برٹش کونسل کے تعاون سے انگریزی ماہنامہ ہیرالڈ کے پاکستان گیر سروے کا تجزیہ
کار ل مارکس نے ہیگل کے بارے میں ایک جگہ لکھا ہے کہ ہیگل سر کے بل کھڑا ہوا تھا، میں نے اسے سیدھا کھڑا کردیا۔ اس سے کارل مارکس کی مراد یہ تھی کہ ہیگل کے یہاں جدلیاتی مادیت کا تصور Ideas کی کشمکش سے عبارت تھا، یعنی ہیگل کے یہاں تاریخ کا سفر تصورات کی آویزش کا حامل تھا مگر مارکس نے Ideas کی کشمکش کو طبقاتی کشمکش میں بدل دیا۔ اتفاق سے مسلمانوں کی تاریخ ہمیشہ سے سیدھی کھڑی ہوئی ہے مگر سوشلسٹ ہوں یا سیکولر اور لبرل کرگس… انہوں نے مسلمانوں کی تاریخ کو ہمیشہ سر کے بل کھڑا کرنے کی سازش کی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ تاریخ کو بدلا نہیں جاسکتا، مگر یہ بات ایک حد تک ہی درست ہے، اس لیے کہ تاریخ کی تعبیرِنو کے ذریعے تاریخ کے مفہوم کو بدلا جاسکتا ہے۔ تاریخ کا مفہوم بدل جائے تو تاریخ بدل کر رہ جاتی ہے۔ تاریخ کی تعبیرِنو کے سلسلے میں مذہبی اور سیکولر لوگوں کا استحقاق مساوی ہے، مگر تاریخ کے ’’حقائق‘‘ کو بدلنے کا حق نہ کسی مذہبی شخص کو ہے، نہ کسی سیکولر دانش ور کو۔ جو شخص ایسا کرے گا وہ تاریخ کے حلال کو حرام بنانے کا مرتکب ہوگا، وہ تاریخ کو مُردے میں ڈھال کر اس کا گوشت کھائے گا، اور مُردار کھانے کا کام گدھ تندہی سے کرتے ہیں۔ بدقسمتی سے اسلامی جمہوریہ پاکستان میں سیکولر عناصر کا ریکارڈ تاریخ کے حقائق کے انکار سے بھی اگلی منزل پر ہے، یعنی انہوں نے اب اعداد و شمار کا بھی انکار کرنا شروع کردیا ہے۔
اس کی تازہ ترین مثال کراچی کے انگریزی ماہنامے Herald میں شائع ہونے والے پاکستان گیر سروے کے بعض حقائق ہیں۔ یہ سروے برٹش کونسل اور ہیرالڈ کے باہمی اشتراک کا حاصل ہے۔ سروے کو “A Nation Reflects How Pakistan View it self at 70” کا عنوان دیا گیا ہے۔ ملک گیر سروے میں اہلِ پاکستان سے 70 سوالات پوچھے گئے ہیں۔ یہ سوالات اور ان کے جوابات ’ہیرالڈ‘ کے اپریل 2018ء کے شمارے کے ساتھ شائع کیے گئے Special Issue میں موجود ہیں۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے ’’نظریاتی تشخص‘‘ کے حوالے سے اہم ترین سوال یہ تھا کہ مندرجہ ذیل حکومتوں کے دور میں مذہب ریاستی پالیسیوں پر کتنا اثرانداز ہوا؟ جن ادوار کے بارے میں یہ سوال پوچھا گیا ان کی تفصیل یہ ہے: قائداعظم اور لیاقت علی “This popular perception is not خان کا دور۔ ملک غلام محمد کا عہد۔ ایوب خان کا زمانہ۔ یحییٰ خان کے تین سال۔ ذوالفقار علی بھٹو کا دور۔ جنرل ضیا الحق کا عہد۔ بے نظیر بھٹو کا زمانہ۔ جنرل پرویزمشرف کا پیریڈ۔ آصف علی زرداری کی حکومت۔ میاں نوازشریف کا دورِِ اقتدار۔ توقع کے عین مطابق پاکستانیوں کی عظیم اکثریت یعنی 75 فیصد افراد نے کہا کہ قائداعظم اور لیاقت علی خان کے دور میں مذہب پالیسیوں کی تشکیل کے سلسلے میں مرکزی کردار ادا کرتا تھا۔ صرف 6 فیصد لوگوں نے یہ کہا کہ ان کے دور میں مذہب پالیسیوں کی تشکیل میں کوئی کردار ادا نہیں کررہا تھا۔ 13.8 فیصد لوگوں نے کہا کہ اس دور میں مذہب پالیسیوں کے حوالے سے کم اہم یا Least Influential تھا۔ ان اعداد و شمار سے صاف ظاہر ہے کہ چونکہ پاکستان اسلام کے نام پر وجود میں آیا تھا اس لیے قائداعظم اور لیاقت علی خان کے دور میں مذہب ہی کو پالیسیوں کی تشکیل کے سلسلے میں مرکزی کردار ادا کرنا تھا۔ ظاہر ہے کہ ان اعداد و شمار نے سیکولر اور لبرل کرگسوں کے بیانیے کی دھجیاں اڑا دیں۔ سیکولر اور لبرل عناصر ’’سائنسی حقیقت‘‘ کا ورد اسی طرح کرتے ہیں جیسے اہلِ تصوف کے حلقوں میں ’’اللہ ہُو‘‘ کا ورد کیا جاتا ہے۔ مگر سیکولر اور لبرل عناصر کا یہ ورد اسی وقت ’’قابلِ قدر‘‘ ہوتا ہے جب اس سے سیکولر اور لبرل عناصر کے بیانیے کی تصدیق ہوتی ہو۔ ایسا نہ ہو تو سیکولر اور لبرل عناصر ’’سائنسی حقائق‘‘ پر بھی تھوک دیتے ہیں۔ برٹش کونسل اور ہیرالڈ کے سروے کے حقائق کے سلسلے میں بھی یہی ہوا۔ سیکولر اور لبرل عناصر نے سروے سے سامنے آنے والی’’اسلام کی فتح‘‘ کو ’’شکست‘‘ میں بدلنے یا کم از کم اس فتح کو ’’مشتبہ‘‘ بنانے کے لیے سیکولر دانش ور طاہر کامران سے “Faith in Numbers” کے عنوان کے تحت ایک مضمون لکھوایا۔ اس مضمون میں طاہر کامران نے 75 فیصد پاکستانیوں کی رائے کو کوڑے دان میں پھینکتے ہوئے لکھا:
corroborated by historians who tell us that religion was not allowed to be corner stone of state policy under Jinnah.”
طاہر کامران کہہ رہے ہیں کہ 75 فیصد پاکستانیوں کی رائے اُن ’’مورخین‘‘ کے تجزیے یا خیال سے ہم آہنگ نہیں جو کہتے ہیں کہ قائداعظم کے دور میں مذہب کو ریاستی پالیسیوں کی تشکیل کے حوالے سے مرکز کی حیثیت حاصل نہیں تھی۔ تجزیہ کیا جائے تو طاہر کامران کے اس چھوٹے سے اقتباس میں جھوٹ، مکر، فریب، پست مزاجی، بددیانتی اور تاریخ کی عصمت دری سمیت ہر منفی چیز موجود ہے۔ اس کا ایک سبب یہ ہے کہ طاہر کامران نے 75 فیصد پاکستانیوں کے مقابلے پر ایک، دو، تین یعنی چند سیکولر مورخین کو لاکھڑا کیا ہے، حالانکہ سیکولر اور لبرل کرگسوں کو جمہوریت بہت عزیز ہے اور جمہوریت کا اصول گنتی ہے، Numbers ہیں، اکثریت ہے۔ پاکستان کی اکثریت نہیں بلکہ عظیم اکثریت کہہ رہی ہے کہ قائداعظم کے زمانے میں مذہب پالیسیوں کی تشکیل کا محور تھا۔ طاہر کامران اور اس حوالے سے برٹش کونسل اور حمید ہارون کا ہیرالڈ کہہ رہا ہے: نہیں نہیں، تم عظیم اکثریت کو نہ دیکھو، تم ’’چند‘‘ سیکولر اور لبرل کرگسوں کی رائے کو دیکھو۔ ایک اندازے کے مطابق اس وقت پاکستان کی آبادی 22 کروڑ ہے۔ 22 کروڑ کا 75 فیصد 16 کروڑ 50 لاکھ ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو طاہر کامران، برٹش کونسل اور ہیرالڈ نے اپنے تجزیے میں ’’چند سیکولر مورخین‘‘ پر پھول برسائے ہیں اور 16 کروڑ 50 لاکھ پاکستانیوں پر تھوک دیا ہے۔ واہ کیا ’’عقل پرستی‘‘ ہے، کیا ’’جمہوریت پسندی‘‘ ہے، کیا ’’علم دوستی‘‘ ہے، کیا ’’روشن خیالی‘‘ ہے، کیا ’’دلیل نوازی‘‘ ہے! لیکن یہ مقامی صورتِ حال نہیں۔ اسلام کے حوالے سے اس رویّے کی ایک عالمی تاریخ ہے۔
