پانی اور نکاسی آب کے ’’نامکمل‘‘ منصوبے

’’کاغذات میں سندھ میں ہونے والی ’’ترقی‘‘ کا حکومتی اعتراف!‘‘
صوبہ سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت کو اقتدار میں آئے ایک عشرے سے زائد بیت چکا ہے لیکن سندھ جو پیپلز پارٹی کی سیاست کا اصل محور و مرکز ہے، اس کی ناگفتہ بہ حالت سے صاف عیاں ہوتا ہے کہ پیپلز پارٹی کی قیادت نے اپنے ووٹرز کو بدلے میں صرف اور صرف مایوسی اور نااُمیدی ہی سے نوازا ہے۔ بدھ 18 اپریل 2018ء کو روزنامہ ’’کاوش‘‘ حیدرآباد میں اس حوالے سےامجد پلیجو کے شائع ہونے والےکالم کا ترجمہ پیش خدمت ہے۔
………٭٭٭………
اس ملک کے کرپٹ سیاست دان عوام کے دیے گئے ٹیکسوں کے پیسوں سے کروڑوں روپے جلسے جلوسوں پر خرچ کرکے جلسوں میں محض باتیں کیا کرتے ہیں کہ ’’طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں‘‘۔ یہ عوام روز بروز لاچار، بدحال اور دو وقت کے کھانے اور روزگار کے لیے پریشان ہیں۔ صوبہ سندھ اپنا شاندار اور خوشحال ماضی رکھتا ہے لیکن آج اس صوبے کی صورتِ حال جنگی حالات میں مبتلا کسی ملک سے کم ہرگز نہیں ہے، تاہم وزیراعلیٰ سندھ موصوف بیان دے رہے ہیں کہ ’’سارے سندھ میں بلاامتیاز ترقیاتی کام کروائے جارہے ہیں۔ آنے والے دنوں میں سندھ کے عوام کو صاف پانی فراہم کرنے کے لیے اقدامات کررہے ہیں‘‘۔ مزید یہ کہ ’’تھر کا شمار بڑے شہروں میں بہتر طور پر دکھائی دے گا‘‘۔ حال ہی میں حکومتِ سندھ نے پانی فراہم کرنے والے کیس میں سپریم کورٹ میں اپنی جمع کردہ رپورٹ میں اعتراف کیا ہے کہ سندھ کے مختلف اضلاع کے لیے پانی اور نکاسی آب کے منصوبے بجٹ مختص کرنے کے باوجود تاحال تاخیر کا شکار ہیں۔ ان منصوبوں میں دیہی سندھ کے منصوبے بھی شامل ہیں، جس کے مطابق جاری مالی سال 2017-18ء کے دوران سندھ کے ترقیاتی بجٹ میں واٹر سپلائی اور سیوریج کے کُل 381 منصوبے شامل کیے گئے ہیں اور ان کے لیے 28 ارب 75 کروڑ 93 لاکھ روپے رکھے گئے ہیں۔ اسی طرح سے شہروں کی سیوریج اور ٹریٹمنٹ کے 87 منصوبوں کے لیے 87 ارب 44 کروڑ 62 لاکھ روپے رکھے گئے۔ رپورٹ میں مختلف برسوں میں رکھی گئی اسکیموں کے بارے میں بھی حکومتِ سندھ نے اعتراف کیا ہے کہ حکومتِ سندھ کے اندر پانی اور ڈرینج کے کئی ایسے منصوبے ہیں جو برس ہا برس سے نہ صرف بجٹ بک میں شامل نہیں ہیں بلکہ تاحال مکمل بھی نہیں ہوپائے ہیں۔ آئیے سندھ سرکار کے دعووں، منظور کردہ اسکیموں اور ان کی تکمیل پر نظر ڈالیں۔ یہ اعداد و شمار خود سندھ سرکار کی جانب سے تازہ صاف پانی والے کیس میں سپریم کورٹ میں جمع کرائے گئے ہیں۔
