اقبالیات 2017 ء نئی کتابوں کا تعارف

دوسری اور آخری قسط
6۔تشریحات
علامہ کے اردو کلام کی بہت سی شرحیں لکھی گئی ہیں۔ یوسف سلیم چشتی کے ہاں بعض ناہمواریوں کے سبب مزید شرحوں کی گنجائش نکلی۔ یوسف مثالی کی’’شرح کلیات ِ اقبال اردو‘‘ میں متن کے بعد ’’الفاظ ومعانی‘‘، پھر عنوان ہے: ’’ترجمہ وتشریح‘‘۔ اردو کلام کی وضاحت اور شرح کو’’ترجمہ‘‘ کہنا مضحکہ خیز ہے۔ شارح نے’’الفاظ ومعانی‘‘کے تحت مشکل الفاظ وتراکیب کے معنی دیے ہیں، مگر بعض تراکیب کے معنی نہیں دیے گئے، بعض کے معنی غلط ہیں، مثلاً: ’’تفضیلِ علی‘‘ کی تشریح میں کہا گیا ہے: ’’حضرتِ علیؓ کے فضائل‘‘ (ص 109۔ 110) جو قطعی غلط ہے۔ بعض نظمیں مخصوص پس منظر میں لکھی گئیں، تشریح میں دوچار جملے پس منظر کے طور پر لکھ دیے جائیں تو قاری کے لیے تفہیم میں آسانی ہوجاتی ہے۔ شارح نے اِس طرح کی کسی بھی زحمت سے اجتناب کیا ہے۔ معانی اور شرح کو ظاہری اور لفظی معانی تک محدود رکھا ہے۔ یوسف مثالی صاحب دیباچے میں لکھتے ہیں: ’’اقبال کے افکار کا احاطہ مجھ ناچیزکے بس کی بات نہ تھی، پھر بھی کوشش کرنا ہم سب کا حق ہے‘‘۔ بلاشبہ انھوں نے کوشش کی اور اپنا حق استعمال کیا، یہ الگ بات ہے کہ کوشش نتیجہ خیز نہیں ہوسکی۔ ہاں، شارحین کی فہرست میں ان کا نام ضرور لکھا جائے گا۔
’’عرضِ شارح‘‘کے تحت حمیداللہ شاہ ہاشمی اپنی ’’شرح بانگ درا‘‘ میں لکھتے ہیں: ’’علامہ محمد اقبال جیسے عظیم شاعرکے کلام کی شرح پیش کرنا بہت مشکل ہے‘‘۔ اس احساس کے تحت انھوں نے اس مشکل کو آسان بنانے کی جوکوشش کی ہے، وہ خاصی حد تک کامیاب ہے۔ انھوں نے ہرنظم کا تاریخی پس منظر اور کہیں کہیں زمانۂ تالیف دیا ہے۔ افراد و اشخاص کا مختصر تعارف بھی شامل ہے، جیسے: ابوطالب کلیم یا عرفی یا فیضی یا فاطمہ بنتِ عبداللہ وغیرہ۔ غزلوں کی تشریح، شعر بہ شعر ہے مگر نظموں کی تشریح بندوارہے۔ شرح نویسی میں اختصار پیش نظر رہا ہے۔ انھوں نے ’’مخزن‘‘ میں مطبوعہ بعض نظموں اور غزلوں پر اقبال یا مدیر مخزن کے تمہیدی نوٹ اور بعض غزلوں اور نظموں کے محذوف اشعار کا بھی ذکرکیا ہے۔ شارح نے سابقہ شارحین سے بھی اکتساب کیا ہے مگر خود بھی کاوش کی ہے۔ ایک آدھ جگہ ان سے غلطی ہوگئی ہے، مثلاً نظم ’’فلسفۂ غم‘‘ میاں فضل حسین کے والد کی وفات پر بطور تعزیت لکھی گئی۔ میاں فضل حسین معروف جاگیردار اور سیاست دان تھے۔ شارح نے لکھاہے: ’’پنجاب یونی ورسٹی کے وائس چانسلر رہے‘‘۔ یہ درست نہیں ہے۔ وائس چانسلر میاں افضل حسین (1889۔ء1970ء) ایک دوسری شخصیت ہیں۔ مختصر یہ کہ یہ شرح متذکرہ بالا یوسف مثالی کی شرح سے بہت بہتر ہے۔ شارح نے اسی طرح ’’بال جبریل‘‘ اور ’’ضرب کلیم+ ارمغان حجاز‘‘کی تشریحات بھی شائع کی ہیں۔
