اقبالیات 2017ء نئی کتابوں کا تعارف

ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی
یہ مضمون 2017ء کی تاحال دستیاب کتابوں اور رسائل کے اقبال نمبروں کے تعارف پرمشتمل ہے۔ اس میں دو، تین ایسی اہم کتابوں کا تعارف بھی شامل کیا جارہا ہے، جو 2017ء سے پہلے کی ہیں۔ ان کی اہمیت کے پیش نظر انھیں نظراندازکرنا مناسب نہیں معلوم ہوا۔ واضح کردوں کہ یہ کتابوں کا فقط تعارف ہے، جسے کتابوں کی نوعیت کے اعتبار سے 8 عنوانات کے تحت پیش کیا جا رہا ہے۔
1۔تصانیفِ اقبال
’’علامہ اقبال کی اردو نثر مع حواشی و تعلیقات‘‘ میں پروفیسر عبدالجبار شاکر مرحوم نے اقبال کی منتخب 12نثری تحریروں پر تحقیق کی تھی۔ ہرتحریر کے پس منظر کے ساتھ اختلافاتِ متن کی نشان دہی بھی کی۔ اقبال کی نثری تحریریں (مضامین اور دیباچے) بار بار شائع ہوتی رہیں۔ شاکر صاحب نے مختلف اشاعتوں کے گوشوارے مرتب کیے، مگر ان کی حین ِحیات کتاب غیر مطبوعہ رہی۔ اب ڈاکٹر خالد ندیم صاحب نے اسے حواشی و تعلیقات کے ساتھ مرتب اورمدوّن کرکے کتاب کی قدر و قیمت میں اضافہ کیا ہے۔ علامہ اقبال کی نثر پر تحقیق و تنقیدکرنے والوں کے لیے یہ ایک قیمتی ماخذ ہے۔ کتاب بڑے اہتمام سے اشاعت و طباعت کے اعلیٰ معیار پر شائع کی گئی ہے۔ متعدد عکس بھی شامل ہیں۔ (ناشر: کتاب سرائے لاہور )
2۔ تراجم
اکادمی ادبیاتِ پاکستان، اسلام آباد نے ’’علامہ اقبال کی منتخب نظمیں‘‘ کے عنوان سے آٹھ علاقائی زبانوں (بلوچی، براہوی، پشتو، پنجابی، سندھی، بلتی، ہندکو، سرائیکی) میں اقبال کی گیارہ منتخب نظموں کے تراجم شائع کیے ہیں۔ اردو نظموں کا انتخاب پروفیسر جلیل عالی اور ڈاکٹر توصیف تبسم نے کیا ہے۔ اکادمی کے صدر نشین محمد قاسم بگھیو صاحب نے دیباچے میں لکھا ہے: ’’بعض ایسی بھی پاکستانی زبانیں ہیں جن میں اقبال کی شاعری کے ابھی تک تراجم نہیں ہوئے۔ بعض زبانوں میں اقبال کے تراجم کی یہ پہلی کاوش ہے۔‘‘ یہ بیان درست نہیں ہے۔ آٹھ زبانوں میں اس سے پہلے بھی کلام اقبال کے تراجم ملتے ہیں اور کلی یا جزوی ترجمے شائع بھی ہوچکے ہیں، بلکہ بعض نظموں کے ترجمے تو ایک سے زائد بھی کیے گئے ہیں۔
محمد افسر رہبین نے ’’بالِ جبریل اور ضربِ کلیم کے فارسی تراجم‘‘ تہران سے شائع کیے ہیں مگر تراجم ناقص ہیں۔ مترجم اردو زبان وادب سے مناسب واقفیت نہیں رکھتے اور ان میں ایک اچھے ترجمہ نگار کی صلاحیت کی بھی کمی محسوس ہوتی ہے، اس لیے بات نہیں بن سکی۔
3۔کتبِ حوالہ
