عدالتی فعالیت اور طرزِ حکمرانی کا بحران

حکمران سیاسی طبقہ اب بھی اپنی اصلاح کرنے پر تیار نہیں
کیا جوڈیشل ایکٹوازم کی بنیاد پر ریاستی و حکومتی نظام میں اصلاحات کا عمل آگے بڑھ سکتا ہے؟ یا اس کا نتیجہ عملی طور پر اداروں کے درمیان ٹکرائو کی صورت میں دیکھنے کو ملے گا؟ کیونکہ پاکستان میں اہلِ دانش سمیت سیاسی، سماجی اور علمی و فکری مباحث میں شامل افراد اور ادارو ں کے درمیان ملکی سطح پر جاری جوڈیشل ایکٹوازم کی حمایت اور مخالفت یا تحفظات پر سوچ تقسیم نظر آتی ہے۔کچھ لوگ جوڈیشل ایکٹوازم کی حمایت، اور کچھ اس کی مخالفت میں پیش پیش نظر آتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ تمام سیاسی، انتظامی، قانونی اور سیکورٹی کے اداروں کو آئین کے تحت دیے گئے اختیارات کے اند رہ کر کام کرنا چاہیے، کیونکہ جب ادارے اپنی حدود سے تجاوز کریں گے تو یقینی طور پر اداروں میں باہمی ٹکرائو پیدا ہوگا، جو داخلی استحکام کو کمزور کرنے کا سبب بنتا ہے، اور یہ بات ریاستی مفاد میں نہیں۔
اس وقت ملک میں بڑی شدت کے ساتھ جو ’جوڈیشل ایکٹوازم‘ چل رہا ہے اس میں بھی بعض لوگ سازشی تھیوریاں تلاش کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ نوازشریف کا تو بیانیہ ہی یہ ہے کہ جو کچھ عدلیہ اپنی فعالیت کے تناظر میں کررہی ہے وہ اُس کا اپنا فیصلہ نہیں، بلکہ وہ کسی اور یعنی اسٹیبلشمنٹ کے دبائو کے تحت کررہی ہے جس کا مقصد ان کو اور ان کی سیاست کو دیوار سے لگانا ہے۔ اسی بیانیہ کے تحت اسٹیبلشمنٹ عدلیہ گٹھ جوڑ کو بھی جواز بناکر پیش کیا جارہا ہے۔ اس سوچ میں نوازشریف تنہا نہیں بلکہ اس میں اُن کو اپنے اتحادیوں مولانا فضل الرحمن، حاصل بزنجو اور محمود خان اچکزئی کی حمایت بھی حاصل ہے۔ حکمران طبقے کا مؤقف ہے کہ حالیہ جوڈیشل ایکٹوازم سے عملاً حکومتی امور میں مداخلت کرکے سیاسی نظام کو کمزور کیا جارہا ہے۔ اسی بیانیہ کو بنیاد بناکر اس وقت حکمران طبقات عدالتوں کے خلاف بھی مہم چلا رہے ہیں، بلکہ ایک قدم آگے بڑھ کر یہ بھی کہا جارہا ہے کہ ملک میں عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کے گٹھ جوڑ نے سیاسی نظام کو کمزور کردیا ہے۔ ان کے بقول یہ سب کچھ ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت ہورہا ہے ۔
ہمیں یہ بات سمجھنی ہوگی کہ ریاست اور شہریوں کے درمیان بنیادی حقوق کے تناظر میں ایک معاہدہ ہوتا ہے۔ یہ معاہدہ عملاً دو طرفہ ہوتا ہے، یعنی دونوں کو ایک دوسرے کے مفادات کو تقویت دینی ہوتی ہے۔ 1973ء کے دستور میں بنیادی حقوق کا جو باب ہے، وہ شہریوں کے حقوق کی ضمانت فراہم کرتا ہے۔ بنیادی انسانی حقوق پر جن میں تعلیم، صحت، روزگار، انصاف، تحفظ جیسے مختلف امور شامل ہیں، ریاستی اداروں بشمول عدلیہ کو یہ قانونی حق حاصل ہے کہ وہ اس پر اپنا کردار ادا کرکے حکمرانوں سے جواب طلب کرسکتی ہے۔ جوڈیشل ایکٹوازم پر تنقید ضرور کریں، لیکن پہلے یہ تجزیہ کرنا ہوگا کہ ہمارا حکمرانی کا نظام کس حد تک بنیادی حقوق کے تناظر میں عوام کے مفادات کو پورا کررہا ہے۔
