واصف علی واصف
غریبوں کو نان و نفقہ کے مسائل اور مراحل سے آزاد کرایا جائے۔ ان کی زندگی میں امید کی شمع روشن ہونی چاہیے… انہیں مایوسی کی تاریکی سے نکالنا چاہیے… تاکہ وہ بھی وطن پرستی کے عظیم مقصد اور سفر میں شامل ہوں… امیروں سے پیسے کی محبت نکال لی جائے… انہیں مال کی نمائش کا موقع نہ دیا جائے… ان کی شادیوں کو اسلامی رنگ میں ڈھالا جائے… انہیں ایک سادہ زندگی کا شعور دیا جائے تاکہ وہ بیچارے بھی حصولِ منزلِ ملت کے عمل میں شریک ہوسکیں… ورنہ آدھے راستے کی بدقسمتی سے بچنا مشکل ہوگا۔ یہ سب کا سفر ہے سب کے لیے، یہ سب کا مقصد ہے سب کے لیے، یہ سب کا ملک ہے سب کے لیے، یہ سب کے وسائل ہیں سب کے لیے۔ غور کیا جائے… اللہ آسانیاں پیدا کرے گا… جس مقصد کے لیے یہ ملک بنایا تھا… یاد تو ہے؟ اگر یاد ہے تو حاصل کرنے میں کیا دیر ہے…!
کیا اب اکثریت سے پوچھا جائے گا کہ اسلام کیا ہوتا ہے… اسے کیسے حقیقی معنوں میں نافذ کیا جاسکتا ہے…! یہ بات خدا سے پوچھی جائے، قرآن سے معلوم کیا جائے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین سے روشنی حاصل کی جائے… گردشِ لیل و نہار پر نگاہ رکھنے والے بیدار روح انسانوں سے رجوع کیا جائے، وحدتِ عمل اور وحدتِ کردار کا پھر سے پیدا ہونا مشکل نہیں ہے… صاحبانِ اقتدار صادق ہوجائیں، ہر طرف صداقت ہی صداقت ہوجائے گی… شکر ہے کہ بہت کچھ ہورہا ہے لیکن ابھی اور بہت کچھ کرنا باقی ہے… قافلہ آدھے رستے میں ہی تھک کر سستا رہا ہے… جاگو اور جگائو… وقت انتظار نہیں کرتا… مواقع اپنے آپ کو دہراتے نہیں… مرتبے اور آسائشیں ملتی ہیں کہ اپنے آپ کو خوش نصیب بنایا جائے… خوش نصیب بننے والا سب کو خوش نصیبی عطا کرے… قافلہ بددل ہوگیا ہے… اس کی تکالیف کا ازالہ کیا جائے، اسے گلے اور تقاضوں سے نجات دی جائے… یہ قوم جاگ گئی تو قوموں کی امامت کا فریضہ اسی کو سونپا جائے گا… حال کی خوش حالی میں مست ہوکر مستقبل کے فرائض فراموش نہ ہوں… وہ وقت قریب آ پہنچا ہے جب اقبالؒ کے خواب کی تعبیر میسر ہو… قائداعظمؒ کی محنت کا صلہ حاصل ہو… قوم کے لیے شہید ہونے والوں کی روحوں کو قرار نصیب ہو… ہم منزل فراموش نہ ہوں تو آنے والی نسلیں ہمیں عزت سے یاد کریں گی…
اپنی لاڈلی اولاد کے لیے پیسہ جمع کرنا ہی مقصد نہیں ہے۔ اگر اولاد نے مفت حاصل ہونے والا مال گناہ میں لگایا تو اس گناہ کی سزا، پیسہ مہیا کرنے والوں کو بھی ملے گی… اگر اولاد کو تصورِ پاکستان سے متعارف نہ کرایا گیا، شعور عظمت ِ اسلام کی تعلیم نہ دی گئی تو خدا نہ کرے ہمارے لیے ’’آدھے رستے کے مسافروں‘‘ کا طعنہ ہوگا… خدا ہمیں اس عذاب سے بچائے… ہم عظیم قوم ہیں… ہمیں عظیم تر ہونا چاہیے… یہ ملک خدا کا ہے، خدا کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے، انہی کی منشا کے مطابق چلنا چاہیے۔