حوالہ جاتی کتابوں میں کامران اعظم سوہدروی کی مرتبہ ’’کلیدِ کلیاتِ اقبال (اردو)‘‘ایک مفید اضافہ ہے ۔مصنف نے متداول اردو شعری مجموعوں میں مستعمل ہر لفظ یا ترکیب کے بارے میں نشان دہی کی ہے کہ وہ کس کس مجموعے کی، کس کس غزل یا نظم میں کون سے شعر نمبر میں استعمال ہوئی۔ اس طرح یہ کتاب بیک وقت الفاظ و تراکیبِ کلامِ اقبال اردو کی لغت ہے اور اشاریہ بھی۔ ’’عنوانات و اصطلاحاتِ کلیاتِ اقبال‘‘ کے تحت، کلامِ اقبال کے مجموعوں، بعض الفاظ و تراکیب، منظومات، اماکن اور شخصیات وغیرہ کی تشریحات و توضیحات حوالے کے ساتھ نسیم امروہوی کی کتاب ’’فرہنگِ اقبال اردو‘‘ سے نقل کی گئی ہیں (ص527 تا 604)۔ اس لغت اور اشاریے میں ایک خرابی یہ ہے کہ مثلاً صفحہ 17 پر بتایا گیا ہے کہ ترکیب’’ آتش زن‘‘ جوابِ شکوہ کے 73 ویں شعر میں آئی ہے۔ اب آپ مذکورہ نظم کے پہلے شعر سے گنتی شروع کیجیے،73 ویں شعر تک پہنچیں گے تو گوہرِ مراد ِہاتھ آئے گا۔ ساری طویل نظموں کے الفاظ وتراکیب کی تلاش میں یہی مشکل پیش آئے گی۔
محمد سلیم کا مرتبہ ’’اشاریۂ اقبال‘‘کتابی دنیا دہلی سے شائع ہوا ہے۔ ابتدا میں ادبی رسائل کے اشاریے کی اہمیت و افادیت اور بطور ِ خاص اقبال کے اشاریے کی ضرورت و اہمیت اور افادیت پر کلام کیا گیا ہے۔ یہ اشاریہ دہلی سے شائع ہونے والے درج ذیل رسائل(1947ء۔2009ء) میں شائع ہونے والی اقبالیاتی تحریروں کے حوالوں پر مشتمل ہے: ماہ نامہ ’’آج کل‘‘۔ پندرہ روزہ’’ آواز‘‘۔ سہ ماہی ’’اردو ادب‘‘۔ ماہ نامہ ’’اردو دنیا‘‘۔ ماہ نامہ ’’ایوانِ اردو‘‘۔ ماہ نامہ ’’تحریک‘‘۔ سہ ماہی ’’تناظر‘‘۔ سہ ماہی ’’ذہنِ جدید‘‘۔ سہ ماہی ’’جامعہ‘‘۔ سہ ماہی ’’عصری ادب‘‘۔ سہ ماہی ’’غالب نامہ‘‘۔ سہ ماہی ’’فکر و تحقیق‘‘۔ ماہ نامہ’’ کتاب نما‘‘۔ ہر حوالہ مضمون کے عنوان، مضمون نگار کے نام، شمارہ، صفحات اور مضمون کی توضیح ( مختصر خلاصے) پر مشتمل ہے۔ آخر میں مضمون نگاروں کا اشاریہ شامل ہے۔
4۔سوانح وشخصیت
عنایت علی صاحب، ایک سینئر انجینئر کی حیثیت سے برسوں اٹامک انرجی کمیشن کے منصوبوں میں خدمات انجام دیتے رہے ہیں۔ انھوں نے اپنی پیشہ ورانہ مصروفیات کے ساتھ علامہ اقبال کے پیغام اور فکر کی نشر و اشاعت اور فروغِ اقبالیات کو بھی، مقاصدِ زندگی میں شامل کررکھا ہے۔ محمدحمزہ فاروقی صاحب کا مرتبہ ’’سفرنامۂ اقبال‘‘ علامہ کے 1931ء، 1932ء کے سفرِ انگلستان اور مصر و فلسطین کی تفصیل پر مشتمل ہے۔ عنایت صاحب نے اپنی کتاب ’’اسفارِ اقبال‘‘ میں علامہ کے دیگر اسفار کے بارے میں تفصیل مہیا کی ہے۔ انھوں نے علامہ کے احوالِ اسفار کو ترتیب زمانی میں مرتب کیا ہے۔ اقبالیاتی کتابوں اور مضامین میں اسفارِ اقبال سے متعلق جو معلومات ملیں، انھیں حوالوں کے ساتھ یکجا کردیا ہے۔ اس طرح اسفارِ اقبال کا ایک بہترین مرقع تیار ہوگیا ہے۔ بلاخوفِ تردید کہا جاسکتا ہے کہ اس سے قبل اس موضوع پر ایسی تفصیلی، دلچسپ اور جامع کتاب نہیں لکھی گئی۔’’اسفارِ اقبال‘‘ سے اِس تاثر کی بھی تردید ہوتی ہے کہ علامہ اقبال’’زمیں جنبد، نہ جنبد گل محمد‘‘ کے مصداق ہر وقت گھر میں پڑے رہتے تھے اور انھیں حرکت اور سفرسے نفور تھا۔ قارئینِ اقبالیات، عنایت علی صاحب کی اس کاوش کو معلومات افزا پائیں گے۔