جو کام اس وقت جوڈیشل ایکٹوازم کے تحت عدلیہ نے سنبھالے ہوئے ہیں یہ کس کے کرنے کے کام ہیں؟ اور کیوں حکمرانی کا یہ نظام ان بنیادی حقوق کی فراہمی کو اپنی سیاسی ترجیحات کا حصہ نہ بنا سکا؟ یاد رکھیں جوڈیشل ایکٹوازم اُس وقت اپنی اہمیت کھو دیتا ہے جب ملک میں حکمرانی کا نظام شفافیت سمیت اپنی ساکھ بناتا ہے۔ کیونکہ جہاں نظام درست انداز میں عوام کی ضرورتوں کو پورا کررہا ہوتا ہے وہاں جوڈیشل ایکٹوازم کی گنجائش ہی نہیں ہوتی۔ مسئلہ محض حکمرانی کے نظام میں بنیادی حقوق کے مسائل کا ہی نہیں، بلکہ جس انداز سے ملک میں حکومت، جمہوریت اور پارلیمانی نظام کو چلایا جارہا ہے وہ سب سے بڑا اور توجہ طلب مسئلہ ہے۔ اگر ملک میں حکومت، پارلیمنٹ، انتظامیہ اور ادارے اپنا کام کررہے ہوتے تو آج جو ملک میں عدلیہ کے اقدامات کو عوامی سطح پر مقبولیت مل رہی ہے، وہ نہ مل پاتی۔
پاکستان کو اس وقت داخلی محاذ پر جن سنگین نوعیت کے حکمرانی پر مبنی مسائل کا سامنا ہے اس کا علاج ڈسپرین کی گولی سے ممکن نہیں۔ یقینی طور پر حالات غیر معمولی اقدامات کا تقاضا کرتے ہیں اور عدالتی فعالیت اس سلسلے کی ایک مضبوط شکل نظر آتی ہے۔ کیونکہ عدالتی اقدامات سے کرپشن، بدعنوانی، نااہلی، بدانتظامی اور بنیادی ترجیحات سے انحراف کی جو شکلیں سامنے آرہی ہیں وہ ظاہر کرتی ہیں کہ ہمارا نظام کھوکھلے پن کا شکار ہے۔ عدالتی اقدامات پر چیف جسٹس سمیت ججوں کے بارے میں جو رویہ، طرزعمل اور طور طریقے حکمران طبقات، ان کے اتحادیوں اور حامی اہلِ دانش سے دیکھنے کو مل رہے ہیں ان سے عدالتی سطح پر ردعمل پایا جاتا ہے۔ بہت سے لوگ ججوں کے ریمارکس کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہیں، لیکن کوئی اس پر کچھ نہیں کہتا کہ بیانیہ کے نام پر ججوں، عدلیہ اور اداروں پر تنقید، تضحیک، الزامات اور گٹھ جوڑ کی بیان بازی حکمران طبقے کی جانب سے کی جارہی ہے، وہ کیسے اداروں کو مضبوط بناتی ہے۔
کہا جارہا ہے کہ ہر کام میں عدالت کیوں مداخلت کررہی ہے؟ سوال یہ ہے کہ اگر حکومت سیاسی طور پر سیاسی اداروں کی مدد سے اپنے مسئلے حل کرے تو یہ کام عدلیہ کے پاس کیوں جائیں گے؟ جب حکمران طبقہ خود عدلیہ کو سیاسی فیصلوں میں الجھائے گا تو پھر عدلیہ بھی ایک قدم آگے بڑھ کر سیاسی نظام کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھا کر اپنے آپ کو طاقت ور بنائے گی۔ ماضی میں ہمیں گلہ تھا کہ ہماری عدلیہ نظریہ ضرورت کے تحت چل کر حکمران طبقات کے مفادات کو تقویت دیتی ہے۔ لیکن آج جب عدلیہ فعالیت کے ساتھ کچھ کررہی ہے تو ہمیں اس میں بھی سازشی پہلو نظر آتا ہے۔
یہ سمجھنا ہوگا کہ جب سیاسی حکمران طبقات اپنے حکمرانی کے نظام کی مدد سے نظام میں ایک بڑا خلا یا خلیج پیدا کرتے ہیں تو اس سے نظام کی فعالیت متاثر ہوتی ہے۔ قانون اور جمہوریت کی بات اپنی جگہ، لیکن نظام میں موجود خلا پھر اپنی جگہ خود بناتا ہے۔ یہاں پارلیمنٹ کو یرغمال، کمزور اور لاچار بنادیا گیا ہے اس کی ذمہ داری کس پر ہے؟ مقامی حکومتوں کے نظام کو ایک مصنوعی نظام بناکر مقامی مسائل حل کرنے کے بجائے جو بگاڑ پیدا کیا جارہا ہے اسے حکمران طبقہ اپنی ناکامی کے طور پر قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔ حکمران طبقات کی جانب سے دلیل یہ دی جاتی ہے کہ ملک میں حکمرانی کا نظام شفاف ہے۔ لیکن جب زمینی سطح پر نظام اور اداروں کو دیکھا جائے تو محض ماتم ہی کیا جاسکتا ہے۔ ابھی پچھلے دنوں چیف جسٹس نے صاف پانی کی فراہمی اور تعلیمی پالیسی پر جو چارج شیٹ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو دی ہے اس سے اندازہ ہوسکتا ہے کہ ہمارا حکمرانی کا نظام کہاں کھڑا ہے۔ کیونکہ مسئلہ بنیادی سہولتوں کی فراہمی کا ہے اور اس کو یقینی بناکر ہی یہ ملک حکمرانی کے بحران سے نکل سکتا ہے۔
اس لیے یہ جو ایک طبقہ ملک میں جمہوریت کے کمزور ہونے اور عدلیہ کے بڑھتے ہوئے کردار کو تنقید کا نشانہ بنارہا ہے وہ ذرا ان جمہوری حکمرانوں کی جمہوری کہانی اورحکمرانی کے نظام پر بھی تنقید کرے کہ یہ حالات کیسے پیدا ہوئے اور کیوں جمہوری حکمرانوں نے وہ کام نہیں کیے جو جمہوری نظام کو مضبوط بنانے کا سبب بنتے۔ہمارا حکمران طبقہ ضرور اپنے خلاف ہونے والی سازشوں کا پردہ چاک کرے،لیکن یہ بھی تسلیم کرے کہ جو کچھ ان کے خلاف اِس وقت ہورہا ہے اس کے وہ بھی ذمے دار ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ میں سازشیں ڈھونڈنے سے عوام کے بنیادی حقوق کی ضمانت اور اچھی حکمرانی ممکن نہیں ہوتی۔ اچھی حکمرانی اچھے سیاسی نظام سے جڑی ہوتی ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ حکمران طبقہ سیاسی ماتم تو بہت کررہا ہے لیکن اپنی حکمرانی کے انداز یا طور طریقوں کو بدلنے کے لیے تیار نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عوامی سطح پر عدالتی فعالیت کے خلاف کہیں بھی کوئی بڑا ردعمل نظر نہیں آرہا۔ لوگوں کو محسوس ہورہا ہے کہ اگر عدالت اس فعال انداز میں حکمرانی کے نظام کو چیلنج کرے گی تو اس سے حکومت پر دبائو بڑھے گا کہ وہ اپنی حکمرانی کی بہتر طور پر اور شفاف انداز میں اصلاح کرے۔ کیونکہ اس جوڈیشل ایکٹوازم سے عوام میں یہ احساس مضبوط ہوا ہے کہ احتساب کے عمل کو آگے بڑھائیں تو حکومتوں کو بھی دبائو میں لاکر حکمرانی کے نظام میں موجود خرابیوں کو کم کیا جاسکتا ہے۔ یہ سمجھنا کہ محض انتخابات اور جمہوریت کے تسلسل سے نظام شفاف ہوجائے گا، ممکن نہیں۔ یہ عمل اسی صورت میں ممکن ہوتا ہے جب انتخابات اور جمہوری تسلسل کے ساتھ ساتھ ادارہ جاتی عمل کو خودمختار بناکر افراد کے مقابلے میں اداروں کو مضبوط بنایا جائے تاکہ سب جواب دہ ہوں۔ لیکن اگر اس کے برعکس کوئی ادارہ خود کو بالادست کرکے اپنی برتری ثابت کرنا چاہتا ہے تو اس سے بھی حالات بہتری کی طرف نہیں جائیں گے اور لوگوں کو لگے گا کہ جوڈیشل ایکٹوازم بھی پاپولر سیاست کا شکار ہوگیا ہے۔ اس لیے خود عدلیہ کو بھی یہ سوچنا ہوگا کہ ان کا اصل مقصد اداروں کی اصلاح کرنا اور حکمرانی کے نظام کو شفاف بنانا ہے تاکہ جو لوگ عدالتی فعالیت پر تنقید کررہے ہیں ان کے خدشات کو کم کیا جاسکے۔ ٹکراؤ اس کا علاج نہیں۔ لیکن جو کام اس وقت عدالتی فعالیت اور چیف جسٹس کی مدد سے آگے بڑھ رہا ہے وہ یقینی طور پر عوامی حمایت کی مدد سے نظام کو موثر اور شفاف بنانے اور بنیادی حقوق کی فراہمی میں پہلا قدم ثابت ہوسکتا ہے اور ہمیں اس کی ہر سطح پر حمای