کراچی میں بجلی کی اذیت ناک لوڈشیڈنگ سے شہریوں کی زندگی اجیرن ہوچکی ہے۔ جماعت اسلامی ’کے۔ الیکٹرک‘ کی زیادتیوں کے خلاف مسلسل احتجاج کررہی ہے۔ جماعت اسلامی کی احتجاجی تحریک دراصل عوام کو مشکلات سے باہر نکالنے کی جدوجہد ہے جو گزشتہ ایک سال سے عملی طور پر جاری ہے۔ لیکن عام انتخابات کی آمد، اور موجودہ پانچ سالہ جمہوری دور ختم ہونے سے ایک ماہ قبل پاکستان مسلم لیگ (ن) کو بھی کراچی یاد آگیا۔ سپریم کورٹ سے نااہل قرار پانے والے سابق وزیراعظم نوازشریف کی مسلم لیگ (ن) کے نئے صدر شہبازشریف گزشتہ ایک ہفتے کے دوران دو مرتبہ کراچی آئے اور یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ انہیں کراچی اور اس کے لوگوں کا بہت خیال ہے۔ حالانکہ کڑوا سچ تو یہ ہے کہ آسان اور سستی بجلی کے حصول کے ذرائع کو ختم کرنے کے لیے سب سے پہلے پیپلز پارٹی کی شریک چیئرپرسن بے نظیر بھٹو نے 1993ء میں سرکاری شعبے میں بجلی گھروں اور اس کے یونٹ کے قیام پر پابندی لگائی۔ اس عوام دشمن فیصلے کے تحت ضربِ شدید یہ لگائی گئی کہ نجی سرمایہ کاروں کو پرائیویٹ بجلی گھر قائم کرنے کی دعوت دے دی گئی۔
نوازشریف کی مسلم لیگ تو اب تک نجکاری کو ترجیح دے رہی ہے۔ وہ کسی طور پر بھی پبلک سیکٹر میں بجلی گھروں کے قیام پر پابندی اور نجی شعبے کو بجلی گھروں کے قیام کی اجازت دینے کی مخالفت نہیں کرسکتی تھی، سو نہیں کی۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی پرائیوٹائزیشن کی پالیسی کو سابق صدر جنرل (ر) پرویزمشرف کے دورِ حکومت میں جاری رکھا گیا، بلکہ ایک قدم آگے بڑھ کر ملک کے سب سے بڑے شہر کو روشنیوں کا شہر بنانے والی کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن (کے ای ایس سی) کو ہی نجی شعبے کے حوالے کردیا گیا۔ کے ای ایس سی 2005ء میں ال جمایا نامی سعودی عرب کی کمپنی کے حوالے کی گئی۔ اس پرائیوٹائزیشن سے واقف لوگوں کا کہنا ہے کہ ال جمایا کو بھی کے ای ایس سی نصیب سے ملی تھی کیونکہ ٹینڈرز میں کامیاب بولی دینے والی فرم مقررہ وقت تک کے ای ایس سی کا کنٹرول سنبھالنے میں ناکام رہی تھی، اس لیے دوسرے نمبر پر بولی دینے والی فرم ال جمایا کے حق میں کے ای ایس سی کی نجکاری کا فیصلہ ہوگیا۔ ال جمایا بجلی جنریشن کا تجربہ رکھنے والی کمپنی ہونے کے باوجود کے ای ایس سی کو نہیں چلا سکی، نتیجے میں صرف ایک سال بعد اسے ابراج نامی فرم کے حوالے کردیا گیا، جسے بجلی پیدا کرنے، بجلی گھر چلانے اور بجلی کی ترسیل و تقسیم کا کوئی تجربہ نہیں تھا۔ ابراج نے جو بھی تجربہ حاصل کیا وہ کے ای ایس سی سے حاصل کیا۔ نتیجے میں کراچی میں بجلی نایاب اورصارفین پریشان ہیں۔
ثابت ہوچکا کہ ’کے۔ الیکٹرک‘ معاہدے کی خلاف ورزیاں بھی کررہی ہے مگر وفاقی حکومت اس کے خلاف سخت قدم اٹھانے سے گریزاں ہیں۔
عام تاثر یہ ہے کہ ’کے۔ الیکٹرک‘ چلانے والی ابراج ’کے۔ الیکٹرک‘ کو چلانے میں اپنی توقعات کے برعکس ناکام ہوچکی ہے اور اب اس سے جیسے تیسے جان چھڑانا چاہتی ہے۔ اس ضمن میں ’کے۔ الیکٹرک‘ کا چین کی فرم ’شنگھائی الیکٹرک‘ سے معاہدہ ہوچکا ہے، لیکن قانونی تقاضوں کی عدم تکمیل کے باعث شنگھائی الیکٹرک کنٹرول نہیں سنبھال پارہی ہے۔ خیال ہے کہ شنگھائی الیکٹرک کے کنٹرول سنبھالنے کے بعد کراچی میں بجلی کا نظام بہتر ہوجائے گا۔