(ناشر: قرطاس پبلشرز فیصل آباد)
علی بخش تقریباً چالیس سال اقبال کی خدمت پر مامور رہا۔ شب و روز علامہ کے ہاں انھی کے ساتھ رہتا تھا۔ بعض اسفار (بھوپال، بلوچستان، افغانستان) میں بھی اس نے علامہ کے ہمراہ سفر کیا۔ اس نے اپنی یادداشتیں اپنے منہ بولے بیٹے غلام محمد عرف محمد اقبال کو ٹھیٹھ پنجابی زبان میں روایت کی تھیں، جنھیں محمد اقبال نے اردو کا جامہ پہنایا۔ یادداشتوں کا یہ مسو ّدہ محمد اقبال سے جناب انور بودلہ نے حاصل کیا۔ ان سے علامہ اقبال کے ایک مداح جناب فضل فریدلالیکا نے مسودے کی نقل حاصل کرکے بغیرکسی قطع و بریدکے اُسے ’’علامہ اقبال کا خادم، علی بخش‘‘ کے عنوان سے شائع کردیا ہے۔ زیرنظر یادداشتوں میں علی بخش نے اپنی خدمت گزاری کی تفصیل کے ساتھ علامہ اقبال کی شخصیت، ان کے معمولات، ان کی طبیعت، ان کے احباب، ان کی بیماریوں، ان کی وکالت اور ان کے عشقِ رسولؐ کی کیفیات بھی بیان کی ہیں۔ آخری تین ابواب میں اقبال کی وفات کے بعد جاوید منزل کی زندگی، اقبال کی اولاد اور خود علی بخش کے احوال اور اس کے کراچی کے دوروں کا ذکرکیاگیا ہے۔ اس معلومات افزا کتاب کو علی بخش کی خودنوشت بھی کہہ سکتے ہیں۔(ناشر:نوری اکیڈمی، بہاولنگر)
5۔تحقیق وتنقید
’’مکاتیب ِاقبال کا تنقیدی جائزہ‘‘ جے پور راجستھان کے ڈاکٹر محمد عارف کی تصنیف ہے۔ ساٹھ صفحات پر محیط پہلے دو ابواب مکتوب نگاری کے فن، اردو میں مکتوب نگاری اور خطوط اقبال کے مختلف مجموعوں کے تعارف پر مشتمل ہیں۔ مگر یہ تعارف مختصر اورتشنہ ہے۔’’کلیاتِ مکاتیب اقبال ‘‘(برنی) کا تعارف نسبتاً مفصل ہے لیکن اس تفصیل میں اقتباسات کی بیساکھیوں کو فراوانی سے استعمال کیاگیاہے۔ مصنف نے ’’مظلوم اقبال‘‘ اور’’اقبال یورپ میں‘‘ کو بھی اس طرح پیش کیا ہے گویا وہ خطوط کے مجموعے ہیں حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ کتاب کے نصف آخری حصے میں انھوں نے چھے عنوانات (دینی تصورات، تہذیبی تصورات، قومی و بین الاقوامی تصورات، سیاسی تصورات، شعری تصورات، سماجی تصورات) کے تحت مکاتیب کے اقتباسات کی مدد سے علامہ کے افکار و تصورات کی تفہیم کی کوشش کی ہے جو بڑی حد تک کامیاب ہے۔ مذکورہ چھے تصورات کے تحت مزید تصورات اور افکار پر بھی بات کی گئی ہے۔ آخری حصے میں اردو نثر کے ارتقا میں مکاتیب اقبال کی اہمیت پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ یہاں بھی اقتباسات کی کثرت ہے اورموضوع یعنی’’ارتقا میں اہمیت‘‘ پر کچھ نہیں کہا گیا۔ ایک لطیفے کا ذکر: مصنف نے صفحہ 116 پر ’’مرحوم رفیع الدین ہاشمی کی مذکورہ سات نکاتی تجاویز‘‘… لکھ کر راقم کو جہانِ فانی میں پہنچا دیا ہے، اُن کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ راقم تاحال زندہ سلامت موجودہے، بہرحال چونکہ مصنف نے دیباچے میں راجستھان یونی ورسٹی سے اپنے پی ایچ ڈی کے اس مقالے کو ’’مبتدیانہ کوشش‘‘کے طور پر پیش کیا ہے، اس لیے انھیں معاف کیا جا سکتا ہے۔ ’’مراجع ومآخذ‘‘ کے تحت 89کتابوں کی فہرست میں کتابوں، مصنفین اورناشرین کے ناموں کی درجنوں غلطیاں ہیں۔ کتاب جے پور سے چھپی ہے۔
اِدھر لاہور، نشریات سے پاکیزہ صبا نے ’’مکاتیب اقبال، تجزیاتی مطالعہ‘‘ شائع کی ہے جس میں علامہ اقبال کے خطوط پر، آل احمد سرور سے خالد ندیم تک دس نقّادوں کے تنقیدی مضامین یکجا کیے ہیں۔ دو صفحاتی ’’عرضِ مرتب‘‘ میں علامہ کے مجموعہ ہائے مکاتیب کی فہرست دے دی ہے۔
محمد قمر اقبال کے تحقیقی مقالے ’’اقبال کا تصو ّر حقیقت ِمطلق‘‘ پر علامہ اقبال اوپن یونی ورسٹی نے مصنف کو 2008ء میں پی ایچ ڈی اقبالیات کی سند عطاکی تھی۔ یہ سندی مقالہ ایک مشکل، فلسفیانہ اور پیچیدہ موضوع سے بحث کرتا ہے۔ اس موضوع پر سیکڑوں برس سے فلسفیوں کے ہاں یہ بحث جاری ہے مگر بقول اکبر:
فلسفی کو بحث کے اندر خدا ملتا نہیں
ڈور کو سلجھا رہا ہے اور سرا ملتا نہیں
ضمناً مقالے میں اقبال کے بہت سے تصورات (وحدت الوجود، وجدان، زمان و مکان، جبرو قدر، توحید اور تصورِخدا)کا ذکر بھی آگیا ہے۔پانچویں باب ’’اقبال کا تصورِ حقیقت مطلق اور عصرِ حاضر‘‘ میں مصنف نے بحث کو سمیٹتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’اقبال نے اپنے تصورِ حقیقت مطلق کے ذریعے مسلمانوں کے جدید علم ِ کلام کی بنیاد رکھنے کا گراں قدر کارنامہ انجام دیا۔ اقبال کے تصورِ حقیقتِ مطلق کا پس منظر اور پیش منظر از اول تا آخر اسلامی ہے اور اس کے سوتے قرآن وحدیث، اسلامی فلسفیانہ روایت اور اسلامی تصوف سے پھوٹتے ہیں، یہی اس تحقیق کا حاصل ہے۔‘‘ (ناشر: ادارہ ثقافتِ اسلامیہ لاہور)
محمد خاور نوازش نے’’ مشاہیر ادب خارزارِ سیاست میں‘‘کے عنوان سے ایک کتاب تصنیف کی تھی جس میں الگ الگ مضامین میں حسرت موہانی، شبلی نعمانی، سرسید احمد خان، ابوالکلام آزاد، علامہ اقبال اور محمد علی جناح کی سیاسی حیثیت کا جائزہ لیا گیا تھا۔ علامہ اقبال پر تفصیلی مضمون میں انھوں نے علامہ کو ’’بطور سیاست دان ناکام‘‘ قرار دیا تھا۔ محمد رمضان گوہر نے اس کے ردّعمل میں ’’نوائے وقت‘‘ میں ایک مراسلہ شائع کروایا۔ پھر اسی موضوع پر ایک مضمون قلم بند کیا۔ بعد ازاں خاور نوازش کے مضمون سے چند سوالات اخذ کرکے ان کے جوابات لکھے۔ اقبال کی سیاسی سرگرمیوں کے بارے میں کچھ تفصیل فراہم کی، پھر ان تمام تحریروں کو جمع کرکے ’’اقبال، ایک کامیاب سیاست دان‘‘ کے نام سے ایک کتاب مرتب کردی۔ یہ کتاب گوہر صاحب کی اقبالیاتی حمیّت اور اقبال سے ان کی محبت وعقیدت کا ثبوت ہے۔ انھوں نے اپنی صلاحیت اور فہم کے مطابق اقبال کی شخصیت کے سیاسی پہلو پر قلم اٹھایا، لیکن یہ ایسا موضوع ہے جس پر مزید تحقیق و تحریر کی ضرورت اور گنجائش موجود ہے۔ (ناشر: مکتبہ گوہر لاہور)
