تحریک انصاف اس سوال کا جواب کیوں نہیں دیتی کہ خیبر پختونخوا میں پیپلز پارٹی کو غیر متوقع کامیابی کیوں مل گئی
جماعت اسلامی اسمبلیوں کی آئینی مدت ختم ہونے سے قبل خیبر پختون خوا حکومت سے باہر آجائے گی جس کے لیے ابتدائی مشاورت جاری ہے۔ اگرچہ تاحال حتمی فیصلہ نہیں ہوا لیکن جماعت اسلامی کے رہنماؤں اور قیادت کا زیادہ تر رجحان اسی جانب ہے۔ صرف اس بات کا اہتمام کیا جارہا ہے کہ جماعت اسلامی خیبر پختون خوا حکومت سے، اور جمعیت العلمائے اسلام(ف) وفاقی حکومت سے بیک وقت باہر آئیں۔ اس سے ایک طرف تو وفاقی اور خیبر پختون خوا حکومت کو دھچکا لگے گا اور دوسری طرف ایم ایم اے زیادہ قوت کے ساتھ میدان میں اتر آئے گی، کہ حکومتوں کو لات مار کر باہر آنے والوں کی عوامی سطح پر پذیرائی زیادہ ہوتی ہے۔ اس سلسلے میں امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق جماعت کی قیادت، خیبر پختون خوا کے جماعت سے وابستہ وزرا، ارکانِ اسمبلی اور صوبائی رہنماؤں سے مشاورت کررہے ہیں، اور کوئی جذباتی فیصلہ کرنے کے بجائے کسی دانش مندانہ حل کی تلاش میں ہیں۔ تاہم ایک ٹی وی انٹرویو میں انہوں نے وضاحت کردی ہے کہ وہ چاہتے ہیں خیبر پختون خوا حکومت اپنی آئینی مدت کا ایک ایک لمحہ پورا کرے۔ وہ نہیں چاہتے کہ سسٹم غیر مستحکم ہو۔
یہ معاملہ اُس وقت زیر غور آیا جب سراج الحق کی ایک میڈیا ٹاک کے جواب میں تحریک انصاف کے ترجمان فواد چودھری نے یہ سوال اٹھایا کہ آخر جماعت اسلامی خیبر پختون خوا حکومت سے باہر کیوں نہیں آجاتی؟ اگرچہ جماعت اسلامی کے مرکزی ترجمان امیرالعظیم نے اس کی وضاحت کردی کہ ہم چاہتے تھے سینیٹ کا الیکشن تحریک انصاف کے ساتھ مل کر لڑا جائے اور ایسا صرف برابری اور انصاف ہی کی بنیاد پر ممکن تھا۔ تحریک انصاف چاہتی تھی کہ جماعت اسلامی خیبر پختون خوا اسمبلی میں 7 ارکان رکھتے ہوئے بھی اپنا امیدوار کھڑا نہ کرے بلکہ اپنے تمام ووٹ غیر مشروط طور پر تحریک انصاف کو دے دے اور اپنے امیدوار مشتاق احمد خان کو انتخاب سے دست بردار کرالے، جماعت اسلامی کے لیے یہ ممکن نہیں تھا، جبکہ دوسری جانب حکمران تحریک انصاف انتخاب سے ایک دن قبل تک کسی مفاہمت کے لیے تیار نہیں تھی۔ چنانچہ جماعت اسلامی نے اے این پی کی پیش کش پر اے این پی اور مسلم لیگ (ن) کے ایک دھڑے کے ساتھ اتحاد کرلیا اور اس کے نتیجے میں اپنا امیدوار بآسانی کامیاب کرا لیا۔ تحریک انصاف کو یہ بات ہضم نہ ہوسکی، اُس کی قیادت نے اِس بات پر تو غور نہیں کیا کہ اُس کی صوبائی قیادت نے ایک اتحادی جماعت کو کیوں کسی دوسرے اتحاد کا حصہ بننے پر مجبور کیا، البتہ وہ جماعت اسلامی کے پیچھے پڑ گئے۔ خود خیبر پختون خوا میں تحریک انصاف کی نالائقی کی وجہ سے پیپلز پارٹی کو خاصی غیر متوقع کامیابی مل گئی۔ لیکن تحریک انصاف اپنی کمزوریوں پر نظر ڈالنے کے لیے تیار نہیں تھی، چنانچہ جب سراج الحق نے سینیٹ کے انتخابات کے موقع پر خریدو فروخت اور چیئرمین سینیٹ کے انتخاب کے لیے کسی غیر مرئی طاقت کے اشارے کا ذکر کیا اور بتایا کہ جب انہوں نے وزیراعلیٰ خیبر پختون خوا سے پوچھا کہ آپ نے صادق سنجرانی اور اس سے بڑھ کر پیپلز پارٹی کے سلیم مانڈوی والا کو ووٹ کیوں دیا؟ تو اُن کا کہنا تھا کہ انہیں اوپر سے حکم تھا۔ سب جانتے ہیں کہ اوپر کے حکم کا کیا مطلب ہے، لیکن اب انہوں نے وضاحت کی ہے کہ اوپر سے اُن کی مراد بنی گالہ ہے جو اونچائی پر ہے، اس لیے انہوں نے اوپر کا لفظ استعمال کیا، اس کے علاوہ کوئی اور انہیں حکم یا ڈکٹیشن نہیں دے سکتا۔
اس تنازع میں تحریک انصاف یہ سوال تو کررہی ہے کہ جماعت اسلامی اقتدار سے علیحدہ کیوں نہیں ہوجاتی جو خیبر پختون خوا میں تحریک انصاف کی اتحادی ہونے کے باوجود سینیٹ کے چیئرمین کے لیے مسلم لیگ (ن) کے امیدوار کو ووٹ دیتی ہے؟ تحریک انصاف کا الزام ہے کہ جماعت اسلامی کا دل مسلم لیگ (ن) کے ساتھ دھڑکتا ہے، لیکن تحریک انصاف یہ جواب دینے کے لیے تیار نہیں کہ جب اُس کے اپنے چےئرمین کہہ رہے ہیں کہ اُن کے ارکان نے اپنے ضمیر بیچے، ان کی چار چار کروڑ کی بولیاں لگائی گئیں۔ وہ اپنے متعدد ارکان کو شوکاز نوٹس بھی جاری کرچکے ہیں جنہیں ان ارکان نے پھاڑ کر پھینک دیا ہے، لیکن تحریک انصاف اب تک یہ بتانے کے لیے تیار نہیں کہ آخر اُس نے پیپلز پارٹی کی پیروی کرتے ہوئے صادق سنجرانی اور سلیم مانڈوی والا کو کیسے ووٹ دیے؟ جبکہ اس کے چیئرمین صبح شام آصف زرداری کو بڑی برائی اور بڑی بیماری ہی نہیں، کرپشن کا بادشاہ قرار دیتے ہیں! صادق سنجرانی میں چھوٹے صوبے کے پُرکشش اور پُرفریب نعرے کے سوا کون سی خوبی اور میرٹ ہے؟ یقیناًیہ سب کچھ کسی کے اشارے پر ہوا ہے جس کا نوازشریف بھی بار بار تذکرہ کررہے ہیں۔ پھر تحریک انصاف کو بتانا چاہیے کہ اُس نے کن شرائط پر، کس کے حکم پر اور کس امید پر سلیم مانڈوی والا کو ووٹ دیے؟ جہاں تک جماعت اسلامی کا تعلق ہے اُس نے اپنی ازلی حریف پیپلز پارٹی کو ووٹ نہیں دیا، اسٹیبلشمنٹ کے کٹھ پتلی کو ووٹ نہیں دیا۔ تحریک انصاف کے ساتھ وہ خیبر پختون خوا حکومت میں شامل ضرور ہے، مگر اس نے تحریک انصاف کے ساتھ ایسا کوئی معاہدہ نہیں کیا جس کے تحت وہ سینیٹ یا دوسرے انتخابات میں تحریک انصاف کے فیصلوں کی پابند ہو۔ جماعت اسلامی صوبے کے بلدیاتی انتخابات اور کئی ضمنی انتخابات میں تحریک انصاف کے مقابل اپنے امیدوار لا چکی ہے۔ موجودہ تنازع کا نکتہ عروج یہ ہے کہ جماعت اسلامی موجودہ کنٹروورسی یا دباؤ کے نتیجے میں صوبائی حکومت سے علیحدہ نہیں ہوگی بلکہ سینیٹ میں ہونے والی غلط روایات پر آواز اٹھاتی رہے گی۔ البتہ آئینی مدت ختم ہونے سے قبل خیبر پختون خوا حکومت سے باہر ضرور آجائے گی، اور آنے والے انتخاب میں ایم ایم اے کے پلیٹ فارم سے حصہ لے گی، اور اس کے امیدوار مختلف حلقوں میں تحریک انصاف کے امیدواروں کے مقابلے میں انتخاب لڑیں گے، لیکن جماعت اسلامی مسلم لیگ (ن) کے ساتھ بھی کسی اتحاد میں نہیں جائے گی بلکہ ایم ایم اے مضبوط کرکے میدان میں اتارے گی۔
بدعنوانی میں ڈوبے ہوئے نظام کو امیر جماعت اسلامی سراج الحق کا چیلنج
میڈیا سے گفتگو
سینیٹر ز کی خرید و فروخت سے سینیٹ کی اخلاقی حیثیت ختم ہو کر رہ گئی ہے۔ سینیٹ کے اندر بیٹھے ہوئے لوگ ایک دوسرے سے آنکھیں نہیں ملاسکتے۔ سینیٹ الیکشن میں چند گھوڑے نہیں ، پورا پورا اصطبل بک گیاہے۔ جس طرح بکنے والے مجرم ہیں اسی طرح خریدنے والے بھی مجرم ہیں۔ ہم نے پہلے مرحلے میں رضا ربانی کا نام پیش کیا تھا لیکن آصف زرداری نے اپنے ایک کارکن کی حمایت نہیں کی۔ نظام کو ٹھیک کرنے کے لیے 70 سال سے سیاست اور جمہوریت کے نام پر آمریت مسلط کرنے والے اژدہوں کے دانت توڑنے اور ہاتھیوں کی سونڈمروڑنے کی ضرورت ہے۔ جب تک 6 ہزار کرپشن کنگز جیلوں میں نہیں جاتے ، کرپشن کے خاتمے کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوگا۔ مرکزی حکومت لوڈشیڈنگ ختم کرنے کے دعووں کی ناکامی پر قوم سے معافی مانگے یا اپنے جھوٹے اور ناکام ہونے کا اعلان کرے۔ عدالت عظمیٰ حقیقی احتساب کے لیے تیار ہو جائے تو پوری قوم عدلیہ کی پشت پر کھڑی ہوگی ورنہ عوام موجودہ اقدامات کو ہوائی فائرنگ ہی سمجھیں گے۔متحدہ مجلس عمل عوام کا پلیٹ فارم ہے۔ آئندہ انتخابات میں روایتی پارٹیوں کا راستہ روکنے کے لیے ہر ممکن جدوجہد کریں گے۔ اگر پاناما ، دبئی اور لندن لیکس کے کردار وں کو دوبارہ الیکشن لڑ کر عوام کی گردنوں پر سوار ہونے کا موقع ملا تو اس کی ذمے داری الیکشن کمیشن ، نیب اور احتساب کے اداروں پر ہوگی۔ انہوں نے کہاکہ ڈسپرین اور پیناڈول سے کام نہیں چلے گا ، عوام اب بڑا آپریشن چاہتے ہیں۔ جب تک کرپشن کے ناسور کو جڑوں سے نہ نکالا گیا ، کینسر کی یہ بیماری پھیلتی رہے گی۔ انہوں نے کہاکہ ملک میں غربت ، جہالت ، بے روزگاری ، بدامنی ، لوڈشیڈنگ اور دہشت گردی کا اصل مجرم یہی ٹولہ ہے۔