’’شکوہ‘‘ اور ’’جوابِ شکوہ‘‘ کی دسیوں تشریحات کی گئی ہیں۔ اُن میں غلام رسول مہر، یوسف سلیم چشتی اور عابد علی عابد جیسے نام وَر اور چوٹی کے ماہرینِ اقبالیات شامل ہیں۔ پروفیسرغلام مرتضیٰ بھی اپنی ’’شرح شکوہ، جوابِ شکوہ‘‘ کی بنا پر اقبال کے قابلِ لحاظ شارحین میں شمار ہوں گے۔ انھوں [شارح] نے بعض تراکیب و اصطلاحات کی، پورے پورے صفحے میں تشریح کی ہے اور جہاں ضروری سمجھا ہے، وہاں الگ سے ’’نوٹ‘‘ دے کر مزید وضاحت بھی کی ہے مثلاً: ’’ساسانی‘‘، ’’آتش کدۂ ایران‘‘، ’’حجاز‘‘، ’’فاران‘‘، ’’لالہ‘‘، ’’غزالی‘‘، ’’تمدن‘‘ اور ’’قیصر‘‘ جیسے الفاظ کی ’’مختلف لغات اور تاریخی کتب کی مدد سے مفصل اور بھرپور وضاحت کردی ہے‘‘۔ شارح کی محنت اور مطالعہ بلاشبہ قابلِ داد ہے، مگر’’شکوہ‘‘ کے آغاز میں ’’چند تاریخی حقائق‘‘کے زیرعنوان انھوں نے بہت سے حوالوں سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ اقبال نے یہ نظم انجمن حمایت اسلام کے جلسے میں ترنم سے پڑھی تھی۔ اُن کی یہ تحقیق ناقص اورکمزور ہے۔ معروف شعرا (حالی، شیفتہ، ضمیر جعفری) کے اشعار کے ساتھ ساتھ کہیں کہیں تشریحات میں وہ اپنے اشعار بھی بطور تائید لاتے ہیں مثلاً صفحہ 63، 71، 82، 83، 100وغیرہ، یہ چیز بھی کچھ کھٹکتی ہے۔ (ناشر: مقصود پبلشرز، لاہور)
’’شکوہ‘‘، ’’جوابِ شکوہ‘‘ کی ایک شرح محمد نوید مرزا نے بھی شائع کی ہے (ناشر: دُعا پبلی کیشنز،لاہور)۔ سطور بالا میں مذکورہ شرحوں سے یہ بہتر نہیں ہے۔ نظموں کا متن دو بار نقل کیا ہے۔ متن کی مقرر نقل اور ’’مطلب‘‘ اور’’ تشریح‘‘ کے تحت مفہوم کی تکرار سے کتاب کو ضخیم بنانے کی کوشش اچھی نہیں لگی ۔ صفحات 184 ہیں اور قیمت 295 روپے بہت زیادہ معلوم ہوتی ہے۔
چند برس قبل کیپٹن(ر) ریاض انجم صاحب نے گوجرانوالہ میں اقبال فورم پاکستان قائم کیا تھا جس کا مقصد تفہیمِ اقبال اور فکرِ اقبال کا فروغ ہے۔ اس سلسلے میں انھوں نے اہلِ علم ماہرینِ اقبالیات کے خطبوں کا سلسلہ بھی شروع کیا۔ ڈاکٹر طاہر حمید تنولی (نائب ناظم اقبال اکادمی پاکستان)کا زیرنظر خطبہ بعنوان: ’’نواجوانانِ ملت کے لیے علامہ اقبال کاپیغام،خطاب بہ جاوید‘‘ اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے جو’’خطاب بہ جاوید‘‘ (مشمولہ جاوید نامہ)کی تشریح وتوضیح پر مشتمل ہے۔