پنجاب یونی ورسٹی کے شعبۂ فلسفہ میں 1965ء سے’’اقبال میموریل لیکچر‘‘ کے سلسلے کا آغاز ہوا تھا۔ یہ قابلِ قدر روایت، ماسوا چند وقفوں کے، تاحال قائم اور جاری ہے۔ ہرسال کسی علمی یا ادبی شخصیت کو میموریل لیکچر کے لیے دعوت دی جاتی ہے۔ شعبۂ فلسفہ نے اس سے قبل میموریل لیکچروں پر مشتمل دو تین مجموعے شائع کیے ہیں۔ نیا مجموعہ’’خطبات بہ یاد اقبال‘‘ کے عنوان سے آٹھ اردواور چارانگریزی لیکچروں پر مشتمل ہے جسے ڈاکٹر شگفتہ بیگم (صدر نشین شعبۂ فلسفہ) اور ڈاکٹر علی رضا طاہر (استاد شعبۂ فلسفہ) نے مرتب کیا اورشعبۂ فلسفہ نے اسے شائع کیا ہے۔
Need to Re-Read Iqbal and Beyondکے عنوان سے ڈاکٹر ابصار احمد کا خطبہ’’اقبال میموریل لیکچر‘‘کے سلسلے کا تازہ ترین لیکچر ہے۔ ڈاکٹرموصوف فلسفہ اوراقبالیات کے متخصص ہیں۔ شعبۂ فلسفہ پنجاب یونی ورسٹی کے صدر نشیں رہے۔ تاریخ اور علوم اسلامیہ پر بھی اچھی دسترس رکھتے ہیں۔ اُن کے لیکچر کا مرکزی نکتہ یہ ہے کہ اقبال کی وفات کی پون صدی بعد، ہمیں اقبال کے ازسرنو مطالعے کی ضرورت ہے۔ انھوں نے میک گل یونی ورسٹی کینیڈا کے پروفیسر چارلس ٹیلرکا حوالہ دیا ہے جن کے مطابق بے یقینی،خوف اور شک وشبہ اور بداعتمادی کی فضا میں اقبال کی شاعری کا مطالعہ ہمیں مسرت اورسکون سے ہم کنار کرتا ہے۔ ان کا مشورہ ہے کہ نہ صرف مسلمانوں بلکہ اہل مغرب حتیٰ کہ بھارت (جہاں ہندو شاونزم اپنی بدترین شکل میں زوروں پر ہے) کے باشندوں کو بھی اقبال کی آواز سننی چاہیے۔ ڈاکٹر ابصار احمد کا خیال ہے کہ اقبال کی آواز اُن کی شاعری ہے اور شاعری میں فکر اصل چیز ہے۔ وہ اس بات پر افسوس ظاہر کرتے ہیں کہ ہمارے کچھ دانش ور اقبال کی فکر سے صرف ِنظر کرتے ہوئے، ان کی شاعری کی غنائیت اور موسیقیت کو اہمیت دیتے ہیں، حالانکہ اقبال کی شاعری کے اثرات جہاں جہاں پہنچے، مثلاً: ایران یا وسطی ایشیا کی مسلم ریاستیں، انھوں نے غنائیت سے نہیں، بلکہ انقلابی فکر سے اثر قبول کیا، اور اسی کی وجہ سے اقبال کو خوش آمدیدکہا گیا۔ دراصل فکرِ اقبال کی بنیاد، قرآن حکیم اور اسوۂ رسولؐ ہے۔ وہ نشاۃِ ثانیہ کے ایک بڑے علَم بردارہیں۔
