ووٹر کو عزت دو اور عزت دار کو ووٹ دو

جب سے سابق وزیراعظم نوازشریف سپریم کورٹ کے فیصلے اور اس کے بعد نظرثانی اپیل کے فیصلے پر تاحیات نااہل ہوئے ہیں اُس دن سے بآوازِ بلند خطابات میں اظہار کررہے ہیں کہ ’’ووٹ کو عزت دو‘‘۔ اور اب تو پورے ملک میں ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کے بینر آویزاں کردئیے گئے ہیں۔ جبکہ اہل فکر وِ دانش، سیاسی کارکنان اور عوام الناس نے تو ہمیشہ ان تمام سیاسی جماعتوں کے نمائندوں کو ووٹ کی طاقت سے اقتدار میں پہنچایا، انہیں عزت دے کر وزارتِ عظمیٰ، وزارتِ اعلیٰ، وفاقی، صوبائی وزارتوں سمیت دیگر انتظامی عہدوں پر بٹھایا۔ کیا انہوں نے ووٹر کو عزت دی؟ عوام نے تو ہر الیکشن میں حق ادا کیا، لیکن اقتدار میں آنے سے پہلے عوام کے مسائل اُن کی دہلیز پر حل کرنے کے بلند و بانگ دعوے کرنے والوں نے اقتدار میں آکر ملک و قوم کے لیے کوئی فلاحی کام کیے؟ آج نوازشریف کہتے ہیں ’’ووٹ کو عزت دو‘‘، لیکن وہ ووٹ کی عزت لے کر جب وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر بیٹھے تھے، اُس وقت پارلیمنٹ نہیں جاتے تھے، سینیٹ میں نہیں جاتے تھے۔ ان ایوانوں میں اٹھنے والے سوالات کا جواب انہوں نے کبھی دینا پسند نہیں کیا۔ پارلیمنٹ میں عوامی مسائل کے حل کے لیے کسی بحث میں حصہ نہیں لیا۔ ووٹر نے ووٹ دیا، اس کے بدلے میں حکمرانوں نے ووٹر کو غربت، مہنگائی، بے روزگاری، لاقانونیت، ناانصافی، اقربا پروری کے تحفے دئیے۔ پینے کا صاف پانی فراہم نہیں کیا، صحتِ عامہ کی سہولیات فراہم نہیں کیں۔ ووٹر کے ووٹ سے عزت پاکر ان حکمرانوں نے اپنی جائدادوں، کاروبار، مراعات میں اضافہ کیا اور بے چارے ووٹر کو صرف طفل تسلیوں تک ہی محدود رکھا۔ ووٹر نے ووٹ دے کر اقتدار دلایا اور امید باندھی کہ اب اس کے مسائل حل ہوں گے، لیکن ’’مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی‘‘ کے مصداق معاملہ ہوا۔ پاکستان میں 80 فیصد عوام کو پینے کا صاف میسر نہیں۔ شرح خواندگی کم ہوتی جارہی ہے۔ اندرونی و بیرونی قرضوں میں اضافہ ہوگیا ہے۔ تجارتی خسارہ بڑھ گیا ہے۔ پاکستانیوں کے300 ارب ڈالر بیرونی ممالک کے بینکوں میںکرپٹ اشرافیہ لوٹ کر لے گئی ہے۔ آف شور کمپنیاں سیاست دانوں کی اکثریت کی ہیں۔ آج نوازشریف کہہ رہے ہیں کہ ’’ووٹ کو تماشا بنادیا‘‘، اور ساتھ تنبیہ کررہے ہیں کہ ’’بڑا انتشار دیکھ رہا ہوں، سب کو بچنا ہوگا‘‘۔ میں کہتا ہوں عوام کو اگر مستقبل میں بچنا ہے، ووٹ کی عزت کو بحال کرنا ہے، اپنے آپ کو خوشحال کرنا ہے تو کرپٹ اور بار بار پارٹیاں بدلنے والے ’’کرگس‘‘ سیاست دانوں کو ووٹ کی طاقت سے شکست دینا ہوگی اور عزت دار کو ووٹ دینا ہوگا… اور جو ووٹر کی عزت نہ کرے اُس کو نشانِ عبرت بنانا ہوگا۔ اب یہ نہیں چلے گا کہ ووٹ کو تو عزت ملے اور ووٹر کو ذلت۔
چودھری فرحان شوکت ہنجرا… لاہور
………………..****………………….
میئر کراچی کے نام
جناب ایڈیٹر صاحب! آپ کے توسط سے میئر کراچی کی توجہ کراچی کی ابتر حالت کی طرف مبذول کروانا چاہتی ہوں۔ جگہ جگہ کچرے کے ڈھیر اور ٹوٹی پھوٹی سڑکوں نے شہریوں کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے، لیکن میئر صاحب کو عام انسان کے مسائل کی کوئی پروا نہیں۔ وسیم اختر جب سے کراچی کے میئر منتخب ہوئے ہیں اُن کی صرف ایک ہی آواز سنائی دے رہی ہے کہ میرے پاس اختیارات نہیں ہیں۔ لیکن معاملہ اس کے برعکس ہے۔ ایک خبر کے مطابق کراچی کے ترقیاتی بجٹ کے ساڑھے 26 ارب روپے استعمال ہی نہیں کیے گئے۔ اب کوئی میئر صاحب سے یہ پوچھے کہ یہ فنڈ روکنے کا اختیار اُن کو کس نے کس قانون کے تحت دیا تھا؟ اگر 26 ارب روپے کے ترقیاتی کام بلدیہ، کراچی میں کروا رہی ہوتی تو شہر کی حالت ہی تبدیل ہوچکی ہوتی۔ میئر کے اس اقدام سے ثابت ہوگیا ہے کہ کراچی کو میئر کی صورت میں اُس کے حقوق سے محروم کرنے والا فرد مل گیا ہے، جب کہ دوسری طرف حال یہ ہے کہ میئر اور ڈپٹی میئر کی تنخواہیں اور دوسری مراعات بڑھانے میں چند گھنٹے لگتے ہیں۔ کراچی کے بجٹ کو کراچی والوں کی فلاح کے لیے استعمال نہ کرنا اہلِ کراچی کے ساتھ بہت بڑا ظلم ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ کراچی والے اقتدار کے لالچی اور اپنی پارٹی کے مفادات کے تحفظ میں لگے ہوئے ان میئر کا مواخذہ کب کریں گے؟ وقت آگیا ہے کہ اہلِ کراچی غفلت سے جاگ جائیں کہ ان کے ساتھ اختیارات کے نام پر کیا مذاق ہورہا ہے۔ یہ عوام کا حق ہے کہ میئر صاحب سے پوچھا جائے کہ میئر ترقی کے لیے منتخب ہوتا ہے یا ترقی فنڈ روکنے کے لیے؟
فرحت ندیم… کراچی