ان منصوبوں میں جوہی شہر کی ڈرینج اسکیم پر مبنی منصوبہ 2013ء میں منظور کیا گیا تھا، لیکن تاحال اس کی تکمیل ممکن نہیں ہوسکی۔ اسی طرح گھوٹکی شہر کی ڈرینج اسکیم 2014ء، میرپور ماتھیلو کی ڈرینج اسکیم 2014ء، ڈھرکی کی واٹر سپلائی اسکیم 2013ء، قاسم آباد حیدرآباد کی سیوریج اسکیم 2015ء، ٹھل کی اربن واٹر سپلائی اسکیم 2011ء، شہداد کوٹ کی ڈرینج اسکیم 2012ء، میرو خان ٹائون کی ڈرینج اسکیم 2014ء، قنبر کے مختلف گوٹھوں کو ڈرینج دینے والی اسکیم 2012ء، بلدیہ ٹائون کراچی کے یوسف گوٹھ اور دائود گوٹھ کی ڈرینج کی اسکیم 2010ء اور مواچھ گوٹھ کراچی کی ڈرینج اسکیم دینے کا منصوبہ 2012ء، رتوڈیرو کے مختلف گوٹھوں میں سی سی نالیوں کی تعمیر پر مبنی اسکیم 2012ء، میرپور خاص میں سیوریج لائن قائم کرنے کی اسکیم 2013ء، نواب شاہ کی دیہہ 89 میں واٹر سپلائی اسکیم 2012ء، شہید بے نظیر بھٹو ضلع کے مختلف علاقوں کی واٹر سپلائی اور ڈرینج اسکیمیں دینے کا منصوبہ 2014ء، جھول شہر کو واٹر سپلائی کی اسکیم 2013ء، شہدادپور شہر کو واٹر سپلائی بہتر کرنے کے لیے فلٹر پلانٹ لگانے کی اسکیم 2010ء، سانگھڑ میں ڈرینج اسکیم 2009ء میں منظور کی گئی تھیں، لیکن یہ منصوبے تاحال پایۂ تکمیل کو نہیں پہنچ سکے ہیں۔ نصرپور کی واٹر سپلائی اسکیم 2013ء میں، میرپور ساکرو کی ڈرینج اسکیم 2012ء میں منظور کی گئیں اور بجٹ میں ہر سال ان کے لیے کروڑوں روپے رکھے گئے، لیکن یہ منصوبے پھر بھی اِس وقت تک تعطل کا شکار ہیں۔ ان منصوبوں میں دادو شہر کے ڈرینج نظام کو بہتر بنانے کی اسکیم 2008ء، گھوٹکی شہر کی اسکیم 2014ء، گڑھی خیرو کی ڈرینج اسکیم 2015ء، کشمور ٹائون انڈر گرائونڈ سسٹم اسکیم 2015ء میں دی گئی تھیں، تاہم ان سمیت مذکورہ بالا تمام اسکیمیں اور منصوبے پیپلز پارٹی اور سندھ حکومت کی مبینہ اقربا پروری اور کرپشن کی وجہ سے اتنے سال گزرنے کے باوجود مکمل نہیں ہوسکے ہیں۔
حکمرانی دراصل اداروں کی مجموعی کارکردگی کا نام ہے، اور سندھ کے عوام کو کس قسم کی حکمرانی میسر ہے اس کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ جہاں سندھ کے نوجوان بے روزگاری سے تنگ آکر خودکشی پر مجبور ہوں، جہاں میرٹ کی پامالی ہو، جہاں ثمینہ سندھو جیسی فنکارہ کو سرِعام قتل کیا گیا ہو، جہاں تعلیم، صحت، پانی اور بنیادی سہولیات غریب عوام کے لیے نایاب ہوں، جہاں بنگالیوں، برمیوں، افغانیوں