’’علامہ اقبال اور جواہر لعل نہرو‘‘ پروفیسر رحمت علی ظفرکا ایم فل کا مقالہ ہے۔ ہندوستان کی سیاسی تاریخ میں علامہ اقبال اور جواہر لعل نہرو بیسویں صدی کے نصف اوّل کی نمایاں شخصیات ہیں۔ متضاد نظریات رکھنے والے دونوں اکابر کے درمیان اگر کوئی نقطۂ اتصّال تھا تو فقط یہ کہ دونوں جدوجہدِ آزادی کے لیے کوشاں تھے، مگر عملی سیاست میں دونوں کا نقطۂ نظر مختلف تھا۔ زیرِنظر مقالے میں اقبال اور نہرو کے سیاسی فکرو نظر کا تجزیاتی مطالعہ کیا گیا ہے۔ مقالہ نگار نے دونوں کی سوانح حیات، ان کے سیاسی نظریات میں ارتقا اور عملی سیاست میں شرکت اور ساتھ ہی اشتراکیت، مادیت اور وطنیت و قومیت کے بارے میں دونوں کے خیالات کا مطالعہ پیش کیا ہے۔ پہلا باب بہت طویل ہے (101صفحات)۔ اقبال کی اس قدر مفصل سوانح عمری بیان کرنے کی ضرورت تھی، نہ ان کی تصانیف کا تعارف کرانے کی۔ اس غیر ضروری طوالت نے مقالے کے معیار کو متاثر کیا ہے۔
افضل رضوی کی کتاب ’’دربرگِ لالہ وگل‘‘ (جلداوّل) کا ضمنی عنوان ہے: ’’کلام اقبال میں مطالعۂ نباتات‘‘ ۔ اقبال کے ہاں تقریباً ایک سو نباتات (درختوں، پودوں، پھلوں وغیرہ) اور تقریباً60 (پرندوں، درندوں، جانوروں)کا ذکر ملتا ہے، مگر یہ ذکر فقط تذکرے تک محدود نہیں ہے۔ مصنف کہتے ہیں کہ اس تذکرے کے عقب میں کوئی مقصد اور معنویت ہے، جیسے ’شاہین‘کا ذکر فقط ایک پرندے کے طور پر نہیں بلکہ قوت، بلند پروازی، سخت کوشی اور فقر و درویشی کی علامت یا استعارے کے طور پر ہے۔ مصنف بنیادی طور پر سائنس دان ہیں۔ اقبالیات کا ایک منفرد اور اچھوتا موضوع تلاش کرکے، انھوں نے اس کی وضاحت یوں کی ہے: ’’[اقبال] نے شاعری کو احیائے ملت کے ابلاغ کا ذریعہ بنایا، قوم کو امید و ارتقا کا پیغام دیا اور جہدِ مسلسل کی ترغیب دلائی۔ نیا آہنگ، نیا لہجہ، نئے موضوعات اور نیا فلسفہ دیا… انوکھی تراکیب سے جدت اور ندرت پیدا کی… ان سب کے لیے وہ عناصر فطرت (پانی، ہوا،آگ) کو کبھی مشکّل،کبھی مجسم، کبھی مرئی، کبھی غیر مرئی، اور کبھی طبی خواص کے حوالے سے کام میں لاتے ہیں۔ وہ زمین اور زیر زمین جمادات (موتی، گوہر، الماس، زمرد، یاقوت، لعل اور دیگر قیمتی پتھر)کی چمک دمک، آب و تاب، رنگ وروپ، خوب صورتی، کمیابی اور مضبوطی کو کبھی استعاراتی صورت میں، کبھی علامتی انداز میں، کبھی تلمیحات کے طور پر، کبھی محاوراتی طرز پر اور کبھی تراکیب کے نئے انداز میں بیان کرتے ہیں‘‘ (ص2)۔ افضل رضوی صاحب کے تحقیقی کام کی زیرنظر جلد اوّل میں 18 نباتات (ارغون، انگور، افیون، انار، انجیر، ببول، باغ، لالہ، گل، بید، برگ، بوستاں، چمن، چنار، دانا، گندم، گھاس،گل رعنا) پر ان کے مختصر مضامین شامل ہیں۔ ہر عنوان کے تحت پہلے وہ اس کی نباتاتی یا تخلیقی نوعیت کا تعارف کرواتے ہیں، پھر وہ پھل یا پودا کلامِ اقبال میں جہاں جہاں آیا، متعلقہ اشعار درج کرتے ہیں اور پھر ان کی تشریح کرتے ہیں۔ اس ضمن میں انھوں نے کلام اقبال کی نثر اور بطورِ خاص ان کے خطوط سے بھی متعلقہ حوالے یا اقبال کے جملے شامل ِتحقیق کیے ہیں۔ یہ کتاب اقبالیات کے ایک نادر موضوع کے ساتھ اقبال کے منتخب کلام کی تشریح بھی ہے۔ (ناشر: بقائی یونی ورسٹی کراچی)