ایران کے انقلاب سے پہلے سیکولر اور لبرل مغرب کہا کرتا تھا کہ اسلام اب سیاسی تغیر لانے والی قوت نہیں رہا۔ ایران میں انقلاب آیا تو مغرب کے سیکولر اور لبرل حلقوں نے کہنا شروع کردیا کہ ایران کا انقلاب تو طاقت یا ڈنڈے کے استعمال کا نتیجہ ہے، اسلام کہیں بھی جمہوریت یا ووٹ کے ذریعے اقتدار میں نہیں آسکتا۔ لیکن الجزائر میں عباس مدنی کے اسلامی فرنٹ نے انتخابات کے پہلے مرحلے میں دو تہائی اکثریت حاصل کی تو مغرب ہل کر رہ گیا اور اس نے الجزائر کی فوج کو اشارہ کردیا۔ چنانچہ فوج اسلامی فرنٹ پر چڑھ دوڑی اور انتخابات کا دوسرا مرحلہ منعقد ہی نہیں ہوسکا۔ ترکی میں نجم الدین اربکان اقتدار میںآئے تو انہیں چلنے نہیں دیا گیا اور ایک سال میں انہیں اقتدار سے نکال باہر کیا گیا۔ فلسطین میں حماس نے بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی مگر امریکہ اور یورپ نے حماس کی جمہوری کامیابی کو تسلیم کرکے نہ دیا۔ مصر میں صدر مرسی کی حکومت کے خلاف مصر کی فوج نے مغرب کے اشارے پر سازش کی۔ ملک میں اشیا کی ’’مصنوعی قلت‘‘ پیدا کی گئی، پیٹرول کا بحران ایجاد کیا گیا، چند مظاہرے کرائے گئے اور کہہ دیا گیا کہ مرسی عوام میں مقبول نہیں رہے۔ اسی تاثر کو عام کرکے جنرل سیسی اقتدار پر قابض ہوگئے اور مزاحمت کرنے والے ہزاروں مصریوں کو موت کی نیند سلا دیا گیا۔ اس سلسلے میں امریکہ کی شیطنت کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ امریکہ نے اقتدار پر فوج کے قبضے کو Coup کہنے سے بھی انکار کردیا، اس لیے کہ امریکہ اقتدار پر جنرل سیسی کے قبضے کو ’’فوجی بغاوت‘‘ کہتا تو اُسے امریکی قوانین کے تحت جنرل سیسی کی اقتصادی اور فوجی امداد بند کرنی پڑتی۔ ترکی کے رجب طیب ایردوان سیکولر ترکی کے صدر ہیں اور وہ دو مرتبہ کہہ چکے ہیں کہ اسلام اور سیکولرازم میں کوئی عدم مطابقت نہیں۔ مگر چونکہ سیکولر مغرب کو شبہ ہے کہ وہ اپنے دل میں اسلام کا درد رکھتے ہیں اس لیے مغرب نے فوج کے ذریعے ایردوان کا تختہ الٹنے کی سازش کی، مگر عوام کی مزاحمت سے یہ سازش ناکام ہوگئی۔ یہ حقائق بتا رہے ہیں کہ مغرب اور اُس کے آلۂ کار خواہ کتنا ہی جمہوریت جمہوریت کیوں نہ کریں مگر انہیں اسلام سے اتنی نفرت ہے کہ وہ جمہوری ذرائع سے بھی اسلام کو فتح مند نہیں ہونے دیتے۔ یہاں تک کہ وہ پاکستان میں ہونے والے ایک ’’سروے‘‘ میں بھی اسلام کو فتح مند دیکھ کر تلملا گئے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ 16 کروڑ 50 لاکھ پاکستانیوں کی رائے تھوڑی اہم ہے، رائے اہم ہے تو چند سیکولر کرگسوں کی، جو سفید جھوٹ سے کام لیتے ہوئے کہتے ہیں کہ قائداعظم سیکولر تھے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ پاکستان میں جب بھی انتخابات ہوتے ہیں اور مذہبی جماعتیں کم ووٹ حاصل کرتی ہیں تو سیکولر اور لبرل کرگسوں کے دل باغ باغ ہوجاتے ہیں اور وہ تواتر کے ساتھ یہ بات کہتے ہیں کہ مذہبی جماعتوں کی جو بھی اہمیت ہو مگر انہیں عوام کی تائید حاصل نہیں۔ مگر اب جبکہ ملک گیر سروے یہ کہہ رہا ہے کہ بانیانِ پاکستان کے عہد میں مذہب ریاست کی پالیسیوں کے تعین میں مرکزی کردار ادا کررہا تھا تو سیکولر اور لبرل گدھ کہہ رہے ہیں کہ اس بات کی کیا اہمیت ہے؟ اہمیت ہے تو چند مورخین کی۔
طاہر کامران نے جہاں یہ کہا ہے کہ قائداعظم کے دور میں مذہب پالیسیوں کے سلسلے میں فیصلہ کن عامل نہیں تھا، وہیں انہوں نے اس رائے کے فوراً بعد یہ فرمایا ہے کہ لیاقت علی خان کے دور میں مذہب پالیسیوں کی تشکیل میں مرکزی کردار ادا کرنے لگا تھا۔ اس سے قبل وہ اپنے مضمون کے آغاز میں یہ تسلیم کرچکے ہیں کہ اسلام ہی پاکستان کی تخلیق کا سبب تھا۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر اسلام ہی پاکستان کی تخلیق کا سبب تھا تو قائداعظم کے عہد میں وہ اچانک غیر اہم کیسے ہوگیا؟ اور قائداعظم کے انتقال کے ساتھ ہی وہ کس طرح پالیسیوں پر اثرانداز ہونے لگا؟ اصول ہے کہ ایک جھوٹ دس مزید جھوٹ بلواتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جھوٹ کے پائوں نہیں ہوتے۔ ایک جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کے لیے آدمی دس جھوٹ ایجاد کرتا ہے، اور اس طرح اُس کے بیانات میں ’’تضادات‘‘ خون بن کر دوڑنے لگتے ہیں، ٹھیک اسی طرح جس طرح طاہر کامران کے تین بیانات باہم مربوط نہیں ہیں۔ مربوط بیان یہ ہے کہ پاکستان اسلام کے نام پر بنا۔ قائداعظم جب تک زندہ رہے اسلام ہی کی طرف دیکھتے رہے، اور ان کے بعد ان کے دستِ راست شہید ملت خان لیاقت علی خان نے قائداعظم کی تقلید کی۔ طاہر کامران نے لکھا ہے کہ لیاقت علی خان کے دور میں قراردادِ مقاصد منظور ہوئی۔ قائداعظم کا انتقال 11 ستمبر 1948ء کو ہوا، اور قراردادِ مقاصد 12 مارچ 1949ء کو منظور ہوئی۔ اس اعتبار سے قائداعظم کے انتقال اور قراردادِ مقاصد کی منظوری کے درمیان صرف چھے ماہ کا فاصلہ ہے۔ سوال یہ ہے کہ اسلام کے نام پر پاکستان بنانے والے قائداعظم اگر ’’سیکولر‘‘ ہوتے تو کیا لیاقت علی خان اُن کے انتقال کے بعد صرف چھے ماہ میں وہ قراردادِ مقاصد منظور کرانے کی پوزیشن میں ہوتے جس میں صاف کہا گیا کہ پاکستان میں اقتدارِ اعلیٰ صرف اللہ کے پاس ہوگا۔ اگر قائداعظم واقعتا سیکولر ہوتے اور لیاقت علی خان اُن کے انتقال کے صرف چھے ماہ بعد ’’سیکولر پاکستان‘‘ کو ’’اسلامی‘‘ بنانے کی ’’سازش‘‘ کرتے تو ان کے خلاف دس، بیس آوازیں ضرور اٹھتیں۔ لیکن قراردادِ مقاصد یا لیاقت علی خان کے خلاف کہیں سے ایک آواز بھی بلند نہ ہوئی۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ چونکہ قائداعظم بھی پاکستان کو ’’اسلامی ریاست‘‘ دیکھنا چاہتے تھے اس لیے لیاقت علی خان کے دور میں منظور ہونے والی قرارداد کسی مزاحمت کے بغیر منظور ہوگئی۔ سیکولر اور لبرل گدھ تاریخی حقائق کو کہاں مانتے ہیں! چنانچہ طاہر کامران نے ایک جانب 16 کروڑ 50 لاکھ پاکستانیوں کی توہین کی، دوسری جانب انہوں نے قائداعظم کو مغرب اور لیاقت علی خان کو مشرق ثابت کرنے کی سازش کی، تیسری جانب وہ قائداعظم کی 11 اگست کی تقریر کو اٹھا لائے اور کہا کہ اس تقریر کا یہ فقرہ اہم ہے:
Now i think we should keep that in front of us as our Ideal, and you will find that in course of final Hindus would cease to be Hindus and Muslims would cease to be Muslims not in relegion sense, because that is the personal faith of each individual but in political sense as a citizen of State.
ترجمہ: ’’اب میرا خیال ہے کہ اس بات کو ہمیں اپنے مثالیے یا آئیڈیل کی حیثیت سے اپنے سامنے رکھنا چاہیے اور آپ دیکھیں گے وقت گزرنے کے ساتھ ہندو، ہندو اور مسلمان، مسلمان نہیں رہیں گے، مذہبی معنوں میں نہیں بلکہ سیاسی مفہوم میں، ریاست کے شہریوں کی حیثیت سے۔‘‘
اس سلسلے میں ہم سلینا کریم کی تصنیف’’سیکولر جناح‘‘ کی مثال پیش کرچکے۔ ایک بار پھر اس مثال کو دہرانے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ اگر سیکولر اور لبرل گدھ ایک لاکھ مرتبہ جھوٹ بولیں گے تو ہمیں ایک لاکھ مرتبہ ہی صداقت کا اعادہ کرنا پڑے گا۔ بہرحال یہاں کہنے کی اصل بات یہ ہے کہ سلینا کریم کوئی ’’مذہبی شخصیت‘‘ نہیں ہیں، لیکن چونکہ وہ ایک ایمان دار مؤرخ ہیں اس لیے انہوں نے اپنی تصنیف میں قائداعظم کے سوانح نگار ہیکٹر بولیتھو کی تصنیف “Jinnah-creator of Pakistan” کا حوالہ دیاہے۔ ہیکٹر نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ 11 اگست کی تقریر میں الفاظ تو قائداعظم کے ہیں مگر روح انہوں نے پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وسلم) کے خطبۂ حجۃ الوداع سے اخذ کی ہے۔ یہ ایک سیکولر مگر ایمان دار شخص کا بیان ہے، اور اس کے بعد 11 اگست کی تقریر پر کچھ کہنے کی ضرورت نہیں رہ جاتی، مگر طاہر کامران کے جھوٹ کو دفنانے کے لیے ہم قائداعظم کی تقاریر سے تین اقتباسات پیش کررہے ہیں۔
قائداعظم نے 10 ستمبر 1945ء کو عیدالفطر کے موقع پر پیغام دیتے ہوئے کہا:
’’ہمارا پروگرام قرآن کریم میں موجود ہے۔ تمام مسلمانوں پر لازم ہے کہ قرآن غور سے پڑھیں۔ قرآنی پروگرام کے ہوتے ہوئے مسلم لیگ مسلمانوں کے سامنے کوئی دوسرا پروگرام پیش نہیں کرسکتی۔‘‘
قائداعظم نے 25 جنوری 1948ء کو کراچی بار ایسوسی ایشن کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا:
’’دنیا کی عظیم ترین ہستی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم عظیم معلم تھے، عظیم رہنما تھے، عظیم سیاست دان تھے۔ ہم ان کی تعلیمات پر عمل کرتے رہے تو کسی میدان میں کبھی ناکامی نہ ہوگی۔‘‘