اور دوسرے غیروں کو رشوت کے عوض شناختی کارڈ جاری کیے جاتے ہوں، جہاں سندھ حکومت اغیار کی آبادگاری پر خاموش تماشائی بنی ہوئی ہو، جہاں عوام کو صنعتوں کا زہریلا، ہسپتالوں کی گندگی اور انسانی غلاظت اور گٹر کا پانی پلایا جائے، اور جب ایسے عمل کے خلاف آواز بلند کی جائے تو حکمرانوں کو یہ جمہوریت کے خلاف سازش دکھائی دے… ایسی صورتِ حال سندھ میں ’’اچھی حکمرانی‘‘ کی بھرپور گواہی دے رہی ہے۔ پانی بنیادی حق ہے، اور جب عدلیہ بنیادی انسانی حقوق کے معاملات پر متحرک ہوتی ہے تو کہا جاتا ہے کہ ’’جج ماسوائے انصاف کے دیگر سارے امور سرانجام دے رہے ہیں، ان کا بیشتر دھیان سیاسی معاملات پر مرکوز ہے‘‘۔ سندھ کے حکمران عوام کو گندا اور آلودہ پانی پلانے کی کارکردگی کا نوٹس لینے اور اس پر متحرک ہونے کو سیاسی معاملہ سمجھتے ہیں۔ ان کی نظر میں صاف پانی کی فراہمی انسانی حقوق کا معاملہ نہیں ہے۔ وہ اسے انسانی حقوق کا معاملہ تو تب سمجھیں گے جب وہ اہلِ سندھ کو انسان تصور کریں گے۔
آئین کی شق نمبر 37 کے مطابق ’’سماجی انصاف کو ترقی دینے اور سماجی برائیوں کا جڑ سے خاتمہ‘‘، نیز شق نمبر 38 کے مطابق ’’لوگوں کی سماجی اور اقتصادی خوشحالی میں اضافہ‘‘ آئینی طور پر عوام کا انسانی بنیادی حق ہے، جو عملی طور پر مہیا کرکے دیا جانا ہے تاکہ عوام سیاسی، سماجی اور اقتصادی طور پر زندگی گزار سکیں۔ کسی فرد کو عدالتی مرحلے سے گزارنے کے بجائے اسے سزا دینے کا کام بھی اگر گرفتار کرنے والے خود انجام دیں تو پھر عدالتوں کا کام ہی پیچھے کیا باقی رہ جاتا ہے! یہ تسلیم کہ کراچی شہر میں امن وامان کی صورت حال گزشتہ کچھ عرصے میں بہتر ہوئی ہے، لیکن قبل ازیں دہشت گردوں کو کس کی پشت پناہی حاصل تھی اور انہیں اتنی زیادہ چھوٹ کیوں ملی ہوئی تھی؟ جب تک اس نظام کو صحیح طور سے بہتر نہیں بنایا جاتا، جب تک قانون سب کے لیے برابر نہیں ہوجاتا، اُس وقت تک اہلِ سندھ ایسی ناانصافیاں بھگتنے پر مجبور ہوں گے، پھر وہ ناانصافیاں چاہے مرکزی حکومت کی طرف سے ہوتی ہوں یا صوبائی حکومت اپنی کارکردگی دکھانے میں ناکام ثابت ہورہی ہو۔ 10 برس کا عرصہ بہت بڑا عرصہ ہوا کرتا ہے، اس 10 برس میں پیپلز پارٹی لگاتار اقتدار میں رہی ہے، جس کے دوران اگر واقعتا کارکردگی دکھائی جاتی تو اِس وقت تک سندھ چمکتا دمکتا اور خوشحال دکھائی دیتا۔ لیکن جب وہ (حکمران) دیکھ رہے ہیں کہ انہیں کوئی چیلنج ہی درپیش نہیں، تو آخر وہ کارکردگی کیوں دکھائیں؟‘‘