محمد شفیق اعوان
علامہ محمد اقبالؒ (پ ۹؍نومبر ۱۸۷۷ء ۔م ۲۱؍اپریل ۱۹۳۸ء)کے زریں اصول اور روشن فرمودات (نظم و نثر) پوری انسانیت کے لیے عموماً اور ملّتِ اسلامیہ کی تعمیر و ترقی کے لیے خصوصاً مشعلِ راہ ہیں۔ علامہ اقبالؒ کا اخلاص، دیانت داری اور اسلام سے محبت قابلِ رشک تھی۔ اُن کی گفتگو سنجیدہ اور بعض دفعہ شگفتہ بھی ہوتی تھی۔ طبیعت میں حسِ مزاح کا عنصر موجود تھا جو کبھی کبھی حاضرینِ محفل کو مسرور کردیتا تھا۔
علامہ کی بات چیت دلچسپ اور معلوماتی، نشست و برخاست نستعلیق، طبیعت میں مزاح بھی تھا مگر سنجیدہ و شگفتہ۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں شعر گوئی کی وافر صلاحیت عطا فرمائی تھی۔ آپ اُردو، فارسی دونوں زبانوں میں شعر کہتے تھے۔ آپ قادر الکلام شاعر کے طور پر اہل علم و دانش میں مانے اور جانے تھے، شاعری اُن کی وجہ شہرت بنی، حالانکہ انہوں نے نثر (اُردو اور انگریزی) میں بہت بڑا کام کیا، جو مسلسل شائع ہورہا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے انہیں تحریر و انشاء (اُردو اور انگلش) کی بہت زیادہ صلاحیت عطا فرمائی تھی۔ مگر ان کی یہ صلاحیت شعر گوئی کے مقابلے میں زیادہ نمایاں نہ ہوسکی، پھر بھی جو تحریریں منظرِعام پرآئی ہیں وہ علم و حکمت کا ایک خزانہ ہے، جس سے رہتی دنیا تک استفادہ کیا جائے گا۔
علامہ اقبالؒ بات صاف، سچّی، کھری اور دوٹوک کہتے، اُن کے قول و فعل میں یکسانی اور اخلاص ہی اُوڑھنا بچھونا تھا۔ آپ نے ترقی پسند ادب (نام نہاد) کی خرافات اور لغویات کو واضح کیا، اسلامی ادب سے روشناس کرایا، زبان و ادب سے دلچسپی رکھنے والے جانتے ہیں کہ ادب کی شعری صنف کو فحاشی، عریانی اور بے حیائی سے پاک کرنے میں علامہ کا کتنا بڑا کردار ہے۔ آپ حقیقی اسلامی ادب کے سرخیل اور ترجمان تھے۔
علامہ اقبالؒ بیان کرتے ہیں: ’’انسان صحیح معنوں میں اُسی وقت مسلمان ہوسکتا ہے جب قرآن کے بتائے ہوئے اوامر و نواہی اس کی اپنی خواہش بن جائیں‘‘۔ (عرشی ملفوظات)
مولانا محمد اسحاق بیان کرتے ہیں: ’’اُمّتِ مسلمہ میں فروعی اختلافات ایک دو روز کا قصہ نہیں، حضور نبی اکرم صلّی اللہ علیہ وسلّم کے دنیا سے تشریف لے جانے کے بعد ہی اختلافات نمودار ہوگئے تھے۔ لیکن اُس دور میں اختلافات وجہِ انتشار نہیں بنے۔ اُن بزرگوں نے اتحاد برقرار رکھا۔ لیکن آج اختلافات کی فتنہ گری نے اُمّتِ مسلمہ کے اتحاد کو پارہ پارہ کردیا ہے‘‘(وحدتِ اُمّت از مولانا محمد اسحاق۔ صفحہ ۹،۱۰ (
تمام مسلمان ایک گلدستہ کی مانند ہیں۔علامہ اقبالؒ فرماتے ہیں:
بتانِ رنگ و خوں کو توڑ کر ملّت میں گم ہو جا
نہ تورانی رہے باقی، نہ ایرانی، نہ افغانی
(علامہ محمد اقبال’کلیاتِ اقبال اردو، ص ۲۷۰، شیخ غلام علی اینڈ سنز۔پبلشرز،لاہور)
جو کرے گا امتیازِ رنگ و خوں مٹ جائے گا
ترک خرگاہی ہو یا اعرابیٔ والا گہر!
(علامہ محمد اقبال’کلیاتِ اقبال اردو۔ ص۲۶۵،)
دینِ اسلام کو انفرادی سطح سے لے کر اجتماعی سطح پر قائم کرنا ملّتِ اسلامیہ کا فرض ہے۔ جب تک اقامتِ دینِ اسلام کا کام ہوتا رہا، مسلمان ایک عظیم طاقت اور حکمران کی حیثیت سے دنیا پر غالب رہے، جب ان کی ترجیحات بدل گئیں، ان کی توجہات اور دلچسپیاں جزئیات و فروع کی طرف ہوئیں تو ان میں اجتماعیت ختم ہوگئی اور مسلمان چھوٹے چھوٹے گروہوں میں تقسیم ہوگئے،جس کی وجہ سے غیروں کے غلام بن گئے۔ علامہ محمد اقبالؒ نے اس صورتِ حال کا نقشہ یوں کھینچا ہے:
منفعت ایک ہے اس قوم کی،نقصان بھی ایک
ایک ہی سب کا نبیؐ، دین بھی، ایمان بھی ایک
حرمِ پاک بھی، اللہ بھی، قرآن بھی ایک
کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک
فرقہ بندی ہے کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں!