بانیٔ پاکستان نے 15 نومبر 1942ء کو آل انڈیا مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے اجلاس سے خطاب فرمایا اور کہا:
’’مجھ سے اکثر پوچھا جاتا ہے کہ پاکستان کا طرزِ حکومت کیا ہوگا؟ پاکستان کے طرزِ حکومت کا تعین کرنے والا میں کون ہوتا ہوں! مسلمانوں کا طرزِ حکومت آج سے تیرہ سو سال قبل قرآن کریم نے وضاحت کے ساتھ بیان کردیا تھا۔ الحمدللہ قرآن مجید ہماری رہنمائی کے لیے موجود ہے اور قیامت تک موجود رہے گا۔‘‘
یہ قائداعظم کی گفتگوئوں کے صرف تین اقتباسات ہیں۔ ایسے چالیس، پچاس اقتباسات مزید پیش کیے جاسکتے ہیں۔ ان اقتباسات کو پیش نظر رکھ کر شیطان بھی یہ کہنے کی جرأت نہیں کرسکتا کہ قائداعظم سیکولر تھے اور وہ پاکستان کو سیکولر بنانا چاہتے تھے۔ مگر جو بات شیطان نہیں کہہ سکتا، سیکولر اور لبرل کرگس وہ بات کہتے ہیں۔
سروے کے مطابق ملک غلام محمد کے دور کے حوالے سے 60.88 فیصد لوگوں نے رائے دی ہے کہ اس عہد میں بھی پالیسیوں کی تشکیل کے سلسلے میں مذہب مرکزی اہمیت کا حامل تھا۔ طاہر کامران نے ان اعداد و شمار کو بھی ناقابلِ اعتبار قراردیا ہے اور مثال یہ دی ہے کہ غلام محمد سے قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کا مطالبہ کیا گیا مگر انہوں نے یہ مطالبہ ماننے سے انکار کردیا۔ تو کیا صرف ایک فیصلے سے پورے عہد کے بارے میں کوئی رائے قائم کی جاسکتی ہے؟ مثال کے طور پر سروے میں ذوالفقار علی بھٹو کے دور کے حوالے سے صرف 61 فیصد افراد نے رائے دی ہے کہ اس دور میں مذہب پالیسی سازی کے سلسلے میں بہت اہم یا اہم تھا۔ حالانکہ بھٹو صاحب کے دور میں کئی بڑے بڑے مذہبی فیصلے ہوئے، مثلاً قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیا گیا، شراب پر پابندی لگائی گئی، جمعے کی تعطیل کا اعلان کیا گیا، اسلامی نظریاتی کونسل قائم کی گئی۔ اعداد و شمار کو دیکھا جائے تو غلام محمد کے دور کو 66 فیصد نے مذہب کے تناظر میں اہم کہا ہے اور ذوالفقار علی بھٹو کے دور کو صرف 61 فیصد نے مذہب کے حوالے سے اہم گردانا ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ایک جانب طاہر کامران یہ کہتے ہیں کہ 1949ء میں قراردادِ مقاصد نے پاکستان میں مذہب کو اہم بنایا، اور دوسری جانب 1951ء سے 1955ء تک حکومت کرنے والے غلام محمدکے عہد کو وہ مذہب کے حوالے سے غیر اہم ثابت کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ اس کو کہتے ہیں:
جنوں کا نام خرد رکھ دیا خرد کا جنوں
جو چاہے آپ کا حسنِ کرشمہ ساز کرے
