تجارتی خسارے کی وجہ سے مہنگائی میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے

وفاق ہائے صنعت و تجارت پاکستان کے سابق نائب صدر اور سارک ایس ایم ای کے وائس چیئرمین چودھری سجاد سرور سے انٹرویو
فرائیڈے اسپیشل: آپ وفاق ہائے صنعت و تجارت پاکستان چیمبر کے نائب صدر رہے ہیں اور اِس وقت سارک ایس ایم ای چیمبر کے وائس چیئرمین ہیں، یہ بتائیے کہ اس خطہ میں پاکستان کے لیے اپنی معیشت بہتر بنانے کا کس قدر امکان ہے اور ہمیں کیا کرنا ہوگا؟
چودھری سجاد سرور: اس خطہ میں ایک بڑی تبدیلی آرہی ہے بلکہ یہ کہنا مناسب ہوگا کہ تبدیلی آچکی ہے۔ اس خطہ میں روس اور چین دو بڑی قوتیں مستقبل میں معاشی میدان میں بہت بڑا رول ادا کرنے والی ہیں۔ چین سی پیک کے ذریعے میدانِ عمل میں ہے اور اس خطہ میں بجلی اور گیس کی ضروریات کے لیے خطہ کے ممالک کا بہترین ذریعہ بن رہا ہے۔ ترقی کے لیے وسائل‘ سڑکیں، بجلی اور گیس کے علاوہ افرادی قوت بنیادی اہمیت کی حامل ہے۔ یہ سب عوامل اس خطہ میں موجود ہیں اور پاکستان کے لیے بہترین موقع ہے کہ وہ اپنے قومی مفادات کا تحفظ کرتے ہوئے جو بھی ترقی کے مواقع اس خطہ میں موجود ہیں ان سے فائدہ اٹھائے۔ میرا خیال ہے ہماری حکومت اس جانب پیش رفت کر بھی رہی ہے۔ ابھی حال ہی میں روس کی دعوت پر پاکستان کی قومی سلامتی کے مشیر نے روس کا دورہ کیا ہے۔ یہ دورہ بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ دورے کی دعوت روسی سلامتی کونسل کے سیکرٹری نکولائی پاتروشیو نے دی۔ پہلی بار دونوں ممالک کے بین الوزارتی وفود نے دوطرفہ دورے کیے۔ پاکستان اور روس کے مابین اعلیٰ سطح پر مذاکرات کا اہم دور ہوا۔ پاکستانی وفد میں دفاع، داخلہ، دفاعی پیداوار کی وزارتوں کے حکام شامل تھے۔ سپارکو، قومی سلامتی ڈویژن، انٹیلی جنس حکام بھی وفد کا حصہ تھے۔ اسی طرح روسی وفد میں برّی فورسز، سیکورٹی کونسل، داخلہ کے اعلیٰ حکام شامل تھے۔ دفاعی پیداوار، ٹیکنالوجی، خلائی سائنس سے متعلق اعلیٰ حکام بھی وفد کا حصہ تھے۔ ہمارے مشیر سلامتی امور ناصر جنجوعہ نے عالمی سیکورٹی چیلنجز کے پیرائے میں خطہ کی صورت حال پر گفتگو کی۔ پاک، روس مشترکہ مواقع، ربط و تعاون پر بھی گفتگو ہوئی ہے، تجارتی و اقتصادی شراکت داری پر بھی تفصیلی غور کیا گیا۔ خلائی سائنس، دفاع، سلامتی، سائبر سیکورٹی اور انٹیلی جنس امور پر تعاون سے متعلق گفت و شنیدکی گئی۔ پاکستان اور روس کے مشیرانِ قومی سلامتی کے مابین ون آن ون ملاقات بھی ہوئی۔ دوطرفہ، کثیرالجہتی تعلقات کے فروغ پر اتفاق پایا گیا۔ شنگھائی تعاون تنظیم، اقوام متحدہ میں پاک، روس مشترکہ لائحہ عمل پر بھی اتفاق رائے پایا گیا۔ خطے میں امن و سلامتی کے لیے مل کر کام کرنے پر یکساں مؤقف سامنے آیا۔ پاکستان اور روس کے درمیان وفود کی سطح پر مذاکرات ہوئے جن میں علاقائی صورت حال، عالمی سطح پر درپیش سیکورٹی چیلنجز اور معلوماتی تبادلے سمیت دیگر شعبوں میں قریبی تعاون پر بات چیت کی گئی۔ یہ بہت اہم پیش رفت ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: آپ معیشت سے متعلق ایک ذمہ دار فورم کی کمیٹی کے وائس چیئرمین ہیں، یہ بتائیے کہ حکومت کے لیے بجٹ پیش کرنا، جب کہ وہ محض ایک ماہ کی مہمان ہے، کس قدر لازمی اور جائز ہے؟ ایک تجویز یہ ہے کہ تین ماہ کا بجٹ ہی پیش کیا جائے۔ ایک ماہرِ معیشت کے طور پر آپ کی رائے کیا ہے؟
چودھری سجاد سرور: وفاقی حکومت نے بجٹ 2018-19ء کی تیاریاں مکمل کرلیں اور اسے 27 اپریل کو قومی اسمبلی میں پیش کیا جائے گا۔ ہماری معلومات کے مطابق آئندہ بجٹ کا کُل حجم 55 کھرب روپے سے زیادہ ہوگا۔ یہ بات درست ہے کہ موجودہ حکومتوں کی آئینی مدت اوائل جون میں ختم ہوجائے گی جس کے ساٹھ دن بعد عام انتخابات ہوں گے۔ اب صورتِ حال یہ ہے کہ نئی منتحب حکومتوں کی تشکیل ہوتے ہوتے نصف اگست گزر چکا ہوگا، جبکہ مالی سال 30 جون کو ختم ہوجاتا ہے۔ روایت کے مطابق وفاقی اور صوبائی بجٹ جون میں منظور ہوکر یکم جولائی سے نافذالعمل ہوجاتے ہیں۔ حکومتوں کی آئینی مدت مئی میں پوری ہوکر جون میں نگران حکومتیں قائم ہوچکی ہوں گی، اس لیے بجٹ تیارکرنا لازمی ہے اور ان حکومتوں کی ہی آئینی ذمہ داری بھی ہے جو گزشتہ پانچ سال تک وفاق اور صوبوں میں اقتدار میں تھیں۔ ایک خیال ہے کہ پنجاب حکومت نے بجٹ تیار کرلیا ہے، وہ اسے پیش کرنے کے حوالے سے تذبذب کا شکار ہے اور چاہتی ہے کہ اسے نگران حکومت پیش کرے۔ کے پی کے حکومت نے تو صاف کہہ دیا ہے کہ وہ بجٹ پیش نہیں کرے گی۔ ابھی تک بجٹ کے حوالے سے دوسرے صوبوں کا مؤقف معلوم نہیں ہوسکا، لیکن یہ بھی کہا جارہا ہے کہ بجٹ جیسی اہم ذمہ داری نگران حکومت پر نہیں چھوڑی جا سکتی، موجودہ حکومتیں بجٹ ضرور پیش کریں۔ اگر کوئی دوسری پارٹی اقتدار میں آتی ہے تو وہ اپنے منشور کی روشنی اور ترجیحات کے تقاضوں کے مطابق بجٹ پر نظرثانی کرسکتی ہے۔ دوسرا یہ کہ بجٹ ایک ایسی دستاویز ہے جس پر عوام کے منتخب نمائندوں کو ہی کھل کر بحث کرنی چاہیے، نگران حکومتیں خواہ کتنے ہی قابل اور ماہرینِ مالیات و معاشیات پر مشتمل ہوں، وہ ایک آئینی ضرورت ضرور ہیں، لیکن وہ عوام کا حقِ نیابت کماحقہٗ ادا نہیں کرسکتیں، اس لیے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو اس اہم ترین ذمہ داری سے پہلوتہی نہیں کرنی چاہیے۔