لیکن کیا بجلی سستی ملنا شروع ہوجائے گی؟ یہ ایک اہم سوال ہے جس کا جواب شنگھائی الیکٹرک کی جانب سے ’کے۔ الیکٹرک‘ کا چارج سنبھالنے کے بعد ہی ملے گا۔
2005ء سے اب تک آنے والی کسی حکومت نے کراچی سمیت پورے ملک میں سستی بجلی کے حصول کے لیے کوشش ہی نہیں کی، جبکہ پرائیوٹائزیشن کو کامیاب قرار دینے کے غلط دعوے کے باوجود کراچی کے سوا کسی شہر کا بجلی کا نظام آج تک پرائیوٹائز نہیں کیا۔ کیوں؟ اس سوال کے جواب کی قوم منتظر ہے۔
اگر بجلی کے نظام کی نجکاری کا تجربہ ناکام ثابت ہوا تو حکومت ’کے۔ الیکٹرک‘ سے معاہدہ منسوخ کرکے اس کا کنٹرول خود کیوں نہیں سنبھال لیتی؟ اور اگر یہ تجربہ کامیاب تھا تو دیگر شہروں میں موجود بجلی کمپنیوں کی نجکاری کیوں نہیں کردی جاتی؟
………………***……………….
لوڈ شیڈنگ کی ذمے دار کے الیکٹرک ہے
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے کیبنٹ سیکریٹریٹ میں نیپرا حکام کی بریفنگ
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے کیبنٹ سیکریٹریٹ میں نیپرا حکام کا کہنا ہے کہ کراچی میں گھریلو صارفین کو 12 گھنٹے اور صنعتی سیکٹر کو 6 گھنٹوں کی لوڈشیڈنگ کا سامنا ہے، کراچی میں لوڈشیڈنگ کی ذمے دار کے الیکٹرک ہے۔ اس وقت کے الیکٹرک کو 600 میگاواٹ شارٹ فال کا سامنا ہے اور اس کی وجہ فرنس آئل پر پاور پلانٹ نہ چلانا اور 5 ماہ سے بجلی گھر بند ہونا ہے۔ کمیٹی نے کراچی الیکٹرک کو فرنس آئل پاور پلانٹس کو چلانے اورکے الیکٹرک پر اضافی جرمانہ کی سفارش کر دی ۔ کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے نیپرا کے رکن سیف اللہ چٹھہ نے کراچی الیکٹرک کے بارے میں بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ کے الیکٹرک کے سسٹم میں 2200 میگاواٹ بجلی آ رہی ہے جس میں 1100 میگاواٹ بجلی کی پیداوار ہو رہی ہے ،650 میگاواٹ بجلی وفاق سے لی جا رہی ہے، کراچی کو 600 میگاواٹ کے شارٹ فال کا سامنا ہے، جسکی وجہ سے عوام کو 12 گھنٹے کی لوڈشیڈنگ کا سامنا ہے، پوارا بل دینے کے باوجود انڈسٹری میں بھی 6 گھنٹے کی لوڈشیڈنگ ہو رہی ہے، نیپرا حکام نے لوڈشیڈنگ کی وجوہات بتاتے ہوئے کہاکہ سوئی سدرن گیس کے ساتھ کے الیکٹرک کا 220 ایم ایم سی ایف ڈی کا معاہدہ نہیں صرف بات ہوئی تھی، سوئی سدرن کے الیکٹرک کو 190 ایم ایم سی ایف ڈی گیس دیتی رہی ہے اس وقت کے الیکٹرک کو 90 ایم ایم سی ایف ڈی گیس شارٹ فال کا سامنا ہے جبکہ ڈیمانڈ کے مطابق کے الیکٹرک کو 100 ایم ایم سی ایف ڈی ملنی چاہیے،ممبر نیپرا کے مطابق کراچی میں بجلی کی لوڈشیڈنگ کی اصل وجہ کے الیکٹرک کی نا اہلی ہے، اس وقت گیس سے 5 روپے اور فرنس آئل سے 12 روپے فی یونٹ بجلی پیدا ہو رہی ہے۔نیپرا کی جانب سے کے الیکٹرک کو ایک سال میں 60 لاکھ تک کا جرمانہ کیا جا چکا ہے، کے الیکٹرک ماہانہ صارفین سے 10 ارب روپے بل لیتی ہے کے الیکٹرک کے پاور پلانٹ کا ایک یونٹ 180 میگاواٹ 5 ماہ سے بند پڑا ہے، جس پر چیئرمین کمیٹی نے کہاکہ نیپرا کا جرمانہ بھی مذاق ہی ہے10 ارب کے منافع پر 60 لاکھ کا جرمانہ عائد کرنا مذاق ہی ہوا،کراچی میں بجلی کی لوڈشیڈنگ کے معاملے پر کمیٹی کی سفارشات میں کہا کہ کے الیکٹرک فرنسل آئل پاور پلانٹس کو چلائے نیپرا کے الیکٹرک پر اضافی جرمانہ بھی عائد کرے۔
………………***……………….
