
سلسلۂ نقشبندیہ میں پیر جماعت علی شاہؒ معروف ’’امیرِ ملت‘‘ نہایت معروف ہیں۔ آپ کے خلفاء میں حکیم قمر احمد اکبرآبادی نقشبندی مجددیؒ جو اہلِ تصوف میں نمایاں ہیں صوفی صاحب کے اتالیق رہے اور آپ کی کردار سازی میں اہم کردار ادا کیا۔ آپ سے متعلق کئی واقعات کتاب میں درج ہیں۔ صوفی عبدالرحمنؒ سہارنپوری، راولپنڈی عیدگاہ والے حافظ عبدالکریمؒ نقشبندی، مجددی کے خلیفۂ خاص تھے، بہت ہی سادہ مزاج، نرم طبیعت اور شریعت کے سخت پابند تھے، تصوف میں کسی بھی غلو کو شدت سے ناپسند فرماتے تھے۔ آپ کو دیکھ کر قرن وسطیٰ کے مسلمانوں کی تصویر آنکھوں کے سامنے کھنچ کر آجاتی تھی۔ نام ونمود اور ظاہرداری سے بہت دور رہتے۔ آپ جب کھندولی تشریف لائے تو صوفی علاء الدین صاحب نے آپ کے دستِ حق پرست پر بیعت فرمائی۔ ایسے شخص کی صحبت نے سونے پر سہاگے کا کام کیا۔ سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم آپ کی ایک ایک ادا میں رچ بس گئی۔
ذوقِ مطالعہ سے متعلق فاضل مصنف تحریر فرماتے ہیں:
’’آپ ایک الگ دنیا کے باسی تھے، اور وہ تھی من کی دنیا۔ گو آپ کے دل میں غیر اللہ کا گزر نہیں تھا، تاہم اللہ کے بندوں کا درد دھڑکن بنا رہتا تھا۔ خصوصاً مسلمانانِ ہند کی حالتِ زار دیکھ کر آپ کو بڑا افسوس ہوتا۔ بہت ہی کم عمری میں آپ نے ہندوؤں کے مقابل مسلمانوں کے فکری انتشار اور معاشی بدحالی کو محسوس کرلیا تھا۔ چنانچہ اکثر اپنے روحانی مشاغل میں اس مردِ بیمار کی صحت یابی کے لیے بزرگوں کی طرح دستِ دعا دراز کرتے۔ صرف چودہ کا سن تھا کہ قومی معاملات میں دلچسپی کا آپ کو اتنا شوق ہوا کہ کئی اخبارات اور رسالے پابندی سے منگواتے اور مطالعہ فرماتے۔ کئی رسالے اور اخبارات پاکستان آنے کے بعد آپ کے کاغذوں میں میری نظر سے گزرے ہیں۔ ان میں ماہنامہ ’’تجلی‘‘ دیوبند، ماہنامہ ’’مولوی‘‘ اور روزنامہ ’’ملاپ‘‘ شامل ہیں۔ ماہنامہ ’’مولوی‘‘ پر مدیراعلیٰ کا نام مولانا ابوالاعلیٰ مودودی لکھا تھا۔ مولانا کا مشہور مضمون ’’مسلمانانِ برصغیر اور مسلم لیگ‘‘ اسی رسالے میں کئی قسطوں پر مشتمل شائع ہوتا رہا تھا۔‘‘
’’خدا دوست‘‘ کی ابتدا میں معرفت، تصوف اور اہلِ معرفت پر سیر حاصل گفتگو کی گئی ہے۔ کتاب میں صوفی صاحب کی سوانح کے ساتھ ساتھ اپنے عہد کی سماجی، سیاسی تاریخ بھی ملتی ہے جس نے کتاب کو مزید دلچسپ بنادیا ہے، جس میں کئی اکابرین کے واقعات بھی شامل ہیں جو صوفی صاحب سے ارادات رکھتے تھے۔ مجموعی طور پر اس دلچسپ سوانح میں جابجا ایسے عام واقعات شامل ہیں جو بڑے اہم کردار کے حامل ہیں۔ ’’خدا دوست‘‘ صرف صوفی علاء الدین نقشبندی کی سوانح ہی نہیں بلکہ ہمارے معاشرے میں موجود پاکیزہ نفوس، سادہ طرزِ زندگی کے حامل، راست گو، صالح کردار، دیندار بزرگوں کی سوانح ہے جو آج بھی ہمارے اردگرد موجود ہیں۔ راقم کے خاندان کے ایک بزرگ کراچی سے حیدرآباد سندھ کسی کام سے گئے اور واپسی میں کسی کا قلم غلطی سے لے کر کراچی آگئے، جونہی غلطی کا احساس ہوا، واپس صرف قلم اُس کے مالک کو پہنچانے کے لیے دوبارہ حیدرآباد گئے، اور معذرت فرمائی۔ کتاب کے مطالعے سے آپ کو جا بجا ایسے ’’خدا دوست‘‘ ملیں گے جنہیں آپ اس سے قبل اہمیت نہ دیتے تھے۔
256 صفحات پر مشتمل عمدہ کاغذ، خوبصورت گردپوش، اعلیٰ طباعت کی حامل یہ کتاب بیت السلام بک مال اردو بازار کراچی نے شائع کی ہے۔ پبلشر سے رابطہ:0321-3817119، اور مصنف سے اس نمبر پر رابطہ کیاجا سکتاہے:0300-2389731