علامہ افتراق و نزاع کے مقابلے میں اتحاد و رواداری کو اہمیت دیتے، بے جا طنز و تنقید سے اجتناب کرتے، کیونکہ یہ موجبِ فساد بنتے ہیں۔ ان کے مومنانہ تحمل کو صد آفریں کہ زبان صبر و شکر اور اللہ تعالیٰ کی حمد و تمجید کے کلموں سے تر رہتی، اکل حلال اور صدقِ مقال ان کا شیوہ تھا، اسی آمدنی پر قناعت کرتے۔ وہ اُردو زبان و ادب کی ترویج و اشاعت، ترقی اور نفاذ کے لیے کوشش کرتے رہے۔ اس حوالے سے ان کی خدمات قابلِ قدر ہیں۔
جب بھی ملّتِ اسلامیہ نے عصبیت اور تفرقہ سے بالاتر ہوکر اتحاد و یگانگت کا مظاہرہ کیا، پوری دنیا کو علم و امن کے حوالے سے بہت فائدہ پہنچا۔ برِصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں نے قومی اتحاد اور یک جہتی کا ثبوت دیا تو دنیا کے نقشے میں تبدیلی آگئی اور ایک عظیم مملکت اسلامی جمہوریہ پاکستان وجود میں آئی۔ یہ سب کچھ اللہ کے فضل و کرم سے، بے لوث اور دیانت دار قیادت کی راہنمائی اور مسلمانوں کے اتحاد و اتفاق اور جاں نثاری کی بدولت ہوا۔ علامہ اقبالؒ نے جو خواب دیکھا تھا اسے ایک دیانت دار اور پُرخلوص قیادت (قائداعظم محمد علی جناحؒ) نے حقیقت بنا دیا۔
علامہ اقبالؒ نے اس تحریک کو اپنے قول و عمل سے تقویت دی، اپنی منظوم و منشور تحریروں سے روحانی غذا دی، اور مسلمانوں کو جسدِ واحد ہوجانے کا درس دیا۔ علامہ اقبالؒ فرماتے ہیں:
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک ِکاشغر!
(علامہ محمد اقبال’کلیاتِ اقبال اردو۔ ص۲۶۵)
فرد قائم ربطِ ملّت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں اور بیرون ِدریا کچھ نہیں
(علامہ محمد اقبال’کلیاتِ اقبال اردو۔ ص۱۹۰)
ملّت کے ساتھ رابطہ استوار رکھ
پیوستہ رہ شجر سے اُمیدِ بہار رکھ!
(علامہ محمد اقبال’کلیاتِ اقبال اردو۔ ص۲۴۹)
بازو ترا توحید کی قوت سے قوی ہے
اسلام ترا دیس ہے تُو مصطفوی ہے
(علامہ محمد اقبال’کلیاتِ اقبال اردو۔ ص۱۶۰)
سروری زیبا فقط اس ذاتِ بے ہمتا کو ہے
حکمراں ہے اک وہی باقی بتانِ آزری
(علامہ محمد اقبال’کلیاتِ اقبال اردو۔ ص۲۶۱)
علامہ اقبال ؒکے اندر محبتِ رسول ﷺ کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی، حُبِ نبی ﷺ سے سرشار دل کے ساتھ، اسوہ حسنہ ﷺ کو اپنی نظم و نثر میں بیان کرتے۔ آپ ﷺ کی سیرت و کردار کو نمایاں کرنا علامہ کا وصف تھا۔ آنحضور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی محبت ان کے مزاج و طبیعت میں رچی بسی ہوئی تھی، قادیانیوں کے خلاف لسانی جدوجہد کی اور تعلیماتِ نبی آخر الزماں صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کو اپنی نظم و نثر میں کھل کر بیان کیا۔ علامہ کو جو غیر معمولی شہرت ملی اور اُن کی تحریروں کو قبولیتِ عام نصیب ہوئی، اس کا سبب دینِ اسلام کی ترجمانی اور محبتِ رسول ﷺہے، یہی عملِ خیر اُن کی بخشش و مغفرت کا باعث بنے گا۔ اللہ ان کی یہ سعی و کوشش قبول فرمائے، آمین
علامہ نے اسوۂِ رسول صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کو نظم و نثر میں اس طرح بیان کیا کہ حق ادا کردیا۔ سرمایہ تحریرات فارسی، اُردو اور انگلش میں، ملّتِ اسلامیہ کی راہنمائی کے لیے چھوڑا ہے۔
کی محمد سے وفا تُو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