کراچی میں وزیراعظم کی زیرصدارت کابینہ کمیٹی برائے توانائی کا اجلاس
وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کراچی کے عوام کو عذاب میں مبتلا کرنے والے ادارے کے الیکٹرک کے آگے گھٹنے ٹیکتے ہوئے اسے اضافی گیس فراہم کرنے کا حکم دے دیا۔ان کے بقول حکومت کے الیکٹرک کو سرکاری تحویل میں نہیں لے سکتی، جس سسٹم پر 40فیصد بجلی چوری ہورہی ہواس کے پیسے کون دے گا، جب کراچی میں بجلی کے بل کی ادائیگی 100 فیصد ہوجائے گی تو شہر میں لوڈشیڈنگ بھی ختم ہوجائے گی۔پیر کو گورنر ہاؤس کراچی میں وزیراعظم کی زیرصدارت کابینہ کمیٹی برائے توانائی کا اجلاس ہوا، جس میں گورنر سندھ محمد زبیر، مشیر خزانہ مفتاح اسماعیل، وفاقی وزیر توانائی اویس لغاری، سوئی سدرن گیس کمپنی اور کے الیکٹرک کے نمائندوں سمیت دیگر اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔ اجلاس میں کراچی میں لوڈ شیڈنگ کے بحران اور اس کی وجوہات پر تفصیلی غور کیا گیا، اس موقع پر سوئی سدرن گیس کمپنی اور کے الیکٹرک کے نمائندوں نے اپنا اپنا موقف پیش کیا۔اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگوکرتے ہوئے شاہد خاقان کا کہنا تھا کہ کے الیکٹرک نے لکھ کر دیا ہے ان کے فرنس آئل کے پلانٹس پوری سطح پر چل رہے ہیں ان میں کوئی بھی بند نہیں۔ واضح رہے کہ کراچی کا دورہ کرنے والی نیپرا کی ٹیم نے اپنی رپورٹ میں بتایا تھا کہ کے الیکٹرک 7ماہ سے فرنس آئل والے یونٹس نہیں چلارہی اوراس کا سارا انحصار وفاق سے ملنے والی بجلی اور گیس پر ہے۔ وزیراعظم نے صحافیوں سے کہا کہ گیس کی قلت کی وجہ سے لوڈشیڈنگ ہو رہی تھی اب نہیں ہوگی، کے الیکٹرک کے مسائل حل کردیے ، سوئی سدرن کے الیکٹرک کو 190 ایم ایم سی ایف ڈی گیس دے گی اور اگر اس سے بھی زیادہ ضرورت ہوئی تو گیس دی جائے گی جب کہ کے الیکٹرک اور سوئی سدرن کے واجبات کے معاملے پر بھی مفتاح اسماعیل کی ذمے داری لگائی ہے، سوئی سدرن گیس کمپنی کو ہدایت جاری کی ہے کہ وہ اور کے الیکٹرک اپنے تمام معاہدے و معاملات کو 15 روز کے اندر حل کریں۔ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ کراچی میں بجلی بحران وفاق اور سندھ حکومت کے کسی تنازعے کا نتیجہ نہیں تاہم ہم مل کر شہر کے تمام مسائل بالخصوص پانی و بجلی بحران کو حل کریں گے، شہر میں پانی و بجلی دونوں ہی ملیں گے تاہم پہلے بجلی کی جانب توجہ مرکوز ہے کیوں کہ پانی کی فراہمی بھی بجلی سے ہی مشروط ہے۔