70 سال سے مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کے نام سے اقتدار پر قابض رہنے والوں نے عام آدمی کا استحصال کیا۔ اسلام آباد میں قبرستان کی سی خاموشی ہے۔ یہ شہر اقتدار بے ضمیروں اور بیرونی ایجنسیوں کا شہر بن کر رہ گیا ہے جہاں سے کشمیر کے جہاد کی حمایت میں آواز نہیں اٹھتی بلکہ پاکستان کی تکمیل کی خاطر ہونے والی اس جدوجہد کو سبوتاژ کیا جارہاہے۔ ملکی سیاست شطرنج کا کھیل بن چکی ہے۔ سیاست اور جمہوریت یرغمال ہے کوئی غریب اسمبلی میں نہیں پہنچ سکتا۔ حکمرانوں نے قوم کو آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے قرضوں کی جن زنجیروں میں جکڑ رکھاہے ان کو صرف اسلامی حکومت توڑ سکتی ہے اور ملک و قوم کے تمام مسائل کا حل صرف نظام مصطفےٰؐ میں ہے۔چیف جسٹس کو بتانا چاہتاہوں کہ جب تک سیاست سے ملاوٹ ختم نہ ہو جائے ، دودھ میں ملاوٹ ختم نہیں ہوسکتی۔ الیکشن آتے ہی پرندے گھونسلے بدلنے لگتے ہیں اور ایک گھونسلے سے دوسرے اور دوسرے سے تیسرے گھونسلے میں جا بیٹھتے ہیں مگر عوام ان کو خوب پہچانتے ہیں۔ یہ کعبے کے غلاف میں بھی جا چھپیں تو ہم انہیں ڈھونڈ نکالیں گے اور ان سے قومی دولت کی پائی پائی وصول کریں گے۔ اسٹیٹس کو کی قوتوں اور عالمی اسٹیبلشمنٹ کے مہروں نے 22 کروڑ عوام کو شیطانی چکر میں پھنسا رکھاہے۔تعلیمی اداروں میں تعلیم نہیں،اسپتالوں میں علاج نہیں اور اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان ڈگریا ں جلانے پر مجبور ہیں ، انہیں روز گار نہیں مل رہا۔ اگر سرکاری اسکولوں میں صدر اور وزیراعظم کے بچے پڑھتے تو ان کی یہ حالت نہ ہوتی اور اگر ہمارے اسپتالوں سے حکمران اپنا علاج کراتے تو ان کی بدحالی کی طرف بھی کسی کا دھیان ہوتا۔ ظلم کے خلاف آواز نہ اٹھانا سب سے بڑی منافقت اور ظلم کا ساتھ دینے کے مترادف ہے۔ حکومتیں جب اپنے فرائض پورے نہ کریں تو پھر عدالت سمیت دوسرے اداروں کی مداخلت کی جگہ بن جاتی ہے۔ کرپشن میں لپٹے لوگ ایک پارٹی کو چھوڑ کر دوسری جماعتوں میں جارہے ہیں اور دوسری جانب بدقسمتی یہ ہے کہ ہم بھی ووٹ اس کو دیتے ہیں جنہیں الیکشن سے قبل گالیاں دیتے نہیں تھکتے، جب تک کرپٹ حکمران عرش پر اور عوام فرش پر ہیں حالات بہتر نہیں ہوسکتے۔ حکمران بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ کے ایجنٹ ہیں، حکمرانوں کی نااہلی کی وجہ سے عدلیہ کو مداخلت کرنا پڑی، اگر حکومت اپنے فرائض پورے نہ کرے تو پھر عدالتوں سمیت دیگر اداروں کو مداخلت کی جگہ مل جاتی ہے۔