آئندہ اوراق میں ہم ڈاکٹرتبسم کے ’’چھکے‘‘ (چھے اقبالیاتی کتابوں) کا ذکرکریں گے۔ اُن چھے کتابوں کے علاوہ بھی انھوں نے اقبالیات پر بہت کچھ تصنیف و تالیف کیا ہے (جن کا تعارف ہم اپنے سابقہ بعض مضامین میں کراچکے ہیں)۔ اتنی ڈھیر ساری اقبالیاتی کتابیں، تصنیف وتالیف کرتے کرتے ڈاکٹر تبسم خود بھی ’’اقبال شناس‘‘ ہوگئے ہیں۔ چنانچہ ممتاز عارف نے ان کی اقبال شناسی کی مختلف جہتوں پر ’’ڈاکٹر ہارون الرشید تبسم کی اقبال شناسی‘‘ کے عنوان سے کتاب تیار کی ہے۔ (ناشر: مقبول بکس، لاہور)
’’تصوف اور اقبالیات‘‘ اقبال اکادمی پاکستان کے نائب ناظم ڈاکٹر طاہر حمید تنولی کا مجموعۂ مقالات ہے۔ بظاہر یہ کتاب 18مقالات کا مجموعہ ہے مگر یہ سب مضامین مل کر ایک ایسی اکائی بناتے ہیں جس میں فکرِ اقبال کی واضح اور صحیح تصویر نظر آتی ہے۔ اس تصویر کے نمایاں زاویوں میں اقبال کا تصورِ زماں، نظریۂ تصوف، اسلامی ریاست اور خودی شامل ہیں۔ بعض مقالات نہایت مفصل اور سیر حاصل ہیں، مثلاً ’’علامہ اقبال کے خطبات کا دیباچہ، ایک مطالعہ ‘‘78 صفحات پر پھیلا ہوا ہے۔ (ناشر :پروگریسو بکس، لاہور)
’’فکر ِسیاسی کی تشکیلِ جدید، سید احمد خان اور اقبال کے عنوان سے‘‘۔ ڈاکٹر معین الدین عقیل نے اپنی نئی مختصرکتاب میں (جس کی قیمت زیادہ ہے، 180روپے، صفحات93) سرسید احمد خان اور علامہ اقبال کی سیاسی فکر اور اس کے مختلف مراحل کی نشان دہی کی ہے، جن سے گزرتے ہوئے دونوں رہنماؤں نے مسلم ملّت اور مسلم قومیت کے تصورات واضح کیے۔ اور یوں ایک مسلم معاشرے کی تعمیر اور ایک الگ اسلامی مملکت کا قیام ممکن ہوا۔ ڈاکٹرعقیل نے حوالوں کے ساتھ (حوالے اور حواشی وتعلیقات، ص75۔89) واضح کیا ہے کہ سرسید اور اقبال دونوں نوآبادیاتی عہد کے نمائندہ مسلمان مفکر تھے۔ ان کی سیاسی فکر کے ارتقا کا جو پس منظر ہے، وہ برعظیم میں مسلمانوں کے ہمہ پہلو انحطاط کا پس منظر بھی ہے۔ سرسید نے مسلم تشخص کے تحفظ کے لیے جو تعلیمی، اصلاحی تحریک شروع کی، علامہ اقبال نے اپنے انداز میں اسے آگے بڑھایا۔ اگرچہ سرسید کے بعض معتقدات سے علامہ اقبال متفق نہیں تھے، پھر بھی وہ سرسید کی پُرخلوص کوششوں کے قدردان تھے۔ کتاب اپنے موضوع پر ایک مختصر مگر عمدہ مطالعہ ہے۔ (ناشر:مکتبہ تعمیرِ انسانیت، لاہور)