(’’حرف حرف حقیقت‘‘… واصف علی واصفؔ)
بیابہ مجلسِ اقبال
پروفیسررشید احمد انگوی
نقطۂ پرکارِ حق، مردِ خدا کا یقیں
اور یہ عالمِ تمام وہم و طلسم و مجاز
عقیدہ توحید کی برکت سے بندہ مومن کا تمام تر اعتماد، بھروسا، توکل اور یقین اﷲ کی ذات پر ہوتا ہے اور اﷲ کریم کی ذات و صفات پر یقین کامل کے نتیجے میں پوری کائنات اﷲ ہی کے فرمان پر قائم دکھائی دیتی ہے اور ہر جانب سے اﷲ ہو کی صدا سنائی دیتی ہے اور اﷲ کے سوا کسی چیز کی کوئی حقیقت نہیں جسے علامہ وہم و گماں اور طلسم و جادو جیسی اصلاحات میں بیان کرتے ہیں۔ علامہ ہی کا تو فرمان ہے: یہ مال و دولتِ دنیا، یہ رشتہ و پیوند، بتانِ وہم و گماں لا الٰہ الا اﷲ۔ یوں یقین پختہ کرنے کی تعلیم دی جارہی ہے۔
آہ وہ مردانِ حق، وہ عربی شہسوار
حاملِ خُلقِ عظیم، صاحبِ صدق و یقیں
علامہ ’’مسجد قرطبہ‘‘ کے عنوان سے لکھی گئی شہرۂ آفاق نظم میں قرطبہ آباد کرنے والے عظیم مسلمانوں کو نذرانہ عقیدت پیش کرتے ہوئے ان کی صفاتِ عالیہ اور بے مثل کمالات کو یوں بیان کرتے ہیں کہ تاریخ اسلام کے روشن دور کے یہ عظیم مسلمان جہاں ایمان و عمل کے مجسمے تھے وہیں ان کا مجاہدانہ کردار اور جرأت و بہادری کے واقعات انسانی تاریخ کا مایہ ناز سرمایہ و اثاثہ ہیں۔ یہ اخلاق کے بلند مقام پر فائز سچے کردار والے اور مجسم یقین و ایمان تھے جنھوں نے دنیا کو زندہ رہنے کا ہنر بھی سکھایا اور بادشاہی میں فقیری کرکے دکھائی، اور ان کے جذبوں کی امین مسجد قرطبہ آج بھی اپنے ہاں آنے والوں کو بزبانِ حال ان کی کیفیات سے آگاہ کرتی ہے۔
جوہرِ زندگی ہے عشق، جوہرِ عشق ہے خودی
آہ کہ ہے یہ تیغِ تیز پردگیِ نیام ابھی
علامہ کی نگاہ میں زندگی کو شان دینے والا جذبہ عشق ہوتا ہے جوکہ عقل سے کہیں ارفع و اعلیٰ اور جذبوں کی کیفیت ہے، اس لیے عشق سے محروم زندگی اصل میں بے حقیقت ہے۔ دوسری جانب عشق کو یہ مقام و مرتبہ دینے والی حقیقت خودی ہے۔ خودی انسان کے اپنی حقیقت اور اپنے مقام و کمال و صلاحیتوں کو پہچاننے کا نام ہے۔ خودی کو علامہ ایسی تیز دھار تلوار قرار دیتے ہیں جس کی کاٹ بہت تیز ہوتی ہے۔ خودی کی طاقت کا سرچشمہ اﷲ کی ذات پر پختہ یقین ہے ’’خودی کا سرِ نہاں لا الٰہ الا اﷲ۔ خودی ہے تیغ فساں لا الٰہ الا اﷲ۔‘‘