آج سیاست سے ہٹ کر تحقیقی المیے کی طرف توجہ مبذول کروانا چاہتا ہوں، اور خاص طور پر ایک نوجوان شاہد حنیف نے اس ضمن میں جو کارہائے نمایاں انجام دیئے ہیں، اس کی تفصیل بھی پیشِ خدمت ہے، مگر کیا ہی اچھا ہو کہ برادرم عرفان صدیقی جو علم و ادب کے تمام سرکاری اداروں کے نگران وزیر ہیں، وہ اس کام کی اہمیت کے پیش نظر خود بھی خصوصی دلچسپی لیں تاکہ علمی و ادبی یا تاریخی اور سیاسی میدان میں محقیقن کے لیے آسانیاں پیدا ہوسکیں۔
وطنِ عزیز کے مجموعی حالات کے پیشِ نظر جب کبھی کسی بہت اچھے کام کے بارے میں آگاہی ہوتی ہے تو بہت خوشی ہوتی ہے اور دل سے دعائیں بھی نکلتی ہیں۔
کسی بھی ملک و قوم کی ترقی کا راز جن چیزوں میں پنہاں ہوتا ہے، اُن میں اہم ترین چیز تحقیق ہے۔ تحقیق کے ذریعے ہی زندگی کے ہر شعبے میں ترقی کی جاسکتی ہے۔ تحقیق ہی وہ لوازمہ ہے جس کا مقصد نامعلوم حقائق کی تلاش کے علاوہ معلوم حقائق کی توسیع یا ان کی خامیوں کی نشاندہی کے ساتھ ساتھ ان خامیوں کی تصحیح ہے۔ تحقیق اور علم کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔
زندگی کے ہر شعبے کے لیے سب سے بنیادی چیز تحقیق ہوتی ہے، اور کسی بھی تحقیق کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ اپنے شعبے کے اس موضوع کے حوالے سے تاریخ میں اس پر کتنا کام ہوچکا ہے۔ اس حوالے سے علمی دنیا میں جو اصطلاح استعمال کی جاتی ہے اُس کو اشاریہ (Index) کا نام دیا جاتا ہے۔
تاریخِ اسلام پر نظر ڈالیے تو پتا چلتا ہے کہ اشاریہ سازی کا یہ تحقیقی کام ائمہ، فقہا اور علمائِ کرام ایک مقدس دینی و قومی فریضہ سمجھ کر کرتے تھے، اور مسلمان محققین کی ان موضوعات پر ضخیم جلدیں اس ذوقِ علم کا نتیجہ ہیں جس میں ابن ندیم کی ’’الفہرست‘‘ شامل ہے، اس کے علاوہ ’’کشف الطنون‘‘ بھی نمایاں مثال ہے۔ مزید برآں ماضیِ قریب میں ڈاکٹر مولوی عبدالحق کا ایک پورا سلسلہ جو کہ کئی جلدوں پر مشتمل ہے، ’’قاموس الکتب‘‘ کے نام سے آج بھی اہلِ علم و قلم کی رہنمائی کا فریضہ سرانجام دے رہا ہے۔
کسی محقق کے لیے ممکن نہیں ہے کہ وہ اپنے موضوع سے متعلقہ اشاریہ و کتابیات یا رسائل و جرائد کے اشاریوں سے دور رہتے ہوئے اپنی تحقیق کو صحیح انداز میں مکمل کرسکے۔ ہر محقق کو اپنی تصنیف یا تھیسس کے لیے اس بات کا شدت سے احساس ہوتا ہے کہ اس کے متعلقہ موضوع پر کوئی کتابیات یا رسائل و جرائد کے اشاریے دستیاب ہوجائیں، اس طرح اُس کا نصف سے زائد کام مکمل ہوجاتا ہے۔ اشاریوں کی موجودگی میں محقق سینکڑوں رسائل و اخبارات کے ہزاروں صفحات کی ورق گردانی سے بچ جاتا ہے اور اپنا قیمتی وقت اپنے تحقیقی کام میں صرف کرسکتا ہے۔
رسائل و جرائد اور اخبارات میں شائع شدہ مواد کی اہمیت اکثر اوقات کتابوں سے بڑھ کر ثابت ہوتی ہے۔ دُنیائے تحقیق میں رسائل کے مضامین ایک سنگِ میل ثابت ہوتے ہیں جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ رسائل اپنے اپنے دور کی تاریخ، ثقافت، سیاست و معاشرت اور تہذیب و تمدن کے حوالے سے بنیادی معلومات فراہم کرتے ہیں۔ ان میں شائع شدہ نگارشات و مقالات اس دور کی زندگی کا اصل آئینہ ہوتے ہیں، یہ ایک موضوع پر کئی اشخاص کی تحریروں کو پیش کرتے ہیں جس سے اس موضوع پر مختلف نقطہ ہائے نظر سے آگاہی ہوجاتی ہے۔ حال اور مستقبل میں لکھی جانے والی ’’تاریخ‘‘ میں ان رسائل و جرائد اور اخبارات میں شائع شدہ مواد ہی مؤرخ کی سب سے بہتر رہنمائی کرے گا۔ لیکن کسی محقق یا مؤرخ کے لیے ان رسائل تک رسائی، اس کے بعد ان کے مکمل شماروں تک رسائی اور اُس کے بعد ان میں ہزاروں اہلِِ علم کی تحریروں کو دیکھنا ’’ناممکن ہوگا‘‘ …اس کا واحد حل ان رسائل کے اشاریوں کی ترتیب و تدوین اور ان رسائل کے ریکارڈ کی کمپیوٹرائزیشن ہے۔
