دردِ گردہ

انسانی جسم میں گردے اپنی جسامت کے اعتبار سے مختصر وجود رکھتے ہیں، مگر اپنے افعال کے اعتبار سے ان کو کلیدی اہمیت حاصل ہے ۔پشت میں کمر کے مہروں حوضِ عانہ (پیڑو) سے ذرا اوپر دونوں طرف ایک ایک گردہ چربی کی دبیز تہ کے اندر محفوظ ہوتا ہے۔ بایاں گردہ قدرے اونچا اور دایاں گردہ قدرے نیچے ہوتا ہے۔ عام طور پر انسانی گردے کی لمبائی تقریباً 4 انچ، چوڑائی تقریباً ڈھائی انچ اور موٹائی تقریباً ڈیڑھ انچ کے قریب ہوتی ہے۔ خواتین میں گردے کا حجم قدرے کم ہوتا ہے۔ جدید سائنسی تحقیق کے مطابق ایک صحت مند انسان کے گردے تقریباً 180 لیٹر خون کو 24 گھنٹوں میں فلٹر کرتے ہیں اور صحت کے لیے نقصان دہ غیر فطری اجزا کو بذریعہ پیشاب خارج کرتے ہیں۔ صحت مند انسان 24 گھنٹے میں کم و بیش ڈیڑھ سے دو لیٹر پیشاب خارج کرتا ہے۔ مختلف امراض کی حالت میں یہ مقدار کم و بیش ہوسکتی ہے۔
اس اہم عضو کے افعال میں کئی قسم کی خرابیاں پیدا ہوتی ہیں جن میں سے کچھ تکلیف دہ، کچھ جلد علاج کی صورت میں قابلِ اصلاح ہیں، لیکن گردوں کا بتدریج کمزور ہونا اور بالآخر کام چھوڑ دینا (Kidney Failure) موت کا سبب بنتا ہے، تاہم اس عضو کی بیماری کا احساس مریض کو اُس وقت ہوتا ہے جب دردِ گردہ کی صورت میں مریض تکلیف میں مبتلا ہوتا ہے۔ یہ درد انسان کو تڑپا کر رکھ دیتا ہے۔ اکثر اوقات دردِ گردہ کی شکایت تین طرح ہوتی ہے:
گردے کی بیرونی جھلی میں ریاح غلیظہ داخل ہوکر اس میں تنائو پیدا کرتی ہیں۔ گردے کے مقام پر بوجھ ہوتا ہے۔ اکثر اوقات قے آنے، ڈکار یا ریح کے اخراج کی صورت میں اس درد سے افاقہ ہوجاتا ہے۔ مرض کا دورہ گزر جاتا ہے تو مریض مرض کے بارے میں لاپروائی کا مظاہرہ کرتا ہے۔
ایسے لوگ جو پیشاب کو کسی مجبوری کی وجہ سے روکے رکھتے ہیں، ایسی دوائیں یا غذائیں کھاتے ہیں جن کے منفی اثرات ہیں، اس کی وجہ سے گردے میں سوزش ہوجاتی ہے۔ جدید تحقیق کے مطابق گردے میں ریت نما ذرے یا OKALATE پیدا ہونے کی وجہ سے بھی یہ درد ہوتا ہے۔ بعض ادویہ کا بے جا اور بغیر ڈاکٹر کے مشورے اور ہدایت کے استعمال، خصوصاً SULFA DRUG کا بغیر پانی کے استعمال بھی اس کا سبب بنتا ہے۔ سلفا ڈرگ کے بارے میں خصوصی ہدایات ہیں کہ اگر استعمال کرنا پڑیں تو پانی کثیر مقدار میں استعمال کیا جائے تاکہ ادویہ گردے میں تہہ نشین (PRECIPITATE) نہ ہوں۔ کچھ ادویہ پر واضح درج ہوتا ہے کہ یہ گردے پر اثرانداز ہوسکتی ہیں، لیکن عوام بغیر کسی مستند ڈاکٹر کے مشورے کے خود ادویہ خریدکر استعمال کرتے ہیں، جس کا نتیجہ گردوں میں سوزش کی صورت میں نکلتا ہے۔ بازار میں ملنے والی دھاتی ادویہ جو کہ طاقت کے نام پر فروخت ہوتی ہیں، وہ بھی اس مرض کو بڑھانے کا سبب ہیں۔ اس کیفیت میں پیشاب بار بار آتا ہے، پیشاب میں جلن، بعض اوقات گاڑھا اور بدبودار پیشاب آتا ہے جو اس کی اہم علامت ہے۔
یہ مرض بھی اب عام ہورہا ہے، اور حالتِ مرض بڑی اذیت ناک ہوتی ہے۔ مریض ماہیٔ بے آب کی طرح تڑپتا ہے۔ گردے کے مقام پر یوں درد ہوتا ہے جیسے کسی نے میخِ گاڑ دی ہو۔ پیشاب کی بار بار حاجت ہوتی ہے، پیشاب رُک رُک کر اور بعض اوقات قطرہ قطرہ خارج ہوتا ہے، اکثر خون آمیز ہوتا ہے، شدتِ درد سے مریض کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا آتا ہے، درد کی وجہ سے پسینہ آتا ہے، کمر پر اینٹھن محسوس ہوتی ہے، متلی اور قے کی کیفیت ہوتی ہے۔ اگر پتھری گردے میں ہو تو پیشاب کے آخر میں خون یا خون آلود پیشاب ہوتا ہے۔ اگر پتھری کسی دوا یا خود ٹوٹ کر پیشاب کی نالی کے ذریعے مثانہ میں آئے تو درد میں تو کمی ہوجاتی ہے۔ اگر پتھری گردے سے نکل کر پیشاب کی نالی میں پھنس جائے تو گردے کے مقام پر تکلیف کم ہوجاتی ہے اور درد گردے سے کنج ران کی طرف بڑھ جاتا ہے۔ سوزشِ گردہ اور پتھری کی صورت میں مریض کو بخار بھی ہوجاتا ہے۔