(علامہ محمد اقبال’کلیاتِ اقبال اردو۔ ص ۲۰۸)
تمام مسلمان ایک زنجیر کی مانند ہیں، یہ ایک تسبیح کے دانوں کی طرح ایک دھاگے میں پروئے ہوئے ہیں، یہ ایک عالم گیر برادری ہے جس کے تمام مسائل و معاملات ایک دوسرے کے تعاون سے حل ہوتے ہیں۔ ان کے اندر تنظیم اور نظم و ضبط، اتحاد و اتفاق اور یک جہتی ایمان کا تقاضا اور وقت کی پکار ہے۔ یہ اسی کی برکت ہے جو اخوت و بھائی چارہ ان میں پایا جاتا ہے۔ یہ مظاہرہ کسی اور اجتماعیت میں نہیں ہے اور ہو بھی نہیں سکتا، کیونکہ جہاں لالچ اور خودغرضی ہو اور اخلاص و دیانت داری نہ ہو، وہاں ایسی اجتماعیت کیسے ہوسکتی ہے! علامہؒ فرماتے ہیں:
پرونا ایک ہی تسبیح میں ان بکھرے دانوں کو
جو مشکل ہے، تواس مشکل کو آساں کر کے چھوڑوں گا
(علامہ محمد اقبال’کلیاتِ اقبال اردو۔ ص۷۲)
ہیں جذبِ باہمی سے قائم نظام سارے
پوشیدہ ہے یہ نکتہ تاروں کی زندگی میں
(علامہ محمد اقبال’کلیاتِ اقبال اردو۔ ص۱۷۴)
ربط و ضبطِ ملّتِ بیضا ہے مشرق کی نجات
ایشیا والے ہیں اس نکتے سے اب تک بے خبر
(علامہ محمد اقبال’کلیاتِ اقبال اردو۔ ص۲۶۵)
درج بالا احادیث سے جو اصول و قوانین ملتے ہیں ان کی بدولت ہی یہ اجتماعیت قائم رہ سکتی ہے۔علامہ اقبالؒ نے اپنے کلام میں یہ درس دیا ہے:
ہوس نے کر دیا ہے ٹکڑے ٹکڑے نوعِ انساں کو
اخوت کا بیاں ہو جا، محبت کی زباں ہو جا
یہ ہندی، وہ خراسانی، یہ افغانی، وہ تورانی
تو اے شرمندۂ ساحل اچھل کر بیکراں ہو جا
غبار آلودہ رنگ و نسب ہیں بال و پر تیرے
تو اے مرغِ حرم اڑنے سے پہلے پُر فشاں ہو جا
(علامہ محمد اقبال’کلیاتِ اقبال اردو۔ ص۲۷۳)
دنیا میں مسلمان سوا ارب سے زیادہ ہیں۔ ان کے پاس ستاون ممالک ہیں۔ ایٹمی طاقت اور دنیا کی بہترین فوج موجود ہے، سمندر ہے،تیل،یورینیم، سونا، اور معدنیات ہیں، دریا اور زرخیز زمین موجود ہے۔ لیکن پھر بھی دنیا میں ذلیل و خوار ہورہے ہیں۔ ہندو بھارت اور مقبوضہ جموں و کشمیرمیں، بدھسٹ سری لنکا اور برما میں، یہودی مقبوضہ فلسطین میںاور عیسائی افغانستان، لیبیا، شام، عراق میں، اسی طرح عالمِ کفر جگہ جگہ مسلمانوں کو تباہ و برباد کر رہے ہیں۔ یہ تباہی شامتِ اعمال کا سبب ہے کہ ہم نے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے احکامات کو پسِ پشت ڈال دیا ہے اور ہم تفرقہ میں پڑ گئے ہیں۔ لہٰذا اب پھر سے مسلمانوں کواللہ سے تجدیدِ عہد کر کے، اتفاق و اتحاد کا عملی ثبوت دے کر،بنیانِ مرصوص اور سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند ہوجانا چاہیے۔پورے عالمِ اسلام کو ایک زنجیراور تسبیح کی مانند ہو کر،اسلام کے عالمگیر پیغام کو لے کر، اللہ کی عظمت کا جھنڈا بلند کر کے، محمدرسول اللہ ﷺکے اسوہ حسنہ پر چل کر، پھر سے اپنی سنہری تاریخ کو دہرانے کے لیے کمر بستہ ہو جانا چاہیے۔
عشقِ رسول ﷺ علامہ اقبالؒ کی سوانح کا روشن باب ہے، یہی عشقِ نبی ﷺ آخرت میں ان شاء اللہ العزیز ذریعۂ نجات اور وسیلۂ مغفرت ثابت ہو گا۔
علامہ محمد اقبالؒ کی قبر پر اللہ تعالیٰ کی رحمت کے پھولوں کی بارش ہو، اللہ اُن کے درجات بلند فرمائے اور قبر اور آخرت کے عذاب سے بچائے، اُن کی بخشش فرماکر جنت میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے، آمین