فرائیڈے اسپیشل: ہمارا خطہ اس وقت بہت سی تبدیلیوں سے گزر رہا ہے۔ چین اور امریکہ کے مابین تجارتی جنگ، اور اس خطہ میں معاشی صورتِ حال کے پس منظر میں بتائیے کہ عالمی تجارتی جنگ میں پاکستان کی حیثیت کیا ہے؟
چودھری سجاد سرور: چین اور امریکہ کے درمیان جاری تجارتی جنگ کی وجہ سے ترقی پذیر ممالک کی پیداواری لاگت میں اضافہ ہوسکتا ہے، اور یہ خام مال کی قیمتوں میں اضافے کا سبب ہوگا۔ اس سے افراطِ زر اور عالمی معیشت کو زبردست خطرات لاحق ہیں، اور ترقی پذیر ممالک بہت زیادہ متاثر ہوسکتے ہیں، یہاں تک کہ ان ممالک میں کم اُجرت پر کام کرنے والے کارکن روزگار سے محروم ہوسکتے ہیں۔ امریکہ میں کم اُجرتی کارکنا ن بھی اس کے منفی اثرات کی زد میں آسکتے ہیں۔ یورپ اور برطانیہ کے تجارتی ادارے جو شراکتی بنیادوں پر تجارت کررہے ہیں اُن کے مابین تجارتی تعلقات سردمہری کا شکار ہونے کا اندیشہ ہے۔ چین اور امریکہ تجارت مزید ترقی یافتہ معیشتوں کے لیے تجارتی ہمواری کا سبب ہوگی۔ پاکستان کے لیے اچھی خبر ہوگی جب پاکستان لوہا، اسٹیل اور ایلومینیم کے لیے خام مال چین اور امریکہ سے درآمد کرے گا۔ اس سے ہماری پیداواری لاگت میں کمی ممکن ہوسکے گی۔ پاکستان اپنی تجارتی اور صنعتی پالیسی کا ازسرنو جائزہ لے کر ترجیحی بنیادوں پر خصوصی مراعات کا اعلان کرے اور غیر ضروری رکاوٹیں ختم کرے، تاکہ صارفین کا اعتماد بحال ہوسکے۔ اس تجارتی جنگ کا سب سے بڑا خطرہ تحفظ ہے جس سے عالمی تجارت میں اس کا حصہ محدود ہوتا جاتا ہے، جس کا سب سے زیادہ نقصان صارف کو ہوتا ہے۔ اس عالمی تجارتی جنگ میں پاکستان کے پاس مربوط فراہمی کا نظام ہو یا نہ ہو، ہم چین پاکستان راہداری سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ پاکستان کو اقتصادی مشکلات سے زیادہ جغرافیائی سیاست کے ابتر حالات سے دشواریاں ہیں، جس میں بہتر صورتِ حال پیدا کرنے میں ہماری اعلیٰ مستند سفارت کاری اہم کردار ادا کر سکتی ہے، کیونکہ ایک طرف امریکہ، دوسری جانب چین ہے، اس لیے پاکستان کو انتہائی باریک بینی سے حکمت عملی مرتب کرنا ہوگی۔ پاکستان میں کاروباری نوعیت تبدیل ہورہی ہے، ہمارے کاروباری ادارے عالمی سطح پر کاروبارکرنے والے اداروں کا حصہ بن رہے ہیں۔ عالمی معاہدات اور پسندیدہ اقوام کی حیثیت دیئے جانے والے ترقی پذیر ممالک اس سے مستفید ہوسکتے ہیں جیسے ہماری ٹیکسٹائل یورپ کی منڈیوں تک رسائی حاصل کررہی ہے۔ چین اور امریکہ کے مابین بڑھتی ہوئی تجارتی جنگ کا نقصان اشیاء پیدا کرنے والے اور صارفین دونوں کو ہوسکتا ہے۔ پاکستان بین الاقوامی تجارت سے فائدہ اٹھا سکتا ہے اگر اپنی پیداوار ی لاگت کم کرکے معیار کو بہتر بنائے۔ پاکستان مینجمنٹ کو بہتر کرکے انسانی وسائل کی بہتر تربیت سے اقتصادیات میں پائیدار ترقی کی طرف گامزن ہوسکتا ہے۔