پروفیسر رشید احمد انگوی اقبال کے مداح اور اقبالیات کے پُرشوق طالب علم ہیں، انھوں نے ’’لمحۂ موجود اور تعلیماتِ اقبال‘‘ میں علامہ کے 75 اشعار کی شرح لکھی ہے جس کا مقصد نوجوانوں کو اقبال کی تعلیمات سے آگاہ کرکے بتانا ہے کہ ہمارے نوجوان کے لیے اقبال کے پاس کرشماتی رہنمائی موجود ہے۔ انگوی صاحب اپنی زیرِ نظر کتاب کو ’’علامہ اقبال کے شاہینوں کے لیے اقبالی تحفہ‘‘ قرار دیتے ہیں۔ انھوں نے اساتذہ اور والدین سے اپیل کی ہے کہ وہ ’’اقبال کے شاہینوں تک اقبال کا درد پہنچانے میں اپنا کردار ادا کرکے ممنون فرمائیں۔‘‘ (ناشر: الخلیل قرآنک ریسرچ سینٹر، لاہور)
7۔رسائل
اقبال انسٹی ٹیوٹ کشمیر یونی ورسٹی، سری نگر کے مجلے ’’اقبالیات‘‘ کے 23 ویں شمارے میں اقبالیاتی تنقیدی مقالات کے علاوہ، اقبال سے قاضی محمد عدیل عباسی کی ملاقاتوں کا ذکر ملتا ہے۔ عباسی صاحب کہتے ہیں کہ میں نے رشید احمد صدیقی اور مولانا علی میاں سے کہیں زیادہ وقت اقبال کی مجلسوں، ملاقاتوں اور استفادے میں گزارا۔ یہ ذکر اِس لیے اہم ہے کہ اقبالیاتی ذخیرے میں قاضی محمد عدیل عباسی جیسے فاضل اور اہم سیاسی شخص کا تذکرہ اور کہیں نہیں ملتا۔ اسی لیے مدیر نے لکھا ہے کہ کاش قاضی صاحب، ان یادداشتوں کو محفوظ کرسکتے ہوتے تو یہ اقبالیات کا انمول ذخیرہ ہوتا۔ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ قاضی صاحب نے مجنوں گورکھ پوری کے مباحث کی گمراہی پر متعدد مضامین لکھے تھے۔
لاہور گیریژن یونی ورسٹی کے شعبۂ اردو نے نومبر 2017ء میں اقبال کانفرنس منعقد کی تھی۔ اس موقعے پر انھوں نے اپنے ادبی مجلے’’نورِ تحقیق‘‘ کا ضخیم (528 صفحات کا) آرٹ پیپر پر مطبوعہ ایک خاصا وزنی اقبال نمبر شائع کیا ہے۔ نئے پرانے مقالات کا معیار جیسا کچھ بھی ہے، بظاہر بہت خوب صورت نمبر ہے۔
8۔متفرق کتابیں
’’ڈاکٹر ہارون الرشید تبسم کا اقبالیاتی چھکا‘‘:اگر میں کہوں کہ پروفیسر ہارون الرشید تبسم ایک کثیرالجہات شخصیت ہیں تو جو لوگ انھیں جانتے ہیں، وہ اسے غلط نہیں سمجھیں گے۔ وہ معلّم ہیں، مقرر ہیں، مصنّف ہیں، مرتّب و مدوّن ہیں، شاعر ہیں اور ایک پُرجوش سماجی خدمت گزار ہیں۔ سرگودھا کی کوئی تقریب ان کے بغیر مکمل نہیں ہوتی، اور سرگودھا میں کسی ایسی تقریب کا تصور ذرا مشکل ہے جو اُن کی عدم موجودگی کے باوجود بھرپور، پُررونق اورکامیاب رہے۔
گزشتہ تین، چار برسوں میں اُن کی توجہ تحریر و تصنیف کی طرف زیادہ ہوگئی ہے (اور یہ خوش آئند بات ہے) خصوصاً اقبالیات، اُن کی تحریری تگ وتازکا سب سے بڑا موضوع بن گیا ہے۔ اس موضوع پر اس سے پہلے بھی وہ چند کتابیں تالیف اور شائع کرچکے ہیں۔ اب انھوں نے ایک دم چھے کتابیں شائع کرکے ’’اقبالیاتی چھکا‘‘ لگایا ہے۔
