جوڈیشل مارشل لا کی کوئی حقیقت نہیں

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس کا دورۂ پشاور

چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار کے گزشتہ دنوں کے پشاور اور چارسدہ کے دوروں سے سرکاری اور عوامی سطح پر جو ہلچل نظر آئی اُس کے اثرات دیر تک محسوس کیے جاتے رہیں گے۔
ہمارے ہاں ازخود نوٹس اور سوموٹو ایکشن کے اختیارات تو اعلیٰ عدالتوں کو شروع سے حاصل رہے ہیں، لیکن ان کے استعمال کی بنیاد سابق چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چودھری نے ڈالی تھی جب انھوں نے پہلی دفعہ عدالتوں سے نکل کر عوامی مسائل میں سوموٹو ایکشن کے ذریعے دلچسپی لینے کے ساتھ ساتھ گمنام درخواستوں پر ایکشن لیتے ہوئے درخواست گزاروں کو ریلیف فراہم کرنے کی ایک نئی روایت قائم کی تھی۔ اُن کے بعد کچھ عرصے تک اس حوالے سے خاموشی رہی، لیکن جب سے موجودہ چیف جسٹس ثاقب نثار قاضی القضاء کے منصب پر فائز ہوئے ہیں، اور انھوں نے جو بعض فیصلے کیے ہیں اور عوامی حقوق کے حوالے سے وہ جتنے فعال اور فکرمند نظر آئے ہیں، تب سے جہاں ان کے اس کردار کو عوامی سطح پر پذیرائی مل رہی ہے وہیں بعض حلقے خاص کر کرپٹ سیاست دان اُن کے اس کردار پر نہ صرف اعتراضات کی سنگ باری کررہے ہیں، بلکہ اِسے آئین سے تجاوز اور منتخب اداروں کے مینڈیٹ میں دخل اندازی سے بھی تعبیر کیا جارہا ہے، حتیٰ کہ ان کے اٹھائے گئے اقدامات کو جواز بناکر یہاں تک پروپیگنڈا کیا گیا کہ وہ ملک میں جوڈیشل مارشل لا کی راہ ہموار کررہے ہیں اور ان کے عوامی حقوق کے حوالے سے سوموٹو ایکشنز لینے کے پیچھے بھی اصل میں جوڈیشل مارشل لا کے لیے راہ ہموار کرنے کی سوچ کارفرما ہے، جس کا چیف جسٹس نے یہ کہہ کر دوٹوک جواب دے دیا ہے کہ ملک کا مستقبل جمہوریت سے وابستہ ہے، اور جوڈیشل مارشل لا کی کوئی حقیقت نہیں ہے، بلکہ انھوں نے دو قدم آگے بڑھ کر یہاں تک کہہ دیا ہے کہ اُن کی اور اعلیٰ عدلیہ کی موجودگی میں کسی میں ہمت نہیں ہے کہ وہ مارشل لا لگا ئے، ایسی کسی بھی خواہش اور کوشش کا ڈٹ کر مقابلہ کیا جائے گا، سپریم کورٹ کے سترہ جج گھر چلے جائیں گے لیکن وہ ایسی کسی کوشش کا حصہ نہیں بنیں گے۔
چیف جسٹس کے اس واضح اور دوٹوک اعلان کے بعد اُن لوگوں کے پاس اپنی بغلیں جھانکنے کے سوا اور کوئی آپشن نہیں ہے جو پچھلے کچھ عرصے سے صبح شام بلا ناغہ جوڈیشل مارشل لا کی دہائیاں دیتے نہیں تھکتے تھے۔ یہی وہ لوگ ہیں جو اگر ایک طرف چیف جسٹس کی عوامی مسائل میں دلچسپی کو ہدفِ تنقید بنارہے ہیں تو دوسری جانب وہ جوڈیشل مارشل لا کی افواہیں پھیلاکر عوام کو گمراہ کرکے اعلیٰ عدلیہ کو بدنام بھی کرنا چاہتے ہیں۔