’’شاعرِ اسلام (اقبال شناسی کا نیا زاویہ)‘‘ خیال آفاقی کی کاوش ہے جسے دارالنعمان لاہور نے شائع کیا ہے۔ مصنف نے ایک مسلسل مضمون کی شکل میں اقبال کی شخصیت، ان کے افکار و نظریات اور ان کے فن کے مختلف پہلوؤں پر ضمنی عنوانات کے تحت بحث کی ہے۔ اس میں اقبال کے سوانحی حالات، ان کے دوستوں اور ملاقاتیوں کا تعارف، ان کے اسفار، اور ان کی سیاسی سرگرمیوں کی تفصیل بھی آگئی ہے۔ آفاقی صاحب نے اقتباسات کے ساتھ حوالہ دینے کا تکلف نہیں کیا۔ اقبال کے معترضین کی بھی خبر لی ہے۔ ایک جگہ لکھتے ہیں: ’’پڑوسی ملک سے نظریۂ پاکستان پر الٹے سیدھے، بلکہ جاہلانہ تبصرے سننے میں آتے ہیں، مثلاً ابھی حال ہی میں ہندوستان کے ایک ڈاکٹر نے، جو خود کو مسلمان کہتا ہے، لیکن گنگا جمنا کا نمک حلال کرنے کی غرض سے ایک کتاب لکھ ڈالی ہے: ’’اقبال اور خطبۂ الٰہ آباد‘‘ ، جس میں وہ ذہنی بدہضمی کا شکار نظر آتا ہے۔ لکھتا ہے: ’’اقبال نے خطبۂ الٰہ آباد میں پاکستان کا کوئی خواب و واب نہیں دیکھا، یہ فقط پاکستانیوں کی اختراع ہے۔‘‘
ڈاکٹر رئوف خیر دکن کے اقبال شناس ہیں۔ انھوں نے2001ء میں ’’قنطار‘‘ کے نام سے اقبال کے 163 فارسی قطعات کا منظوم اردو ترجمہ شائع کیا تھا۔ اب 15 تنقیدی مضامین ’’اقبال بہ چشم خیر‘‘ کے نام سے شائع کیے ہیں۔ خیر صاحب پختہ فکر ادیب اور نقاد ہیں۔ یوں تو سبھی مضامین لائقِ مطالعہ ہیں لیکن ’’اقبال اور مادۂ تاریخ‘‘، ’’اقبال ادبِ اسلامی کا نقیب‘‘، ’’کیٹس اور اقبال کے اسلوب کا تقابلی مطالعہ‘‘ اور ’’اقبال یورپ جانے سے پہلے‘‘ قارئین کو نسبتاً دل چسپ معلوم ہوں گے۔ (ناشر: دارالاشاعت مصطفائی، دہلی)
گوہر اقبال نے ’’یادِ گرامی‘‘ میں علامہ اقبال اور مولانا گرامی کے مختصر احوال، باہمی تعلق اور دونوں کے مشترک موضوعات (توحید، خودی، فقر، عقل وعشق، جدوجہد، تقلید کی مذمت وغیرہ) کی نشان دہی کی ہے۔ بعض صوفیہ (علی ہجویری، معین الدین چشتی، مولانا جامی، نظام الدین محبوب الٰہی، بوعلی قلندر، رومی) کو دونوں کا خراج تحسین جمع کیا ہے۔ دوسرا حصہ گرامیؔ کے احوال اور ان کی فارسی رباعیات مع اردو ترجمے پر مشتمل ہے۔ یہ کتاب مصنف کے ایم اے فارسی کے مقالے کی نظرِ ثانی شدہ صورت ہے۔ اپنے موضوع پر بہت عمدہ کاوش ہے۔
بک ہوم لاہور سے شفقت پرویز بھٹی نے ’’اقبال قلندر، اقبال کی نظر میں‘‘ شائع کی ہے۔ مصنف اقبال کے دیرینہ مداح بلکہ عاشق ہیں۔ بتاتے ہیں کہ میں اپنے مرشد بابا جی کے حکم پر 9 نومبر کو ’’ہر سال حلوے، مال پوڑا اور لڈوئوں پر علامہ صاحب کا ختم دلاتا ہوں۔ اب مجھے مرشد صاحب کا حکم ہوا ہے کہ اقبال کا تعارف کرا دو تاکہ لوگوں کو آسانی ہو۔ لہٰذا میں نے اپنے مرشد جی کے حکم کے مطابق یہ مضمون لکھا ہے‘‘۔ مصنف نے مختلف عنوانات کے تحت فکرِ اقبال کی وضاحت کی ہے۔ کہیں کہیں معترضینِ اقبال کی تردید بھی کی ہے۔ ان کے خیال میں اقبال کے تصورِ شاہین کے بارے میں احمد ندیم قاسمی کا نقطۂ نظر غلط تھا۔ مصنف کا اسلوب قلندرانہ ہے جس سے ان کی محبتِ اقبال بہت واضح ہے۔