فرائیڈے اسپیشل:سی پیک پاکستان کے لیے کس طرح گیم چینجر ثابت ہوگا؟
چودھری سجاد سرور: سب سے پہلی بات یہ کہ فیڈریشن کی مضبوطی کے لیے تمام صوبوں کو مل کر کام کرنا ہوگا۔ سی پیک نہ صرف پاکستان بلکہ پورے خطے کے لیے گیم چینجر ثابت ہوگا۔ ملکی و غیر ملکی سرمایہ کار گوادر میں سرمایہ کاری کررہے ہیں اور وہ دن دور نہیں جب بلوچستان تجارتی سرگرمیوں کا مرکز ہوگا۔ موجودہ حکومت نے پاکستان کو ترقی کی شاہراہ پر ڈال دیا ہے، تنقید کرنے والے دیکھیں کہ آج بلوچستان میں درجنوں غیر ملکی کمپنیاں کھربوں روپے کی سرمایہ کاری کررہی ہیں جو حکومت کی کارکردگی پر اعتماد کا مظہر ہے۔ اس وقت پوری دنیا پاکستان کی طرف دیکھ رہی ہے اور وہ وقت دور نہیں جب سی پیک کے ثمرات نہ صرف پاکستان بلکہ خطے کے دیگر ممالک تک پہنچیں گے۔ بلوچستان میں جاری ترقیاتی منصوبوں کی جلد تکمیل سے وہاں پسماندگی کا خاتمہ ہوگا اور عوام کی خوشحالی کا نیا دور شروع ہوگا۔ مایوسی کے بجائے ہمیں مثبت سوچ کے ساتھ آگے بڑھتے ہوئے مسائل پر قابو پانا چاہیے۔ سی پیک سے نہ صرف پاکستان بلکہ پورے خطے میں معاشی ترقی و خوشحالی آئے گی۔ اس منصوبے کے تحت انرجی، انفرااسٹرکچر اور دیگر ترقیاتی کام شروع کیے گئے ہیں۔ قیام پاکستان کے بعد سی پیک کی صورت میں ترقی کرنے کا بڑا موقع میسر آیا ہے، اس منصوبے کی کامیابی کے لیے ہر کسی کو اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔
فرائیڈے اسپیشل: کیا یہ بات درست ہے کہ تجارتی خسارے میں روز بہ روز اضافے کی وجہ سے ملک معاشی طور پر مفلوج ہورہا ہے؟
چودھری سجاد سرور: تجارتی خسارہ 28 ارب ڈالر تک پہنچ گیا، جس کی وجہ سے ملک میں مہنگائی میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔ تجارتی خسارے کا تشویش ناک حد تک بڑھنا اچھی بات نہیں ہے۔ پاکستانی روپے کو مستحکم رکھنے کے لیے متوازن، پائیدار اور زمینی حقائق سے مطابقت رکھنے والی معاشی پالیسیاں ناگزیر ہیں جن کی تشکیل کے لیے حکومت کو نجی شعبے کو اعتماد میں لینا ہوگا۔ روپے کی قدر میں کمی سے وقتی طور پر ڈالر کی قیمت مستحکم ہوئی ہے، اگر درآمدات اور برآمدات میں بڑھتے ہوئے فرق اور ملکی معاملات کو چلانے کے لیے نئے قرضوں کے حصول کا سلسلہ جاری رہا تو ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں موجودہ استحکام وقتی ثابت ہوگا۔