’’ذخیرۂ اقبال‘‘، اقبال کی تصانیف، تصانیف ِ نظم ونثر اور ایک درجن اقبالیاتی سوانحی کتابوں کے تعارف پر مشتمل ہے۔ ’’کائناتِ اقبال‘‘ ، علامہ کی سوانح حیات اور اُن کی زندگی کے مختصر واقعات وملفوظات کا تذکرہ ہے۔ ایک حصے میں اقبال کوئز، بصورت ِسوال وجواب مرتب کیا گیا ہے۔ کتاب میں قائداعظم کے نام علامہ اقبال کے خطوط بھی شامل ہیں۔ ’’بہارِاقبال‘‘ میں اقبال کے فکر و فن پر پچاس کتابوں کا تفصیلی تعارف کرا دیا گیا ہے، دیباچے میں لکھتے ہیں: ’’یہ ایک کتاب پچاس کتابوں کا ایساکیپسول ہے جو اقبالیاتی ذوق رکھنے والوں کے لیے اکسیر ثابت ہوگا‘‘۔ ’’نویرۂ اقبال‘‘ خود ہارون الرشید تبسم صاحب کے 38 تنقیدی اور توضیحی مضامین کا مجموعہ ہے۔ یہ مضامین مصنف کے بقول: ’’اقبالیاتی نوآموز محققین کے لیے رہنمائی کا باعث ہوں گے‘‘۔ ’’نویرہ‘‘کا معنی انھوں نے ’’خوش بو اورگل‘‘ بتایا ہے۔’’موضوعاتی کلام اقبال‘‘ میں مختلف موضوعات (آب، آواز، آئینہ، اذان، امتحان، باطل، بے گانہ، روح، عقل، علم، فردوس، فخر، یقین وغیرہ) کے تحت اشعارِ اقبال یکجا کردیے گئے ہیں۔ ’’بیت بازی کلام اقبال‘‘ کلام اقبال کی بیت بازی کے لیے ایک مفید اور معاون مجموعہ ہے۔
اقبال کوئزکے سلسلے میں پروفیسرمحمد اصغرکی مرتبہ کتاب ’’علامہ اقبال معلوماتـ: سوالاًجواباً‘‘ خاصی ناقص ہے۔ انھوں نے مختلف عنوانات (پیدائش، تعلیم، ملازمت، شادی، اولادیں، خوراک، معالجینِ اقبال، فلسفہ، تصانیفِ اقبال، سفرِ آخرت، متفرقات وغیرہ) کے تحت سوال وجواب مرتب کیے ہیں لیکن متعدد مقامات پر سوال جواب، اوپر کے عنوان کے پابند نہیں رہے، مثلاً: ’’اقبال اورسیاست‘‘ عنوان کے تحت علی گڑھ یونی ورسٹی میں پیش کیے گئے خطبۂ علی گڑھ کا ذکر ہے، اس کا موضوع ’’عمرانی نظر‘‘ بتایا گیا ہے جو دراصل’’ملتِ اسلامیہ‘‘ ہے۔اِسے1910ء کا خطبہ بتایاگیا ہے(صحیح 1911ء ہے)۔ اسی عنوان کے تحت اورنگ زیب عالم گیر کے مزار پر اقبال کی حاضری کا ذکر کیا ہے۔کیا یہ بھی اقبال کی سیاست کا کوئی پہلوہے؟ مصر میں بعض شخصیات سے ملاقاتوں اور کابل کی پل خشتی مسجد میں نمازِ جمعہ کی ادائیگی کا بھی اقبال کی سیاست سے کوئی تعلق ہے؟ وغیرہ۔ بعض معلومات حددرجہ ناقص ہیں۔ جو بچے اقبال کوئزکی تیاری اس قماش کی کتابوں سے کریں گے، ان کا بیڑا بیچ منجدھار کے ڈوب جائے گا۔ ایسی کتابیں، اقبال کے نام کے استحصال کا ایک ذریعہ ہیں، فقط۔ (ناشر: حارث پبلشرز،لاہور)
یہ بہت خوش آئند بات ہے کہ بچوں کے لیے آکسفورڈ کے ’’تصویری کہانی سلسلہ‘‘ میں علامہ اقبال کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ ’’علامہ اقبال‘‘ کے عنوان سے اردو کتاب آمنہ اظفر کی تحریر کردہ ہے۔ یہی اردوکتاب چند معمولی تبدیلیوں کے ساتھ انگریزی میں بھی شائع کی گئی ہے۔ ان کتابوں میں چند مقامات محلِ نظر ہیں۔ راقم نے امینہ سید صاحبہ کے نام ایک خط میں کتاب کی 9 اغلاط کی نشان دہی کی تھی مگر انھوں اسے در خورِ اعتنا نہیں سمجھا۔ خط کی رسید دی، نہ تصحیحات کیں۔ دوسرا ایڈیشن انھی غلطیوں کے ساتھ چھاپ دیا۔ آکسفورڈ جیسے نام ور اشاعتی ادارے کے بارے میں مشہور ہے کہ ان کی ہر کتاب اپنے موضوع پر معیاری ہوتی ہے، مگر یہ کتاب معیاری نہیں ہے۔