طاہر کامران نے اپنے مضمون میں جنرل ایوب کی بڑی تعریف کی ہے اور کہا ہے کہ وہ اپنی جڑوں میں ’’لبرل‘‘ تھے، چنانچہ انہوں نے عائلی قوانین بنائے جن پر مذہبی لوگوں نے اعتراضات کیے مگر جنرل ایوب نے ان اعتراضات کو اہمیت نہ دی۔ جنرل ایوب کے برعکس طاہر کامران نے جنرل ضیا کو ناپسندیدہ قرار دینے کی کوشش کرتے ہوئے ان کے دور میں ہونے والی اسلام کاری یا Islamization کا ذکر کیا ہے اور فرمایا ہے کہ جنرل ضیا کے بعد اب تک معاشرے پر جنرل ضیا کی اسلام کاری کا اثر ہے۔ پاکستان کے سیکولر اور لبرل لوگوں کے پاس عقل نہیں ہوتی، ہوتی تو طاہر کامران پر پاکستان کے اسلامی ہونے کی حقیقت پوری طرح آشکار ہو سکتی تھی۔ طاہر کامران کے بقول جنرل ایوب ’’سچے لبرل‘‘ تھے اور انہوں نے 11 سال حکومت کی، مگر جنرل ایوب کا ’’سچا لبرل ازم‘‘ جنرل ایوب کے ساتھ رخصت ہوگیا اور جنرل ایوب کا ’’ورثہ‘‘ نہ بن سکا۔ اس کے برعکس جنرل ضیا الحق کی اسلام کاری طاہر کامران کے مطابق ریاست اور معاشرے کو متاثر کررہی ہے۔ ان دونوں تجربات کا فرق ہمیں بتا رہا ہے کہ سیکولرازم اور لبرل ازم پاکستان کی بنیاد، تاریخ اور پاکستان کے عوام کی عظیم اکثریت کے لیے ’’اجنبی اور ٹھونسا ہوا نظریہ‘‘ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جنرل ایوب کا لبرل ازم اُن کے ساتھ رخصت ہوگیا۔ اس کے برعکس چونکہ اسلام پاکستان کی بنیاد میں رکھا ہوا ہے، اسلام پاکستان کی تاریخ کا حصہ ہے، اور پاکستان کے لوگوں کی عظیم اکثریت جذباتی طور پر سہی، اسلام سے محبت کرتی ہے اس لیے جنرل ضیا کی مصنوعی، سرسری، سطحی اور سیاسی مفادات میں ڈوبی ہوئی اسلام کاری بھی ابھی تک زندہ ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے بھی ’’اسلامی سوشلزم‘‘ ایجاد کیا تھا مگر یہ تجربہ بھی بھٹو صاحب کے ساتھ پھانسی چڑھ گیا۔ اصل میں پاکستان کے سیکولر اور لبرل کرگسوں کو اسلام کی طاقت کا اندازہ نہیں۔ وسطی ایشیائی مسلم ریاستیں 70 سال تک کمیونزم کے زیر اثر رہیں۔ اس عرصے میں اسلام کو تقریباً ختم کر دیا گیا تھا، مگر جیسے ہی سوویت یونین ٹوٹا اور کمیونزم آنجہانی ہوا، اسلام وسطی ایشیا میں اس طرح ابھرا جیسے کہیں گیا ہی نہ تھا۔ بوسنیا میں بھی یہی ہوا۔ ترکی میں کمال اتاترک نے قرآن اور اذان تک پر پابندی لگا دی تھی، مگر ترکی میں بھی اسلام واپس آرہا ہے۔ پاکستان تو بنا ہی اسلام کے نام پر ہے۔ پاکستان میں اسلام کو قومی زندگی کے مرکز سے نہیں ہٹایا جاسکتا خواہ پاکستان کے سیکولر اور لبرل کرگس ساڑھے 16 کروڑ عوام کی رائے کو چند مورخوں کے ذریعے شکست دینے کی سازش ہی کیوں نہ کریں۔
سروے کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ بے نظیر بھٹو کے دورِ حکومت کے حوالے سے 58 فیصد لوگوں نے کہا ہے کہ اُن کے دور میں پالیسیوں کی تشکیل میں مذہب انتہائی اہم یا اہم تھا، اس کے برعکس میاں نوازشریف کے بارے میں صرف 52 فیصد لوگوں نے یہ رائے دی ہے کہ اُن کے دور میں مذہب پالیسیوں کی تشکیل کے حوالے سے انتہائی اہم یا اہم ہے۔ اس فرق کا اہم پہلو یہ ہے کہ بے نظیر کو سیکولر اور لبرل سمجھا جاتا ہے، اور میاں نوازشریف ماشاء اللہ ابھی تک مذہبی ہونے کی شہرت ’’انجوائے‘‘ کررہے ہیں۔