اس تحقیقی و علمی کام کے سلسلے میں پاکستان میں ابھی تک جو نام نمایاں طور پر سامنے آرہا ہے وہ شاہد حنیف کا ہے، جنھوں نے اشاریہ سازی کے حوالے سے خداداد صلاحیتوں سے بہت سے رسائل کے اشاریے بناکر اس میدان میں اپنی محنت کا سکہ جمایا ہے۔ کسی بھی ’’اشاریہ ساز‘‘ کے لیے قدیم و جدید رسائل (جن کے شمارے ملنا ہی اب انتہائی مشکل اَمر ہے) کو تلاش کرکے اُن کی اشاریہ سازی کے بعد اہلِ علم و تحقیق کے لیے پیش کرنا انتہائی کٹھن کام ہے۔ لیکن شاہد حنیف بفضلِ تعالیٰ اب تک پچاس سے زائد رسائل کے اشاریے مرتب کرچکے ہیں جن میں سے چند کے نام یہ ہیں: ماہنامہ محدث، ماہنامہ الحق، ماہنامہ حرمین، ماہنامہ القاسم، ماہنامہ نقیب ختم نبوت، ماہنامہ برہان، ماہنامہ ثقافت، ماہنامہ المعارف، سہ ماہی پیغامِ آشنا، ماہنامہ الرحیمالولی، ماہنامہ فقہ اسلامی، مجلہ الثقافۃ الاسلامیہ، سہ ماہی معاصر، ماہنامہ حق چاریار…وغیرہ
اُن کا حالیہ کارنامہ اہلِ پاکستان کے لیے بالعموم اور اہلِ سندھ کے لیے بالخصوص علمی تحفہ ہے، جس میں اُنھوں نے سندھ سے شائع ہونے والے دو علمی رسائل ’’الرحیم‘‘ اور ’’الولی‘‘ کا اشاریہ مرتب کرنے کے علاوہ اُس میں شائع شدہ علامہ غلام مصطفی قاسمی کے مقالات کو ترتیب و تدوین کے بعد دو کتابیں بعنوان ’’امام شاہ ولی اللہ‘‘ اور ’’مولانا عبیداللہ سندھی و دیگر شخصیات‘‘ مرتب کی ہیں جس سے ان علمی رسائل کے نادرو نایاب مقالات اہلِ علم کے لیے عام ہوگئے ہیں۔
مزید برآں شاہد حنیف نے سندھ یونیورسٹی کے شعبۂ اُردو کے تین قدیم و جدید اَدبی مجلات ’’صریر خامہ‘‘، ’’پرکھ‘‘ اور ’’تحقیق‘‘ کے خصوصی نمبروں اور دیگر شماروں کا نئے انداز میں تعارف و اشاریہ بناکر تحقیق کے نئے گوشے وا کردیے ہیں۔ ان رسالوں میں ان کے عام شماروں کے علاوہ ان کے خاص نمبر مثلاً قصیدہ نمبر، نعت نمبر، پاکستانی اَدب نمبر، اقبال نمبر، مکتوبات نمبر وغیرہ شامل ہیں۔ ان شماروں اور خاص نمبروں کے اشاریوں سے ان رسالوں کو نئی زندگی ملی ہے۔ وگرنہ یہ رسائل لائبریریوں میں دفن ہوچکے ہیں اور ان سے استفادہ کی کوئی صورت باقی نہ رہی تھی۔
شاہد حنیف مبارک باد کے حق دار ہیں جنھوں نے ان رسالوں کو بازیافت کرنے کے بعد ان کے اشاریے ترتیب دے کر دنیائے تحقیق کو عظیم علمی تحفہ دیا ہے۔
کسی محقق کے لیے قدیم رسائل کے متعلقہ شمارے جمع کرنا ہی ایک بہت بڑا کارنامہ ہوتا ہے، اور خاص کر وہ رسائل جنہیں بند ہوئے کئی سال بیت چکے ہیں اور متعلقہ اداروں میں بھی اُن کی فائل مکمل دستیاب نہیں ہیں، جس کی مثالیں آپ کو لائبریریوں میں اکثر مل جائیں گی۔ پاکستان کی لائبریریوں کی زبوں حالی پر ایک مکمل فیچر کی ضرورت ہے۔ پاکستان کی کوئی بھی یونیورسٹی شاہد حنیف کے رسائل و جرائد کے حوالے کیے گئے کام اور اُن کی اشاریہ سازی پر مثال دینے سے قاصر ہے۔ دُعا ہے کہ خدائے بزرگ و برتر فاضل مرتب کے کام اور صلاحیتوں میں مزید اضافہ فرمائے۔
پاکستان کے علمی و اَدبی اداروں کے موجودہ ذمہ دار اور نگران جناب عرفان صدیقی سے گزارش ہے کہ اس کام میں خصوصی دلچسپی لیتے ہوئے پاکستان کے نامور تاریخی، اَدبی و تحقیقی رسائل سیارہ، اُردو ڈائجسٹ، فاران، چراغِ راہ، فنون، اوراق، نگار، نگارِ پاکستان، اَدبی دُنیا، سائنس ڈائجسٹ، سائنس میگزین، مخزن، نقوش، ماہِ نو، قومی زبان… وغیرہ کی جدید انداز میں اشاریہ سازی کرواتے ہوئے ان تاریخی رسائل میں دفن شدہ ہزاروں ادیبوں و دانش وروں کے علمی و تحقیقی خزائن سے استفادے کی سائنٹفک صورت بنوائیں۔
بہ شکریہ : نوائیے وقت۔۔لاہور
30مارچ2018