ڈاکٹر ہارون الرشید تبسم نے اپنی مرتبہ کتاب ’’ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی بطور اقبال شناس‘‘کے طویل مقدمے میں ڈاکٹر ہاشمی کا تعارف کرایا ہے۔ اس تعارف میں کوائفِ حیات اور تصانیف کی فہرست شامل ہے۔ اُس کے بعد موصوف کی اقبال شناسی پر خورشید رضوی، ایوب صابر، ممتازعارف، ذوالفقار احسن، اور خود تبسم صاحب کے مضامین دیے گئے ہیں۔ تیسرے حصے میں ڈاکٹر ہاشمی کی تصانیفِ اقبالیات پر اخبارات و رسائل میں مطبوعہ تبصرے جمع کیے گئے ہیں۔ ان میں خود مؤلف (تبسمؔ) کے تبصرے بھی شامل ہیں۔ کتاب ڈاکٹر ہاشمی کی اقبال شناسی کی مختلف جہتوں سے روشناس کراتی ہے۔ (ناشر: مقبول بکس، لاہور)
محمد مستقیم خان نے ’’اقبال نامہ‘‘ کے نام سے نئی نسل کے لیے ایک مختصر کتاب مرتب کی ہے جس میں حیاتِ اقبال کے ضروری کوائف کے ساتھ اقبال کے افکار و تصورات (خودی، مردِ مومن، عشق، قرآن، محبتِ رسول وغیرہ) کی وضاحت کی گئی ہے۔ آخر میں اقبال پر مطبوعہ کتابوں، اقبال نمبروں، اداروں اور جامعات میں لکھے جانے والے ایم اے کے تحقیقی مقالات کی ایک ناتمام فہرست بھی شامل ہے۔ طلبہ کے لیے یہ مفید کتاب یونی ورسٹی پبلشرز پشاور نے شائع کی ہے۔
آخر میں اپنی دو کتابوں کا ذکر: ادارہ فروغِ قومی زبان کی شائع کردہ کتاب ’’علامہ محمد اقبال، محسنِ زبان و ادب اردو‘‘ کا ذکر رؤف پاریکھ صاحب نے مارچ 2017ء کے ’’قومی زبان‘‘ میں کردیا تھا۔ دوسری کتاب ’’اقبال سوانح و افکار‘‘ ہے۔ یہ تین حصوں پر مشتمل ہے۔ حصہ اوّل میں حیاتِ اقبال کے ضروری کوائف اور واقعات کا ذکر ہے۔ دوسرے حصے میں ان کی تصانیف (شاعری کے مجموعوں، متروک کلام کے مجموعوں، اردو اور انگریزی نثری کتابوں، مکاتیب اور ملفوظات کے مجموعوں)کا تعارف اور تفصیل دی گئی ہے۔ ہرکتاب کے بنیادی کوائف تعارف میں شامل ہیں۔ تیسرے حصے میں اقبال کے فکر و فن کے18 اہم موضوعات (خودی، بے خودی، فقر، عشق، عقل، تصوف، تعلیم، سرمایہ داری، اشتراکیت، فاشزم، جمہوریت، نظریہ فن، اجتہاد، خواتین، مردِ کامل، قرآن حکیم، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور اقبال بطور فن کار) پرکلام کیا گیا ہے۔ خصوصاً طلبہ و طالبات کے استفادے کے لیے، ایک مختصر مگر جامع کتاب ہے۔
(ناشر: یو ایم ٹی پریس، لاہور)