ایک ماہر معالج جس کو زندگی میں درجنوں ایسے مریض دیکھنے کا موقع ملتا ہے وہ ظاہری علامات سے ہی مرض کی نوعیت کو جان لیتا ہے، تاہم تشخیص کے جدید ذرائع، پیشاب کے لیبارٹری میں ٹیسٹ کو دیکھ کر اندازہ ہوجاتا ہے کہ گردے کے درد کا سبب کیا ہے؟ اس کے باوجود ایکس رے، الٹرا سائونڈ اب مرض کی رہنمائی اور تحقیق میں پوری طرح مددگار ہیں۔ گردے کی پتھری کی صورت میں درد میں افاقہ تو ہوتا ہے لیکن درد ختم نہیں ہوتا اور مسلسل گردے کے مقام پر بوجھ رہتا ہے۔ مریض کا وقت ضائع کیے بغیر فوری سائنسی سہولیات کو مدنظر رکھتے ہوئے مرض کے ازالے پر توجہ دینے کی ضرورت ہوتی ہے۔
آج کے ترقی یافتہ دور میں دردِ گردہ اور اپینڈکس کا درد مماثلت رکھنے کی وجہ سے معالج کو دھوکا دیتے ہیں، تاہم ان دونوں کی علامات بڑی واضح ہیں، ایک معالج کی ان علامات پر پوری نگاہ ہونی چاہیے ۔
اگر تشخیص ہوجائے کہ مرض کا سبب پتھری نہیں، تو علاج آسان ہے۔ مریض اگر غذائی تعاون کرکے مرض کا علاج توجہ سے کرے تو اس مرض سے نجات بآسانی مل جاتی ہے۔ ریح الکلیہ کی صورت میں درد کے مقام پر روغنِ گل، روغنِ بابونہ، یا کم از کم روغنِ زیتون کی مالش کی جائے، موسم کے مطابق تیل کو گرم کرلیا جائے تو بہتر ہے۔ ریت کی پوٹلی، اینٹ یا پتھر کی ٹکور، گرم بوتل کی ٹکور سکون دیتی ہے۔ ایسے مریض کو حسبِ ذیل قہوہ دیا جائے تو انتہائی مفید ثابت ہوتا ہے:
اجوائن دیسی6گرام، زیرہ سفید6گرام، بھکڑا خشک6گرام، دال کلتھی 6گرام، مکئی کے بال اگر میسر ہوں 6گرام۔ قہوہ بناکر حسب ذائقہ نمک یا چینی ملا لی جائے۔ ایسے مریض کو قبض ہو تو پہلے قبض دور کیا جائے۔ مریض کو کچھ عرصہ کے لیے کھانے کے بعد معجون کمونی 6 گرام عرق مکو، عرقِ اجوائن کے ساتھ دی جائے۔ روزانہ رات کو جوارش زرعونی 6 گرام کھانے سے مرض میں جلد افاقہ ہوتا ہے۔ گردے پر مالش تواتر سے کی جائے۔
ایسے مریض کو گرم پانی کے ٹب میں بٹھانا بھی وقتی فائدہ دیتا ہے۔
دردِ گردہ جو پتھری کی وجہ سے ہو، اس میں پتھری کی نوعیت، سائز اور گردے کی اندرونی باریک نالیوں کے سوراخ میں اس کے پھیلائو کا جائزہ لینے کے بعد دوا استعمال کرنی چاہیے۔ اکثر اوقات پتھری کو توڑنے والی ادویہ کے غلط استعمال سے خون جاری ہوجاتا ہے، پتھری اپنے مرکز کو چھوڑتی ہے، نہ نکلتی ہے۔ آخری علاج آپریشن ہے۔ مندرجہ ذیل ادویہ کا استعمال اگر ابتدا میں کرلیا جائے تو مرض کا خاتمہ ممکن ہے:
٭ حب قرطم6 گرام، مکودانہ6 گرام، خارخسک 6 گرام(بھکڑا) کلتھی6 گرام، تخم خربوزہ6 گرام۔
٭ خربوزے کے چھلکے کا قہوہ یا موسم کے مطابق گھوٹ کر پلانا بے حد مفید ہے۔
٭ حجر الیہود، قلمی شورہ، نوشادر پھٹکری، مولی کا پانی۔
مولی کے پانی میں اچھی طرح کھرل کرکے خشک ہونے پر سفوف کا کسی مناسب بدرقہ سے استعمال مفید ہے۔ اگر گلِ حکمت کرکے جلالیں تو زیادہ مفید ہے۔
٭ امروسیا مشہور دوا ہے جو بے حد مفید ہے۔
دردِ گردہ اور امراضِ گردہ جس میں ڈائی لاسز بھی ہوتا ہے، کے لیے یہ مضمون متحمل نہیں، البتہ گردے کے مریض کو چاول، گوبھی، آلو، بھنڈی، کیلا، ماش کی دال اور لیس دار غذائوں سے پرہیز کرنا چاہیے اور پانی کا کثرت سے استعمال کرنا چاہیے تاکہ گردے صاف ہوتے رہیں۔