اسی طرح چیف جسٹس نے پشاور میں سپریم کورٹ رجسٹری میں عوامی مسائل پر جو فوری اقدامات اٹھائے اور ایک صوبے کے چیف ایگزیکٹو کو کٹہرے میں کھڑا کرکے ان کی نام نہاد تبدیلی کا جو پول کھولا ہے اس کی ستائش نہ کرنا بھی پرلے درجے کی کنجوسی ہوگی۔ واضح رہے کہ چیف جسٹس کا اس دوران وزیراعلیٰ پرویزخٹک کے ساتھ جو مکالمہ ہوا اُس سے جہاں حکمرانوں کی عوامی مسائل میں دلچسپی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے، وہیں اس سے عوامی مسائل میں ان کی دلچسپی اور اس حوالے سے ان کے پاس دستیاب معلومات کا پتا بھی چلتا ہے۔ یاد رہے کہ اس موقع پر وزیراعلیٰ نہ صرف یہ کہ پشاور کی صحیح آبادی بتانے سے معذور نظر آئے، بلکہ اُن سے چیف جسٹس نے صحت اور تعلیم کے متعلق جتنے بھی سوالات کیے وہ ان کے جوابات کے لیے بار بار چیف سیکرٹری اور سیکرٹری صحت کی جانب دیکھتے ہوئے پائے گئے۔ اسی طرح چیف جسٹس کے لیڈی ریڈنگ ہسپتال میں دستیاب ناقص طبی سہولیات، پشاور کے شہریوں کو سرکارکی جانب سے صاف پانی کے نام پر پلائے جانے والے آلودہ پانی پر نوٹس لینے کے ساتھ ساتھ نجی شعبے میں قائم بعض ایسے میڈیکل کالج جہاں بھاری فیسوں کے علاوہ مطلوبہ سہولیات کی عدم دستیابی کے خلاف براہِ راست کارروائی کا بھی اکثر عوامی حلقوں نے پُرجوش خیرمقدم کیا ہے۔ اسی طرح چارسدہ ہسپتال کے دورے کے موقع پر مقامی لوگوں نے ان کے سامنے شکایتوں کے جو انبار لگائے اور بعض سائلین نے مختلف عدالتوں میں زیر سماعت اپنے کیسوں کی طوالت کی جانب چیف جسٹس کی جو توجہ مبذول کرائی اُس پر چیف جسٹس کے احکامات کم از کم ان سائلین کے لیے یقینا تازہ ہوا کا جھونکا ثابت ہوئے ہیں جو اپنے کیسوں کے حوالے سے دولت اور طاقت نہ ہونے کے باعث نہ صرف مایوسی کی اتھاہ گہرائیوں میں گر چکے تھے، بلکہ جنہیں کہیں سے بھی انصاف ملنے کی تو قع نہیں تھی۔
چیف جسٹس کی فعالیت اور اُن کی عوامی مسائل میں دلچسپی کے متعلق بعض ناقدین کا کہنا ہے کہ اگر وہ عوامی مسائل کے حل میں اتنے ہی سنجیدہ ہیں تو انہیں جہاں عدالتوں میں زیرالتوا اٹھارہ لاکھ سے زائد مقدمات نمٹانے پر توجہ دینی چاہیے، وہیں ذیلی عدالتوں میں کرپشن اور مقدمات کی تاخیر کی صورت میں عام لوگوں کا جو استحصال ہورہا ہے اُس کی روک تھام اور دادرسی بھی اُن کی خصوصی توجہ کے متقاضی ہیں۔ یہاں ہمیں اس تلخ حقیقت کو ماننا ہوگا کہ ہمارے ہاں چونکہ آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے اور زندگی کا شاید کوئی بھی شعبہ ایسا نہیں ہے جس کی کارکردگی پر اطمینان کا اظہار کیا جاسکتا ہو، اس لیے ایسے میں جہاں سے بھی عوامی بھلائی اور بنیادی انسانی حقوق کے حوالے سے کوئی قدم اٹھتا ہوا نظر آتا ہے، پوری قوم اُس جانب نہ صرف امید بھری نگاہوں سے دیکھنا شروع کردیتی ہے بلکہ ہمارے معاشرے کا ستم رسیدہ طبقہ ایسی کسی آواز اور شخصیت کو اپنا مسیحا سمجھتے ہوئے ’’قدم بڑھائو… قوم تمھارے ساتھ ہے‘‘ جیسے نعروں کا سہارا لینے پر بھی مجبور ہوجاتی ہے۔